Video Tags:
Duniah,,Ko,,Daesh,,Anasir,,Ki,,Janib,,Say,,Bary,,Khatrat,,Ka,,Samna,,Sahar,,Urdu,,News
توہینِ قرآن کے پس پردہ عناصر | امام سید...
قرآن مجید ہدایت کا سرچشمہ ہے، ایک ایسی مقدس کتاب جو تمام انسانوں کی بھلائی اور...
قرآن مجید ہدایت کا سرچشمہ ہے، ایک ایسی مقدس کتاب جو تمام انسانوں کی بھلائی اور نجات چاہتی ہے۔ ایک ایسی الہامی کتاب جس کے ماننے والے دنیا میں ایک کثیر تعداد میں موجود ہیں، لیکن پھر بھی اس کتاب کی توہین کی جاتی ہے، اور آزادی اظہار کے نام پر کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس توہین کے پیچھے کون ہے؟ کون یہ توہین کرواتا ہے؟ کس کی ایما پر کوئی انسان اٹھتا ہے اور ایسا نازیبا فعل انجام دیتا ہے؟ کیا قرآن سب انسانوں کےلیے خطرہ ہے؟ یا قرآن کسی مخصوص طبقے کےلیے خطرناک ہے؟ کون سا طبقہ قرآن سے خوف محسوس کرتا ہے؟
اس موضوع پر ان سوالات اور بہت سے اہم سوالات کے جوابا ت کےلیے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی یہ ویڈیو دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #توہین_قرآن #قرآن_مجید #آزادی_بیان #صہیونیت
4m:37s
3504
Video Tags:
Wilayat
Media,
Production,
Tooheen,
Quran,
Anaasar,
Imam
Khamenei,
Hidayat,
Kitab,
Nejat,
Azadi,
توہین,
قرآن,
عناصر,
امام
سید
علی
خامنہ
ای,
URDU قرآن کی بے حرمتی پر ولی امر مسلمین...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
10m:8s
32909
امریکہ کو چاہیے کہ ایرانی عوام کی آواز...
لوگوں کو بے وقوف بناکر گمراہ کرنے کیلئے دشمن کا ایک بڑا حربہ حقائق کی تحریف ہے...
لوگوں کو بے وقوف بناکر گمراہ کرنے کیلئے دشمن کا ایک بڑا حربہ حقائق کی تحریف ہے چنانچہ دشمن اپنی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے حق کو باطل اور باطل کو حق کے روپ مین پیش کرتا ہے اور انہی تحریفات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک فسادی ٹولے اور شر پسند عناصر کی قلیل جماعت کی آواز کو ایرانی عوام کی آواز کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایرانی عوام کی آواز کو سنو، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، ایرانی قوم کی آواز وہ ہے جو رواں برس 13 آبان (4 نومبر) کو بلند ہوئی تھی، ایرانی قوم کی آواز وہ تھی جو شہید سلیمانیؒ کے جنازے میں کڑوڑوں لوگوں کے عظیم اجتماع کی صورت میں اٹھی تھی، ایرانی قوم کی آواز وہی ہے جو آج \"شہداء کے جنازوں کی تشییع\" میں فسادیوں کے خلاف نعرے بازی کی صورت میں بلند ہوتی ہے۔
ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای نے اس ویڈیو میں دشمن کے چہرے سے نقاب اتارتے ہوئے ایرانی قوم کی آواز کا تعارف پیش کیا ہے اور اس میں سوالیہ نشان کی صورت میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ایرانی قوم کی آواز کونسی ہے؟ کیاایرانی قوم کی آواز وہ ہے جو مٹھی بھر منافق عناصر کی ہے جسے دشمن کی پروپیگنڈا مشینری ایرانی قوم کی آواز کہتی ہے یا پھر ایرانی قوم کی آواز وہ ہے جو 13 آبان (4 نومبر) اور شہداء کے جنازوں کی تشییع میں کڑوڑوں لوگوں کے جم غفیر کی صورت میں شر پسند عناصر اور فسادیوں کے خلاف اٹھتی ہے؟ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ حقیقت سے آگاہی کیلئے اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #ایرانی_قوم #آواز #تشییع #شہداء #شہید_سلیمانی #عظیم_اجتماع #دہشت_گرد
1m:38s
9316
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
tashee,
shoahada,
shaheed,
shaheed
soleimani,
shaheed
qasem
soleimani,
qasem
soleimani,
imam,
imam
khamenei,
jinaza,
imam
sayyid
ali
khamenei,
wali
amr
muslimeen,
ejtema,
daesh,
isis,
azeem
ejtema,
awaz,
ہمہ گیر جنگ یا ہائبرڈوار | ایران پر حملہ...
ہائبرڈ وار فیئر یا ہمہ گیر جنگ اس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں دشمن قوتیں اپنے مفادات...
ہائبرڈ وار فیئر یا ہمہ گیر جنگ اس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں دشمن قوتیں اپنے مفادات کے لئے مخالف ریاستوں پرتمام میدانوں میں حملہ آور ہوتی ہیں اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے شاطرانہ چالوں اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتی ہیں اور یہ وسیع و عریض جنگ تمام محاذوں میں لڑی جاتی ہے خواہ وہ معاشی محاذ ہو یا سیاسی محاذ یا پھر فوجی محاذ۔ اور اس وقت دشمن کی جانب سے ایرانی عوام کے خلاف ایسی جنگ مسلط کی گئی ہے جسکا بنیادی مقصد ایران کے اسلامی معاشرے کو تباہ کرتے ہوئے پھر سے شاہی نظام کوبحال کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے امریکہ کی قیادت میں عالمی سامراجی نظام نے ہمہ گیر جنگ یا ہائبرڈ وار فیئر کا نقشہ ڈیزائن کیا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پابندیاں، دہمکیاں، مذاکرات سمیت مختلف قسم کی حکمت عملیاں اپنائی ہیں اور اس طرح کی جنگ کے آغاز کیلئے مہسا امینی جیسی کرد لڑکی کی موت کو کلید کے طور پر پیش کیا ہے۔
دشمن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کیا اپنے اہداف میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ ہائبرڈ وار فئیر میں کونسے مقامی عناصر دشمنوں کے مہرے ہوتے ہیں؟ اس سلسلے میں ماضی کا تجربہ کیا کہتا ہے؟ اور آخر کار وہ کون لوگ ہونگے جو سامراجی قوتوں کے جنگی نقشے کو خاک میں ملادیں گے؟
اردو زبان میں ان تمام سوالات سے آگاہی کیلئے اس ڈاکومنٹری کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ہائبرڈ_وار #عسکری #انقلاب #دشمن #عناصر #محاذ #بد_امنی #چابی #مہسا_امینی #کوملا #فسادات #سلیبرٹیز #اتحادی #امریکہ #شہید #مشرق_وسطی #حسرت #افواہیں
5m:12s
1655
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
IMAM,
IRAN,
america,
fesadaat,
anasor,
amn,
na
amni,
enqelab,
dushman,
shaheed,
etehadi,
mahsa
amini,
askari,
haiboard
war,
mashreq,
mashreq
vasati,
documantery,
urdu,
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی مثلث |...
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون کا مجموعہ ہے جس...
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون کا مجموعہ ہے جس کے تحت معاشرے اور سماج میں لوگوں کو نیکی کا حکم اور برائی سے روکا جاتاہے اور اسکا شمار فروع دین میں ہوتا ہے اور قرآن کریم اور معصوم راہنماؤں نے اس کے بارے میں کافی تاکید کی ہے۔ تاہم فقہی کتابوں میں امر بالمعروف (نیکی کا حکم) اور نہی عن المنکر (برائی سے روکنے) کے خاص شرائط بیان ہوئے ہیں اور ان شرائط کی موجودگی میں یہ فریضہ نبھانا انسان پر واجب ہوتا ہے اوران شرائط کے بغیر اس وظیفے کو انجام دینا واجب نہیں، مگر ان شرائط سے پہلے ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ماہیت میں دخیل عناصر کی پہچان ضروری ہے تاکہ ہمیں اس وظیفے کی صحیح تعریف اور اسکے خد و خال کا علم ہو سکے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں دخیل عناصر کون کون سے ہیں؟ اور سماج میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فقدان کی صورت میں کونسی مشکلات پیش آسکتی ہیں؟ کیا اسلامی نقطہ نگاہ سے کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے انسان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے روکے؟
انہی تمام سوالات کے جوابات کو جاننے کیلئے معروف اسلامی اسکالر رحیم پور ازغدی کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #رحیم_پور_ازغدی #امر_بالمعروف #نہی_عن_المنکر #منطق #اخلاقیات #آزادی #استدلال #آمریت #افراتفری #سماج #گفتگو #جھوٹ #بہتان
2m:42s
1752
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Agha
Rahimpur
Azghadi,
Islam,
qavanin,
hukm,
quran,
ahlul
bayt,
ketab,
sharaet,
insan,
samaj,
mushkelat,
manteq,
azadi,
estedlal,
تم" ایرانی قوم کے طرف دار ہو؟؟؟ | امام...
اردو زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔...
