دشمن کے وسائل سے استفادہ کرنا
[کلپ ویڈیو]:
عنوان:
دشمن کے وسائل سے استفادہ کرنا
خطاب:
مولانا محمد نواز...
[کلپ ویڈیو]:
عنوان:
دشمن کے وسائل سے استفادہ کرنا
خطاب:
مولانا محمد نواز
دورانیہ:
05:04
5m:4s
1038
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
31722
[ARABIC] 7 FEB 2012 كلمة السيد حسن نصر الله Sayyed...
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة...
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف واسبوع الوحدة الاسلامية في مجمع سيد الشهداء في الضاحية الجنوبية بالترحيب والمباركة للجميع ومن ثم تحدث عن معجزة النبي محمد(ص) وكيف صنع أمة، ومن بعدها تحدث سماحته عن موضوع الوحدة الإسلامية وما تواجهه، واشار إلى موضوع التحريض في ما يسمى المدّ الشيعي ومن ثم إنتقل للحديث عن موضوع الدعم الإيراني لحزب الله ، معتبرا أنه يتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل اشكاله وبدون أملاءات ،كما تطرق سماحته إلى موضوع إتهام الحزب بغسيل الأموال وقال إننا لا نغسل أموالا ولا نغطي ولا نسامح في هذا الموضوع.
وفي الموضوع السوري إعتبر السيد نصر الله أن هناك الكثير من التهويل، مشيرا إلى ان النظام القائم في سورية لديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي لافتا إلى وجود قرار غربي عربي لإسقاط النظام والمطلوب هو رأس المقاومة، ورأى سماحته ان طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر، ومن بعدها تطرق سماحته الى موضوع الحكومة اللبنانية معتبرا انه ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان .
بداية تحدث السيد نصر الله عن "معجزة النبي الكبرى والتي استطاع بها أن يصنع هذه الأمة وأن يوجد هذا التحول وهذه المعجزة التي يمكن اللجوء إليها واللوذ بها والاستعانة بها لايقاظ أمة من جديد لاستنهاض الأمة وقيام الأمة من جديد لاحداث ذلك التحول الفكري والايماني والعقائدي والاجتماعي والروحي والمعنوي والتربوي والثقافي من جديد هو كتاب الله سبحانه وتعالى وهو القرآن الكريم هذا القرآن المعجزة الخالدة ببلاغته ومضمونه وهو الذي نزل على قلب نبي أمي في مجتمع أمي ومعجزة هذا القرآن أيضاً لجهة استمراره في التحدي طوال كل هذه القرون".
واضاف سماحته أن" الرسول استطاع أن يصنع أمة عظيمة وحضارة كبرى ولكن من أي شيء وهو الذي انطلق وقام وبعث في جزيرة العرب شبه الجزيرة العربية من شعب كان يسوده الجهل والأمية والجاهلية والخرافات وعبادة الأوثان والأصنام والتمزق والعصبيات القبلية والعشائرية والعائلية والاقتتال وغياب أي جامع مركزي من دين أو قضية أو قيادة أو مشروع أو ثقافة".
وتابع سماحته أنه" ومن الواقع السيء المنحط فكريا ودينيا وأخلاقيا وإنسانيا إلى الحد الذي كان يئد فيه الأب ابنته فقط لأنها أنثى استطاع النبي أن يصنع أمة وهذه هي المعجزة أمة مؤمنة أمة أخلاق أمة قيم أمة حضارة أمة استطاعت أيضاً أن تدخل التاريخ من بابه الواسع وخلال عقود قليلة أمة كان لها ولا زال تاريخها وحضورها وتأثيرها في العالم".
وأشار السيد نصر الله إلى أننا"بعد 1400 سنة يصل إلى أجيالنا الحاضرة القرآن مصونا مصانا محفوظا من أي زيادة أو نقصان أو تحريف أو تزوير أليست هذه معجزة الهية واضحة للعيان".
واعتبر سماحته أن"أساس هذا القرآن وهذا الدين الذي جاء به محمد يا اخواني وأخواتي هو الدعوة إلى التوحيد وإلى الوحدة إلى توحيد الخالق وإلى الوحدة بين بين الناس بين عباد الخالق الواحد الذين يجمعهم أنهم خلق الله سبحانه وتعالى فالناس صنفان إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق هذا هو خطاب ديننا والتزامنا".
ومن ثم بدأ سماحته بالعنوان الأول وهو الوحدة الاسلامية واعتبر أنه يجب التنبه والتثبت من المعلومات والحقائق في زمن كثرت فيه المحن ".
وأضاف سماحته " لا يجوز أن نبني على كل ما يقال في وسائل الاعلام ونحن نشهد خصوصاً في السنوات الأخيرة مرحلة عجيبة غريبة قد لا يكون لها مثيل أو نظير في التاريخ يعني ينسبون لجهات مواقف أصلا لم تصدر عنها ثم يبنى عليها مواقف وتحليلات وعداوات وحروب يخترع ويختلق أحداث ووقائع ويطلب اتخاذ مواقف على أساس أحداث لم تحدث ووقائع لم تقع إنما فبركت وزورت ووضعت وهذا يجري الآن في كل ساعة وفي كل دقيقة وإذا كان الانسان يريد أن ينفي فقط لا يعمل شيئا سوى إصدار بيانات النفي".
ولفت سماحته إلى أنه يجب على الانسان أن يعرف كيف يبني موقفا ويجب أن يتأكد من المعلومات والوقائع دون الوقوع في جو الأكاذيب والشائعات التي يستخدم لها اليوم أقوى وأهم مؤسسات رأي عام في العالم ".
واعتبر السيد نصر الله أنه عندما نتحدث عن موضوع الوحدة الاسلامية طبعا هذا مشروع عمل له الكثيرون خلال مئات السنين وحتى قبل انتصار الثورة الاسلامية في إيران وقبل الامام الخميني(قدس) لكن مما لا شك فيه أن انتصار هذه الثورة بقيادة الامام سنة 1979 وقيام دولة بأهمية وسعة وقوة الجمهورية الاسلامية وتبني قيادة هذه الجمهورية لهذا الهدف لهذا المشروع لهذا الشعار وعملت له طوال سنين على المستوى المؤسساتي والاعلامي والفكري أعطى دفعا خاصا لفكرة ومشروع الوحدة الاسلامية".
وأوضح سماحته أنه" لم يكن يوما المقصود ان يتم تذويب المذاهب الاسلامية في مذهب واحد أو أن يصبح المسلمون جميعا أتباع مذهب واحد على الاطلاق".
التحريض في موضوع ما يسمى المد الشيعي
وفي موضوع ما يسمى حركة التشيع والمد الشيعي في المنطقة قال سماحته إنه"لم يكن مطروحا أبدا أن يصبح الشيعة سنة أو يصبح السنة شيعة وهذا مجرد اوهام للتحريض". وأضاف أنه"على المسلمين أن يقتربوا من بعض أن يتعارفوا أن يتحادثوا أن يبحثوا عن مصالحهم الكبرى كأمة وأن يتحابوا ويتعاونوا لخدمة هذه الأهداف والمصالح الكبرى وليس مطلوبا أكثر من ذلك لا أن يتنازل أحد لأحد على مستوى التفاصيل العقائدية ولا على مستوى الفروع الفقهية".
وأضاف سماحته"بطبيعة الحال المستكبرون والمستعمرون والمحتلون ليس لهم مصلحة في أن تجتمع كلمة هذه الأمة وتتعاون على قاعدة فرق تسد ولذلك لن يسمحوا بذلك لأن سيطرة هذه القوى الكبرى على النفط والغاز والمقدسات".
وأشار السيد إلى انه"المسألة بالنسبة لأميركا ليست مذهب الحاكم ولا دينه إنما موقعه السياسي وأداؤه السياسي وولاؤه السياسي ".
وأضاف سماحته" ذنب إيران أنها أسقطت الشاه وأعادت التوازن للأمة بعد خروج مصر في كامب دايفيد واستمرت الحرب على إيران 8 سنوات وكانت مدعومة أميركياً وغربياً وللاسف الشديد أغلب الدول العربية دعمتها وبعض الدول العربية الغنية أنفقت مليارات الدولارات على هذه الحرب هذه المليارات الممنوعة والمحجوبة عن فلسطين وهذه الأموال المحجوبة عن فصائل المقاومة الفلسطينية التي تريد بحق أن تستعيد أرضها ومقدسات الأمة ولكنها أنفقت لتمويل الحرب على دولة إسلامية فتية رفعت شعار فلسطين والزحف نحو القدس وكان لهذه الحرب الأثر الكبير على مشروع الوحدة في الأمة وكان هناك تداعيات خطيرة".
وتابع سماحته"بعد فشل الحرب وذهاب أماني إسقاط نظام الجمهورية الاسلامية في إيران أدراج الرياح بدأ البحث عن طريقة أخرى للحؤول دون تلاقي المسلمين في هذه الأمة وكل شعوب أمتنا تريد الكرامة والعزة والاستقلال،و بعد الحرب ذهبوا لموضوع الفتنة المذهبية واختراع ما أسموه المد الايراني والمد الشيعي وهذا الآن هو مادة الحرب الناعمة التي تستخدمها اميركا والغرب في مواجهة الأمة".
وأضاف"التهمة هي أن إيران تقوم بانشاء مد شيعي في العالم الاسلامي وأنها تريد أن تشيّع السنّة في العالم الاسلامي أي أن إيران تريد تشييع مليار ونصف مسلم بالحد الأدنى ولذلك يتم الحديث عن خطر داهم اسمه المد الشيعي وهذا عمل الشياطين لا يستند إلى أي وقائع أو حقائق".
وأوضح سماحته أنه في الموضوع الديني لا أساس للمد الشيعي من الصحة ولكن نعم هناك من يروج له وأنا سأقول بعض التفاصيل مثلا في مصر التقيت مع شخصيات كبيرة وقد صدقت ان هناك حركة مد كبيرة وان ايران تقودها وان التشيع وصل لحد 5 مليون".
وتابع سماحته"أنا شخص منفتح وأعرف كبار العلماء والشخصيات من السنة في سورية وألتقي بهم وهذا شرف لي ولكن بعضهم فعلا أجرى معي نقاشا تفصيليا وقال إن هناك حركة تشييع كبرى في سورية وان نظام الرئيس الاسد متهم بدعم هذه الحركة وحتى الآن تشيع في سورية 6 مليون وبالفعل مستشار أحد الملوك العرب فاتحني بهذا الموضوع وقال لي إن تقارير قدمت لبعض الملوك حول ذلك الأمر".
واضاف" ذهبت إلى الشام في ذلك الحين والتقيت مع المسؤولين وحتى مع جهات أمنية وطلبت القيام بدراسة للعثور على هؤلاء الملايين الستة ولكن لا شيء حصل ولم نر ولا حتى 1000 ولا 500 هناك حالات فردية تحصل أينما كان حيث هناك شباب سنّة تشيعوا والعكس صحيح أيضاً لكن لا شيء اسمه مد شيعي ومد سني على الإطلاق".
وأردف سماحته بالقول"هناك قيادات دينية كبيرة مقتنعة بهذا الكلام إلى حد أن إحدى المرجعيات الدينية الكبرى في العالم الاسلامية قدم لها تقرير وصدقت مضمونه وأنه لقد تشيع خلال 33 سنة من انتصار الثورة الى اليوم تشيع 50 مليون سني وهذا شيء مضحك بالفعل".
وتابع سماحته"أقول لكم اليوم في ذكرى ولادة رسول الله محمد (ص) نحن مسلمون شيعة لعلي بن أبي طالب (ع) أتباع مذهب الامام جعفر بن محمد الصادق عليهما السلام نحن نؤمن بأنّ أتباع المذاهب الاسلامية الأخرى كلها هم مسلمون لنا ما لهم وعلينا ما عليهم وكل مسلم يملك الحرية الكاملة في أن يتبع المذهب الذي يريد ونحن كما قال الامام الخامنئي(قدس) ليس لدى أحد منا مشروع الدعوة إلى التشيع وتحويل أي سني إلى شيعي و بكل وضوح هذا ليس برنامجنا ولا هدفنا ".
وتمنى سماحته أن"نصل بهذه النقطة إلى مكان حاسم وأن لا يسمح أي منا خصوصاً في وسط إخواننا أهل السنة لأحد أن يزرع كذبا أو فتنة من هذا النوع وكنت أقول للجهات الفلسطينية ولاخواننا في معسكرات التدريب أن التدريب هو عسكري أما الثقافة فتعود لهم وللجهة التي ينتمون إليها ونرفض فتح أي باب لأي شبهة من هذا النوع".
واعتبر سماحته أنه"نحن كحركة إسلامية في لبنان عندما نتحدث عن تعاون وطني بين المسلمين والمسيحيين وعن ضرورة بناء دولة وطنية في لبنان يشارك فيها الجميع يتمثل فيها الجميع تخدم مصالح الجميع تحمي الجميع نحن لا نتكلم سياسة بل ننطلق من أصولنا الدينية العقائدية الفقهية وهذا ليس تكتيكا سياسياً".
وأضاف سماحته"كل علمائنا من السيد موسى الصدر والسيد محمد حسين فضل الله والسيد محمد مهدي شمس الدين ومراجعنا اليوم يتفقون على ذلك ونحن في حزب الله لا يمكن ان نشارك في الانتخابات النيابية او الحكومة اذا لم يكن هناك مسوغ ديني أو شرعي وهذا موقف فقهي نحن معنيون به وبالتالي انتماؤنا الديني لا يمكن أن يشكل حائلا دون أن نبني دولة سويا وان يكون مجتمعنا متعاونا".
التحريض على مواقف سابقة
وأشار سماحته إلى انه "بعض الناس من أجل التحريض ينطلقون من مواقف أخذت في الـ82 والـ83 أننا نريد إقامة جمهورية إسلامية وهذا صحيح لقد خطبنا بذلك في بداية الثمانينات لكن أريد أن أذكر القيادات المسيحية اليوم التي تتحدث بالتعايش والسلم الأهلي كيف كانوا يتحدثون يومها بالوطن المسيحي والتقسيم والفدرالية!؟".
وأضاف "حزب الله منذ أكثر من 20 سنة خطابه السياسي واضحاً وهذه قناعاتنا التي نشخصها ونرى أنها مصلحة شعبنا في لبنان من كل الطوائف".
نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله من إيران
وتابع سماحته "على خلفية كلام السيد القائد يوم الجمعة والذي قال فيه بصراحة إن الجمهورية الاسلامية تقدم الدعم لحركات المقاومة في لبنان وفلسطين ولا تريد شيئا مقابل هذا الدعم وإنما تؤدي واجبا شرعيا بهذا الوضوح أستطيع أن أقول من أعلى سلطة في الجمهورية الاسلامية لاول مرة يصدر بهذا الوضوح الشديد وأنا سأبني عليه لمعالجة العديد من المسائل المطروحة ".
وقال سماحته"نعم نحن في حزب الله نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله الممكنة والمتاحة من الجمهورية الاسلامية في إيران منذ عام 1982" .
وأردف قائلا "هذا الدعم الذي قدم منذ البداية هو مفخرة الجمهورية الاسلامية في إيران لأن هذه المقاومة في لبنان التي حققت أكبر وأهم وأوضح انتصار عربي على إسرائيل في 25 أيار 2000 ما كان هذا الانتصار ليتحقق لولا هذا الدعم المعنوي والمادي والمادي الايراني لحركة المقاومة في لبنان هذا الانتصار الذي تحقق بلا قيد ولا شرط تحقق بدعم إيراني وطبعا كان لسورية دور كبير لكن أتحدث الآن عن إيران".
وتابع سماحته"إن حركة المقاومة التي صمدت وانتصرت في حرب تموز ما كانت لتصمد وتنتصر أيضاً لولا هذا الدعم الايراني وحركة المقاومة في فلسطين هي المعنية تتحدث عن نفسها وسواء تحدثت ام لم تتحدث فهذا شأنها".
ووجه السيد نصر الله الشكر للمسؤولين في إيران الذين يدفعون أثمانا باهظة لوقوفهم إلى جانب فلسطين ولبنان واذا باعت ايران فلسطين اليوم كل شيء يحل فمشكلة أميركا ليست الديمقراطية بل النفط وإسرائيل".
نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح
وأشار سماحته إلى أنه"من آثار هذا الكلام أن أوضح أيضا في الموضوع المالي والمادي ففي كل مدة يطلون عبر وسائل الاعلام ليتحدثوا عن شبكات المخدرات في أميركا وأوروبا وأفريقيا وأن حزب الله يدير هذه الشبكات وهي التي تمول أنشطته وكنا دائما ننفي هذا الموضوع وأنا أضيف أن تجارة المخدرات بالنسبة إلينا حرام وأيضاً أغنانا الله بدولته الاسلامية في إيران عن أي فلس في العالم حلال أو حرام".
وأضاف سماحته "نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح ولا نقبل بهذا الأمر وبعض ما هو حلال ومباح من الناحية الفقهية لا نقوم به كالتجارة فنحن في حزب الله ليس لدينا أي مشروع تجاري اليوم لا في الداخل ولا في الخارج وقد ألغينا وصفّينا مشاريعنا التجارية التي نفذناها في الفترة السابقة".
