[Short Clip] کراچی کے موجودہ حالات کے متعلق...
[Short Clip] سوشل میڈیا پر پھیلایا جانے والا منفی پروپیگنڈا اور کراچی کے موجودہ حالات...
[Short Clip] سوشل میڈیا پر پھیلایا جانے والا منفی پروپیگنڈا اور کراچی کے موجودہ حالات کے متعلق اہم تجزیہ- Urdu
حجۃ الالسلام سید علی مرتضی زیدی
11m:58s
11478
[ اسکرین کے زیادہ استعمال سے آنکھ لال...
[ اسکرین کے زیادہ استعمال سے آنکھ لال ہونے کا مسئلہ حل کرنے والا سوفٹ ویئر [ نسیم...
[ اسکرین کے زیادہ استعمال سے آنکھ لال ہونے کا مسئلہ حل کرنے والا سوفٹ ویئر [ نسیم زندگی - urdu
1m:23s
2005
Video Tags:
Naseem-e-Zindgi,,Screen,,kay,,Ziydah,,Istimal,,Say,,Aankh,,Lal,,Honay,,Ka,,Masala,,Hal,,Lernay,,Wala,,soft
Video Tags:
Dehshat,,Gerdi,,Ka,,Jald,,Khatima,,Honay,,Wala,,Hay,,Sadar,,Bashar,,Ul,,Asad,,Sahar,,Urdu,,News
[09Mar2019] انقلاب میں یقین نہ رکھنے والا...
[09Mar2019] انقلاب میں یقین نہ رکھنے والا طالب علم، ملک کے کسی کام کا نہیں - Urdu
[09Mar2019] انقلاب میں یقین نہ رکھنے والا طالب علم، ملک کے کسی کام کا نہیں - Urdu
0m:49s
1655
Video Tags:
Inqilab,,Isalmi,,main,,Yaqeen,,Na,,Rakhnay,,Wal,,Talib,,Ilm,,Mulk,,Kay,,Kisi,,Kam,,Ka,,Nahi
افغانستان میں تباہ ہونے والا طیارہ...
افغانستان میں تباہ ہونے والا طیارہ امریکی فوج کا تھا - 27 جنوری 2020 - Urdu
افغانستان میں تباہ ہونے والا طیارہ امریکی فوج کا تھا - 27 جنوری 2020 - Urdu
1m:47s
1498
Video Tags:
Afghanistan,,main,,Tabah,,Honay,,Wala,,Tiyarah,,Amrici,,Fauj,,Ka,,Thaa,,sahar,,Urdu,,News
Video Tags:
Amrica,,Apni,,Herkatoon,,Say,,Baz,,Any,,Wala,,Nahi,,Sahar,,Urdu,,News
کیا دولت سے انسان خدا کےنزدیک عزت والا...
کیا دولت سے انسان خدا کےنزدیک عزت والا بن جاتا ہے ؟؟
خدا کے نزدیک معیار کیا ہے...
کیا دولت سے انسان خدا کےنزدیک عزت والا بن جاتا ہے ؟؟
خدا کے نزدیک معیار کیا ہے
Maulana Syed Ahmed Ali Naqvi | Urdu
5m:35s
1643
069 | Hifz e Mozoee I قرآن؛ تمام ضروریات بشر کو...
Hifz-e-Mozoee (Har Roz Quran o Ahlebait(A.S) k Sath) | ہر روز قرآن و اہلبیت علیہم السلام
(Lessons...
Hifz-e-Mozoee (Har Roz Quran o Ahlebait(A.S) k Sath) | ہر روز قرآن و اہلبیت علیہم السلام
(Lessons of Life For The Whole Year 365 Days)
(حفظ موضوعی 365 موضوعات)
Explanator: Dr.Syed Ali Abbas Naqvi
Tilawat: Qari Muhammad Zaman
Translation: Sheikh Mohsin Najfi (#Balagh_ul_Quran)
Translation Voice: Syed Wajahat Hussain Rizvi
#har_roz_quran_o_ahlebait_k_sath
#tanzil_media_house
#tafseer_e_quran
1m:46s
1071
خدا کے سوا اور کون بخشنے والا ہے؟ | آیت...
مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ \"اور خدا کے علاوہ کون گناہوں کا...
مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ \"اور خدا کے علاوہ کون گناہوں کا معاف کرنے والا ہے؟\" (سورہ آلِ عمران، آیہ، 135)
دینِ مبینِ اسلام میں قاضی کے لیے ایک مجرم سے برتاو کے دوران کیا چیز مستحب ہے؟ کیا حقوق اللہ کی خلاف ورزی پر مجرم کے جرم سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟کیا شرعی حدود حقوق بشر کے خلاف ہیں؟ دین مبین اسلام میں قصاص کیوں رکھا گیا ہے؟ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ایک زنا کا مرتکب ہونے والے شخص سے کس طرح سے پیش آتے ہیں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم زنا کے مرتکب شخص سے کس طرح پیش آتے ہیں؟ کیا ہمیں اپنے عیوب کو فاش کرنا چاہیے؟ خدا وندِ متعال اپنے گناہ گار بندوں سے کس طرح پیش آتا ہے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے آیت اللہ سید عبد اللہ فاطمی نیا کی اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #قاضی #مستحب #خدا #بخشنے_والا #پیارا_دین #شراب #زنا #شرعی_حدود #امیر_المومنین #رسول_خدا #عیب #استغفار
3m:28s
1950
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
ayatollah,
ayatollah
fatemi
nia,
khoda,
bakhshne
wala,
mojrem,
deen,
amiralmomeneen,
rasool,
esteqfar,
pyara,
pyara
deen,
mostahab,
qazi,
video,
[Manqabat] 15 Shaban Manqabat 2022 | Jab Aane Wala Ayega | Shadman Raza...
15 Shaban Manqabat 2022
Jab Aane Wala Ayega
Shadman Raza
Imam Mehdi Manqabat 2022
#15ShabanManqabat #ShadmanRaza #SabeeleMawaddat #ImamMahdi...
15 Shaban Manqabat 2022
Jab Aane Wala Ayega
Shadman Raza
Imam Mehdi Manqabat 2022
#15ShabanManqabat #ShadmanRaza #SabeeleMawaddat #ImamMahdi #15Shaban
-----------
Title: JAB AANE WALA AYEGA جب آنے والا آئے گا
Reciter: Syed Shadman Raza Naqvi
Poet: Dr Payam Azmi (India)
Composition: Shadman Raza
Chorus: Shabih Jafry, Zeeshan Jafry, Ahsan Jafry & Ali Jafry
Audio: Studio 92 (Shabih Raza)
Video: Turab Zaidi
Media Team: Sajjad Purikpa
Special Thanks: Imran Raza (Al Asr) & Mirza Hasan Mujtaba
Produced by: Sabeel e Mawaddat
----------------------------------------------------------------------------------
Produced By: Sabeel e Mawaddat
© 2022 Sabeel e Mawaddat. All rights reserved.
----------------------------------------------------------------------------------
➽ Subscribe ➽ https://bit.ly/3bwX9tV🔔 Stay updated!