اردو زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ محاورہ ان لوگوں پر سو فیصد فٹ آتا ہے جو بظاہر اپنے آپ کو ایرانی قوم کے حامی اور خیرخواہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ ایرانی قوم کے دشمن اور شر پسند عناصر کے حامی ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے تمام تر مطالبات، عقائد اور مذہبی مقدسات کی توہین کی ہے اور پس پردہ رہ کر شر پسند عناصر کے ذریعے قرآن کریم جیسی مقدس کتاب اور مسجد جیسے مقدس مقام کو نذر آتش کرکے اپنی دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے باوجود ان کا دعوی ہے کہ ہم ایرانی قوم کے خیر خواہ ہیں۔ ان لوگوں کے بھی دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور ہیں۔ چنانچہ ولی امر مسلمین نے ایسے لوگوں کے منافقانہ چہرے سے نقاب کو اتار کر کس طرح ان کے کردار کو طشت از بام کیا ہے اور کتنے بہترین انداز میں ان کو آئینہ دِکھایا ہے؟ اس ویڈیو میں ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #ایرانی_قوم #مسلمان #چہرہ #ہدایات #دشمنی #مسجد #قرآن #اربعین #امام_حسین_علیہ_السلام #گستاخی #حامی
1m:33s
8778
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Iran,
Qoum,
Imam,
Imam
Khamenei,
Haqiqat,
Muqadas,
Quran,
Ketab,
Masjed,
Dushman,
Musalman,
Islam,
Imam
Husayn,
America,
Rahbar,
تفرقہ پھیلانے والوں سے ہوشیار رہیں! |...
اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ سیاست یہ رہی ہے کہ وہ اختلاف اور تفرقہ بازی کو ہوا دیتے...
اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ سیاست یہ رہی ہے کہ وہ اختلاف اور تفرقہ بازی کو ہوا دیتے ہوئے امت مسلمہ کو کئی ٹکروں اور مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ انہیں کمزور رکھا جائے اور ایک پلیٹ فرم پر جمع ہوکر کبھی بھی انکی طاقت کو یکجا ہونے نہ دیا جائے تاکہ اس طریقے سے وہ اپنے ناپاک مقاصد میں آسانی کے ساتھ کامیاب ہوسکیں۔ اور موجودہ دور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اٹھنے والی آواز بھی اسی تفرقہ انگیزی اوردین اسلام کے ساتھ دشمنی کا ایک شاخسانہ ہے جو ایران میں اسلامی احکام کے نفاذ کے مخالف ہے۔ اب ایسے میں تفرقہ پھیلانے والے عناصر کے خلاف لوگوں کا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟ اس سلسلے میں آگہی کیلئے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #امام_خمینی #دشمنان_اسلام #تفرقہ #اسلامی_جمہوریہ #احکامات #مخالفت #دنیا #آواز #سازش #طاقتور #رکاوٹ
3m:46s
7198
Video Tags:
تفرقہ,
ہوشیار,
پھیلانے
والے,
امام
خمینی,
خمینی,
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Tafraqa,
Hoshyar,
Imam,
Imam
Khomeini,
Islam,
Dushman,
Eanasur,
Siyasat,
Ekhtelaf,
taqat,
Maqsad,
Islami
Jumhuri,
Iran,
Iran
Islami,
Enqelab,
Ahkamat,
Donya,
Avaz,
Sazesh,
سعودی نظام میں اسرائیل کا تحفظ | امام...
صدر اسلام سے لیکر آج تلک دین اسلام کو جتنا نقصان اندرونی دشمن عناصر سے ہوا ہے وہ...
صدر اسلام سے لیکر آج تلک دین اسلام کو جتنا نقصان اندرونی دشمن عناصر سے ہوا ہے وہ بیرونی دشمنوں سے ہرگز نہیں ہوا۔ اسلام کے اندرونی دشمن عناصر نے اپنے چہرے پر اسلام کا نقاب اوڑھ کر جو ناقابل تلافی نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچایا ہے اسکی نظیر نہیں ملتی اور موجودہ دور میں اسکی مثال سعودی حکمرانوں کی ہے جو موسم حج میں دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے عازمین حج کو اسرائیل جیسے اسلام دشمن کے خلاف مردہ باد کا نعرہ لگانے کی بھی اجازت تک نہیں دیتے اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کرنے والوں کو زدو کوب کرتے ہوئے انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اس طرح اسرائیل کیلئے تحفظ فراہم کرنے میں بہترین کردار ادا کرتے ہیں جبکہ اسرائیل ان کیلئے کسی قسم کی اہمیت کا قائل نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلام میں ایسے لوگوں کی کیا حیثیت ہے، کیا اسلام کے نزدیک ایسے لوگوں کی کوئی وقعت ہے جو اسلام کے دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملاکر مسلمانوں پر ظلم و تشدد کرتے ہیں؟
چنانچہ اسی سوال کے جواب کو حاصل کرنے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #امام_خمینی #تحفظ #اسرائیل #مردہ_باد_اسرائیل #اسلام #شکایت #دنیا #لبنانی #آواز #اہمیت #وقعت
1m:10s
6912
Video Tags:
سعودی,
نظام,
اسرائیل,
تحفظ,
امام
خمینی,
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Saudi,
Nezam,
israel,
Hefazat,
Tahafuz,
Imam,
Imam
Khomeini,
Islam,
Deen,
Dushman,
Naqab,
anasir,
Musalman,
Hukumat,
Haj,
mamalik,
Zulm,
shikayat,
Donya,
Lebanon,
awaaz,
مداحی (نوحہ خوانی) ایک منفرد فن |...
مجالس اور محافل عزاداری، مختلف عناصر سے تشکیل پاتی ہے اور انہی عناصر میں سے ایک...
مجالس اور محافل عزاداری، مختلف عناصر سے تشکیل پاتی ہے اور انہی عناصر میں سے ایک اہم عنصر مداحی اور نوحہ خوانی ہے جو مجلس کے اختتام پر انجام دی جاتی ہے، یہ اپنے آپ میں ایک منفرد فن ہے جو دوسرے فنون سے بالکل مختلف ہے، اور اس میں پڑھے جانے والے اشعار کے ذریعے ایک نوحہ خواں، دینی، سیاسی اور تاریخی معرفت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اپنے مخاطبین کو زمان حال تک محدود نہیں رکھتا ہے بلکہ اسے تاریخ کی گہرائی میں اتار کر غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مداحی اور نوحہ خوانی کی اور کونسی خصوصیات ہیں؟ اس سلسلے میں مزید تفصیل جاننے کیلئے رہبر انقلاب اسلامی کی اس ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #مجالس_محافل #نوحہ_خوانی #اشعار #معرفت #تاریخ #عزاداری #فن #بیان #شاعر #حقیقت #کیفیت #جوش
3m:51s
4681
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
ashaar,
Maarfat,
tareekh,
azadari,
fun,
bayan,
shayar,
haqeeqat,
kefiyat,
josh,
khawani,
munfarid
fun,
aayat
Allah
sidali
Khamna
e,
مداحی
,
وحہ
خوانی,
منفرد
فن,
آیت
اللہ
سیدعلی
خامنہ
ای
Dec 7 2008 پيغام حج By Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei -...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
15m:5s
32579
30Jun11 ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث...
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi...
ديدار مسئولان نظام در روز عید مبعث با رهبر انقلاب Sayyed Ali Khamenei 30 Jun 11 - Farsi
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12833
حضرت آیت الله خامنه ای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار مسئولان نظام و قشرهای مختلف مردم، با تبریك عید شریف مبعث به ملت ایران و امت اسلامی، بعثت پیامبر اكرم (ص) را بزرگترین نعمت الهی و برترین و پربركت ترین روزهای سال خواندند و تأكید كردند: بیداری اسلامی ملتهای منطقه، حركتی در مسیر نبوی است و ملتهای مسلمان و ملت بزرگ ایران، با هوشیاری اجازه نخواهند داد امریكایی ها و صهیونیستها، با ایجاد اختلاف و حیله های دیگر، این حركت عظیم را منحرف و یا بر آن موج سواری كنند.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به «آثار تعیین كننده، بسیار عمیق و پیش برنده» دوران 23 ساله بعثت پیامبر خاتم (ص) در تاریخ و سرنوشت بشریت افزودند: نبی مكرم اسلام (ص) در همین دوران كوتاه كه فقط 10 سال آن به ایجاد نظام اسلامی اختصاص داشت، جامعه ای بر پایه های ایمان، عقلانیت، مجاهدت و عزت بنا كردند كه تمدنهای امروز بشری نیز، مدیون تمدن اسلامیِ شكل گرفته برچنین پایه هایی است.
ایشان، مشكلات و دردهای دیروز و امروز امت اسلامی را ناشی از ناسپاسی نعمت عظیم بعثت دانستند و خاطرنشان كردند: اگر ملتهای مسلمان، ایمان را در دل و عمل تقویت كنند، از عقلانیت و خرد انسانی به عنوان هدیه بزرگ الهی بهره گیرند، جهاد فی سبیل الله را در میدانهای نظامی،سیاسی، اقتصادی و فرهنگی دنبال كنند و احساس عزت و كرامت انسانی را مغتنم بشمارند یقیناً به جایگاه شایسته خود دست می یابند.
حضرت آیت الله خامنه ای، حوادث جاری در برخی كشورهای شمال افریقا و خاورمیانه را، نشان دهنده توجه ملتهای مسلمان به نعمت سعادت بخش اسلام خواندند و افزودند: بیداری عظیم اسلامی در مصر و تونس و دیگر كشورها نشان می دهد موازنه ظالمانه و تحقیركننده ای كه غربی های سلطه گر و حكام وابسته، در 150 سال اخیر بر ملتهای منطقه تحمیل كرده بودند به هم خورده و فصل جدیدی در تاریخ منطقه آغاز شده است.