وأوضح سماحته أنه" نحن في قيادة حزب الله نؤمن أن أي حركة جهادية أو حزب سياسي تقوم بالتجارة إذا اضطرت ولكن من نتائج ذلك الفساد والافساد ولذلك لدينا مشكلة مع هذا الموضوع وحتى موضوع التبرعات أنا أقول أنني لا أقبل أن يدق أحد أبواب العالم لدينا من المال والسلاح والعتاد ما يكفي للقيام بواجبنا لكن تركنا هيئة دعم المقاومة الاسلامية لاجل من يريد أن يشارك خصوصا أن هناك ما يسمى الجهاد بالمال".
لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم
وأضاف سماحته "نحن قادرون على القيام بمشروعنا المقاوم دفاعا عن لبنان ولسنا بحاجة لأي مشروع حلال أو حرام ".
وتابع" منذ الـ82 الى اليوم لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم كما يزعم البعض وقد ذكرت سابقا هذا الموضوع على طاولة الحوار حين كانت برئاسة دولة الرئيس الاستاذ نبيه بري وطلبت ان ياتوا لي بمثل واحد لعمل قام به حزب الله لخدمة مصالح الجمهورية الاسلامية ولم يستطع أحد أن يأتي بمثل واحد وبعد نصف ساعة تذكر واحد موضوع الرهائن وهو موضوع كان له علاقة بمعتقلين لبنانيين لا علاقة له بايران ومصالح ايران".
واعتبر السيد أنه"حتى في ما يتعلق بالتطورات الآتية في المنطقة وهناك تحليل ان اسرائيل اذا قامت بقصف المنشآت النووية الايرانية ماذا يمكن ان يحصل وأنا أقول لكم في ذلك اليوم الذي أستبعده أقول لكم القيادة الايرانية لن تطلب شيئا من حزب الله ولم ترغب بشيء لكن اقول في ذلك اليوم نحن الذين علينا أن نجلس ونفكر ونقرر ماذا نفعل".
واكد سماحته أنه"على كل أبناء المقاومة مجاهدي المقاومة جمهورية المقاومة ان يواجهوا هذه الجمهورية وهذا النظام بالشكر والتقدير والاحترام على هذا الموقف وهذا الدعم".
هناك الكثير من التهويل في الموضوع السوري
وبلغة الدقة والوضوح انتقل السيد نصر لله الى الموضوع السوري حيث قال إن" هناك الكثير من التهويل على هذا الصعيد علينا وعلى غيرنا وأنا أقول لا كثرة التهويل ولا قلة التهويل يمكن أن تنال من موقفنا المبني على رؤية ومن يريد أن يعمل على قلبنا وأعصابنا فهو يراهن على سراب في أي موضوع من الموضوعات وقلبنا في ما نراه حق لا يمكن أن يهزه شيء حتى لو وقف العالم كله في وجهنا ".
ورجع السيد للملاحظة التي قالها في البداية عن التدقيق بالمعطيات وقال" قبل مدة خرجت بعض الفضائيات العربية بخبر عاجل عن جهة معارضة سورية أن حزب الله قصف الزبداني بالكاتيوشا باعتبار أن هناك شخص يأكل (ساندويش) وهو مخبأ وتمر القصة وفي ذلك الوقت لم يكن هناك شيء نهائيا وفي اليوم التالي حزب الله يهاجم الزبداني وتتصدى له الجماعات المسلحة وأن جثث قتلى حزب الله تملأ الطرقات ولم يدلنا أحد على هذه الجثث وهذا مثل عن مقاربة الاعلام للموضوع السوري".
وأضاف " يوم اجتماع مجلس الأمن بدأوا بالحديث عن أن حمص (ولعانة) وهذا يجعل أي شخص ينقز ونحن لدينا موقف سياسي واضح لكن أمام هذا المشهد لا يمكن لأحد إلا أن يتأثر وبعد التدقيق تبين أن لا شيء في حمص وتوقيت الخبر وهذا الضخ قبيل جلسة مجلس الأمن ليس مبنيا على وقائع بل تسخير للاعلام في إطار معركة تريد تحقيق هدفها بالحلال والحرام وبأي شكل من الأشكال ".
النظام قائم في سورية ولديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي
واعتبر سماحته أن "هناك نظام ما زال قائما لديه دستور والجيش مع هذا النظام وحتى الآن بحسب معلوماتنا لا يزال واقفا مع هذا النظام وهناك شريحة كبيرة من الناس تعبر عن تأييدها للنظام وتتظاهر في الشوارع وبالتالي فافتراض أن هذا النظام معزول شعبيا غير صحيح".
وتطرق سماحته إلى ما كتبته بعض الصحف اللبنانية أن هؤلاء الذين احتشدوا في ساحة الأمويون عشرات الآلاف أتى بهم حزب فاعل في الأكثرية أي حزب الله لكن نسأل هناك عشرات الآلاف ذهبوا عن طريق المصنع ولم يشعر بهم أحد إلا جريدة لبنانية معيّنة ؟!
وتابع "هناك جزء من الشعب السوري ما يزال مع النظام وهناك في المقابل معارضة بعضها سياسي وبعضها شعبي وبعضها مسلح وإن باتت تطغى الصبغة المسلحة وهناك مواجهات مسلحة في عدد من المناطق السورية وهذا أمر مسلح وهناك أيضا جزء كبير من سورية ينعم باستقرار".
هناك قرار غربي عربي على إسقاط النظام في سورية
وأضاف سماحته"خارج سورية هناك قرار أميركي إسرائيلي غربي عربي على مستوى دول الاعتدال العربي باسقاط النظام في سورية وهذا لا نقاش فيه وقد رأيناه بأم العين وقبل أسابيع قام موظف اسرائيلي بتحليل شخصي يظهر منه أنه يدافع عن نظام الأسد فلم يبقى أحد في 14 آذار إلا وتحدث عن الموضوع ولكن اليوم هناك شبه اجماع اسرائيلي على وجوب اسقاط نظام الاسد اين 14 آذار لماذا بلعوا لساناتهم هل لأن المشهد تغير؟".
وتابع سماحته "المطلوب اسقاط النظام للاتيان بنظام بديل وبعض الاصدقاء المشتركين قالوا لنا ان لا نقلق وان النظام الجديد سيدعم المقاومة وهذا قيل ويقال في الكواليس لكننا لا نورّط نفسنا بهذا الموقف بل نحن منسجمون مع أنفسنا".
المطلوب في سورية هو رأس المقاومة
واعتبر سماحته أن" المطلوب في سورية هو رأس المقاومة في لبنان وفلسطين ورأس القضية الفلسطينية ورأس الشعب الفلسطيني وهذه هي الحقيقة".
وأشار السيد نصر الله إلى ان" القيادة السورية موافقة على معظم الاصلاحات التي طلبت والقيادة جاهزة للحوار والآن يقولون فات الأوان، كيف فات الأوان وهناك حرب في سورية وهناك من يدفع سورية لحرب أهلية؟ الآن الجماعات المسلحة تقتل من أبناء الطوائف وقتلت من السنّة السوريين أكثر مما قتلت من الطوائف الأخرى وغير صحيح أن الحرب في سورية طائفية وإن كانوا يدفعون نحو حرب أهلية، من يحرص على سورية لا يقول فات الأوان بل يذهب إلى الحوار دون شروط لا بشرط تنحي الرئيس".
طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر
وسأل السيد نصر الله "هل إقفال الباب حرص على الشعب السوري وعلى قيادة سوريا وهل يخدم القضية الفلسطينية؟ هذا السلوك من يخدم؟ أنا أقول ما أقول الآن لله عز وجل وهذه وقائع ومعطيات بمعزل عن التفاصيل التي لا يجب أن نغرق فيها لكي لا نذهب للمزيد من القتل وسفك الدماء، طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سوريا والرهان على أميركا هو رهان خاسر بطبيعة الحال وهذا هو موقفنا ونرى فيه مصلحة سورية وشعب سورية ومصلحة لبنان وشعب لبنان وفلسطين وشعب فلسطين بمعزل عن الاحقاد الشخصية أو الفئوية التي ينطلق منها بعض الناس".
الحركات الإسلامية امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة
وفي موضوع الحركات الإسلامية التي فازت في الانتخابات في المنطقة العربية إعتبر سماحته أنها امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة وهي مستهدَفة لان الاميركيين يسعون لجعلها تفشل وهذا يحتاج لكلام كثير لكن بعض القيادات الاسلامية اليوم وأنا أعرفهم جيدا وهم أصدقائي الآن ونظرا للظروف السياسية في بلدانهم لا يأخذون مواقف واضحة في القضية القومية وفي الموضوع الاسرائيلي بل أحيانا قد تصدر عنهم مواقف ملتبسة وعندما نراجع ونناقش يقال لنا انه يجب تفهم تلك الظروف".
حريصون على إستمرار الحكومة
وفي موضوع الحكومة اللبنانية قال سماحته "نحن حريصون على استمرار الحكومة وليس مطلوبا وساطة فمعالجة الازمة مسؤولية الجميع واقول لمن بدأوا يجهزوا "جاكيتاتهم وكرافاتاتهم" للحكومة الجديدة لا حكومة جديدة وهذه الحكومة ستستمر علما أنها ليست حكومة حزب الله".
وأضاف " هذه الحكومة بمعزل عن توصيفها حتى الآن هي أساس استقرار في البلد ويجب أن نجهد لتنجز شيئا والوقت الآن ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان وعلينا بتعاوننا واخلاصنا وانفتاحنا ان نتجاوز هذه المرحلة الصعبة ان شاء الله".
المصدر: قناة المنار
07-02-2012 - 12:47 آخر تحديث 07-02-2012 - 23:48 | 14106 قراءة
72m:21s
15892
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
23m:14s
24392
یمنیوں کا فلسطینیوں کے ساتھ اظہار...
تمام مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں۔ اگر ایک حصہ درد میں مبتلا ہو تا ہے تو پورے بدن...
تمام مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں۔ اگر ایک حصہ درد میں مبتلا ہو تا ہے تو پورے بدن کے اندر درد محسوس ہوتا ہے، فلسطینی بھی مسلمان ہیں اور ان کی مدد کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
یمن جو کئی سال سے آل سعود کے مظالم کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں لیکن مقاومت کے راستے کو اپنائے ہوئے ہیں، انہوں نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کس طرح سے کیا؟
یمنی جن کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے مسلمان بھائیوں کی کس انداز میں مدد کرنے کا عزم کر رہے ہیں؟
سید عبد الملک حوثی کے بیان کے بعد سید حسن نصراللہ کا رد عمل کیا تھا اور کن الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا؟
تمام ثروتمند عرب اور مسلمانوں کے بارے میں سید حسن نصر اللہ نے کیا کہا؟
#مسلمان #واحد #فلسطینی #یمنی #مظالم #مقاومت #امریکیوں #وسائل #مدد #سید #عبدالملک #حسن #نصراللہ #عرب
1m:35s
9605
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Yemen,
Palestine,
hamdardi,
Syed
Hassan
Nasrullah,
Syed
Abdul
Malik
Houthi,
Muslim,
jasad,
dard,
vajeb,
Al
Saud,
muqavemat,
rade
eamal,
servatmand,
arab,
راہِ امام خمینیؒ کو جاری رکھیں | امام...
کیا آج بھی ایران اور عالمِ اسلام کو امام خمینیؒ کی ضرورت ہے؟ امام خمینیؒ کون سی...
کیا آج بھی ایران اور عالمِ اسلام کو امام خمینیؒ کی ضرورت ہے؟ امام خمینیؒ کون سی تین اہم تبدیلیاں لے کر آئے؟ دشمن کس چیز کا مخالف ہے؟ دشمن کی روش کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ دشمن کا مقابلہ کرنے کےلیے کون سے اہم وسائل کی ضرورت ہوتی ہے؟ آج کے زمانے میں امام خمینیؒ کے افکار کو کیا 40 سال پرانے طریقے کار سے نافذ کیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا چیز بدل سکتی ہے اور کیا بدل نہیں سکتا؟ ہمارے زمانے میں وسائل میں کون سی اہم تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں؟
ان موضوعات کو سمجھنے کےلیے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی یہ ویڈیو دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امام_خمینی #انقلاب_اسلامی #کربلا
5m:37s
3391
Dec 7 2008 پيغام حج By Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei -...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
15m:5s
32630
URDU قرآن کی بے حرمتی پر ولی امر مسلمین...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
10m:8s
33209
كلمة السيد حسن نصرالله | 7/19/2011 | مؤسسة...
أكد الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله ان "حزب الله كما خرج من حرب...
أكد الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله ان "حزب الله كما خرج من حرب تموز التي ارادوا ان يسحقوه فيها اقوى مما كان، سيخرج من مؤامرة المحكمة الدولية اعز واقوى مما كان".
وفي كلمة ألقاها عصر اليوم الثلاثاء خلال حفل التخريج المركزي الثاني الذي اقامته مؤسسة الشهيد لأبناء الشهداء الذين وصلوا إلى مرحلة الاعتماد على النفس، في مجمع شاهد التربوي على طريق المطار -- بيروت، سأل السيد نصرالله "هل يمكن لمقاومة لم يهزها أقوى سلاح جو في المنطقة أن يهزها بلمار أو كاسيزي وأولئك الكتبة المرتزقة ومن معهم"؟ مضيفا ان "100 قرار اتهامي لن تغير شيئا، وكما علقتم امالا كبيرة في حرب تموز وذهبت امالا منثورة، ان امالكم الهزيلة على المؤامرة الجديدة المسماة المحكمة الدولية ستذهب هباء منثورا".
وشدد السيد نصر الله على اننا "نواجه مؤامرة القرار الظني بهدوء وعلم ووثائق خلافا لما يحاول البعض ان يتحدث عنه في وسائل الاعلام"
6m:10s
6717
[ARABIC] Sayyed Hassan Nasrallah كلمة السيد حسن...
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان...
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وسورية لن تبقيا في ايران وسورية وانما ستتدحرج على مستوى المنطقة باكملها. واشار السيد نصر الله في احتفال يوم الشهيد في مجمع سيد الشهداء (ع) في الضاحية الجنوبية لبيروت عصر الجمعة الى انه رغم كل التهديدات في المنطقة فالاوضاع المحلية والاقليمية والدولية اليوم لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقاييس والمعايير.
واعتبر السيد نصر الله ان الحديث عن اعتداء او حرب جديدة على لبنان يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، مشيرا الى انه اذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
ودعا سماحته من يراهنون على سقوط النظام السوري الى ترك هذا الرهان ، وقال لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهو سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واكد السيد نصر الله ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء لكنه دعا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو عندما اوقفت اميركا تمويل هذه المنظمة لأنها اعترفت بفلسطين متسائلا الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما لاميركا من التزاماتها الدولية فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز لبنان؟ واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية والغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان ليهدد لبنان بعقوبات.
الجنوب اليوم قوي آمن
في بداية خطابه اكد السيد نصر الله ان الشهداء صناع حياة بإرادة الله تعالى وان الجهاد والشهادة و إرادة الصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى. واشار الى ان الشهداء هم نتاج الايمان بالله وباليوم الاخر و نتاج المعرفة واهل المعرفة، معرفة الهدف ومعرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف ومعرفة العدو والصديق والاولويات والزمان والمكان، وهذا الذي نسميه البصيرة.
واذ اشار السيد نصر الله الى ان محبي الامام موسى الصدر يعيشون اجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود الى اعاد الامام ورفيقيه الى لبنان ان شاء الله، تطرق الى كلام قرأه كان قاله الامام الصدر في جلسة داخلية عام 1978 وهو انه يشعر بالاسى الكبير لما يعيشه الجنوب الذي تحول لمكسر عصى والذي تعتدي عليه اسرائيل، واضاف: قلت له في نفسي عندما تعود ستفخر بتلامذتك وابنائك وكل اصدقائهم وحلفائهم وبالمقاومة التي اسستَ وضحيت من اجل ان تقوم، وان هذا الجنوب اليوم قوي آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل اصبح حاضرا وبقوة في المعادلة الاقليمية ايضا.
احتمالات الحرب.. وقلب الطاولة على المعتدي
اضاف سماحته: فيما يعني اي اعتداء او حرب جديدة على لبنان فالحديث يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، واذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
واكد ان ذلك ليس كرم اخلاق من اسرائيل و اميركا ومجلس الامن الدولي بل لأن لبنان بات بلد قويا وبات قادرا بجيشه وشعبه ومقاومته على الحاق الهزيمة واصبح في موقع يستطيع ان يقلب فيه الطاولة على المعتدي وان يحول التهديد الى فرصة حقيقية. واكد ان ذلك لا يعني ان ننام ابدا وان هذه المقاومة لم تنم في يوم من الايام .
وتابع السيد حسن نصر الله: اقول للذين يئسوا في انفسهم ولم ييأسوا على مستوى الخطاب عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا ان تتخلى عن سلاحها انما تطلبون ان نكون المغبون المَهين الذي لم يستفد من كل التجارب ويسلم كرامة اهله ووطنه لابشع عدو عرفه التاريخ وهو اسرائيل، لذلك في يوم الشهيد ندعو للتمسك بالمقاومة والجيش والارادة الشعبية لانها عنصر القوة الحقيقي.
الوضع الداخلي والحكومة
واكد السيد نصر الله ان الحكومة اثبتت حتى الآن انها حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية واساسية تمثل غالبية نيابية وغالبية شعبية جدية وحكومة بحث ونقاش وحوار ليست حكومة الراي الواحد وشمولية، يتناقش اطرافها ويتخذون القرارات لا ياتيهم "اس ام اس" من احد ولا تتلقى اشارات من احد.