رهبر انقلاب اسلامی، آینده تحولات منطقه را به فضل الهی، روشن دانستند و با اشاره به لجاجت و «جان سختی» قدرتهای مستكبر برای انكار و مخفی كردن جنبه اسلامی این تحولات افزودند: امریكایی ها، صهیونیستها و مزدوران و همراهان آنها در منطقه، همه امكانات خود را به كار گرفته اند تا حركت عظیم ملتها را منحرف كنند و با روی كار آوردن عناصر وابسته، معادلات ظالمانه گذشته را دوباره حاكم سازند اما وقتی ملتی بیدار شد و جان بر كف به میدان آمد نمی توان او را شكست داد.
ایشان با اشاره به لزوم بیداری، هوشیاری و بصیرت ملتها و نخبگان جهان اسلام در مقابل تلاشها و طرحهای پیچیده امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی افزودند: البته تحركات سلطه گران، دردسرهایی را برای ملتهای بیدار شده به همراه خواهد آورد اما به بركت هوشیاری و مراقبت مردم و نخبگان امت اسلامی، مسیر روشنی كه در منطقه آغاز شده، انشاءالله با قوت ادامه خواهد یافت.
رهبر انقلاب اسلامی، در همین زمینه با یادآوری توطئه های گوناگون دشمنان اسلام در قبال پیروزی انقلاب اسلامی خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف، نفوذ، ترور، «درگیریهای قومی مذهبی»، فتنه انگیزی و تحریك دشمن خارجی به حمله به ایران از جمله تحركات ناكام مستكبران برای تضعیف حركت عظیم ملت ایران بوده است كه همین توطئه ها یا نظائر آنها در قبال ملتهای بیدار شده منطقه نیز طراحی و اجرا خواهد شد.
ایشان در تشریح راههای اصولی مقابله با اینگونه توطئه ها، پرهیز ملتها و نخبگان جهان اسلام از مباحث بیهوده و كم اهمیت، بی توجهی به «اختلافات مذهبی، قومی و سلیقه ای» و درك عظمت تاریخی قیام ملتهای مسلمان را مورد تأكید قرار دادند.
حضرت آیت الله خامنه ای، با اشاره به حمایتهای همیشگی ملت ایران و نظام اسلامی از هر حركت عدالت طلبانه و ضد استكباری افزودند: هرجا حركتی علیه امریكا و صهیونیسم روی دهد و هر ملتی كه بر ضد دیكتاتوری بین المللی امریكا و دیكتاتورهای داخلی قیام كند با حمایت ملت فهیم ایران روبرو خواهد شد.
رهبر انقلاب اسلامی، شبیه سازی را یكی از طرحهای پیچیده امریكا خواندند و با اشاره به حوادث سوریه افزودند: امریكایی ها با تلاش برای شبیه سازی حوادث مصر، تونس، یمن و لیبی، در سوریه، سعی می كنند این كشور را كه در خط مقاومت قرار دارد دچار مشكل كنند اما ماهیت حوادث سوریه با ماهیت حوادث دیگر كشورهای منطقه متفاوت است.
ایشان افزودند: جوهره بیداری اسلامی در كشورهای منطقه، حركت ضدصهیونیستی و ضد امریكایی است اما در حوادث سوریه، دست امریكا و اسرائیل آشكار است و «منطق و معیار ما ملت ایران» این است كه هرجا به نفع امریكا و صهیونیسم شعار داده شود حركت، انحرافی است.
رهبر انقلاب اسلامی افزودند: البته پایداری ملت ایران و نظام اسلامی بر این منطق و معیار دشمنان نظام را خشمگین می كند و بر توطئه های آنان می افزاید اما ملت آب دیده و مقاوم ایران، در مواضع خود سستی نخواهد كرد.
ایشان با اشاره به مظلومیت ملت بحرین افزودند: حركت مردم بحرین، ماهیتاً شبیه حركت ملت مصر و تونس و یمن است و تفكیك میان این تحركات مشابه، معنا ندارد اما متأسفانه برخی به جای توجه به حرف دل ملتها، همان راهی را می روند كه دشمنان اسلام می خواهند.
حضرت آیت الله خامنه ای در پایان سخنانشان با یادآوری كار و تلاش گسترده و پرامید دستگاههای گوناگون در سراسر كشور، موضوع ادغام وزارتخانه ها و كوچك كردن دولت را، بسیار مهم برشمردند و با اشاره به همكاری متقابل دولت و مجلس در این مسئله افزودند: اینگونه كارها باید با جدیت دنبال شود.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به طمع ورزیهای دشمنان به برخی مسائل و حوادث داخلی تأكید كردند: ملت ایران با ایستادگی، اعتماد و امید بی پایان به كمك پروردگار و مسئولان كشور با همكاری و وحدت كلمه، بار دیگر امید دشمنان را به یأس و نومیدی تبدیل خواهند كرد.
در آغاز این دیدار كه سفیران كشورهای اسلامی نیز حضور داشتند، رئیس جمهور، پیامبر خاتم را بزرگترین هدیه پروردگار به بشریت خواند و افزود: بعثت بزرگترین حادثه تاریخ است كه می تواند بشر را در گذر از مسیر نورانی كلمه توحید، به حیات طیبه و سعادت حقیقی برساند.
آقای احمدی نژاد جهل و غفلت بشر و ظلم و بی عدالتی طاغوتها را موانع اصلی بهره گیری كامل جوامع بشری از پیام حیات بخش بعثت پیامبر اعظم خواند و افزود: شیطان بزرگ امریكا و رژیم غاصب صهیونیستی با سركوب ملتها، جامعه بشری را از حركت در صراط مستقیم الهی باز می دارند.
رئیس جمهور، بشر امروز را بیش از هر زمان دیگر نیازمند پیام بعثت خواند و افزودند: ظهور بقیه الله الاعظم (عج) تكمیل كننده حادثه تاریخی بعثت و نوید سعادت حقیقی بشر خواهد بود.
28m:43s
16045
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
31446
[ARABIC][25May12] عيد المقاومة والتحرير الثاني...
السيد نصر الله: الجيش هو الضمانة ولننتبه من الفتنة وموافقون على العودة للحوار...
السيد نصر الله: الجيش هو الضمانة ولننتبه من الفتنة وموافقون على العودة للحوار
احمد شعيتو
اشار الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله في كلمة له أمام احتفال عيد المقاومة والتحرير الثاني عشر الذي اقيم عصراً في بنت جبيل الى اننا نشهد خاتمة طيبة لحادثة اليمة هي قضية المخطوفين اللبنانيين في سورية حيث تم التاكد ان المخطوفين باتوا في الاراضي التركية ويتحضرون للانطلاق الى مطار بيروت.
واضاف ان الواجب الاخلاقي يقتضي ان نتوجه بالشكر لله اولا الذي بلطفه ورحمته كانت هذه الخاتمة ومنّ علينا جميعا وتفضل ان تنتهي الامور بهذه السرعة بدون اثار سلبية بل آثار ايجابية ان شاء الله . واشار الى انه من اللحظات الاولى، الدولة برؤسائها بمسؤوليها باشرت تحمل المسؤولية والعديد من القيادات السياسية عملت على توظيف علاقاتها وطاقاتها.
واعتبر اننا في تعاون وطني واسع وحقيقي وصلنا الى ما وصلنا اليه. وتابع: اتوجه بالشكر الى فخامة رئيس الجمهورية ميشال سليمان، الى دولة رئيس مجلس النواب نبيه بري ودولة رئيس مجلس الوزراء نجيب ميقاتي، الى دولة الرئيس سعد الحريري الذي علمنا انه بذل جهودا خاصة في هذا الاتجاه والى كل من اتصل ووظف علاقاته..
واعلن اننا من اللحظة الاولى كنا على تواصل مع القيادة السورية والسلطات السورية الذين اهتموا بالنساء والرجال الكبار في السن الذين اطلق سراحهم. وبتوجيه من الرئيس بشار الاسد تم تهيئة طائرة لايصال النساء ومن معهن بشكل سريع في تلك الليلة وكان لذلك مساهمة كبيرة في تهدئة النفوس وتطييب الخواطر، من هنا اشكر القيادة السورية، الرئيس بشار الاسد على هذه اللفتة وهذه العناية.
وقال سماحته: يجب ان نشكر العائلات على تحملها وصبرها وان كان البعض حاول في الاعلام ان يصعب الامور. هذا النوع من الاحداث يحتاج الى صبر وحكمة وتعاطي دقيق. يجب ان اتوجه بالشكر ايضا الى الناس الذين ضبطوا انفعالاتهم واستجابوا لنداء الهدوء والعقل.
واشار الى انه ايضا على المستوى الاقليمي حصلت الاتصالات، موجها شكرا خاصا للمسؤولين الاتراك والحكومة التركية على تعاملها ايضا في هذا المجال سواء رئيس الحكومة السيد اردوغان ووزير الخارجية السيد اوغلو و كل من كان له دور في الاتصالات.