واضاف سماحته ان الحكومة مدعوة الى مزيد من العمل والانجاز والجدية ومتابعة الملفات وان لا تصغي الى كل الضجيج مشددا على ان الاهم ان تعطي الاولوية المطلقة لحاجات الناس وهناك استحقاقات امام الحكومة كالحد الادنى للأجور ورواتب القطاع العام والمعلمين والنفط والغاز واستحقاق الكهرباء والماء الضمان الصحي والتعيينات وملفات ادارية حساسة لا تحتاج الى انفاق، ومواضيع انسانية يجب ان نقاربها من منظار انسانية. واشار الى ان الحكومة معنية ان تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها.
الوضع الأمني
ودعا السيد نصر الله الجميع الى الحفاظ على الوضع الامني لأن الامن شرط الاستقرار والصحة والعافية كما دعا وسائل الاعلام الى عدم تضخيم الاحداث الفردية والى التثبت من المعطيات قبل إطلاق التصريحات.
واضاف: ندعو الى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن واثبتت كل التجارب القاسية التي مر بها لبنان انه في نهاية المطاف كان يضيع ويتقسم كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص.
تمويل المحكمة.. وفضيحة اليونيسكو
السيد نصر الله اشار الى ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء داعيا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو . وقال: من المفيد ان ينتبه اللبنانيون والراي العام الى ما حدث في موضوع اليونيسكو وهي منظمة دولية اعترفت بدولة فلسطين بل بقطعة من فلسطين على ارض 67 بل ليس معلوما انها اراضي الـعام 67 فغضبت اميركا لانها اعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وقامت بإجراء واوقفت تمويل هذه المنظمة. الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما دوليا لاميركا؟ فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز للبنان واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية الغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان وبكل وقاحة وبعد الذي حصل في اليونيسكو ويهدد لبنان بعقوبات.. هذا يفضح اميركا في العالم وحلفاء اميركا في لبنان.
إيران وسورية
ودعا السيد نصر الله الى ترك الرهان على الخارج والتطورات الاقليمية مضيفا: اقول لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام الرئيس بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واضاف: شهدنا خلال الايام الماضية تصاعد التهديدات وطرح بقوة احتمال قيام العدو الاسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية وتصاعد التهديد والاحتمالات.. القيادة في الجمهورية الاسلامية ردت بشكل حازم وكان الاوضح ما قاله الامام الخامنئي وما قاله عين الحقيقة والواقع وان ايران بجيشها وشعبها وعزمها لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الاساطيل وهذا امر محسوم .
وتوقف السيد نصر الله عند خلفيات هذه التهديدات وقال: من الان الى اخر العام هناك انسحاب اميركي من العراق وما يجري انسحاب وهزيمة كبيرة للمشروع الاميركي ، واميركا المهزومة في العراق غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية فتنسحب تحت النار السياسية والاعلامية عبر التهويل على المنطقة وايران وسورية وشعوب المنطقة فيصبح الاهتمام مركزا على هذه التطورات ويصبح خبر انسحاب الاميركي خبرا عاديا وليس في صدارة الاحداث، لذا يجب التركيز بالمقابل على موضوع الانسحاب واثاره السياسية والعسكرية والامنية على منطقنتا ومستقبلها.
ثانيا: من الطبيعي ان تقوم اميركا في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في الحاق الهزيمة بها في المنطقة ولا يختلف اثنان ان الدولتين اللتين وقفتا بوجه الاحتلال الاميركي ولم تستلم للشروط الاميركية هما ايران وسورية.
الامر الثالث الذي يجب الانتباه اليه: التحولات التي حصلت في منطقتنا اذ لا شك ان سقوط نظام زين العابدين خسارة للمشروع الاميركي وسقوط نظام القذافي خسارة وسقوط نظام حسني مبارك الخسارة العظمى لاميركا واسرائيل.. في مسار التحولات محور الممانعة والمقاومة والرفض لاسرائيل ومشاريع الهيمنة يقوى ويكبر وللتعويض عن خسارة اميركا يجب ان تنتقل بسورية وايران الى موقع دفاعي والانشغال بذاتها وامنها واقتصادها.
الامر الرابع: اميركا تريد اخضاع ايران وسورية وجر ايران الى التفاوض المباشر واخضاع سورية لتقبل ما لم تكن تقبله..
واشار السيد نصر الله الى ان هذا التهويل والتهديد هو بناء على هذه الخلفيات ويضاف عليها وقائع الوضع الاقتصادي في اوروبا والوضع المالي والاقتصادي في اميركا كارثي.
اضاف: من جهة ثانية ايران صلبة مقتدرة لديها قائد لا مثيل له في هذا العالم وايران سترد الصاع صاعين، فمن يجرؤ ان يشن حربا على ايران؟ وعليهم ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وعلى سورية لن تبقيا في ايران وسوريا وانما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة باكملها.
الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة
وختم سماحته: في يوم الشهيد نؤكد اننا منذ فاتح عهد الاستشهاديين الى اليوم والى المستقبل دخلنا في عصر الانتصارات وولى زمن الهزائم وكل ما علينا ان نحفظ وصايا وامال الشهداء ونواصل طريقهم وسنفعل ذلك حتما، وللشهداء بيعة في اعناقنا لا تنقضي حتى نلتقي بهم.. وقال: رغم كل التهديدات في المنطقة ، اليوم الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقايسس والمعايير، وما دمنا اهل الايمان واهل المعرفة والعشق سننتصر ان شاء الله.
وفي ما يلي النص الكامل لكلمة الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله
بسم الله الرحمن الرحيم والحمد الله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا ونبينا خاتم النبيين أبي القاسم محمد وعلى اله الطيبين الطاهرين وصحبه الأخيار المنتجبين وعلى جميع الأنبياء والمرسلين، السلام عليكم جميعا ورحمة الله وبركاته.
في البداية نتوجه بالتحية إلى أرواح الشهداء العطرة والزكية ونهدي إليهم ثواب الفاتحة...
في مثل هذا اليوم من كل سنة نلتقي تحت راية وخيمة وعنوان الشهداء. في اليوم الذي اختاره حزب الله منذ البداية يوما لشهيده، يوم شهيد حزب الله. بطبيعة الحال كل فصيل من فصائل المقاومة، كل حركة من حركات المقاومة، كل شعب من شعوب المقاومة في المنطقة له شهداؤه الذين ينتمون إلى إطاره الخاص، ومن حقه الطبيعي أن يحيي لهم يوما وذكرى. وفي الحقيقة أن إحياء يوم الشهيد هو بمثابة تعويض عن الذكرى السنوية لكل شهيد على حدة، كما كانت تجري العادة أحيانا. ونحن نأمل إن شاء الله أن يأتي يوم يُقر فيه في لبنان يوما لشهيد الوطن، لكل الشهداء من كل حركات المقاومة وفصائل المقاومة، من الجيش إلى القوى الأمنية، إلى القوى السياسية إلى الشهداء من أبناء الشعب اللبناني ليكون عيدا وطنيا جامعا.
في البداية وقبل أن أتحدث أيضا عن شهيد حزب الله، يجب أن انحني إجلالا واحتراما وتقديرا لكل إخواننا الشهداء في بقية حركات المقاومة وفصائل المقاومة الذين نقدر جهودهم وتضحياتهم وعطاءاتهم، وشراكتهم الحقيقية في تحرير لبنان وفي الدفاع عن لبنان وفي تحقيق كل الأهداف التي تحققت حتى الآن.
كما هي العادة أود في البداية أن أشير إلى إنني سأتكلم أولا في كلمة عن الشهداء في يوم الشهيد وعن المقاومة، هذا عنوان، وكلمة عن الوضع اللبناني المحلي الداخلي، وكلمة في الوضع الإقليمي.
اليوم وفي يوم الشهيد، بطبيعة الحال، نحن نحتفي هنا بكل شهداء حزب الله، الذين فيهم القادة من السيد عباس الأمين العام إلى الشيخ راغب إلى الشهيد القائد الحاج عماد إلى صف من كوادر وقيادي هذه المقاومة الإسلامية إلى الاستشهاديين العظام الذين كان فاتح عهدهم ومسارهم الاستشهادي احمد قصير إلى كل الشهداء المجاهدين من المقاومين ومن الرجال والنساء والأطفال والصغار والكبار. نحن نحتفي بهذا الجمع الكبير الذي تجاوز الآلاف من شهداء جماعة آمنت بهذا الطريق كانت جزءا من وطنها وشعبها، كانت جزءا من أمتها، حملت همومها وهموم أمتها واختارت الطريق الصحيح وقدمت في الطريق الذي أمنت به، ومن اجل القضية التي آمنت بها كل هذا الجمع العظيم والكريم والشريف من الشهداء.
طبعاً انتخاب هذا اليوم، يعني 11 - 11 من كل سنة مناسبته المعروفة هي العملية الاستشهادية التي نفذها الاستشهادي أحمد قصير في مدينة صور والتي استهدفت مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي. هذه العملية التي مازالت حتى اليوم متميزة عن كل عمليات المقاومة ومازالت حتى اليوم أيضا هي العملية الأضخم والأكبر والأهم في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي نظرا لحجم الخسائر التي لحقت بالعدو على يد شهيد واحد وفي لحظة واحدة، لقد اعترف العدو نفسه بسقوط ما يزيد عن 120 130 140 خليني احتاط وأقول بالحد الأدنى العدو اعترف بما يزيد عن مقتل مئة ضابط وجندي بينهم أيضا جنرالات كبار، حجم الخسائر التي ألحقت بالعدو الخسائر المعنوية والنفسية، النتائج المعنوية والنفسية والسياسية على جبهة العدو وعلى جبهة الوطن كانت عظيمة جدا وكانت هذه العملية إيذان مبكر بالهزيمة التي تنتظر العدو. أنا من الأشخاص الذين لا يغيب عن ناظري وجه شارون البائس والمكتئب وهو يقف على حطام مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي في مدينة صور، أيضا هذه العملية هي عملية تأسيسية في تاريخ المقاومة هي العملية الاستشهادية الأولى في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي هذا النوع من العمليات الاستشهادية - أن يقتحم استشهادي بسيارته المليئة بالمتفجرات مقر عسكري ويفجر نفسه في هذا المقر، هذه لأول مرة، ولذلك نطلق على الشهيد أحمد فاتح عصر الاستشهاديين، ولذلك أيضا كان بحق صاحب لقب أمير الاستشهادييين لأن الأمير ليس من يجلس في الخلف وإنما الذي يتقدم جميع المجاهدين والشهداء في الأمام لأنه كان في الطليعة لأنه كان الأول كان الأمير، زمان العملية المبكر أيضا بعد أشهر قليلة جدا من الإجتياح الإسرائيلي للبنان وتوهم البعض في لبنان وفي المنطقة أن لبنان دخل في العصر الإسرائيلي بشكل نهائي وأن علينا ان نرتب أمورنا للانسجام مع هذا العصر الإسرائيلي جاءت عملية الاستشهادي أحمد قصير لتقول: لا هذا زمنا آخر وعصرا آخر هذا زمن المقاومة زمن الاستشهاديين زمن الانتصارات الآتية.
أيها الإخوة والأخوات في هذا العام اختار اخواننا عنوانا ليوم الشهيد سمي يوم "الحياة" وهذه تسمية صحيحة مئة بالمئة بل هي من اصح التسميات :
أولا: لأن الشهداء أحياء، الشهداء أحياء، لست أنا من يقول ذلك وإنما الله سبحانه وتعالى خالق الموت والحياة هو الذي يقول ذلك "ولا تحسبنا الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون" أحياء عند ربهم يرزقون الآن هم أحياء يرزقون من كل ما يتمنون فرحين بما أتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم"، الذين مازالوا هنا مازالوا ينتظرون مازالوا على العهد هم في عقل وخاطر وبال كل شهيد لحق بالمقام الأعلى ويستبشرون بكم بالذين مازالوا يواصلون الدرب ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أمواتاً بل أحياء ولكن لا تشعرون".
ثانيا: لأنهم أعطونا الحياة، أي حياة؟ الحياة الكريمة العزيزة لأنهم منحوا لبلدنا ولشعبنا ولوطننا كرامة وعزة وسيادة وأمنا وتحريرا واحساسا بالثقة وإطمئنانا للحاضر والمستقبل وهذه هي الحياة الحقيقية التي يتطلع أليها كل انسان هذه هي المدرسة مدرسة الإسلام العظيم الذي يقول لنا مفهوما آخر عن الحياة الذي يقول لنا الحياة في موتكم قاهرين والموت في حياتكم مقهورين يعني بعد عام 1982 عندما احتل الصهاينة نصف لبنان وأرادوا أن يهيمنوا على كل لبنان وكانت دباباتهم وملالاتهم وجنودهم يسرحون ويمرحون بل كانوا يسبحون على شواطئ لبنان بكل أمان لو رضي اللبنانيون ان يعيشوا ويأكلوا ويشربوا ولكن تبقى أرضهم محتلة وكراماتهم منتهكة وشبابهم ونساءهم يقادون بذل إلى السجون وسيادتهم مصادرة ومصيرهم مرمي في المجهول يعني لو رضوا حياة الذل والهوان والخضوع هل تسمى هذه حياة؟ أبدا هذا موت على شاكلة الحياة، إذا هؤلاء الشهداء هم صناع حياة بإرادة الله سبحانه وتعالى . الله سبحانه وتعالى جعل للحياة المادية أسباب طبيعية وللحياة المعنوية الانسانية الحقيقية خلق أسباب مؤدية إلى هذا النوع من الحياة وكان الجهاد وكانت الشهادة وكانت إرادة الثابتين والصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى.
هؤلاء الشهداء هم نتاج الإيمان بالله وباليوم الآخر، هم نتاج المعرفة، هم أهل المعرفة - معرفة الهدف معرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف معرفة العدو والصديق معرفة الأولويات معرفة الزمان والمكان هذا الذي نسميه البصيرة. عندما يمضي الانسان على بصيرة من أمره عندما يكون الانسان صاحب بصيرة هذه هي البصيرة هؤلاء أيضا هم اهل العزم والإرادة والثبات والشجاعة كلنا يتذكر في بدايات مواجهة الإحتلال كيف كان العالم كله يقف إلى جانب إسرائيل وكيف كانت المعنويات محطمة والبؤس يعم الوجوه واليأس يسيطر على العقول والقلوب وقف المقاومون، من هنا نستعيد الجذور والينابيع التي نستمد منها هذا المعنى، في كلمة لأمير المؤمنين علي عليه السلام يقول"اني والله وأنا اقول لكم كل فرد في هذه المقاومة كان ومازال يحمل هذه الروح"، يقول علي عليه السلام "اني والله لو لقيتهم فردا لو كنت وحدي أني والله لو لقيتهم فردا وهم ملئ الأرض ما باليت وما استوحشت".
هذا هو جوهر المقاومة والمقاومين في لبنان لم يستوحشوا لقلة الناصر والمعين، لم يستوحشوا لكثرة العدو ولكثرة مؤيدي العدو ولكثرة مساندي العدو ولكثرة المراهنين على العدو بل كان كل واحد منهم يقف ويقول للصهاينة وللأمريكي وللقوات المتعددة الجنسيات اني والله لو لقيتكم فردا وانتم ملئ الأرض ما باليت ولا استوحشت.
هؤلاء هم أهل العزم وهؤلاء هم اهل المحبة اهل العشق اهل الشوق في تتمة الكلمة يقول علي عليه السلام"وأني إلى ربي لمشتاق ولحسن ثواب ربي لمنتظر" هؤلاء هم العشاق المشتاقون إلى لقاء الله سبحانه وتعالى، ولذلك هم ينظرون كانوا ومازالوا ينظرون إلى أقصى القوم وليس إلى مواقع أقدامهم إلى نهاية النهايات، هذا المعنى ايضا هو الذي يستطيع ان يفسر لنا بدقة السر الحقيقي في انتصار حرب تموز فلم يكن هذا السلاح ولا هذا التكتيك ولا هذا التخطيط ولا هذه الإدارة ولا كل الوسائل المتاحة لتمكن لبنان والمقاومة من الانتصار لولا هؤلاء الرجال الذين رسخت أقدامهم في الأرض فما بالوا ولا استوحشوا ولا وهنوا ولا ضعفوا ولا استكانوا ولا خافوا ولا هربوا ولا فروا وهكذا هم يبقون من مدرسة الشهداء ومدرسة المقاومة هذه نحن اليوم نعيش الإطمئنان في لبنان الإطمئنان للمرة الأولى في تاريخ لبنان منذ قيام الكيان الصهيوني الغاصب لفلسطين عام 1948 ليس من السهل أيها الإخواة والاخوات ان يعيش الانسان في بلد وفي جواره وحش كاسر مفترس طماع خداع كيف ليمكن لانسان ان يطمئن على أهله على دماءهم على أعراضهم على كراماتهم على مستقبلهم في جوار كيان عنصري عدواني من هذا النوع، اليوم وللمرة الأولى يشعر لبنان ويشعر جنوب لبنان بالتحديد بالطمأنينة بالهدوء بالأمن بالاستقرار بالثقة، قبل أسابيع كنت أقرأ نصا لسماحة الإمام القائد السيد موسى الصدر "أعاده الله بخير ورفيقيه والذي نعيش هذه الأيام كلنا، كل محبيه، أجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود إلى إعادة الامام ورفيقيه إلى لبنان ان شاء الله"، منشور مؤخرا وهو كلام في جلسة داخلية في عام 1978 قبيل الغزو الإسرائيلي عام 1978 في لقاء داخلي مع الإخوة كوادر حركة أمل كان يقول لهم ما مضمونه انه يشعر بالأسى الشديد بالحزن الكبير لما يعيشه الجنوب وأهل الجنوب - الجنوب الذي تحول إلى مكسر عصى الجنوب الذي تعتدي عليه اسرائيل فتدمر البيوت والبلدات من كفرشوبا إلى غيرها والتي تهجر أهله عندما شاءت، الجنوب الذي لا يشعر بالأمان، الجنوب الذي ينزف، ثم يتحدث بقلب محروق يقول للأسف لبنان ضعيف الجنوب ضعيف لأن لبنان ولأن الجنوب لأننا في لبنان جميعا ضعفاء العدو يفعل ما يشاء ويعتدي متى يشاء ويتحدث بقلب محروق ويقول ان الاكثرين لا يعنيهم ما يجري في الجنوب ولا يسمعون إلى كل النداءات إلى كل الصراخ الذي نطلقه. وأنا أقرا هذه الكلمات للإمام الصدر مباشرة قلت له في نفسي يا سماحة الإمام عندما تعود ان شاء الله ستفخر بأبنائك ستفخر بأحبائك ستفخر بتلامذتك ستفخر بأتباع خطك ستفخر بكل أصدقائهم وحلفائهم، ستفخر بالمقاومة التي أسست وناديت وضحيت من اجل ان تقوم على أرض لبنان وعلى ارض جنوب لبنان هذا الجنوب يا سيدي اليوم قويا آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل أصبح حاضر وبقوة في المعادلة الإقليمية أيضا.