وتطرق السيد نصر الله الى ان حادثة الاعتداء على حملة اخرى التي حصلت في العراق وادت الى شهداء من السيدات الجليلات وعدد من الجرحى، وشكر الاخوة في العراق والقوى السياسية والحكومة على اهتمامها بجرحانا وقال: قد علمت ان السيد رئيس الوزراء نوري المالكي سيضع طائرة خاصة للجرحى وبقية الزوار ليعودوا الى بيروت.
واذ لفت الى انه في اللحظات الاولى هناك اناس انفعلوا ونزلوا الى الطرقات قال: لا معنى لقطع الطرقات والنزول الى الشارع فضلا عن الاعتداءات على الممتلكات.. هذا ماذا يفيد؟ اصبح هناك "موضة" بدات في الـ 2005 مع كل حادث يحصل يتم الاعتداء على الرعايا والعمال السوريين في لبنان. هذا حرام شرعا وهو جريمة فما علاقة هؤلاء الناس؟ لا يجوز ان يتصرف احد خارج الموازين الاخلاقية والشرعية.
وتوجه للمسؤولين في حملات الزيارة سواء الى العراق او ايران بالقول لا داعي لحملات تذهب في البر، المرحلة حساسة وصعبة والموضوع امن الزوار وسلامتهم وهذا ليس علاقة له فقط بامن الزوار بل قد يؤدي الى فتن. واكد ان اي مسؤول حملة يصر ان ياخذ الناس بالبر يتحمل المسؤولية الشرعية والجزائية.
كما توجه للخاطفين بالقول ان عملكم هذا مدان. واضاف: لقد تصرفوا بعقل واستجابوا للوساطات هذا امر جيد ولكن خطف الابرياء والاعتداء على الناس بهذه الطريقة يسيء لكم ولكل ما تدّعون او تقولون انكم تعملون لأجله. اذا كان الغرض الضغط على موقفنا السياسي هذا لن يقدم ولن يؤخر، موقفنا السياسي منطلق من ثوابت ورؤية استراتيجية وقراءة دقيقة وهادئة للاحداث والمشاريع والتهديدات لذلك نحن في سوريا مع الحوار والاصلاح والوحدة الوطنية وانتهاء كل شكل من اشكال المواجهة العسكرية ومع المعالجة السياسية. الفرضية الثانية خطف لبنانيين ليضغط لبنان على السلطات في سوريا لاطلاق معتقلين مقابل مختطفين. هذا لن يجدي. السلطات السورية ليست في وارد فتح هذا الباب ونحن لسنا في وارد الدخول في امر من هذا النوع.
واكد السيد نصر الله ان التجربة التي حصلت اليوم (في اطلاق المخطوفين) تجربة طيبة جدا، لافتا الى اننا من اللحظة الاولى قلنا ان المسؤولية مسؤولية الدولة، والدولة والحكومة يجب ان تتحمل مسؤولياتها والقيادات وكلنا نساند مسعى الدولة، وبعض الناس عقبوا على هذا الموقف انه بداية جيدة، مؤكدا ان هذه ليست بداية بل هذا خط قديم.
التحرير والمقاومة
السيد نصر الله تطرق الى موضوع التحرير فأشار الى ان الارض عادت الى سيادة الدولة والدولة تستطيع ان تتواجد في اي شبر من ارض الجنوب وهذا يعني عودة السيادة الى هذه الارض وهذا انجاز ملموس. واضاف: اليوم نحن موجودون في ارضنا وقرانا والناس تعيش بأمن وسلام وطمأنينة. واكد ان الفتنة التي ارادها الاسرائيلي عام 2000 سقطت بسرعة ويجب ان نشكر الله على ذلك.
واضاف: اقول لمن تعامل مع الاسرائيلي ان هذا الاسرائيلي لا يهتم لا بامنكم ولا بسلامتكم ولا حياتكم ولا دمائكم، قاتل بكم كأكياس رمل ثم ترككم في العراء، ترككم للقتل لتكونوا وقود الفتنة.
ولفت الى انه من يوم التحرير الى اليوم هذه المنطقة الحدودية يعيش الناس فيها مع بعض بسلام وفي ظل سلاح المقاومة ومع وجوده. حتى الناس الذين لجأوا او هربوا الى فلسطين المحتلة لم يطلب احد منهم ذلك، من اليوم الاول كان الموقف واضحا لا تزر وازرة وزر اخرى، والاهالي الذين لم يتورطوا مع الاسرائيلي لا احد يقترب منهم ونقول للاهالي يمكنكم ان ترجعوا ولم يكن احد يريد احداث اي تغيير في الجنوب بل كانت المقاومة تريد الخير للجنوب وان يعيش اهل المنطقة الحدودية بسلام ومحبة مع بعضهم.
ولفت سماحته الى ان الانجاز الاخر حماية الجنوب ولبنان وحماية البلد من الاطماع والتهديدات الاسرائيلية، و في الحماية، المعادلة جيش شعب مقاومة، هذه المعادلة تقوم بانجاز هي حامية الحدود والناس على الحدود واليوم تبنى بيوت على الحدود وهذا تعبير عن الاحساس بالامن والحماية وعن الثقة الكبيرة بالحماية، وطوال الـ12 سنة الاسرائيلي المعتدي بطبعه الطماع بارضنا ومياهنا لا يجرؤ ان يعتدي على قرانا وشعبنا واهلنا.
واكد ان الجدار في كفركلا مؤشر على ان انسحاب العدو الاسرائيلي من لبنان اجهز او دق المسامير الاخيرة في نعش اسرائيل الكبرى، وهذا المشروع انتهى هنا بدماء شهدائكم بصمودكم وبطولاتكم وتضحياتكم.
فوضى السلاح
وقال السيد نصر الله: هناك بحث في البلد اليوم امام فوضى السلاح التي شهدناها أن تعالوا لنهدأ قليلا وهناك ملف جديد اسمه فوضى وانتشار السلاح ونأتي بهذا الموضوع وسلاح المقاومة ونسميهم السلاح غير الشرعي ونقاربهم كملف واحد.. هذه مغالطة كبيرة جدا وليست شطارة. السبب الاول: اتحدث عن انجاز سلاح المقاومة، قولوا لي عن كل السلاح الاخر سواء كان مع قوى 8 او 14 اذار الغير موضوع في معادلة الردع ما هو انجازه وما هي قضيته هناك فارق جوهري بين السلاحين.
حانب اخر: ليس هناك مشكلة ان يتناقش كل شيء.. ومن يريد ان يحمل سلاحا ليواجه به العدو يمكن ان نجمع كل الطاقات لنحمي بلدنا.. تعالوا لننظم كل هذا السلاح في معادلة الجيش والشعب والمقاومة.
وتابع: لما نتكلم عن هذه المعادلة يجب ان اميز بين معادلة حماية البلد لمواجهة العدو الاسرائيلي وبين معادلة حماية السلم الاهلي والامن والاستقرار في الداخل هذان موضوعان مختلفان.. في مواجهة اسرائيل قناعتنا المبنية على التجربة التي نجحت في لبنان وفي غزة في العراق وافغانستان ومنطق التاريخ والحقائق والعدو واطماعه وامكاناته نقول حماية البلد بمعادلة جيش شعب مقاومة، اما في الداخل فالمسؤول عن الأمن والاستقرار وحماية اللبنانيين هي الدولة والدولة فقط من خلال الجيش اللبناني والمؤسسات الرسمية اللبنانية.
الجيش ضمانة.. من يمنع الانهيار؟
وتطرق السيد نصر الله الى مسألة الجيش واكد ان آخر ضمانة يمكن ان تحمي السلم الاهلي في لبنان هي الجيش اللبناني لذلك يجب ان نحافظ على هذه المؤسسة وأن نحميها وندافع عن وجودها في الساحة حتى لو حصلت احداث مؤلمة.
وقال: في 13 ايلول 93 كان أناس يتظاهرون ومقابلهم جيش وقوى امن واطلق عليها الرصاص وسقط 50 بين شهيد وجريح هل اطلقنا النار على الجيش اللبناني؟ هل طالبنا باخراج الجيش من الضاحية ومحيطها؟ ابدا.. الذين قتلوا اخواننا في مستديرة المطار اين هم؟ الموضوع كان واضحا وليس بحاجة لتحقيق. بعد مدة قتل متظاهرون في حي السلم برصاص الجيش هل احد بالضاحية حمل السلاح على الجيش او طالب بخروج الجيش؟ ابدا.. قبل مدة في مار مخايل كان شباب يتظاهرون، اطلق عليهم النار وقتلوا.. ماذا حصل؟ استنكرنا واعترضنا وخطبنا وطالبنا بالمحاكمة.
واعتبر السيد نصر الله ان القول ان الحادث في عكار الذي ادى الى استشهاد الشيخين مؤسف ومحزن ومدان لكن فلنضعه في سياقه الطبيعي، واضاف: نقول قضاء ومحاسبة، لكن الجيش يجب ان يحفظ ويصان من اجل سلامة هذا البلد ومستقبله.
واكد اننا يجب ان ننتبه من الانجرار الى اي قتال وهناك من يعمل ليكون هناك قتال في اي مكان من الامكنة. واذ تساءل لماذا يحصل اشتباكات في باب التبانة وجبل محسن اشار الى ان الحادثة في كاراكاس كان يمكن ان تذهب للاسوأ، كما اكد انه في حادثة طريق الجديدة جهات حزبية تتحمل المسؤولية متسائلا اين كانت الدولة واين كان الجيش واين كانت القوى الامنية واكد ان هذه الحادثة لا يجوز ان تتكرر لأنها قد تودي بالبلد الى مخاطر اساسية.
وشدد السيد نصر الله على ان من يتصور انه يستطيع ان يمسك الارض ويمنع الانهيار في البلد او الانحدار الى حرب اهلية هو خاطئ ومشتبه. واذا اكد ان من اوصل الشارع الى هنا القيادات السياسية حذر من انه امام التحريض الطائفي والمذهبي قد تصبح القيادات عناصر والعناصر قيادات.
وفي موضوع الموقوفين الاسلاميين جدد الدعوة الى سرعة محاكمتهم وادانة من تثبت ادانته واطلاق من تثبت براءته مشددا على ان تحميل الطائفة الشيعية مسؤولية بقائهم في السجون ظلم وتزوير.
نعود الى الحوار بلا شروط.. فليأتوا بلا شروط
وحول دعوة رئيس الجمهورية الى الحوار امس اعلن السيد نصر الله باسم حزب الله الموافقة على العودة الى طاولة الحوار والمشاركة فيها وبلا شروط داعيا قوى 14 اذار الى العودة بلا شروط اذا كانت فعلا خائفة قلقة على البلد وترى الى اين هو ذاهب واضاف: لكن من يقول يجب ان تستقيل الحكومة ويجب ويجب.. قبل الذهاب الى الحوار، فهذا لا يريد حوارا بل يريد سلطة.
وحول تشكيل حكومة الوحدة في الكيان الاسرائيلي رأى انها على الاعم الاغلب اسبابها داخلية تتعلق بالتركيبة الداخلية والانقسامات السياسية اكثر من موضوع حرب في المنطقة وهذا عنصر مطمئن لكن لا يعني عدم امكانية استخدامها في اي عدوان على لبنان او غزة او سورية او ايران والرد هو استمرار اليقظة والجهوزية.
وختم سماحته بالقول ان هذا البلد كما حررتموه بدمائكم وفلذات اكبادكم والقادة والشهداء من كل الاحزاب وكما استعدنا سيادتنا وحريتنا وارضنا واسرانا ان شاء الله سنحمي هذا البلد وهذا الجنوب وعيشه المشترك وسلمه وسنحمي الجنوب الذي هو الجبهة المتقدمة لحماية لبنان الذي كان 2006 الجبهة المتقدمة لحماية المنطقة، وان شاء الله معكم وبشجاعتكم وحكمتكم لن يكون هناك الا اعياد وانجازات وانتصارات.
83m:24s
12031
While They Are Fasting وهم صائمون - رمضان على...
ليس السلاح ما صنع المقاومة، بل الإنسان فيها». هذا ما خرج به ضياء أبو طعام، بعد يوم...
ليس السلاح ما صنع المقاومة، بل الإنسان فيها». هذا ما خرج به ضياء أبو طعام، بعد يوم أمضاه برفقة المقاومين، في مواقعهم السريّة، والمخفيّة عن العيون. في شريط وثائقي بعنوان «وهم صائمون»، تعرضه «المنار» عند العاشرة والنصف مساء غد، يصوّر يوميات صيام المقاومين على الجبهة، وخلف المدافع. ويعرض العمل جزءاً من حياة هؤلاء المقاتلين، (مع إخفاء الوجوه)، بكثير من الخفر وبصورة خالية من الاستعراض.
وكانت الفكرة الأساسية من الفيلم تمضية يوم كامل مع المقاومين في شهر رمضان، وفي موقع حقيقي، «لأننا تعوّدنا على رؤية المقاومة بأشكال مموّهة، ودائماً ما تكون مقرونة بالسلاح والصواريخ، لكن هناك جوانب أخرى لا يراها أحد عنهم، فحاولنا أن نعكس أشياء منها»، يقول أبو طعام. أمضى الصحافي مع المقاومين ساعات طويلة، بين تصوير وحديث وتأمّل. «حبكة الفيلم كلّها تقوم على تصوير المقاومين، والخروج بصورة لهم لم يرها أحد من قبل. وينقل الفيلم للمشاهد كيف ينامون وكيف يحضّرون إفطارهم وكيف يصلّون، وكيف يمضون الشهر الكريم على الجبهة، بعيداً عن عائلاتهم». وبحسب الفيلم، يبدأ يوم المقاومين في شهر الصوم فجراً، ثمّ ينهون مهامهم التي تحتاج إلى جهد كبير قبل الظهر، ليتابعوا مهام أخرى إلى آخر النهار، وأحياناً في الليل.. يحتفظون بنضارة وجوههم، ورغم ان إفطارهم يقوم على طعام بسيط جداً.
يخبرنا أبو طعام أنّ التحضيرات التي سبقت تصوير الفيلم، «تطلّبت الكثير من الوقت. لأننا كنا نحتاج للحصول على أذونات كثيرة، قبل التنفيذ». وأثناء التصوير، كان المكان مبهماً بالنسبة للفريق، ولم تتم معاينته من قبل، بل ارتكزت التحضيرات المسبقة على شرح شفهي قدّمه أحد عناصر المقاومة، رافقهم لاحقاً أثناء التصوير.
ويقول ضياء أبو طعام إنّ هذه التجربة جعلت «معنى المقاومة الحقيقي، يتجسّد تجسّداً في رأسي وقناعاتي. وقد تفاجأت كثيراً بما رأيته عن قرب، مع أني أعمل في قناة للمقاومة إلا أن معرفة المقاومين عن كثب تختلف كثيراً عن الرصد من بعيد». الهدف من فيلم «وهم صائمون» إذاً هو الدخول إلى مختبر المقاومة، والتعرّف إليها بشكلها العفوي.. في هذا الفيديو سيكون المشاهد أمام وثائقي يحكي كيف تنتج «المقاومة إنساناً وليس سلاحاً».
«وهم صائمون» انتاج قناة «المنار»
47m:12s
5432
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
44m:15s
20413
[FARSI] HAJJ Message 2013 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری...
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند.
متن این پیام كه روز دوشنبه بیست و دوم آبانماه ۱۳۹۲ توسط حجتالاسلام قاضیعسكر -نماينده ولی فقيه و سرپرست حجاج ایرانی- در مراسم برائت از مشركان در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
والحمدللّه ربّ العالمین و الصّلاة والسّلام علی سیّدالانبیاء و المرسلین و علی آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
فرا رسیدن موسم حج را باید عید بزرگ امّت اسلامی به شمار آورد. فرصت مغتنمی كه این روزهای گرانبها در همهی سالها برای مسلمانان جهان پدید میآورد، كیمیای معجزهگری است كه اگر قدر آن شناخته و چنانكه شایسته است به كار گرفته شود، بسیاری از آسیبها و آسیبپذیریهای دنیای اسلام، علاج خواهد شد.
حج، چشمهی جوشان فیض الهی است. یكایك شما حاجیان سعادتمند، اكنون این اقبال بلند را به دست آوردهاید كه در این اعمال و مناسكِ آكنده از صفا و معنویّت، دل و جان را شستشویی بسزا داده، از این منبع رحمت و عزّت و قدرت، ذخیرهای برای همهی عمر خویش بردارید. خشوع و تسلیم در برابر خدای رحیم، تعهّد به وظائفی كه بر دوش مسلمان نهاده شده است، نشاط و حركت و اقدام در كار دین و دنیا، رحم و گذشت در تعامل با برادران، جرأت و اعتماد به نفس در برابر حوادث دشوار، امید به كمك و دستگیری خداوند در همه جا و همه چیز، و كوتاهِ سخن ساخت و پرداخت انسانی در طراز مسلمانی را در این عرصهی الهیِ آموزش و پرورش، میتوانید برای خویش تدارك ببینید و خودِ آراسته به این زیورها و بهرهیافته از این ذخیرهها را برای كشور خویش و ملّت خویش و در نهایت برای امّت اسلامی، سوغات برید.
امّت اسلامی امروز بیش از هر چیز به انسانهایی نیاز دارد كه اندیشه و عمل را در كنار ایمان و صفا و اخلاص، و مقاومت در برابر دشمنان كینهورز را در كنار خودسازی معنوی و روحی، فراهم سازند. این یگانه راه نجات جامعهی بزرگ مسلمانان از گرفتاریهایی است كه یا آشكارا به دست دشمن و یا با سستیِ عزم و ایمان و بصیرت، از زمانهای دور در آنها فروافتاده است.