اليوم، فيما يعني أي احتمال يتعلق باعتداء أو عدوان أو حرب إسرائيلية جديدة على لبنان وبالرغم من كل ما يقال في بعض التحليلات وبعض المقالات أعتقد أنه يدخل في دائرة التهويل ، نحن ما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو الإسرائيلي بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن أحداث وتطورات المنطقة والوضع الإقليمي، إذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة فنحن نستبعد أن يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبان، وليس السبب في هذا الإستبعاد ليس كرم إسرائيل ولا الفضل لأمريكا ولا الفضل للمتمع الدولي ولا الفضل لمجلس الامن الدولي ولا كرم أخلاق من أحد ولا كرم أخلاق من أحد ولا لأنّ احد أصبح "آدمي" بل لسبب بسيط جدا هو أنّ لبنان لم يعد ضعيفا وأن لبننا بات بلدا قويا وأن لبنان بجيشه وشعبه ومقاومته بات قادرا على الدفاع وعلى إلحاق الهزيمة بالمعتدي أيضا ، بل أكثر من ذلك أنّ لأبننا أصبح في الموقع الذي يستطيع أن يقلب فيه الطاولة على من يعتدي عليه وأن يحوّل التهديد إلى فرصة حقيقية.
عندما تتراجع هذه القوة وتضعف لا سمح الله وعندما تتفكك هذه القوة يمكن لإسرائيل ان تعاود التفكير بالإعتداء والحرب على لبنان والسيطرة على لبنان، لكن ما دام هذا الإيمان وهذه البصيرة وهذه الإرادة قائمة وهذا الثلاثي الذهبي متماسكاً فإن اسرائيل ستبقى واقفة بعجز وغير قادرة على أن تشنّ حرباً، وإذا جاء يوم لتشنّ فيه حرباً ستكون حرب اللاخيار أي المغامرة الأخيرة في حياة هذا الكيان.
إننا في الوقت الذي على مستوى القراءة والتحليل نستبعد فيه حرباً اسرائيلية على لبنان من هذا النوع بمعزل عن أحداث المنطقة، فهذا لا يعني أن ننام، وأنا أود أن أؤكد لكم أنّ هذه المقاومة التي ننتمي إليها لم تنم في يوم من الأيام، منذ عام 82 ومنذ احمد قصير لم تنم إلى عام 2000 عندما كان الإنتصار الكبير في لبنان في 25 أيار، وفي 26 أيار عام 2000 لم تنم هذه المقاومة وإنما بقيت يقظة وتعمل وتحضّر وتجهّز، لأنها تعرف أن بلدها وشعبها في جوار أي عدو، إلى عام 2006 وبعده ومنذ 15 آب 2006 إلى اليوم هذه المقاومة لم تنم.
أعود إلى كلمة لأمير المؤمنين (علي) عليه السلام يقول : "إنّ أخ الحرب اليَقْظَان الأَرِقْ" من كان في جواره عدو محارب، من كان ما زال في حالة حرب، حتى الذين يقولون أنّ لبنان في هدنة لا تعترف فيها إسرائيل يعني هناك حرب، مع العلم أنّ القرار 1701 الذي يُنَادى به حتى اليوم لم تصل فيه إسرائيل إلى وقف إطلاق النار وهناك وقف عمليات (...). المقاومة في لبنان هكذا "يقظان أرق" ، ثمّ يقول عليه السلام "ومن نامَ لم يُنَمْ عنه" حتى لو بعض الناس في لبنان راحوا ناموا، "ليش" الجيش الإسرائيلي نائم !؟ الإسرائيلي منذ العام 2006 لليوم (يعمل على) التدريب والتجهيز والتسليح والتصنيع والمناورات، في قبالنا عدو لم ينم فكيف ننام، "ومن َضعُفَ أُوذي ومن ترك الجهاد كان كالمغبون المهين".
أقول للذين يأسوا ولم ييأسوا يعني هم في داخلهم يأسوا لكن في خطابهم السياسي لم ييأسوا : عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا أن تتخلى عن سلاحها إنما تطالبوننا بأن نكون "المغبون المهين والمغبون الذليل" الذي لم يَسْتَفِد من كل التجارب والذي يسلّم كرامة أهله وشعبه ووطنه لأبشع عدو عرفه التاريخ وهو إسرائيل. لذلك نحن في يوم الشهيد ويوم الشهداء ندعو إلى التمسك بالمقاومة والتمسك بالجيش والتمسك بالإرادة الشعبية لأنها عنصر القوة الحقيقي.
بالوضع الداخلي، أثبتت الحكومة حتى الآن أنّها حكومة تنوّع، حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية وأساسية، حكومة تمثّل غالبية نيابية وغالبية شعبية جديّة، حكومة نقاش وبحث وحوار، ليست حكومة الرأي الواحد ولا حكومة شمولية، حكومة يتناقش أطرافها ويتخذون القرارات "ما بيجييهم "SMS" من أحد لا من (جيفري) فيلتمان ولا من السفارة الفرنسية ولا من دنيس روس الذي "فل" ولا من ذلك الذي لا نحبه ناظر القرار 1559 (تيري رود) لارسن. لا تتلقى إشارات ولا إيحاءات من أحد (بل) حكومة وطنية حقيقية. هذه الحكومة مدعوة اليوم إلى مزيد من العمل والإنجاز وإلى المزيد من الجدية ومتابعة الملفات وأن لا تصغي إلى كل الضجيج الذي يثار من هنا وهناك ويراد إشغالها بقضايا وهمية لا اساس لها.
الأهم ان تعطي الحكومة الأهمية المطلقة لهموم الناس وحاجات الناس المعيشية والإجتماعية والإقتصادية، هناك استحقاقات أمام الحكومة من حسم موضع الحد الأدنى للأجور وموضوع رواتب العمال والقطاع العام والمعلمين، ومسائل تتعلق بالنفط والغاز وهذا استحقاق حقيقي، ونحن نقترب من نهاية العام، موضوع الكهرباء موضوع الماء والضمان الصحي والتعيينات الإدارية، هناك ملفات حساسة ومهمة جدا ولا تحتاج إلى انفاق، يعني مثلا التعيينات الإدارية وأن تصبح الإدارة مكتملة قادرة على الفعل والإنجاز فهذا لا يحتاج إلى أموال وموازنات وضرائب جديدة فهذا خلل حقيقي موجود في البلد اليوم، استكمال الإدارة يوفر الكثير من الأعباء والمصاعب على المواطنين، على سبيل المثال المسارعة إلى تشكيل محافظة بعلبك الهرمل، وتشكيل محافظة عكار، كذلك الإدارات التي لا تقوم بوظائفها وواجباتها تجاه المواطنين بسبب الفراغ الإداري الهائل، هناك عشرات آلاف المطلوبين بمذكرات منذ عشرات السنين وأحيانًا بقضايا بسيطة وتافهة، هذا الأمر يمكن أن يناقش لمعالجته لأنّه حينئذ يخفف عبء على القوى الأمنية، فعندما يطلع مسؤولو قوى الأمن ويقولون لدينا 30 إلى 40 ألف مذكرة توقيف فقط بمحافظة واحدة، يطلع أغلب أسباب مذكرات التوقيف تافهة ويمكن التسامح فيها، معالجة هذا الأمر سواء على عهدة الحكومة أو على عهدة المجلس النيابي من المؤكد يساعد (على حلها).
هناك نوع من القضايا الإنسانية التي يجب مقاربتها في شكل انساني، هناك خطوة أنجزت قبل أيام في مجلس النواب تتعلق بملف "الهاربين" إلى اسرائيل، وكان هناك تفسيرات عديدة وكثيرة ونحن كنّا مِنَ الذين أيّدوا الإقتراح الذي قُدّم في مجلس النواب وكنّا منسجمين مع أنفسنا لأن هذا المعنى والمضمون ورد في التفاهم الموقع بيننا وبين التيار الوطني الحر عام 2006 ونحن نفي بتفاهماتنا واتفاقاتنا، وطبعا الحكومة معنية بالمسارعة إلى إصدار المراسيم ومعالجة هذا الموضوع بالحدود التي تم التصويت عليها في مجلس النواب وخلفية هذه المعالجة هي خلفية انسانية، لكن اسمحوا لي أن أذكّر والبعض يقول لماذا دائما تذكروننا، لأن هناك أناس تحدثوا وعَزُوا سبب هروب الناس لأنّه حدثت مجازر أو خافت من المجازر عام 2000، طبعا يومها كان هناك أناس مضروب على رأسهم لم يعرفوا ماذا يجري لأنّ رهاناتهم خسرت بالإنسحاب يوم 25 أيار عام 2000 ، وهناك أناس لم يكونوا قد خلقوا أو خلقوا وكانوا صغارا. فيحتاجون للتذكير أنه في 25 أيار عام 2000 لم يقتل أحد، أُنجز التحرير ولم يقتل احد لا من جماعة انطوان لحد ولا من المدنيين بل سقط شهداء من المقاومة ولم يُقتل أحد ولم تُرتكب أي مجزرة ولم يهدم أي دار ولا أي مكان للعبادة ولم تنتهك كرامة احد، العملاء الذين تمّ توقيفهم تمّ تسليمهم مباشرة للقضاء اللبناني الذي نعرف كيف تصرف معهم. وأنا أظن أن هؤلاء الذين هربوا إلى إسرائيل وطبعا حقهم كان أن يهربوا لأن المناخ والصورة الذهنية التي كانت سائدة في ذلك الوقت تساعد على هذا الخيار، أَضِفْ إلى أنّ هناك بعضهم يعرفون أعمالهم فطبيعي أن يهربوا، لكن بعد أن شاهدوا المشهد الحضاري الأخلاقي الإنساني كيف تعاطت المقاومة بكل فصائلها وكيف تعاطى أهل الجنوب الذين قُتِلَ أطفالهم واعْتَدِيَ على أعراضهم في معتقل الخيام كيف تعاطوا مع العملاء ومع عائلات العملاء وبعدها كيف تعاطى القضاء اللبناني، أعتقد أنّ كُثُراً منهم ندموا على هروبهم ولكنهم هربوا وأخطأوا. فقط أريد أنّ أذكّر بعض هؤلاء "الأبطال" ـ بين هلالين يعني ـ أنه لم يحصل مجازر ولا قتل ولا اعتداءات وعليهم أن يراجعوا التاريخ، إذا نسوا في 11 عاما ويغيروا التاريخ ـ وطبعا هم كل يوم يغيرون التاريخ ويشوهون الوقائع ـ كان لا بدّ من التذكير به.
الحكومة معنية أن تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها ونساندها باعتبار هذه الحكومة حكومة متنوعة وطنية.
فيما يعني الوضع الأمني، ندعو الجميع إلى الحفاظ على الإستقرار الامني في البلد لأنه شرط أساسي لكل شيء فهو شرط الإقتصاد والإستقرار السياسي والطمأنينة والصحة والعافية، وفي هذا السياق أدعو أيضا بعض الجهات السياسية ووسائل الإعلام إلى عدم تضخيم الأحداث الفردية التي تحصل والتي تحصل في أي مكان من العالم، وأيضا إلى التأكد والتثبت من المعلومات والمعطيات قبل إطلاق تصريحات يتبيّن في ما بعد أن المعلومات مبنية على خطأ ولا أساس لها من الصحة.
في هذا السياق أيضا ندعو إلى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني وطبعا التعاون مع كل القوى الأمنية وتحييدها ما أمكن، ولكن نؤكد على أولوية تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن، وقد أثبتت كل التجارب القاسية والمؤلمة التي مر بها لبنان وشعب لبنان أنه في نهاية المطاف كان ينهار كل شيء ويتقسم كل شيء ويضيع كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص. من يريد أن "يناقر" في السياسة لا بأس "يكمّل مناقرة فينا" وبالحكومة وبالدولة وبمجلس النواب ولكن لندع مؤسسة الجيش جانبا ولنحافظ عليها وعلى موقعها الوطني وصورتها الوطنية لأن هذا هو التصرف بخلفية وطنية.
في موضوع تمويل المحكمة (الدولية)، قلنا أنّ هذا الموضوع يناقش إن شاء الله في مجلس الوزراء ولكن هناك مستجد يسترعي الوقوف عنده قليلا هو ما حصل مع منظمة اليونيسكو، من مفيد أن ينتبه اللبنانيون وأيضا الرأي العام العربي والعالمي إلى هذه النقطة جيدا، منظمة اليونيسكو منظمة دولية تُعْنَى بالشأن الثقافي، اعترفت هذه المنظمة ـ والمصادفة أنه لم يكن فيها حق الفيتو ـ بدولة فلسطين وطبعا بأي دولة فلسطين؟ ليس بدولة فلسطين من البحر إلى النهر بل بقطعة من فلسطين يعني (حدود) الـ 67 أنها دولة وحتى أنه غير معلوم إذا كانت (دولة حدود) الـ 67، دولة فلسطين على الأرض التي ستقام عليها على ضوء المفاوضات لاحقا أو ما يحصل، غضبت أمريكا لأنّ هذه المنظمة الدولية الثقافية أعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وليس كل حقه، فأدانت موقفها وبالتالي هي تدين كل الذين صوّتوا لمصلحة دولة فلسطين ثمّ عملت إجراء وأوقفت التمويل بدون سابق إنذار. اليوم أعلنت اليونيسكو أنها ستجمد جميع برامجها إلى نهاية العام 2011.
هنا ألفت إلى أنّ منظمة اليونيسكو منظمة معترف بها دولياً وهي منظمة دولية ولم تشكّل لا في ظروف "بوشية – شيراكية" ولا بتهريب قانوني او دستوري مثل المحكمة الدولية، ومن جهة أخرى أنّ هذه المنظمة يستمر عملها ويتوقف عملها على هذا التمويل، وهي قامت بأمر محق ومنصف وعادل ويجب أن تكمله، تقوم الإدارة الأميركية بأخذ هذا الموقف. ألم يكن تمويل اليونيسكو التزاماً من قبل الإدارة الأميركية، أليس هذا من التزاماتها الدولية؟ لماذا يَحِل للإدارة الأميركية ويجوز لها أن تتحلّل من التزاماتها الدولية ولا يجوز للبنان لو كان هناك التزام؟ هناك بعض الناس انتبهوا أنّ هذا يؤثر على موضوع المحكمة فقالوا كلاما حمّال أوجه لكن أغلب قوى 14 آذار لم تعلّق على هذا الأمر. من حق أميركا ليس فقط ان تقطع أموال اليونيسكو بل أنّ تخرب وتدمر اليونيسكو لأنها وقفت إلى جانب شعب فلسطين، أما لبنان فلا حق له، وإذا لم يموّل المحكمة غير الدستورية وغير القانونية التي كلنا بتنا نعرف سيرتها وسلوكها وأهدافها ولا داعي للتكرار فيأتي (جيفري) فيلتمان ـ وانظروا إلى الوقاحة ـ بعد القرار الأمريكي بوقف تمويل اليونيسكو يهدد لبنان بعقوبات، هذا يفضح الإدارة الأميركية ويفضح حلفاء أمريكا في العالم ويفضح حلفاء أمريكا في لبنان.