بیشك دوران كنونی، دوران بیداری و هویّتیابی مسلمانان است؛ این حقیقت را از خلال چالشهایی كه كشورهای مسلمان با آن روبهرو شدهاند نیز بروشنی میتوان دریافت. درست در همین شرایط است كه عزم و ارادهی متّكی به ایمان و توكّل و بصیرت و تدبیر، میتواند ملّتهای مسلمان را در این چالشها به پیروزی و سرافرازی برساند و عزّت و كرامت را در سرنوشت آنان رقم زند. جبههی مقابل كه بیداری و عزّت مسلمانان را بر نمیتابد، با همهی توان به میدان آمده و از همهی ابزارهای امنیّتی، روانی، نظامی، اقتصادی و تبلیغاتی برای انفعال و سركوب مسلمانان و به خود مشغول ساختنِ آنان بهره میگیرد. نگاهی به وضعیّت كشورهای غرب آسیا از پاكستان و افغانستان تا سوریّه و عراق و فلسطین و كشورهای خلیج فارس، و نیز كشورهای شمال آفریقا از لیبی و مصر و تونس تا سودان و برخی كشورهای دیگر، حقایق بسیاری را روشن میسازد. جنگهای داخلی؛ عصبیّتهای كور دینی و مذهبی؛ بیثباتیهای سیاسی؛ رواج تروریسم قساوتآمیز؛ ظهور گروهها و جریانهای افراطگر كه به شیوهی اقوام وحشی تاریخ، سینهی انسانها را میشكافند و قلب آنان را با دندان میدرند؛ مسلّحینی كه كودكان و زنان را میكشند، مردان را سر میبرند و به نوامیس تجاوز میكنند، و حتّی در مواردی این جنایات شرمآور و مشمئزكننده را به نام و زیر پرچم دین مرتكب میشوند؛ همه و همه محصول نقشهی شیطانی و استكباری سرویسهای امنیّتی بیگانگان و عوامل حكومتی همدست آنان در منطقه است كه در زمینههای مستعدّ داخلی كشورها امكان وقوع مییابد و روز ملّتها را سیاه و كام آنان را تلخ میكند. یقیناً در چنین اوضاع و احوالی نمیتوان انتظار داشت كه كشورهای مسلمان، خلأهای مادّی و معنوی خود را ترمیم كنند و به امنیّت و رفاه و پیشرفت علمی و اقتدار بینالمللی كه بركات بیداری و هویّتیابی است، دست یابند. این اوضاع محنتبار، میتواند بیداری اسلامی را عقیم و آمادگیهای روحی پدید آمده در دنیای اسلام را ضایع سازد و بار دیگر، سالهای دراز، ملّتهای مسلمان را به ركود و انزوا و انحطاط بكشاند و مسائل اساسی و مهمّ آنان همچون نجات فلسطین و نجات ملّتهای مسلمان از دستاندازی آمریكا و صهیونیسم را به دست فراموشی بسپارد.
علاج بنیانی و اساسی را میتوان در دو جملهی كلیدی خلاصه كرد كه هر دو از بارزترین درسهای حج است:
اوّل: اتّحاد و برادری مسلمانان در زیر لوای توحید،
و دوّم: شناخت دشمن و مقابله با نقشهها و شیوههای او.
تقویت روح اخوّت و همدلی، درس بزرگ حج است. در اینجا حتّی جدال و درشتگویی با دیگران ممنوع است. پوشش یكسان و اَعمال یكسان و حركات یكسان و رفتار مهربان در اینجا به معنی برابری و برادریِ همهی آن كسانی است كه به این كانون توحید معتقد و دلبستهاند. این ردّ صریح اسلام بر هر فكر و عقیده و دعوتی است كه گروهی از مسلمانان و معتقدان به كعبه و توحید را از دائرهی اسلام بیرون بداند. عناصر تكفیری كه امروز بازیچهی سیاست صهیونیستهای غدّار و حامیان غربی آنان شده و دست به جنایتهای سهمگین میزنند و خون مسلمانان و بیگناهان را میریزند، و كسانی از مدّعیان دینداری و ملبّسین به لباس روحانیّت كه در آتش اختلافات شیعه و سنّی و امثال آن میدمند، بدانند كه نفس مراسم حج، باطلكنندهی مدّعای آنان است. شگفتا! كسانی كه مراسم برائت از مشركان را كه ریشه در عمل پیامبر اعظم صلّیاللّه علیه و آله و سلّم دارد، جدال ممنوع قلمداد میكنند، خود از مؤثّرترین دستاندركاران ایجاد منازعههای خونین میان مسلمانانند. اینجانب همچون بسیاری از علمای اسلام و دلسوزان امّت اسلامی بار دیگر اعلام میكنم كه هر گفته و عملی كه موجب برافروختن آتش اختلاف میان مسلمانان شود و نیز اهانت به مقدّسات هر یك از گروههای مسلمان یا تكفیر یكی از مذاهب اسلامی، خدمت به اردوگاه كفر و شرك و خیانت به اسلام و حرام شرعی است.
شناخت دشمن و شیوههای او نیز دوّمین ركن است. اوّلاً وجود دشمن كینتوز را نباید به دست غفلت و فراموشی سپرد و مراسم چندبارهی رمی جمرات در حج، نشانهی نمادین این حضور ذهن همیشگی است. ثانیاً در شناخت دشمن اصلی كه امروزه همان جبههی استكبار جهانی و شبكهی جنایتكار صهیونیسم است، نباید دچار خطا شد. و ثالثاً شیوههای این دشمن عنود را كه تفرقهافكنی میان مسلمانان، و ترویج فساد سیاسی و اخلاقی، و تهدید و تطمیع نخبگان، و فشار اقتصادی بر ملّتها، و ایجاد تردید در باورهای اسلامی است، باید بخوبی تشخیص داد و وابستگان و ایادیِ دانسته و نادانستهی آنان را از این راه شناسایی كرد.
دولتهای استكباری و پیشاپیش آنان آمریكا، به كمك ابزارهای رسانهای فراگیر و پیشرفته، چهرهی واقعی خود را میپوشانند و با دعوی طرفداری از حقوق بشر و دموكراسی، رفتاری خدعهآمیز در برابر افكار عمومی ملّتها در پیش میگیرند. آنان در حالی دم از حقوق ملّتها میزنند كه ملّتهای مسلمان، هر روز بیشتر از گذشته، آتش فتنههای آنان را با جسم و جان خود لمس میكنند. یك نگاه به ملّت مظلوم فلسطین كه دهها سال است روزانه زخمِ جنایات رژیم صهیونیستی و حامیانش را دریافت میكند؛ یا به كشورهای افغانستان و پاكستان و عراق كه تروریسمِ زاییدهی سیاستهای استكبار و ایادی منطقهای آنان، زندگی را به كام ملّتهای آنان تلخ كرده است؛ یا به سوریّه كه به جرم پشتیبانی از جریان مقاومت ضدّ صهیونیستی، آماج كینهی سلطهگران بینالمللی و كارگزاران منطقهای آنان شده و به جنگ خونین داخلی گرفتار آمده است؛ یا به بحرین یا به میانمار كه در هر یك به نحوی، مسلمانان محنتزده و مغفول، و دشمنانشان مورد حمایتند؛ یا به ملّتهای دیگری كه از سوی آمریكا و متّحدانش، پیدرپی به تهاجم نظامی یا تحریم اقتصادی یا خرابكاری امنیّتی تهدید میشوند؛ میتواند چهرهی واقعی این سردمداران نظام سلطه را به همه نشان دهد. نخبگان سیاسی و فرهنگی و دینی در همه جای جهان اسلام باید خود را به افشای این حقایق، متعهّد بدانند. این وظیفهی اخلاقی و دینی همهی ما است. كشورهای شمال آفریقا كه متأسّفانه امروز در معرض اختلافات عمیق داخلی قرار گرفتهاند، بیش از همه باید به این مسئولیّت عظیم، یعنی شناخت دشمن و شیوهها و ترفندهایش توجّه كنند. ادامهی اختلافات میان جریانهای ملّی و غفلت از خطر جنگ خانگی در این كشورها، خطر بزرگی است كه خسارت آن برای امّت اسلامی به این زودیها جبران نخواهد شد.
ما البتّه تردید نداریم كه ملّتهای بهپاخاستهی آن منطقه كه بیداری اسلامی را تجسّم بخشیدند، بإذنالله اجازه نخواهند داد كه عقربهی زمان به عقب برگردد و دوران زمامداران فاسد و وابسته و دیكتاتور، تكرار شود، لیكن غفلت از نقش قدرتهای استكباری در فتنهانگیزی و دخالتهای ویرانگر، كار آنان را دشوار خواهد كرد و دوران عزّت و امنیّت و رفاه را سالها به عقب خواهد افكند. ما به توانایی ملّتها و قدرتی كه خداوند حكیم در عزم و ایمان و بصیرت تودههای مردم قرار داده است، از اعماق دل باور داریم و آن را در بیش از سه دهه در جمهوری اسلامی ایران، به چشم خود دیده و با همهی وجود خود آزمودهایم؛ همّت ما، فراخوان همهی ملّتهای مسلمان به این تجربهی برادرانشان در این كشور سرافراز و خستگیناپذیر است.
از خداوند متعال صلاح حال مسلمانان و دفع كید دشمنان را خواستارم و حجّ مقبول و سلامت جسم و جان و ذخیرهی سرشار معنوی را برای همهی شما حجّاج بیتالله مسألت میكنم.
والسّلام علیكم و رحمة اللّه
سیّد علی خامنهای
پنجم ذیالحجّه ۱۴۳۴ مصادف با ۱۹ مهرماه ۱۳۹۲
14m:43s
9541
جہاد، نام بھی اور کام بھی | فارسی ترانہ |...
جہاد، نام بھی اور کام بھی | فارسی ترانہ | اُردو سبٹائٹل
یہ ترانہ انقلابی ترانہ...