بكل الأحوال، أمام هذه الفضيحة قدّم دولة الرئيس فؤاد السنيورة مخرجا للأميركيين وللحفاظ على اليونيسكو، وعلى ذمة الإعلام أنا أقرأ المكتوب الذي يقول " قدّم الحل الذي يحمي منظمة اليونيسكو من العقاب الأمريكي وناشد الرئيس السنيورة جامعة الدول العربية والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية الصديقة المبادرة إلى جمع وتسديد المبالغ التي كانت ستدفعها الولايات المتحدة وإسرائيل، بهذه الخطوة يمكن ببساطة ـ بحسب السنيورة ـ إحباط الإبتزاز الإسرائيلي والتهويل والضغوط الأمريكية من أجل الهيمنة". الآن (بمعزل) عن إدانة أمريكا أو عدم إدانتها و(فرض) عليها عقوبات وتُقَاطع ويُرفع الإصبع بوجهها هذا له علاقة بالعالم وعقلهم وشجاعتهم ووحدة المعايير أو ازدواجية المعايير، أريد أن أذهب إلى هذا المخرج، الرئيس السنيورة قدّم مخرجاً جميلاً، فليعتمده مع حكومة الرئيس الميقاتي. "حلّوا عن الرئيس الميقاتي وعن حكومة الرئيس الميقاتي"، وناشدوا جامعة الدول العربية ( وهذه المسألة لا تحتاج لذلك) والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية المعنية بتمويل 50 و60 مليون دولار ليدفعوها إلى المحكمة. هناك أمير عربي يستطيع ان يستغني عن بعض الحفلات في لندن او باريس وأن يدفع هذين القرشين، ولنتفادى كل هذا المشكل في البلد ومعركة مفتوحة شهر وشهرين وثلاثة وباتهامات للرئيس ميقاتي، لأن الرجل مقتنع بما يقوله، واتهامات للحكومة وبالويل والثبور وعظائم الأمور وبأن لبنان سيخرّب اقتصاده ويدمر وسيعزَل دوليا. إذا أنتم تحبون لبنان حقاً وحريصون على لبنان وتريدون خلاصه وأمنه فيما نحن "راسنا يابس" وأنتم أناس منفتحون وحواريون هذا مخرج: ما ترضونه لمنظمة اليونيسكو ارتضوه للمحكمة الدولية، رغم ان اليونيسكوا أنصفت قوماً والمحكمة الدولية تعتدي على آخرين، ومع ذلك هذا مخرج يمكن ان تعتمدوا عليه وتتكلوا على الله وتدعوا الرئيس ميقاتي "يعرف ينام".
اليوم الغرفة الأولى أو الثانية في المحكمة مجتمعة وتناقش مسألة المحاكمة الغيابية، أنا لن أعلق على هذا الموضوع لأننا نحن بتنا نتصرف مع هذه المحكمة على أنها غير موجودة ولن نضيع وقتكم.
النقطة الأخيرة في الوضع المحلي أدخل منها باختصار على الوضع الإقليمي، هو توجيه نصيحة في الداخل اللبناني لكل القوى السياسية: تعالوا لنهتم ببلدنا ولنعالج أزماته وملفاته في الحكومة، في مجلس النواب، في طاولة الحوار، في أي مكان شئتم، تعالوا لنعطي أولوية واتركوا الرهان على الخارج وعلى التطورات الإقليمية، لأن البعض في لبنان راهن على التطورات الإقليمية. أنا في خطاب سابق تحدثت عن خمسة رهانات خلال خمس سنوات ولن أعيد. اليوم لا تعذبوا أنفسكم، أقول لكل الذين يؤجلون الملفات او الخيارات او المعالجات او يصنعون آمالاً وأوهاماً على شيء واحد هو سقوط نظام الرئيس بشّار الأسد في سوريا، وأنا أقول لهم: دعوا هذا الرهان جانباً، وأقول لهم أيضاً هذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة فلا تضيعوا اوقاتكم. ارجعوا للتفكير لبنانيا ووطنيا، الغريب أن بعض الناس يرفعون شعار "لبنان أولاً"، إلا في الرهانات يأتي لبنان في الآخر. راهنوا على لبنان أولاً على اللبنانيين أولاً على قدرات لبنان أولاً وعلى عقول وإرادة وحوار اللبنانيين وتعاونهم، فقط هذه نصيحة في الشق المحلي .
في الشق الإقليمي، لا يوجد متسع من الوقت لأتحدث عن كل الوضع الإقليمي والوضع العربي، ولكن الأهم خلال الأيام القليلة الماضية، هو التطور المرتبط بايران وسوريا والتهديدات الإسرائيلية والأميركية والغربية واعادة فتح الملف النووي الإيراني.
شهدنا في الأيام القليلة الماضية تصاعداً في التهديدات والدفع فجأة بدون سابق انذار، طرح بقوة احتمال ان يقوم العدو الإسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية، وصارت الكرة تتدحرج اعلاميا وسياسيا وتصريحات ومواقف وتصاعد التهديد والإحتمالات. طبعا القيادة في الجمهورية الإسلامية في ايران ردّت بشكل حازم وقاطع، وكان السقف الأعلى والأوضح ما قاله بالأمس سماحة الإمام السيد الخامنئي دام ظله الشريف، وما قاله هو عين الواقع والحقيقة، إيران القوية بجيشها بحرسها بتعبئتها بشعبها بوحدتها بإيمانها بعزمها، لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الأساطيل، وعندما جاءت الأساطيل الأميركية والجيوش الأميركية واحتلت كل المنطقة في محيط ايران، حيث تتواجد اليوم القوات الأميركية في باكستان وافغانستان والعراق وتركيا والخليج ودول الخليج ومياه الخليج، ولكن مع ذلك لم تضعف إيران ولم تتراجع عزيمتها ولم تخضع للشروط ولم تنجر إلى مفاوضات مباشرة مع الأميركيين، فلا التهويل ولا الأساطيل يمكن ان تمسّ بإرداة وعزيمة وقرار القيادة والشعب في ايران، وهذا أمر محسوم.
تعالوا نتحدث عن الحدث قليلاً، هل يمكن أن تذهب الأمور في هذا الاتجاه وكيف نفهم ما يحصل؟ إذا عدنا قليلاً إلى الخلفيات، وهنا نريد أن أتحدث عن ايران وسوريا سوياً، يجب ان لا يغيب عن بالنا أولاً انه منذ اليوم إلى آخر السنة، هناك انسحاب أميركي من العراق، وهزيمة كبيرة للمشروع الأميركي.
في عام 2000 خرج أناس وقالوا إن المقاومة في لبنان لم تنتصر وإنما إسرائيل انسحبت وهذا اتفاق تحت الطاولة (كلام بلا طعمة)، سيخرج الآن أيضاَ من يقول إن أميركا أخذت قراراً بأن تخرج؟! أمريكا التي جاءت وتحملت هذا الحجم الهائل من الخسائر البشرية والمالية والاقتصادية، هذا الانهيار القوي في اقتصادها وماليتها هل من المعقول أنها وبهذه البساطة خارجة من العراق! الجواب أكيد لا. أمريكا الخارجة من العراق، المهزومة في العراق، يجب أن تفعل شيئاً ما. أولاً، أي دولة عادة تقوم بانسحاب، هناك أناس ينسحبون تحت النار الحقيقية، لكن أميركا غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية، لذا تريد ان تعمل دخاناً وغباراً وضباباً وأن تنسحب تحت النار السياسية والإعلامية، وهذا اسمه تهويل على المنطقة وحرب في المنطقة واعتداء على ايران وسوريا حتى يصبح اهتمام العالم كله والمنطقة كلها وشعوبها مركزاً على هذا النوع من التوقعات والأحداث، ويصبح خبر الإنسحاب الأميركي والهزيمة الأميركية في العراق خبراً عادياً بل مغفولاً عنه ولا يبقى في صدارة الأحداث. وهنا مسؤولية القيادات السياسية والجهات الإعلامية كلها أن تسلط الضوء على هذا الإنسحاب وعلى هذه الهزيمة لأن لها آثار ونتائج استراتيجية وتاريخية على كل صعيد معنوي ونفسي وسياسي وعسكري على منطقتنا ومستقبل منطقتنا.
ثانياً، من الطبيعي ان تقوم الإدارة الأميركية في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في إلحاق الهزيمة بها وبمشروعها في العراق، ولا أحد يختلف على أن الدولتين اللتين وقفتا في وجه الإحتلال الأميركي للعراق وعارضتا ودعمتا الشعب العراقي والمقاومة في العراق وصمود الشعب العراقي ولم تستسلما لشروط لا كولن باول ولا من جاء بعده، هما إيران وسوريا. في لحظة الهزيمة والأسى والفشل الأميركي، أمريكا تريد أن تقول لإيران وسوريا لا تفرحوا أنكم حققتم انجازاً أنتم ستبقون تحت الضغط والتهويل والسيف، والعصا سوف تبقى مشرّعة في وجوهكم، هذا أمر طبيعي من أميركا. تصوروا أن الولايات المتحدة الأميركية ستخرج من العراق وتعترف بهزيمتها، رغم أن الجمهوريين في أمريكا قالوا إنها هزيمة كبرى، ثم يسمح لإيران ولسوريا ولشعوب المنطقة ولكل الذين أيّدوا الشعب العراقي والمقاومة العراقية بالاحتفال بهذا النصر التاريخي.
الأمر الثالث الذي يجب الانتباه إليه، أن التحولات التي حصلت في منطقتنا، طبعاً، هناك خلاف بين النخب ومحللي الأحداث وقارئيها حول فهم وقراءة الأمور التي تحصل في منطقتنا، لكن بمعزل عن كل القراءات، هناك قدر متيقن، فلا شك بأن سقوط نظام زين العابدين بن علي هو خسارة للمشروع الأميركي وللحضور الأميركي الغربي في منطقتنا، سقوط نظام القذافي خسارة، سقوط نظام حسني مبارك هو الخسارة العظمى لأمريكا وإسرائيل؟ إذاً، هناك تحولات في المنطقة ليست لمصلحة أمريكا وإسرائيل، لكن لاحقاً هل تستطيع أن تعيد هذه الأنظمة لمصلحتها فهذا بحث آخر. لكن في مسار التحولات الكبرى في المنطقة، من الواضح ان محور المقاومة والممانعة والرفض لإسرائيل ولمشاريع الهيمنة كان يقوى ويكبر، وهذا سيتيح لإيران ولسوريا ان تحصلا على حلفاء جدد وأنصار جدد وأعضاء جدد في هذا المحور، وهذا يمكن ان يعني المزيد من النفوذ والحضور والفعالية.
وللتعويض عن خسارة أميركا في مصر وتونس وليبيا وخصوصا في مصر، يجب ان ينتقل بسوريا وبايران إلى موقع دفاعي، والإنشغال بذاتها ووضعها وأمنها واقتصادها.
الأمر الرابع والأخير هو، إن اميركا تريد اخضاع ايران وسوريا وجر إيران إلى التفاوض المباشر مع الولايات المتحدة الأميركية، أما الحديث عن مفاوضات جماعية فإيران لم ترفض هذا في يوم من الأيام مع ألأمم المتحدة، ولكن المفاوضات الثنائية المباشرة، إيران كانت ترفضها وما زالت ترفضها، المطلوب الإخضاع وجر إيران إلى طاولة المفاوضات، المطلوب إخضاع سوريا لتقبل ما لم تكن تقبله في الماضي، هذا هو الهدف الحقيقي، بناءً على هذه الخلفيات وإذا أضفنا إليها وقائع، وقائع لها علاقة حالياً بالوضع المالي والاقتصادي في أوروبا، فإيطاليا تلحق باليونان، والبرتغال يلحق بإيطاليا، والدول تلحق بعضها البعض.
رئيسة صندوق النقد الدولي أمس تحدثت بوضوح أن الاقتصاد العالمي في خطر، الوضع المالي والاقتصادي في أمريكا كارثي وصعب جداً، تصوروا عندما يقف أحد مرشحي الحزب الجمهوري للانتخابات الرئاسية الأميركية، من المفترض أن يفتش عن شعارات شعبية أو أن يبحث عن اللوبي اليهودي الصهيوني ليدعمه، وقف وقال إن برنامجه وقف المساعدات الأميركية الخارجية كلها بما فيها المساعدات لإسرائيل، هذا يؤشر على صعوبة الوضع المالي الاقتصادي في الولايات المتحدة الأميركية، هذا من جهة، ومن جهة ثانية إيران قوية وصلبة ومقتدرة وموحدة ولديها قائد لا مثيل له في هذا العالم، إيران سترد الصاع صاعين، فمَن يجرؤ ان يشنّ حربا على ايران؟ اليوم وزير الدفاع الأميركي "دعس فرامات ورجع خليفاني" وبداً يتحدث بشكل عاقل وأن هذا الوضع يؤدي إلى توتر في المنطقة وأن جنودنا وقواعدنا موجودة في منطقة الخليج ولا أدري إلى أين تجر المنطقة ؟ اذا عليهم ان يفهموا وهم يفهمون جيدا. عليهم ان يفهموا جيداً ان الحرب على ايران وأن الحرب على سوريا لن تبقيا في ايران ولا في سوريا وإنما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة بأكملها. وهذه حسابات حقيقية وواقعية، لا نحن نهدد ولا احد يهدد. لنضع التهديدات جانباً ولا يتخذ أحد مواقف مسبقة، لكن هذا هو الواقع، هذا هو واقع الحال، واليوم أكثر من أي زمن مضى، الدول العربية والإسلامية وحكوماتها وشعوبها معنية بان تتخذ موقفا. انظروا إلى الصلف والوقاحة، إسرائيل التي تملك رؤوساً نووية عسكرية تطالب العالم بالضغط على ايران وتهدد إيران بضرب منشآت نووية سلمية. فما هو سبب هذه الوقاحة وهذا الاستكبار هو أحياناً الاحساس بضعف الآخر بوهن الآخر بانقسام الآخر ، نحن نقول لهم : هذا الرهان على الضعف وعلى الوهن هذا رهان خاسر. زمن الوهن والضعف والتراجع أمام العدو الإسرائيلي أمام العدوان الأميركي، هذا
62m:23s
15893
[ARABIC] كلمة الإمام الخامنئي في إفتتاح...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و الصحوة الإسلامية
29/04/2013
بسم الله الرحمن الرحيم
و الحمد لله رب العالمين، و الصلاة و السلام على سيدنا محمد المصطفى، و آله الأطيبين و صحبه المنتجبين، و من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
أرحب بكم أيها الضيوف الأعزاء، و أسأل الله العزيز الرحيم أن يبارك في هذا الجهد الجماعي، و أن يجعله شوطاً فاعلاً على طريق حياة أفضل للمسلمين إنه سميع مجيب.
موضوع الصحوة الإسلامية الذي ستتناولونه في هذا المؤتمر هو اليوم في رأس قائمة قضايا العالم الإسلامي و الأمة الإسلامية.. إنه ظاهرة عظيمة لو بقيت سليمة و تواصلت بإذن الله لاستطاعت أن تقيم الحضارة الإسلامية في أفق ليس ببعيد للعالم الإسلامي و من ثَمّ للبشرية جمعاء.
إنّ البارز أمام أعيننا اليوم، و لا يستطيع أي إنسان مطّلع و ذي بصيرة أن ينكره هو أن الإسلام اليوم قد خرج من هامش المعادلات الاجتماعية و السياسية في العالم، و اتخذ مكانة بارزة و ماثلة في مركز العناصر الفاعلة لحوادث العالم، ليقدم رؤية جديدة على ساحة الحياة و السياسة و الحكم و التطورات الاجتماعية. و يشكل ذلك، في عالمنا المعاصر الذي يعاني بعد هزيمة الشيوعية و الليبرالية من فراغ فكري و نظري عميق، ظاهرةً ذات مغزى و أهمية بالغة.
و هذا أول أثر تركته الحوادث السياسية و الثورية في شمال أفريقيا و المنطقة العربية على الصعيد العالمي، و يبشّر بدوره ببروز حقائق أكبر في المستقبل.
إنّ الصحوة الإسلامية التي يتجنب ذكرها المتحدثون باسم جبهة الاستكبار و الرجعية، بل يخافون أن يجري اسمها على ألسنتهم، هي حقيقة نرى معالمها اليوم في أرجاء العالم الإسلامي كافة. و أبرز معالمها تطلع الرأي العام و خاصة فئة الشباب إلى إحياء مجد الإسلام و عظمته، و وعيهم لحقيقة نظام الهيمنة العالمية، و انكشاف الوجه الخبيث و الظالم و المستكبر لحكومات و دوائر أنشبت أظفارها الدامية لأكثر من قرنين في المشرق الإسلامي و غير الإسلامي، و جعلت مقدرات الشعوب عرضة لنزعتها الشرسة و العدوانية نحو الهيمنة، و ذلك بنقاب المدنية و الحضارة.
أبعاد هذه الصحوة المباركة واسعة غاية السعة و ذات امتداد رمزي، و لكن ما حققته من حاضر العطاء في بعض بلدان شمال أفريقيا من شأنه أن يجعل القلوب واثقة بمعطيات مستقبلية كبرى و هائلة. إن تحقق معاجز الوعود الإلهية يحمل دائماً معه دلالات أمل يبشّر بتحقق وعود أكبر. و ما يحكيه القرآن الكريم عن الوعدين الإلهيين لأمّ موسى هو نموذج من هذه السنة الربانية.
إذ في تلك اللحظات العسيرة، حيث صدر الأمر بإلقاء الصندوق حامل الرضيع في اليمّ، جاء الخطاب الإلهي بالوعد: (إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ). (1) إن تحقق الوعد الأول، و هو الوعد الأصغر الذي شدّ على قلب الأم، أصبح منطلقاً لتحقق وعد الرسالة، و هو أكبر بكثير، و يستلزم طبعاً تحمّل المشاق و المجاهدة و الصبر الطويل: (فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ...). (2) هذا الوعد الحقّ هو تلك الرسالة الكبرى التي تحققت بعد سنين و غيّرت مسيرة التاريخ.