جہاد، نام بھی اور کام بھی | فارسی ترانہ | اُردو سبٹائٹل
یہ ترانہ انقلابی ترانہ خواں حامد زمانی کا پڑھا ہوا ہے، جو انہوں نے اسرائیل کی بَلائے جان یعنی شہید جہاد مغنیہ کے بارے میں پڑھا ہے۔
شہید جہاد مغنیہ وہ ہیں جن کے بابا یعنی عماد مغنیہ بھی اسرائیل کی آنکھ میں کانٹا تھے۔ اور انہی کی طرح آخر کار مقامِ شہادت پر فائز بھی ہوگئے۔
شہید جہاد مغنیہ اِس بات پر ہمیشہ فخر کرتے تھے کہ وہ ایسے پرچم تلے اسلام دشمن عناصر کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، جسے امام خمینیؒ جیسی ہستی نے بلند کیا ہے۔
ولایت میڈیا اس ترانے کو اُردو زبان میں سبٹائٹل کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہے۔
#ویڈیو #حامدزمانی #ترانہ #جہاد #ولایت_فقیہ #عمادمغنیہ #جہادمغنیہ
6m:39s
6065
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
jihad,
farsi,
tarana,
hamid,zamani,
israel,
shaheed,
mujhniya,
imaad,
islam,
dushman,
imam,
khomeini,
سپاہِ پاسداران پر سلام | ولی امرِ مسلمین...
سپاہِ پاسداران پر سلام | ولی امرِ مسلمین جہان
کون ہیں یہ لوگ جو ہمارے لیے امن...
سپاہِ پاسداران پر سلام | ولی امرِ مسلمین جہان
کون ہیں یہ لوگ جو ہمارے لیے امن وامان فراہم کرتے ہیں؟ کیا ہم اُن کی قدروقیمت جانتے ہیں؟ کیا ہم اُنہیں پہچانتے ہیں؟
خداکا درود ہو سپاہ پاسداران اورباقی امن وامان کی حفاظت کرنے والے عناصر پر پولیس پر،فوج پراور دوسرے ایسے عناصرپر کہ جو اِس طرح کی قربانیاں دیتے ہیں اور اپنی جان(تک) دے دیتے ہیں۔یہ انقلاب ،یہ قومی عزت،یہ امن وامان اِن قربانیوں کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #سپاہ #شہید #امن #سعودیہ #پاکستان
3m:9s
9389
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
sipah,
pasdaran,
salam,
waliamr,
muslimeen,
jahan,
durud,
hifazat,
police,
foj,
qurbanian,
inqilab,
qomi,
izat,
اسلامی دنیا کے ساتھ ایک بڑی خیانت | امام...
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!
ولی امرِ...
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ متحدہ عرب امارات کی خطے کے ممالک، مسئلہ فلسطین اور اسلامی دنیا کے ساتھ ایک بہت بڑی خیانت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ متحدہ عرب امارات نے کونسی تاریخی خیانت انجام دی ہے؟ متحدہ عرب امارات کی پیشانی پر کونسا سیاہ دھبہ ہمیشہ باقی رہے گا؟ فلسطینی قوم کے خلاف کون سے عناصر اپنی شیطانی کارستانیوں میں مشغول ہیں؟
بعض عرب ممالک کی تاریخی خیانت سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے امریکی اور صیہونی نمک خوار سرگرم ہیں۔ تمام مسلمان شعور اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قبلہ اول اور مظلوم فلسطینیوں کو فراموش نہ کریں۔
اِس موضوع پر مزید جاننے کے لیے اِس ویڈیو پر کلک کیجئے۔
#ویڈیو #متحدہ_عرب_امارات #اسلامی_دنیا #خیانت #عرب_دنیا #خطے_کے_ممالک #سیاہ_دھبہ #یہودی #ٹرمپ
2m:7s
11130
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
UAE,
islami
dunya,
khiyanat,
sayyid
ali
khamenei,
wali
amre
muslemeen,
yahood,
islam,
trump,
netanyahu,
america,
israel,
imaraat,
mamalik,
dhabba,
palestine,
falastine,
qaum,
shaytani,
mazloom,
arab
mamalik,
sahyooni,
musalman,
shaoor,
baseerat,
qibla
e
awwal,
استکباری طاقتوں کی مقاومتی بلاک سے ٹکّر...
مطیع ولایت سیّد حسن نصراللہ خطّے میں دشمن کے لیے رکاوٹ اور مقاومت کا سبب بننے...
مطیع ولایت سیّد حسن نصراللہ خطّے میں دشمن کے لیے رکاوٹ اور مقاومت کا سبب بننے والے عناصر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مرکزِ مقاومت کون کون سے ممالک ہیں؟ امریکہ کو کن ممالک کے ساتھ مسئلہ ہے؟ امریکہ کن ممالک کے ساتھ دُشمنی رکھتا ہے؟ کیا یہ دشمنی صرف ممالک تک محدود ہے یا افراد کے خلاف بھی ہے؟ اس دشمنی کی بنیاد کیا ہے؟
#ویڈیو #استعماری_طاقتیں #مقاومت_کا_مرکز #ایران #شام #لبنان #عراق #یمن #تحریک #بیداری #امریکہ #مغرب #تیل #گیس #ذخائر
1m:34s
2035
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
istekbari,
taqatein,
muqawemati,
takrav,
sayyid
hasan
nasrallah,
wilayat,
dushman,
rukawat,
markaz,
mamalik,
amrika,
masla,
afraad,
khilaf,
bunyad,
iran,
sham,
lebanon,
iraq,
yemen,
tehreeke
bedari,
maghrib,
tel,
gas,
zakhair,
sahyoonism,
zionism,
sahyooneest,
zionists,
israel,
اسلامی انقلاب میں کامل آزادی | امام...
دنیا میں جو سیکولر اور کمیونسٹ انقلابات آئے انہوں نے اپنی بقا اور استحکام اس بات...
دنیا میں جو سیکولر اور کمیونسٹ انقلابات آئے انہوں نے اپنی بقا اور استحکام اس بات میں سمجھی کہ ان کی فکر و نظر کے علاوہ کوئی دوسری فکر و نظر کو معاشرے میں بیان کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ آج بھی لبرل اور سیکولر طاقتیں اور حقوقِ بشر کے نعرے لگانے والے سوشل میڈیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ان پر تنقید کرنے والوں اور ان کے افکار اور آراء سے ہٹ کر بات کرنے والوں کے اکاونٹ ختم کر دیتے ہیں اور پست ترین کاموں اور اوچھے ہتھکنڈے انجام دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن الحمد اللہ اسلامی انقلاب کی برکتوں میں سے ایک برکت فکر و نظر کی آزادی ہے آج اسلامی نظام کے اندر کئی ایسے مفکرین اور دانشور ہیں جو اپنی آراء اور افکار کو بغیر کسی خوف و خطر کے کُھل کر بیان کرتے ہیں البتہ وہ عناصر جو دنیا کی شیطانی طاقتوں کے بالواسطہ یا بلا واسطہ آلہ کار ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف فتنہ و فساد اور اسلامی معاشرے کی تباہی ہے، ان کا حساب کتاب جُدا ہے۔
اِس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #اسلامی_انقلاب #کامل_آزادی #بغاوتیں #انقلابات #رعب #وحشت #بدعنوانی #ذرائع_ابلاغ #سزا
2m:0s
1592
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
islami
inqelab,
kamil
azadi,
imam
khomeini,
secular,
communist,
inqelab,
istehkam,
fikr
o
nazar,
ijazat,
liberal,
huqooqe
bashar,
social
media,
tanqeed,
hathkande,
dareeg,
barkat,
islami
nizam,
mufakkir,
danishwar,
khauf,
shaytani,
fitna,
fasad,
tabahi,
hisab,
kitab,
khuda,
حج کا پیغام (2021) | رہبر معظم آیت اللہ...
حج، امت مسلمہ کی وحدت اور عظمت
عظیم عبادات میں سے ایک عبادت، بیتِ الہی میں حج...
حج، امت مسلمہ کی وحدت اور عظمت
عظیم عبادات میں سے ایک عبادت، بیتِ الہی میں حج بجا لانے کی عبادت ہے، کیا اس سال یہ عظیم عبادت انسانوں کو: نصیب ہوئی یا نہیں؟ رہبر معظم اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ
جس عبادت سے انسان کو معنویت کا عروج ملتا تھا، گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی اس نے فراق کے غم سے غمزدہ کر دیا ہے۔ یہ حقیقت میں انسان کے امتحانات میں سے ایک امتحان ہے۔
یہ عظیم عبادت ایک طرف سے انسان کو قربِ الہیٰ کی منزل عطا کرتی ہے تو دوسری جانب سے دنیا کے تمام انسانوں کو ان کی مختلف ثقافتوں کے باوجود، وحدت کے رنگ میں رنگ دیتی ہے اور وہ ایک ہی لباس میں ذات الہیٰ کی بارگاہ میں امتِ واحدہ بن کر تسلیم ہوتے ہیں۔ اور اسی امتِ مسلمہ کی شان اور عظمت کو بھی عیان کرتی ہے۔
گرچہ یہ حج ابھی نصیب نہیں، لیکن وہ مناسک اور دعائیں موجود ہیں جو انسان کی معنویت کو اپنی عروج پر پہنچا سکتی ہیں اور اسی کے ساتھ ہمیں چاہیے کہ اسلام دشمن طاقتوں اور عناصر سے ہمیشہ مقاومت کرتے رہیں۔ اسلام کے مجاہدین کی نصرت، خدا کا سچا وعدہ ہے۔
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #حج #پیغام_حج #اسلام #مکہ
10m:37s
7691
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
hajj,
paygham,
rahbar,
imam
khamenei,
ommat,
muslem,
musalman,
islam,
wahdat,
eazemat,
ebadat,
insan,
euroj,
feraq,
haqiqat,
emtehan,
donya,
wahdat,
dua,
mujahed,
Makkah,
حضرت عباس علمدارؑ کی بصیرت اور وفاداری |...
عباسؑ سا دنیا نے دلاور نہیں دیکھا
اک شخص میں سمٹا ہوا لشکر نہیں دیکھا
دریا پہ...
عباسؑ سا دنیا نے دلاور نہیں دیکھا
اک شخص میں سمٹا ہوا لشکر نہیں دیکھا
دریا پہ کرے قبضہ مگر پانی نہ چکھے
تاریخ نے پھر ایسا بہادر نہیں دیکھا
\"ارشادِ مفید\" اور \"لہوفِ سید ابن طاؤس\" جیسی معتبر روایات کی روشنی میں؛ یزیدیت کے سازشی عناصر کے امان نامے اور امام حسینؑ کو تنہا چھوڑ دینے کی پیش کش کو ٹھکرا کر؛ بصیرت، وفاداری اور شہادت کا تمغہ سینے پر سجانے والے برادرِ امام حسینؑ، جنابِ زہراؑ و ثانیِ زہراؑ کے دل کے چین، فرزندِ امیر المومنینؑ، وارثِ ہیبت و شجاعتِ علیؑ، عباسِ با وفاؑ ، علمدارِ کربلاؑ کی شہادت کا تذکرہ؛ علمدارِ انقلابِ اسلامی، وقت کی غربی-عربی-عبری یزیدیت کے غرور کو خاک میں ملانے والے، امام حسینؑ کے حقیقی وارث اور فرزند، منتقم محمدؐ و آل محمدؐ، امام زمانہؑ کے ظہور کی زمینہ سازی کرنے والے، ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی زبانی، ضرور ملاحظہ فرمائیں ۔
#وفاداری #بصیرت #امام_حسین #تاسوعا #ولی_امر_مسلمین #کربلا #معتبر_روایات #سید_ابن_طاؤس #امام #خون #شہید #زیارت #محرم #حضرت_عباس #عباس_علمدار #بہادری #مدینہ #ارشاد_مفید #امان_نامہ #سید_علی_خامنہ_ای #پانی #نہر_فرات #دریائے_فرات #علی_اصغر #پیاس
6m:19s
12056
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
jannat,
imam,
imam
hussain,
hazrat,
hazrat
zainab,
qafela
salar,
Aman
nama,
tasoa,
ashura,
basirat
wafadari,
wali
amr
muslimeen,
hazrat
abbas,
darya,
forat,
abbas
alamdar,
alamdar,
ali
asgher,
pias,
imam
sayyid
ali
khamenei,
imam
khamenei,
ایران میں تخریبی کاروائیوں کی حقیقت |...
حالیہ دنوں میں مہسا امینی نامی نوجوان خاتون کی موت کے بعد ایران میں بعض مظاہرین...
حالیہ دنوں میں مہسا امینی نامی نوجوان خاتون کی موت کے بعد ایران میں بعض مظاہرین کی جانب سے جو کشیدگی پیش آئی جس کے نتیجے میں بعض شرپسند عناصر نے سرکاری اور عوامی املاک کو کافی نقصان پہنچانے کے ساتھ مذہبی مقدسات کی توہین بھی کی اور قرآن کریم سمیت مسجد اور امام بارگاہوں کو بھی نذر آتش کیا۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنازعات اور تخریبی کاروائیاں مہسا امینی کی موت کے رد عمل کا طبیعی نتیجہ تھیں؟ یا اسکے پیچھے ایران دشمن طاقتوں کے مذموم عزائم پر مشتمل منصوبہ بندی کار فرما تھی؟ اور اس کشیدگی کے پیچھے کونسی طاقتوں کا ہاتھ تھا؟ اس سلسلے میں ولی امر مسلمین کا حقایق پر مبنی بیان کیا کہتا ہے؟ چنانچہ اس ضمن میں آگاہی کیلئے مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے تناظ میں ولی امر مسلمین کی جانب سے دیے جانے والے خطاب کا خلاصہ اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #نوجوان_خاتون #تہران #اخلاقی_پولیس #رد_عمل #منصوبہ_بندی #امریکہ #غاصب_صہیونی_حکومت #تخریبی_کاروائیاں #نذر_آتش #واقعہ
2m:35s
9330
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
iran,
imam,
imam
khamenei,
islam,
iran,
ghaseb,
nzr,
wali
amr
muslimeen,
muslim,
america,
no
jawan,
hokomat,
تمام مسائل کی بنیاد، امنیت پر قائم ہے |...
کسی بھی ملک کی ترقی کا دار و مدار امینت پر منحصر ہے۔ اگر کسی سماج میں امنیت کا...
کسی بھی ملک کی ترقی کا دار و مدار امینت پر منحصر ہے۔ اگر کسی سماج میں امنیت کا فقدان ہو تو وہ سماج کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا کیونکہ امنیت انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی اساس ہے اور اسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، اگر چنانچہ کسی بھی ملک اور سماج کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہو تو ضروری ہے کہ اس سماج اور ملک کے لوگوں کو زندگی کےتمام میدانوں میں امنیت پر توجہ دینا ہوگی۔ امنیت کے باب میں ایک چیز جسکو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے وہ ان افراد کی شناخت اور قدردانی ہے جو امنیت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں، اور انکی شب و روز کی کوششوں کے نتیجے میں ملک کی سرحدوں سے لیکر قومی شاہراہوں اور شہروں تک کی فضا پرامن رہتی ہے اور انکی فداکاری کی اعلاء مثال یہ ہے کہ وہ بسا اوقات امن مخالف عناصر اور جرائم پیشہ افراد کا مقابلہ کرتے ہوئے قومی سالمیت کی خاطر جام شہادت تک نوش کرتے ہیں ۔
وہ کون لوگ ہیں جو امنیت کے محافظ ہیں؟ کیا ہم انکی شناخت رکھتے ہیں؟ اور کیا ہم انکی قدردانی کرتے ہیں؟ اگر امنیت کے محافظ قومی سلامتی اور امنیت کی فراہمی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں تو انکا مقام کیا ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات کو آپ، ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #امنیت #امن_عامہ #پریشانی #اصرار #ذاتی_مسائل #احساس_تحفظ #یونیورسٹی #حوزہ_علمیہ #اہلخانہ #سرمایہ_کاری #پیشرفت
2m:27s
9403
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
iran,
imam,
imam
khamenei,
islam,
iran,
tamam
masael,
amniat,
qaim,
imam
sayyid
ali
khamenei,
parishani,
ehsas,
ahlkhane,
semaya
kari,
pishraft,
امریکی باتوں کو دُہرانا! | امام سید علی...
عام طور پر جمہوری اسلامیہ کے عہدیداروں کی ذمہ داری انقلاب اسلامی سمیت ملکی نظام...
عام طور پر جمہوری اسلامیہ کے عہدیداروں کی ذمہ داری انقلاب اسلامی سمیت ملکی نظام اور اسکی داخلی اور خارجہ پالیسی کا بھر پور دفاع کرنا ہے اور انہیں کبھی بھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جو ملک کی سیاست کے خلاف اور دشمن کے مفاد میں ہو، تاہم بعض عہدیداران دانستہ یا نادانستہ طور پر بسا اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو دشمن کے مفاد میں ہوتی ہیں اور وہ گویا دشمن کی زبان میں بات کر رہے ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ انکے منہ میں دشمن کی زبان رکھ دی گئی ہو جو قابل افسوس ہونے کے ساتھ حیرت انگیز بھی ہے، کبھی بھی اسلامی جمہوریہ کے عہدیداروں میں سے کسی کو بھی کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے ایسا لگے کہ وہ دشمن کی باتوں کو ہی دُہرا رہے ہیں۔ خواہ وہ قُدس فورس کے بارے میں ہوں یا پھر شہید حاج قاسم سلیمانیؒ کی شخصیت کے بارے میں! ملک کے حکمرانوں اور عہدیداروں کو تمام مسائل میں ملک کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان دینے کی ضرورت ہے اور ملک کی پالیسی کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے۔
ملکی سیاست میں کونسے کونسے عناصر شامل ہیں؟ ملکی عہدیداروں کو کس طرح آگے بڑھنا چاہئے؟ ملکی سیاست کے حوالے سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے؟ \"قُدس فورس\" نے مغربی ایشیا میں کونسا اہم کردار ادا کیا ہے؟ دشمن کو \"قُدس فورس\" سے کیونکر خوف لاحق ہے اور\"قُدس فورس\" کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی کو کس لئے شہید کردیا گیا؟ انہی تمام سوالات سے آگاہی کیلئے رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #جمہوریت #عہدیدار #باتیں #ایران #قدس_فورس #مغربی_ایشیا #سفارت_کاری #عنصر #ملک #شہید_سلیمانی #خارجہ_پالیسی #سفارت_کاری #امریکہ
2m:51s
8596
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
America,
Imam,
Imam
Khamenei,
Islam,
Islami
jumhuri,
enqelab,
enqelab
Islami,
nezam,
defae,
siyasat,
dushman,
quds,
Quds
force,
haj
qasim,
qaseem
soleimani,
mulk,
maghreb,