و من النماذج الأخرى التذكير بالقدرة الإلهية الفائقة في قمع المهاجمين للكعبة، و الذي ورد في القرآن بلسان الرسول الأعظم (ألم يجعل كيدهم في تضليل) (3) و ذلك لتشجيع المخاطبين علی امتثال الأمر الالهي: (فليعبدوا رب هذا البيت). (4)
و في موضع آخر يذكّر سبحانه رسوله بما أغدقه عليه من نعم تشبه المعجزة: (أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى، وَ وَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى)، ليكون ذلك وسيلة لتقوية معنويات نبيّه الحبيب و إيمانه بالوعد الإلهي في قوله: (مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى)، (5) و مثل هذه الأمثلة كثيرة في القرآن الكريم.
حين انتصر الإسلام في إيران، و استطاع أن يفتح قلاع أمريكا و الصهيونية في أحد أكثر البلدان حساسية من هذه المنطقة المهمة بامتياز، عَلِم أهل العبرة و الحكمة أنهم إذا انتهجوا طریق الصبر و البصيرة فإن فتوحات أخرى ستتعاقب علیهم، و قد تعاقبت فعلاً.
الحقائق الساطعة في الجمهورية الإسلامية و التي يعترف بها الأعداء قد تحققت بأجمعها في ظل الثقة بالوعد الإلهي و الصبر و المقاومة و الاستمداد من ربّ العالمين. شعبنا كان يرفع دائماً صوته بالقول: (كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ)، (6) أمام وساوس الضعفاء الذين كانوا يردّدون في الفترات الحرجة: (إِنَّا لَمُدْرَكُونَ). (7)
هذه التجربة الثمینة هي اليوم في متناول الشعوب التي نهضت بوجه الاستكبار و الاستبداد، و استطاعت أن تسقط أو تزلزل عروش الحكومات الفاسدة الخاضعة و التابعة لأمريكا. الثبات و الصبر و البصيرة و الثقة بالوعد الإلهي في قوله سبحانه: (وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ)، (8) بإمكانها أن تمهّد طريق العزّ هذا أمام الأمة الإسلامية حتى تصل إلى قمة الحضارة الإسلامية.
إنني في هذا الاجتماع الهام لعلماء الأمة بمختلف أقطارهم و مذاهبهم أرى من المناسب أن أبيّن عدة نقاط ضرورية حول قضايا الصحوة الإسلامية:
الأولى: إن الأمواج الأولى للصحوة في بلدان هذه المنطقة، و التي اقترنت ببدايات دخول الغزو الاستعماري، قد انطلقت غالباً على يد علماء الدين و المصلحين الدينيين. لقد خلدت صفحات التاريخ و للأبد أسماء قادة و شخصيات بارزة من أمثال السيد جمال الدين الأسد آبادي، و محمد عبده، و الميرزا الشيرازي، و الآخوند الخراساني، و محمود الحسن، و محمد علي، و الشيخ فضل الله النوري، و الحاج آقا نور الله، و أبي الأعلى المودودي، و عشرات من كبار علماء الدين المعروفين و المجاهدين و المتنفذين من إيران و مصر و الهند و العراق. و يبرز في عصرنا الراهن اسم الإمام الخميني العظيم مثل كوكب ساطع على جبين الثورة الإسلامية في إيران. و كان لمئات العلماء المعروفين و آلاف العلماء غير المعروفين في الحاضر و الماضي دور في المشاريع الإصلاحية الكبيرة و الصغيرة على ساحة مختلف البلدان. و قائمة المصلحين الدينيين من غير علماء الدين كحسن البنا و إقبال اللاهوري هي طويلة أيضاً و مثيرة للإعجاب.
و قد كانت المرجعيّة الفكريّة لعلماء الدين و رجال الفكر الديني بدرجة و أخرى، و في كل مكان. لقد كانوا سنداً روحياً قوياً للجماهير، و حيثما قامت قيامة التحولات الكبرى ظهروا في دور المرشد و الهادي، و تقدموا لمواجهة الخطر في مقدمة صفوف الحراك الشعبي، و ازداد الارتباط الفكري بينهم و بين الناس، و ازداد معه تأثيرهم في دفع الناس نحو الطريق الصحيح. و هذا له من الفائدة و البركة لنهضة الصحوة الإسلامية بمقدار ما يجرّ على أعداء الأمة و الحاقدين على الإسلام و المعارضين لسيادة القيم الإسلامية من انزعاج و امتعاض ما يدفعهم إلى محاولة إلغاء هذه المرجعية الفكرية للمؤسسات الدينية و استحداث أقطاب جديدة عرفوا بالتجربة أنها يمكن المساومة معها بسهولة على حساب المبادئ و القيم الدينية. و هذا ما لا يحدث إطلاقاً مع العلماء الأتقياء و رجال الدين الملتزمين.
إن هذا يضاعف ثقل مسؤولية علماء الدين. فعليهم أن يسدّوا الطريق أمام الاختراق بفطنة و دقة متناهية و بمعرفة أساليب العدوّ الخادعة و حيله، و أن يحبطوا مكائده. إن الانشداد للموائد الملوّنة بمتاع الدنيا من أكبر الآفات. و التلوث بهبات أصحاب المال و السلطة و عطاياهم، و الارتباط المادي بطواغيت الشهوة و القوة من أخطر عوامل الانفصال عن الناس و التفريط بثقتهم و محبتهم. الأنانية و حبّ الجاه الذي يجرّ الضعفاء إلى أقطاب القوة يشكّلان أرضية خصبة للتلوث بالفساد و الانحراف. لا بدّ أن نضع نصب أعيننا قوله سبحانه: (تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ). (9)
إننا اليوم، في عصر حراك الصحوة الإسلامية و ما تبعثه في النفوس من أمل، نشاهد أحيانًا مساعي خدم أمريكا و الصهيونية لاصطناع مرجعيات فكرية مشبوهة من ناحية، و مساعي الغارقين في المال و مستنقع الشهوات لجرّ أهل الدين و التقوى إلى موائدهم المسمومة الملوثة من ناحية أخرى.
فعلى علماء الدين و الرجال المتدينين و المحافظين على الدين أن يراقبوا هذه الأمور بشدة و دقّة.
المسألة الثانية، ضرورة رسم هدف بعيد المدى للصحوة الإسلامية في البلدان المسلمة يوضع أمام الجماهير ليكون البوصلة في حركتها للوصول إليه. و بمعرفة هذا الهدف يمكن رسم خريطة الطريق و تحديد الأهداف القريبة و المتوسطة. هذا الهدف النهائي لا يمكن أن يكون أقل من إقامة «الحضارة الإسلامية المجيدة». الأمة الإسلامية، بكل أجزائها في إطار الشعوب و البلدان، يجب أن تعتلي مكانتها الحضارية التي يدعو إليها القرآن الكريم.
إن من الخصائص الأصلية و العامة لهذه الحضارة استثمار أبناء البشر لجميع ما أودعه الله في عالم الطبيعة و في وجودهم من مواهب و طاقات مادية و معنوية لتحقيق سعادتهم و سموّهم. و يمكن، بل و ينبغي مشاهدة مظاهر هذه الحضارة في إقامة حكومة شعبية، و في قوانين مستلهمة من القرآن، و في الاجتهاد و تلبية الاحتياجات المستحدثة للبشر، و في رفض الجمود الفكري و الرجعية، ناهيك عن البدعة و الالتقاط، و في إنتاج الرفاه و الثروة العامة، و في استتباب العدل، و في التخلص من الاقتصاد القائم على الاستئثار و الربا و التكاثر، و في إشاعة الأخلاق الإنسانية، و في الدفاع عن المظلومين في العالم، و في السعي و العمل و الابداع.
و من مستلزمات هذا البناء الحضاري النظرة الاجتهادية و العلمية للساحات المختلفة بدء من العلوم الإنسانية و نظام التربية و التعليم الرسمي، و مروراً بالاقتصاد و النظام المصرفي، و انتهاء بالإنتاج الصناعي و التقني و وسائل الإعلام الحديثة و الفن و السينما، بالإضافة إلى العلاقات الدولية و غيرها من الساحات.
و تدلّ التجربة علی أن كل ذلك ممكن و في متناول مجتمعاتنا بطاقاتها المتوفرة. لا يجوز أن ننظر إلى هذا الأفق بنظرة متسرعة أو متشائمة. التشاؤم في تقويم قدراتنا كفران بنعم الله، و الغفلة عن الإمداد الإلهي و دعم سنن الكون انزلاق في ورطة : (الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ). (10)
نحن قادرون على أن نكسر حلقات الاحتكارات العلمية و الاقتصادية و السياسية لقوى الهيمنة، و أن نجعل الأمة الإسلامية سبّاقة لإحقاق حقوق أكثرية شعوب العالم التي هي اليوم مقهورة أمام أقلية مستكبرة.
الحضارة الإسلامية بمقوماتها الإيمانية و العلمية و الأخلاقية، و عبر الجهاد الدائم، قادرة علی أن تقدم للأمة الإسلامية و للبشرية المشاريع الفكرية المتطورة و الأخلاق السامية، و أن تكون منطلق الخلاص من مظالم الرؤية المادية للكون و من الأخلاق الغارقة في مستنقع الرذيلة التي تشكل أركان الحضارة الغربية القائمة.
المسألة الثالثة: في إطار حركات الصحوة الإسلامية يجب الاهتمام باستمرار بالتجربة المرّة و الفظيعة التي تركتها التبعية للغرب على السياسة و الأخلاق و السلوك و نمط الحياة.
البلدان الإسلامية خلال أكثر من قرن من التبعية لثقافة الدول المستكبرة و سياستها قد مُنيت بآفات مهلكة مثل الذيلية و الذلة السياسية و الفقر الاقتصادي و تهاوي الأخلاق و الفضيلة، و التخلف العلمي المُخجِل، بينما الأمة الإسلامية تمتلك تاريخاً مشرقاً من التقدم في جميع هذه المجالات.
هذا الكلام لا ينبغي اعتباره مناصبة العداء للغرب، نحن لا نكنّ العداء لأية مجموعة إنسانية بسبب تمايزها الجغرافي. نحن تعلمنا من الإمام علي (عليه السلام) ما قاله عن الإنسان أنه: «إمّا أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق». (11) اعتراضنا إنما هو على الظلم و الاستكبار و التحكم و العدوان و الفساد و الانحطاط الأخلاقي و العملي الذي تمارسه القوى الاستعمارية و الاستكبارية ضد شعوبنا. و نحن الآن أيضاً نشاهد تحكّم و تدخل و تعنّت أمريكا و بعض ذيولها في المنطقة داخل البلدان التي تحوّل فيها نسيم الصحوة إلى نهوض عاصف و إلى ثورة. وعود هؤلاء و توعّداتهم يجب أن لا تؤثر في قرارات و مبادرات النخب السياسية و في الحركة الجماهيرية العظيمة.
و هنا أيضاً يجب أن نتلقى الدروس من التجارب. أولئك الذين انشدّت قلوبهم لسنوات طويلة بوعود أمريكا و جعلوا الركون إلى الظالم أساساً لنهجهم و سياستهم لم يستطيعوا أن يحلّوا مشكلة من مشاكل شعبهم أو أن يبعدوا ظلماً عنهم أو عن غيرهم. بل إن هؤلاء باستسلامهم لأمريكا لم يستطيعوا أن يحولوا دون هدم بيت فلسطيني واحد على الأقل في إرض هي ملك للفلسطينيين.
الساسة و النخب المخدوعة بالتطميع أو المرعوبة بتهديد جبهة الاستكبار و الذين يخسرون فرصة الصحوة الإسلامية يجب أن يخشوا ما وجهه الله سبحانه إليهم من تهديد إذ قال: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَ أَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ). (12)
المسألة الرابعة: إن أخطر ما يواجه حركة الصحوة الاسلامية اليوم هو إثارة الخلافات و دفع هذا الحراك نحو صدامات دموية طائفية و مذهبية و قومية و محلیة. هذه المؤامرة تتابع أجهزة الجاسوسية الغربية و الصهيونية تنفيذها اليوم بجدٍ و اهتمام في منطقة تمتد من شرق آسيا حتى شمال أفريقيا، و خاصة في المنطقة العربية، بدعم من دولارات النفط و الساسة المأجورين. و الأموال التي یمکن استخدمها في تحقيق رفاه خلق الله، تُنفق في التهديد و التكفير و الاغتيال و التفجير و إراقة دم المسلمين و إضرام نيران الأحقاد الدفينة. أولئك الذين يرون في قوة اتحاد المسلمين مانعاً لتطبيق أهدافهم الخبيثة رأوا في إثارة الخلافات داخل الأمة الإسلامية أيسر طريق لتنفيذ أهدافهم الشيطانية، و جعلوا من اختلاف وجهات النظر في الفقه و الكلام و التاريخ و الحديث، و هو اختلاف طبيعي لا يمكن اجتنابه، ذريعة للتكفير و سفك الدماء و الفتنة و الفساد.
نظرة فاحصة لساحة النزاعات الداخلية تكشف بوضوح يد العدوّ وراء هذه المآسي. هذه اليد الغادرة تستثمر دون شك الجهل و العصبية و السطحية في مجتمعاتنا، و تصبّ الزيت على النار. مسؤولية المصلحين و النخب الدينية و السياسية في هذا الخضمّ ثقيلة جداً.
ليبيا بشكل، و مصر و تونس بشكل أخر، و سوريا بشكل، و باكستان بشكل أخر، و العراق و لبنان بشكل، تعاني اليوم أو في معرض المعاناة من هذه النيران الخطرة. لا بدّ من المراقبة الشديدة و البحث عن العلاج.
من السذاجة أن نعزو كل ذلك إلى عوامل و دوافع عقائدية أو قومية. الدعاية الغربية و الإعلام الإقليمي التابع و المأجور يصوّران الحرب المدمّرة في سورية بأنها نزاع سنّي ــ شيعي، و يوفران بذلك مساحة آمنة للصهاينة و أعداء المقاومة في سوريا و لبنان. بينما النزاع في سوريا ليس بين طرفين سني و شيعي، بل بين أنصار المقاومة ضد الصهيونية و معارضي هذه المقاومة. ليست حكومة سوريا حكومة شيعية، و لا المعارضة العلمانية المعادية للإسلام مجموعة سنية، إنما المنفذون لهذا السيناريو المأساوي كانوا بارعين في قدرتهم على استغلال المشاعر الدينية للسذج في هذا الحريق المهلك. نظرة إلى الساحة و الفاعلين فيها على المستويات المختلفة توضّح هذه المسألة لكل إنسان منصف.
هذه الموجة الإعلامية تؤدّي دورها بشكل آخر في البحرين لاختلاق الكذب و الخداع. في البحرين هناك أكثرية مظلومة محرومة لسنوات طويلة من حق التصويت و سائر الحقوق الأساسية للشعب، قد نهضت للمطالبة بحقها. ترى هل يصحّ أن نعتبر الصراع شيعيا سنياً لأن هذه الأكثرية المظلومة من الشيعة، و الحكومة المتجبّرة العلمانية تتظاهر بالتسنّن ؟!
المستعمرون الأوربيون و الأمريكيون و من لفّ لفهم في المنطقة يريدون طبعاً أن يصوّروا الأمر بهذا الشكل، و لكن أهذه هي الحقيقة؟!
هذا ما يستدعي من جميع علماء الدين المصلحين و المنصفين أن يقفوا تجاهه بتأمّل و دقة و شعور بالمسؤولية، و يحتّم عليهم أن يعرفوا أهداف العدو في إثارة الخلافات الطائفية و القومية و الحزبية.
المسألة الخامسة: إن سلامة مسيرة حركات الصحوة الإسلامية يجب أن نبحث عنها، فيما نبحث، في موقفها تجاه قضية فلسطين. منذ ستين عاماً حتى الآن لم تنزل على قلب الأمة الإسلامية كارثة أكبر من اغتصاب فلسطين.
مأساة فلسطين منذ اليوم الأول حتى الآن كانت مزيجاً من القتل و الارهاب و الهدم و الغصب و الإساءة للمقدسات الإسلامية. وجوب الصمود و النضال أمام هذا العدو المحارب هو موضع اتفاق جميع المذاهب الإسلامية و محل إجماع كل التيارات الوطنية الصادقة و السليمة.
إنّ أيّ تيار في البلدان الإسلامية يتناسى هذا الواجب الديني و الوطني انصياعاً للإرادة الأمريكية المتعنتة أو بمبررات غير منطقية يجب أن لا يتوقع غير التشكيك في وفائه للإسلام و في صدق ادعاءاته الوطنية.
إنّ هذا هو المحكّ. كل من يرفض شعار تحرير القدس الشريف و إنقاذ الشعب الفلسطيني و أرض فلسطين، أو يجعلها مسألة ثانوية و يدير ظهره لجبهة المقاومة، فهو متّهم.
الأمة الإسلامية يجب أن تضع نصب عينيها هذا المؤشر و المعيار الواضح الأساسي في كل مكان و زمان.
أيها الضيوف الأعزاء.. أيها الإخوة و الأخوات..
لا تبعدوا عن أنظاركم كيد العدوّ، فإن غفلتنا توفّر الفرصة للعدوّ.
إنّ درس الإمام علي (عليه السلام) لنا هو أنه: «من نام لم يُنَم عنه». (13) تجربتنا في الجمهورية الإسلامية هي بدورها مليئة بدروس العبرة في هذا المجال. إذ بعد انتصار الثورة الإسلامية في إيران، بدأت الحكومات الغربية و الأمريكية المستكبرة التي كانت منذ أمد بعيد تسيطر على طواغيت إيران و تتحكم في المصير السياسي و الاقتصادي و الثقافي لبلدنا، و تستهين بالقوة الضخمة للايمان الإسلامي في داخل المجتمع، و كانت غافلة عن قوة الإسلام و القرآن في التعبئة و التوجيه، بدأت تفهم فجأة ما وقعت فيه من غفلة، فتحركت دوائرها السيادية و أجهزتها الاستخبارية و مراكز صنع القرار فيها لِتَجبُرَ ما مُنيت به من هزيمة فاحشة .
رأينا خلال هذه الأعوام التي تربو علی الثلاثين أنواع المؤامرات و المخططات، و الذي بدّد مكرهم أساساً هو عاملان: الثبات على المبادئ الإسلامية، و الحضور الجماهيري في الساحة.
هذان العاملان هما مفتاح الفتح و الفَرَج في كل مكان. العامل الأول يضمنه الإيمان الصادق بالوعد الإلهي، و العامل الثاني سيبقى ببركة الجهود المخلصة و البيان الصادق. الشعب الذي يؤمن بصدقِ قادته و إخلاصهم يجعل الساحة فاعلة بحضوره المبارك. و أينما بقي الشعب في الساحة بعزم راسخ فإن أية قدرة ستكون عاجزة عن إنزال الهزيمة به. هذه تجربة ناجحة لكل الشعوب التي صنعت بحضورها الصحوة الإسلامية.
أسأل الله تعالى لكم و لكل الشعوب أن يسددكم و يأخذ بأیدیکم و يعينكم و يغدق عليكم شآبيب رحمته إنه تعالى سميع مجيب.
و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.
الهوامش:
1 - سورة القصص، الآیة 7 .
2 - سورة القصص، الآیة 13 .
3 - سورة الفیل، الآیة 2 .
4 - سورة قریش، الآیة 3 .
5 - سورة الضحی، الآیة 3 .
6 - سورة الشعراء، الآیة 62 .
7 - سورة الشعراء، الآیة 61 .
8 - سورة الحج، الآیة 40 .
9 - سورة القصص، الآیة 83 .
10 - سورة الفتح، الآیة 6 .
11 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 53 .
12 - سورة إبراهیم، الآیتان 28 و 29 .
13 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 62 .
Source: http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1569
39m:39s
15394
[Urdu] Hajj 2015 حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا...
[Hajj 1436] حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
حجاج کرام کے نام پیغام
بسم الله...
[Hajj 1436] حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
حجاج کرام کے نام پیغام
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد لله رب العالمین و الصلا ۃو السلام علی سیّد الخلق اجمعین محمد و آلہ الطاہرین و صحبہ المنتجبین و علی التابعین لہم باحسان الی یوم الدین
اور سلام ہو یکتا پرستی کے مرکز، مومنین کی طواف گاہ اور فرشتوں کی جائے نزول ،کعبہ شریف پر۔ اور سلام ہو مسجد الحرام، عرفات، مشعر اور منی پر اور سلام ہو خضوع و خشوع سےبھرپور دلوں پر، ذکر میں ڈوبی زبانوں پر، بصیرت کے ساتھ کھلنے والی آنکھوں پر، عبرت و سبق کا راستہ پا جانے والے افکار پر اور سلام ہو آپ خوش نصیب حاجیوں پر کہ آپ کو دعوت الہی پر لبیک کہنے کی توفیق نصیب ہوئی اور آپ نعمتوں کے دسترخوان پر تشریف فرما ہیں۔
سب سے پہلی ذمہ داری اس عالمی، تاریخی اور دائمی لبیک پر غور کرنا ہے؛ انّ الحمد و النعمۃ لک و المُلک، لا شَریک لک لبیک۔
ساری تعریفیں اور شکر اس کے لئے ہے، ساری نعمتیں اسی کی طرف سے اور ملک و اقتدار اسی کا ہے۔
حاجی کو یہ زاویہ نگاہ، اس پرمغز و بامعنی فریضے کے شروعاتی مرحلے میں ہی، دے دیا جاتا ہے اور اعمال حج کا سلسلہ اسی طرز نگاہ کے مطابق انجام پاتا ہے اور پھر اسے پائیدار سبق اور کبھی فراموش نہ ہونے والے درس کی مانند اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور زندگی کے لائحہ عمل کو اسی تناظر میں منظم کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ یہ عظیم سبق حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا، وہی پربرکت سرچشمہ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کو تازگی، حرارت اورتحرک عطا کر سکتا ہے اور انھیں ان مسائل سے جن سے وہ دوچار ہیں، اس دور میں اور تمام ادوار میں نجات دلا سکتا ہے۔
نفسانیت، کبر، نفسانی خواہشات، تسلط پسندی اور تسلط برداشت کرنے کی عادت، عالمی استکبار، تساہلی اور ذمہ داریوں سے فرار اور با عزت انسانی زندگی کو ذلیل و خوار کرنے کا جذبہ، یہ سب وہ بت ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکل کر زندگی کا دستور العمل بن جانے والی اس \\\\\\\\\\\\\\\'صدائے ابراہیمی سے ٹوٹ جائیں گے اور دوسروں پر انحصار، دشواریوں اور سختیوں کی جگہ آزادی و وقار اور سلامتی لے لیگی۔
حج سے مشرف ہونے والے محرم برادران و خواہران، بلا تفریق ِملک و قوم، سب اس حکمت آمیز کلام ِپروردگار پر غور کریں اور دنیائے اسلام اور خاص طور پر مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے، ذاتی اور گرد و پیش کے وسائل اور توانائیوں کے مطابق اپنے لئے فریضہ اور ذمہ داری طے کریں اور اس کے تحت کوششیں کریں۔
آج اس علاقے میں ایک طرف امریکا کی شرانگیز پالیسیاں جو جنگ و خونریزی، تباہی و آوارہ وطنی، نیز غربت و پسمانگی اور قومیتی و فرقہ وارانہ تنازعات کی جڑ ہیں، اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے جرائم ہیں، جس نے مملکت فلسطین میں غاصبانہ اقدامات کو شقی القلبی اور خباثت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور بار بار مقدس مسجد الاقصی کی توہین اور مظلوم فلسطینیوں کے جان و مال کی تاراجی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ آپ تمام مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے، جس کے بارے میں آپ کو غور کرنا چاہئے اور اس مسئلے میں اپنے اسلامی فرائض کو سمجھنا چاہئے۔ علمائے دین اور سیاسی و علمی شخصیات کی ذمہ داری زیادہ سنگین ہے، جو بد قسمتی سے اکثر اس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔
علما فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے، سیاسی رہنما دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کرنے اور علمی شخصیات فروعی مسائل میں اپنے ذہن مصروف کرنے کے بجائے، دنیائے اسلام کے سب سے بڑے درد کو سمجھیں اور اپنی اس ذمہ داری کو جس کے تعلق سے وہ عدل الہی کے سامنے جواب دہ ہیں، قبول کریں اور اس کو پورا کریں۔ علاقے میں، عراق، شام، یمن، بحرین، غرب اردن اور غزہ میں اور بعض دیگر ایشیائی اور افریقی ملکوں میں رونما ہونے والے دردناک واقعات امت مسلمہ کی بڑی مشکلات ہیں جن میں عالمی استکبار کی سازش کو سمجھنا اور اس کی راہ حل کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ قومیں اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں اور حکومتیں اپنی سنگین ذمہ داری کے سلسلے میں وفادار رہیں۔
حج اور اس کے پرشکوہ اجتماعات، ان تاریخی ذمہ داریوں کے نمایاں ہونے اور تبادلے کے بہترین مواقع ہیں۔
اورمشرکین سے برائت اس ہمہ گیر فریضے کا نمایا ںترین سیاسی عمل ہے اور اس عمل کو تمام حجاج کرام نے موقع غنیمت سمجھ کر کے انجام دینا چاہئے۔
اس سال مسجد الحرام کے تلخ سانحے نے حجاج کرام اور ان کی قوموں کو غمزدہ کردیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس حادثے میں گزر جانے والے افراد جو نماز، طواف اور عبادت کے عالم میں باری تعالی کے دیدار کے لئے کوچ کر گئے، عظیم سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہوئے اور امن و رحمت و توجہ الہی کے دیار میں سکونت پذیر ہوئے ان شاء اللہ، جو ان کے پسماندگان کے لئے باعث سکون ہے، لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ جو لوگ ظاہراً اللہ کے مہمانوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیںوہ بری الذمہ ہوجائیں۔ اس فرض پر عمل اور اس ذمہ داری کی ادائیگی ہمارا حتمی مطالبہ ہے۔
و السلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
4 ذی الحجہ 1436 (ہجری قمری)
27 شہریور 1394 (ہجری شمسی)
5m:36s
28111
🎦 کلپ | نکاح ایک معنوی عبادت | سلسلہ...
ازدواج ہر سِن کے انسان کی انسانی ضرورت و اہم ترین معنوی وسائلِ زندگی میں سے ایک...
ازدواج ہر سِن کے انسان کی انسانی ضرورت و اہم ترین معنوی وسائلِ زندگی میں سے ایک ہے۔ مزید جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے یہ کلپ۔
مولانا حیدر علی جعفری
22 اپریل، 2016
دورانیہ: 01:40
[View HD Video]
https://youtu.be/gg6Y_5xo9So
انقلابی میڈیا (خالص محمدی اسلام کی ترویج و فروغ)
Follow Us:
🎬 Shiatv.net/u/inqilabi
📱 Sapp.ir/inqilabimedia
👤 Fb.com/inqilabimedia
📱 Eitaa.com/inqilabimedia
📱 Telegram.me/inqilabimedia
🎬 Youtube.com/c/inqilabimedia
1m:40s
1893
نہر سے بحر تک | ولی امرِ مسلمین جہان | Farsi...
نہر سے بحر تک | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
اسلامی ممالک کی...
نہر سے بحر تک | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
اسلامی ممالک کی جغرافیائی پوزیشن، اُن کے پاس موجود وسائل، اُن کی انسانی قوت، اُن کی فوجی قوت کو مدنظر رکھ کر ایک لمحے کے لیے یہ سوچیں کہ وہ تمام، ایک مضبوط الائنس بنائیں۔ دنیا میں کونسی طاقت اُن کا سامنا کرنے کی جرات کرسکے گی؟
لیکن کاش یہ تصور، سچ ہوتا۔ افسوس کہ خطے
کے بعض ممالک عسکری اتحاد بناتے تو ہیں، لیکن کسی اسلامی ملک کے خلاف۔
حالانکہ ایسے اتحاد کی پہلی ترجیح، اسلامی ممالک کی حفاظت ہونی چاہیے تھی، بالخصوص فلسطین کی آزادی۔
کیا ہم اختلافات کو چھوڑ کر ایک مضبوط اتحاد بنا سکتے ہیں؟ کیا فلسطین کو آزادی دلا سکتے ہیں؟
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #نہربحر #فلسطین #صہیونی #اتحاد #آزادی
5m:10s
11399
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
nahr,
behar,
sayyid,
ali,
khamenei,
wali,
amralmuslimeen,
islami,
mamalik,
jografiyayi,
position,
wasayil,
insani,
quwat,
foji,
quwat,
foji,
quwat,
dunya,
taqat,
jurat,
askari,
itihad,
hifazat,
falastine,
mazboot,
azadi
امام موسیٰ کاظمؑ اور سخت مبارزہ | Farsi Sub Urdu
امام موسی کاظم علیہ السلام کس انداز سے اپنے وقت کی ظالم و جابر حکومتوں کے خلاف...
امام موسی کاظم علیہ السلام کس انداز سے اپنے وقت کی ظالم و جابر حکومتوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے؟ کیا امام موسی کاظم علیہ السلام کے خصوصی اور قریبی افراد امام کے اہداف سے واقف تھے؟ امام علیہ السلام کے ایک خاص صحابی امام کے مخصوص کمرے میں کونسی تین چیزیں امام کے پاس دیکھتے ہیں؟ امام علیہ السلام کے پاس موجود تین وسائل کس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں؟
#ویڈیو #امام_موسی_کاظم #ولی_امر_مسلمین #خاص_اصحاب #جدوجہد #رازداری #راوی #قرآن #کہردرا_لباس #تلوار
1m:43s
9039
یہ حزب اللہ ہے | عربی ترانہ / اردو...
استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اسلامی طاقت کا مادّی وسائل سے اندازہ لگانے کی کوشش کی...
استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اسلامی طاقت کا مادّی وسائل سے اندازہ لگانے کی کوشش کی اسی لیے ہمیشہ شکست اس کا مقدر بنی۔ جولائی 2006ء میں جدید اسلحہ، ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس پاور کی بنیاد پر حزب اللہ کو چند گھنٹوں اور دنوں میں ختم کرنے کا دعوی کرنے والے اسرائیل کی حزب اللہ کے جوانوں کے ہاتھوں رسوا کن شکست اور پھر آج 2019ء تک کی حزب اللہ کی عراق و شام و ۔۔ میں مسلسل کامیابیوں پر مشتمل ترانہ ملاحظہ ہو۔
#حزب_اللہ #جولائی #2006ء #لبنان #اسرائیل #33روزہ_جنگ #عراق #الانبار #شام #جولان #نصراللہ #حیدر
4m:30s
2850
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
hizbullah,
tarana,
israel,
shikast,
ruswa,
iraq,
sham,
شہید میلکم ایکس | Farsi Sub Urdu
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا...
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
امریکہ اور یورپ کہ جن کے نظام کی بنیادیں ہی اقلیتوں اور سیاہ فام انسانوں کے خون پر کھڑی ہیں اور کمزور ممالک کے سرمایے اور وسائل کو لوٹ کر، اُن کا استحصال کرکے آج جنٹلمین اور حقوق بشر کے جھوٹے محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
میلکم ایکس ایک امریکی سیاہ فام مسلمان کہ جس نے امریکہ میں سیاہ فام انسانوں پر مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور اسلام کا حقیقی روشن چہرہ امریکہ میں دکھانے کی تحریک شروع کی مگر بڑی شیطانی طاقتوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور اپنے زرخرید نوکروں کے ذریعے قتل کروادیا۔
عظیم الشان امریکی سیاہ فام رہنما شہید میلکم ایکس کی زندگی کا مختصر تعارف سُننے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کریں۔
#ویڈیو # میلکم _ایکس #قرآن #ستم #چپ_چاپ #ہوشیاری #عقلمندی #صلح_پسند #خاکساری #تجاوز #سیاہ_فام #سفید_فام #لٹل #رجنال #ایلائی_جا_محمد
5m:28s
2947
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
tahzeib,
khudkushee,
nazuk,
usa,
europ,
kamzor,
siyafam,
khoon,
waseil,
istehsal,
jentalmen,
haqoq,
bashar,
muhafiz,
melcum,
elax,
muslim,
awaz,
islam,
haqiqi,
roshan,
tahrek,
zarkharid,
nokar,
qatal,
الاختلاط بين الجنسين [Arabic]
خطبة الجمعة للشيخ الدكتور اكرم بركات تحت عنوان:الاختلاط بين الجنسين
وقد تضمنت...
خطبة الجمعة للشيخ الدكتور اكرم بركات تحت عنوان:الاختلاط بين الجنسين
وقد تضمنت المواضيع التالية:
- تبيين الحدود الشرعية للاختلاط.
- الاختلاط الالكتروني ومحاذيره (واتساب، فيسبوك...).
- حسن الاستفادة من وسائل التواصل الاجتماعي والحذر من سلبياته.
ومواضيع أخرى
44m:52s
1122
امریکہ ہمارے نشانے پر | میجر جنرل حسین...
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
سپاہِ پاسدارانِ...
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
سپاہِ پاسدارانِ اسلام کے میجر جنرل حسین سلامی، عاَلمی شیطانی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی خطے میں موجودگی اور انقلابِ اسلامی کی اِس پہلو سے بھرپور جنگی تیاری کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا شیطانِ اکبر امریکہ خطے سے باہر رہ کر انقلابِ اسلامی سے جنگ کرسکتا ہے؟ کیا ایران امریکی اڈوں اور امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی طاقت و صلاحیت رکھتا ہے؟ اسلامی جمہوریہ ایران نے کن کن پہلوؤں کو فرض کرتے ہوئے اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے؟ انقلاب اسلامی نے کس منطق کے تحت اپنی طاقت کو مزین کیا ہے؟ کیا ایک طولانی جنگ کے لیے درکار وسائل اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ہیں؟ اگر امریکہ خطے میں موجود رہے اور جنگ کرنا چاہے تو اُس کا کیا انجام ہوگا؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#ویڈیو #حسین_سلامی #امریکہ #جنگ #خطے #نگاہ #نشانے #امریکی_مفادات #اڈے #قبضہ #صفایا #فرض #دفاع_مقدس #فتح #نابود
2m:0s
2150
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
amrika,
nishana,
Major
General
Husain
Salami,
sepahe
pasdaran,
iran,
khitta,
shaytani
taqat,
inqelabe
islami,
jung,
salahiyat,
amriki
adde,
amriki
mafaad,
izafa,
mantiq,
wasael,
anjaam,
qabza,
safaya,
defa
e
moqaddas,
fath,
fatha,
naabood,
امريكہ کا بہت بڑا ریاستی جرم | ولی امرِ...
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سودا گرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
امریکی...
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سودا گرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
امریکی اور اُس کی اتحادی طاقتیں جس طرح اپنا شیطانی کردار ادا کر رہے ہیں اور دنیا کے کمزور اور پسماندہ ممالک کے ذخائر اور وسائل کا مختلف حیلے بہانوں سے نہ فقط لوٹ مار مچا رہے ہیں بلکہ ان ممالک کے عوام کو قتل و غارت گری کا بھی سامنا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا وحشی پن عصرِ حاضر میں کسی سے مخفی نہیں ہے۔ کبھی براہِ راست تو کبھی اپنے آلہ کاروں مثلاً داعش، طالبان، اور القاعدہ جیسوں کے ذریعے اپنے مفادات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی مختلف بہانوں سے اُن ممالک بالخصوص اُن کے سامنے سینہ سِپر ہونے والی اقوام پر پابندیاں لگا کر اور ان کا اقتصادی محاصرہ کرکے بہت بڑے جُرم کا مرتکب ہوتے ہیں۔
اِس بارے میں ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #ریاستی_جرم #اقتصادی_محاصرہ #امریکہ #جرم #پابندیاں #سیاسی #سفارتی #دوائیاں #طبی_آلات #غذائی_اشیاء #در_آمد
1m:14s
9305
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
amrika,
riyasati
jurm,
sayyid
ali
khamenei,
ittehadi
taqatein,
shaytani
kirdar,
kamzor,
pasmanda
mamalik,
heela,
loot
maar,
awaam,
qatl
o
ghaaratgari,
maghribi
mamalik,
wehshipan,
asre
hazir,
aala
karo,
daesh,
taleban,
al
qaeda,
mafadaat,
aqwaam,
seena
sipar,
pabandiya,
iqtesadi
muhasra,
jurm,
آنے کا یا ظہور کا انتظار؟ | ڈاکٹر حسن...
قَالَ الامام المھدی علیہ السلام: إِنَّا غَیْرُ مُهْمِلِینَ لِمُرَاعَاتِکُمْ...
قَالَ الامام المھدی علیہ السلام: إِنَّا غَیْرُ مُهْمِلِینَ لِمُرَاعَاتِکُمْ وَ لَا نَاسِینَ لِذِکْرِکُمْ وَ لَوْ لَا ذَلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ اللَّأْوَاءُ وَ اصْطَلَمَکُمُ الْأَعْدَاء۔
’’ہم تمھاری نسبت اہمال ( بے توجہی ) نہیں کرتے، اور نہ تمہارے ذکر کو بھلانے والے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پر بلائیں نازل ہوجاتیں اور دشمن تمہیں جڑ سے اُکھاڑ کے پھینک دیتا‘‘۔ 1۔ بحار، ج ٥٣، ص 175\"2۔ الاحتجاج : ج 2، ص 497۔
جدید جاہلیت کی تاریکی اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے سوء استفادہ کرتے ہوئے انا ربُّکم الاعلی کا نعرہ لگاتے ہوئے دنیا کے مظلوموں اور محروموں پر ظلم و ستم اور دیگر اقوام کے وسائل کو غارت کرنے والی عَالَمی شیطانی طاقتوں کے مقابل دنیا کے بڑے بڑے ممالک اور حکمران بے بس نظر آتے ہیں۔ لیکن انبیاء علیہم السلام اور مکتبِ عاشورہ کے حقیقی پیروکار آج بھی اِن شیطانی طاقتوں کے سامنے دنیا بھر میں استقامت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی استقامت کے ساتھ ساتھ حجتِ خدا امام زمان علیہ السلام کی غیبی مدد کے بغیر عصرِ حاضر کے فرعونوں کا مقابلہ ممکن نظر نہیں آتا- مکتبِ عاشورہ کے یہ پیروکار نہ فقط پوری طاقت کے ساتھ سینہ سِپر کئے ہوئے ہیں بلکہ اِن فرعونی اور نمرودی طاقتوں کو مختلف محاذوں پر شکست سے بھی دوچار کیا ہوا ہے۔
حق کے محاذ کی استقامت اور امام عصر علیہ السلام کی تائید اور مدد کے موضوع پر استاد ڈاکٹر حسن عباسی کے بیانات سننے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انتظار #ظہور #آنے #اسلامی_انقلاب #حزب_اللہ #فاطمیون #زینبیون #نائجیریا #زکزکی #نواب #شیخ_صدوق #شیخ_مفید #شیخ_عبدالکریم_حائری #آیت_اللہ_بروجردی #امام_خمینی #عرب_اتحاد #یورپی_یونین
4m:29s
2077
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
zahoor,
imame
zamaan,
hasan
abbasi,
amrika,
israel,
england,
istemaar,
muqawemati
force,
zakzaki,
imam
khomeini,
imam
khamenei,
borojerdi,
shaykh
mufeed,
abdul
karim
haeri,
zainabyoon,
fatemiyoon,
nigeria,
hizbullah,
islami
inqelab,
intezar,
shaykh
sodooq,
nawwab,
isteqamat,
europi
union,
trump,
biden,
netanyahu,
اسلامی مقاومت کی قوّت اور اسرائیل کی...
ظلم اور ستم کے آگے مقاومت کی بہت بڑی اہمیت ہے، یہی مقاومت ہے جس کی برکت سے یمن نے...
ظلم اور ستم کے آگے مقاومت کی بہت بڑی اہمیت ہے، یہی مقاومت ہے جس کی برکت سے یمن نے بغیر حکومت اور کم وسائل کے باوجود بھی اپنا دفاع کیا ہے جبکہ ایک نہیں بہت سارے ملکوں نے مل کر ان پر حملہ کیا اور ابھی بھی ظلم و ستم جاری رکھا ہوا ہے۔
رہبر معظم اسی مقاومت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظلم و ستم کے مقابلے میں اگر کوئی راہ ہم جانتے ہیں تو وہ یہی مقاومت کی راہ ہے۔ اور مجاہد جب مقاومت کی راہ میں اترتا ہے تو در واقع خدا ہی اسی کی مدد کر رہا ہوتا ہے، وہ اگر دشمن پر وار کرتا ہے اور راکٹ پھینکتا ہے تو قرآنی منطق کے مطابق خدا ہی ہے جو یہ کام انجام دیتا ہے اور اس دشمن کو نابود کرتا ہے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس اسلامی عظیم مقاومت کے آگے دشمن، استکبار اور صہیونی طاقت کس طرح کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔
رہبر معظم نے اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسرائیل کی کمزوری کو کس طرح بیان کیا ہے؟
حزب اللہ لبنان، فلسطین اور پھرغزہ کی مظلوم عوام کے آگے اسرائیل کو کس طرح شکست کا سامنا رہا ہے؟
جمہوریہ اسلامی ایران اور اس اسلامی نظام نے کس طرح مقاومت کو مضبوط بنایا ہے اور اسلامی مقاومت کی تمام تحریکوں کو کس طرح مضبوط کیا ہے؟ آج دشمن کے مقابلے میں، یہ ایران اور اسلامی مقاومت کس قدر مضبوط اور طاقتور ہے؟
ان تمام سوالات کے جواب اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#ظلم #مقاومت #برکت #یمن #دفاع #حملہ #مجاہد #مدد #قرآن #نابود # دشمن #اسلامی #عظیم #استکبار #صیہونی #کمزور #فلسطین #اسلامی #تحریکوں #مضبوط #طاقتور
3m:29s
2649
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
islam,
muqavemat,
Islamic
resistance,
Israel,
Dr.
Hassan
Abbasi,
Hassan
Abbasi,
zulm,
setam,
yaman,
defae,
mujahed,
quran,
mantq,
Palestine,
jomhori
islami,
iran,
اتحاد اسلامی اور استعمار کی سوچ | ولی...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ دنیائے اسلام کی سختیوں اور مشکلات کا...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ دنیائے اسلام کی سختیوں اور مشکلات کا راہ حل کس چیز میں مضمر سمجھتے ہیں؟ مسلمان اقوام کو کس چیز سے اب نکل جانا چاہیے؟ عالم اسلام کے بارے میں دنیا کی شیطانی طاقتوں کی کیا سوچ ہے؟ مسلمانوں کا اتحاد کن کے لیے خطرہ ہے؟ مسلمانوں کے باہمی اتحاد کے کیا ثمرات ہیں؟
.ان اہم سوالات کے جوابات اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے
#ویڈیو #اتحاد_اسلامی #استعمار #سوچ #آزمائش #راہ_حل #دنیائے_اسلام #وسائل #افرادی_قوت #اسلامی_اہداف #صیہونی_نیٹ_ورک
2m:15s
9390
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
etehad,
estemar,
islam,
imam,
imam
khamenei,
sakhti,
mushkel,
musalman,
aqam,
shaytan,
shaytani
taqat,
ealam
islami,
azmayesh,
امریکہ کے خلاف انقلاب | ولی امر مسلمین...
عصر حاضر میں امریکہ شیطنت، برائی اور دنیا میں ظلم و جور کی جیتی جاگتی مثال بن چکا...
عصر حاضر میں امریکہ شیطنت، برائی اور دنیا میں ظلم و جور کی جیتی جاگتی مثال بن چکا ہے. کمزور ممالک کا خوبصورت نعروں اور مکر و فریب کے ذریعے استحصال اور اپنے شوم مقاصد کی تکمیل کے لیے قتل عام، مداخلت اور دوسرے ممالک کے ذخائر اور وسائل کی لوٹ مار امریکہ کی شیطانی زندگی کی حیات کے لیے ضرورت بن چکا ہے.
دنیا میں حقیقی طور پر اگر کوئی اس برائی کے محور و مرکز کے مقابل استقامت دکھانے اور اس سے ٹکرانے کی عملی مثال دکھائی دیتا ہے تو وہ مکتب عاشورہ کے سچے شاگرد امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی قیادت میں آنے والا انقلاب اور ان کی کربلائی اور خالص محمدی اسلام کی تعلیمات ہیں.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #25_سال #مطلق_العنان #حکمران #پہلوی_استبدادی #بغاوت #انقلاب #جہنمی_تسلط #تسلط
2m:19s
9371
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khamenei,
rahbar,
America,
enqelab,
shaytan,
zulm,
mamalek,
haqiqat,
esteqamat,
ashura,
imam
khomeini,
islam,
islam
muhammadi,
عسکری طاقت سے غفلت دشمن کی خواہش | امام...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، دشمن کی کس خواہش کے بارے میں توجہ دلاتے...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، دشمن کی کس خواہش کے بارے میں توجہ دلاتے ہیں؟ دشمن ہمیں کس چیز سے غافل رکھنا چاہتا ہے؟ آج عسکری لحاظ سے کونسے وسائل اہم اور بنیادی حیثیت رکھتے ہیں؟ ہماری عسکری طاقت میں اضافے سے غفلت کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
ان سوالات کا جواب اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے.
#ویڈیو #غفلت #قرآن_مجید #ہتھیار #اثاثے #اسلحہ #ڈراون #میزائل #صلاحیت #حمل
1m:7s
9492
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Quran,
ghaflat,
ghafil,
hazrat
e
masooma,
maqamat,
khuda,
manzilat,
askari,
krimah
ahlbayit,
Surood,
khudawand
Mutaal,
hatiyar,
ظالم اور مظلوم کی سوچ | امام خمینی رضوان...
دنیا کے مظلوموں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ خون چوسنے والی بڑی شیطانی طاقتیں ایک...
دنیا کے مظلوموں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ خون چوسنے والی بڑی شیطانی طاقتیں ایک ایسے زمانے میں کہ جب قتل و غارت، دھونس دھمکی کے ذریعے پوری دنیا پر اپنا رعب جما چکی تھیں اور مسلسل مختلف اقوام اور ممالک کے مظلوموں کا اپنے سرمایہ دارانہ نظام، جدید وسائل اور ٹیکنالوجی کے ذریعے خون چوسنے میں اور مسلسل ان کے استحصال میں مشغول تھیں اور اپنی طاقت کے غرور و گھمنڈ میں مبتلا تھیں ایک ایسے زمانے میں دنیا کے ایک کونے سے ان فرعونی طاقتوں کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے اور یہ آواز جب دنیا کے تمام مظلومیں کے دل کی آواز بن کر سامنے آتی ہے تو یہ شیطانی طاقتیں اس آواز کو دبانے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن خداوند متعال کے لطف اور فضل سے نہ فقط اس آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں بلکہ یہ مکتب عاشورہ کے پیروکاروں کی حیدری اور عاشورائی آواز ان فرعونی طاقتوں پر آسمانی بجلی بن کر گرتی ہے. یہ آواز مظلوم کی دل کی آواز ہے، یہ آواز مستکبرین اور مستعمرین کے خلاف نہتے مستضعف لوگوں کی آواز ہے. جو اسلامی انقلاب کی صورت میں دنیا کے گوشے و کنار میں آج بھی گونج رہی ہے.
اس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #مظلوم #ظالم #سوچ #موقف #نشر #اقوام #متفق #مسائل_مظلومین #مظلوم_طبقات #سفارت_خانہ #ذخائر #حقوق_بشر #اعلان
4m:15s
9249
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
zalem,
mazlom,
imam,
imam
khomeini,
shaytan,
mamalek,
nezam,
taqat,
maktab,
eashura,
mustakber,
mustazeaf,
islami
enqelab,
aelan,
huquq
bashar,
قرآنی اصول کی روشنی میں طاقت کا حصول |...
طاقت کا استعمال منفی اور مثبت دونوں راستوں میں کیا جاسکتا ہے اگر طاقت انسانیت...
طاقت کا استعمال منفی اور مثبت دونوں راستوں میں کیا جاسکتا ہے اگر طاقت انسانیت دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں ہو تو وہ اسے انسانیت کی تباہی و بربادی، کمزور اقوام کے ذخائر اور وسائل لوٹنے میں استعمال کرتی ہیں جیسے کہ عصر حاضر کی شیطانی طاقتوں نے دنیا کو مختلف بحرانوں سے دچار کیا ہوا ہے ان میں سرفہرست شیطان اکبر امریکہ اور اس کے اتحادی شامل ہیں. اگر طاقت کو انسانیت کی خدمت اور دنیا کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے، اگر طاقت کو ظالم و جابر طاقتوں سے مقابلے اور ان سے اپنے دفاع کے لیے استعمال کی جائے تو ایسی طاقت نہ فقط منفی نہیں کہلائے گی بلکہ عقل اور قرآنی اصولوں کے عین مطابق ہوگی.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #قرآنی_اصول_کی_روشنی_میں_طاقت_کا_حصول #بعثت_کابنیادی_اصول #اہداف #عسکری_طاقت #اقتصادی_قوت #ثقافتی_طاقت #سیاسی_طاقت #بچوں_کی_پیدائش_کی_شرح #سائبر_اسپیس #شعبے_کے_ماہرین
2m:45s
10875
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
quran,
rosheni,
taqat,
imam,
imam
seyyid
ali
khamenei,
besat,
ehdaf,
askary,
eqtesady,
siasy,
bacho,
bacho
ki
pedaesh,
zalem,
jaber,
defaa,
manfi,
aqwaam,
جہاد تبیین اور سوشل میڈیا | نوحہ حاج...
بلاشبہ عصر حاضر میں انٹرنیٹ کی بدولت دنیا گلوبل ویلیج (global village) میں تبدیل...
بلاشبہ عصر حاضر میں انٹرنیٹ کی بدولت دنیا گلوبل ویلیج (global village) میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس وقت انسانی احساسات و جذبات کے ارسال و ترسیل، ابلاغ و تبلیغ اور پیغام رسانی کا کام سوشل نیٹ ورک کے ذریعے انجام پارہا ہے اور اسے ہر کوئی اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کر رہا ہے خواہ اس کا مقصد اچھا ہو یا برا۔
چنانچہ موجودہ دور میں پیغام رسانی میں سوشل نیٹ ورک کے اہمیت اور اسکےکردار کو مدنظر رکھتے ہوئے کتنا ہی بہتر ہوگا کہ اسے فروغ اسلام اور اس کی اشاعت میں بروئے کار لایا جائے اور اسکے ذریعے اسلامی تعلیمات اور پیغامات اہلبیت علیہم السلام کو اغیار تک پہنچایا جائے۔ اگر مکتب اہلبیت علیہ السلام سے تعلق رکھنے والا ہر شخص سوشل میڈیا میں بیہودہ باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اس سے صحیح استفادہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل یا دوسرے وسائل کے ذریعہ ہر دن اسلامی تعلیمات اور پیغامات اہلبیت علیہم السلام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے تو اس کے خاطر خواہ فوائد سامنے آسکتے ہیں۔
سوشل نیٹ ورک کے ذریعے انسان کس طرح جہاد تبیین کرسکتا ہے اور اسکے ذریعے مکتب کربلا کی تشہیر کیسے ہو سکتی ہے؟ اور دین کا دفاع کرتے ہوئے دینی تعلیمات کو سماج اور معاشرے میں کس طرح فروغ دیا جاسکتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب حاصل کرنے کیلئے آپ، مداح اہلبیت علیہ السلام حاج اباذر روحی کی آواز میں پڑھے جانے والے نوحے پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور دیکھیے۔
#ویڈیو #اباذر_روحی #جہاد_تبیین #جنگ_نرم #مجازی_دنیا #امام_حسین #عشق #زینب #سوشل_میڈیا #موبائل #مکتب
6m:33s
2394
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
jihad,
tabyin,
jihad
tabyin,
social
media,
noha,
haj
Abazar
Ruhi,
insan,
tabligh,
internet,
global
village,
islam,
taelimat,
ahlul
bayt,
maktab,
karbala,
defae,
madah,
madahi,