Keep visiting for more updates:
✔ Youtube: https://www.youtube.com/SabeeleMawaddat
✔ Facebook: https://www.facebook.com/SabeeleMawaddat
✔ Instagram: https://www.instagram.com/SabeeleMawaddat
------------------------------------------------------------------------------
کلام :جناب پیام اعظمی صاحب
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
اک روز یه منظر بدلے گا اک دن یه چمن لهرائے گا
گلشن میں چلے گی ایسی ہَوا یہ دورِ خزاں مٹ جائے گا
یہ دھرتی سونا اگلے گی یہ چرخ گہر برسائے گا
اک دن یہ نظام ظلم و ستم خود ظالم کو رُلوائے گا
خنجر کا کلیجہ کانپے گا تلوار کا سر چکرائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
سب تیر و کماں کیا نوک سناں کیا گرز گراں کیا تیغ دو دم
کیا ٹینک اور کیسے میزائیل کیا راکٹ کیسے آیٹم بم
سامانِ ہَوس اسبابِ ستم ریگن کی زباں رشدی کا قلم
انساں کا لہو پینے والے انسان کی صُورت میں یہ صنم
کھل جائے گا ایک اک کا بھرم جب پَردہ وہ سر کائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
گونجی گی صدا ئے جاء الحق جب سورج چاند ستاروں سے
کچھ کر نہ سکیں گیں اہل ستم تب مصیوعی سیاروں سے
ٹکرایں گے خود ہی آپس میں جب طیارے طیاروں سے
دم بھرت میں نکل جائیگی ہوا طاقت کے سبھی غباروں سے
جب زورِ الہی کا وارث اپنی طاقت دکھلائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
ٹوٹے گا جب طلسمِ و لعل و گہر پھوٹے گا مقدر ڈالر کا
نیزوں کی چمک بجھ جائے گی اُڑ جائے گا پانی خنجر کا
اے اہل جفا کیوں کرتے ہو چرچا یوں فوج و لشکر کا
تم مرحب و عنتر کے بیٹے وہ لال ہے شیر داور کا
زہرا کی دعا ہے سینہ سپر کون اس سے بھلا ٹکرائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
مانا کہ ابھی ہیں دہن صحرا صحرا گلشن گلشن
مانا کہ ہیں صدیوں کے پیاسے یہ لالہ و گل یہ سرو سمن
پتی پتی ہے خشک زباں ڈالی ڈالی ہے تشنہ دہن
اللہ کی رحمت سے لیکن مایوس نہ ہو اربابِ چمن
وہ بادل اٹھنے والا ہےجو سب کی پیاس بجھائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
اے وادی نجد کے راہزنوں کیوں ہم کو آنکھ دکھاتے ہو
جو بھیک میں مانگ کے لائے ہو اس طاقت پر اتراتے ہو
مہماں کا خون بہاتے ہو ایماں کا نقش مٹاتے ہو
کھاتے ہو پیمبرِؐ کا صدقہ اور امّت پر غرّاتے ہو
اک روز بتوں کی طرح تمہیں کعبہ سے نکالا جائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
ظلمات کی کالی راتوں کا رکھو گے نام سحر کب تک
یہ نشر و اشاعت کے مرکز چھاپیں گے جھوٹی خبر کب تک
ڈالیں گے حقائق پر پردہ الفاظ کے بازی گر کب تک
یوں مسند علم پہ بیٹیھیں گے انسان نما پتھر کب تک
کب تک آخر باطل کا گلا دنیا میں شور مچائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
اک روز یہ تم سے پوچھیں گے بیدار مقدّر کس کا ہے
کس کی ہے ہوا کس کا ہے خلا نظم مہ و اختر کس کا ہے
کس کا ہے تسلّط صحرا پر گلشن میں گُلِ تر کس کا ہے
پانی پہ مصلّی بچھنے دو تب کہنا سمندر کس کا ہے
جب اپنا سفینہ ابھرے گا طوفان کا سر چ؛رائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
یوروپ کی زمیں تھرّاتی ہے رشدی کی حفاظت کیا ہوگی
فتوے سے تو دنیا ہلنے لگی تلوار کی طاقت کیا ہوگی
نائب کی جب اتنی ہیبت ہے آقا کی جلالت کیا ہوگی
بندے کی زباں میں ہے یہ اثر مولا کی حکومت کیا ہوگی
جو زور خدا کا وارث ہے کون اس سے آنکھ ملائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
جاگے گی غریبوں کی قسمت دن پلٹے گا رنجوروں کا
کب تک یوں ہی استحصال کریں گے ظلم و ستم معذوروں کا
کب تک یہ سیاست کی جوکیں چوسیں گی لہو مزدوروں کا
ٹپکا ہے زمیں پر جتنا لہو مظلوموں کا مزدوروں کا
اُبھرے گا شفق بن کر وہ لہو اور انگارے برسائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
ہے عزم خلیلی سینوں میں شعلوں میں پھول کھلا دینگے
ہاتھوں میں نہاں ہے زور علیؑ خیبر کا سماں دکھلا دینگے
عبّاس دلاور کے وارث ہر اک کی پیاس بجھا دینگے
یہ نسل و مُلک و رنگ و وطن کی سب دیواریں گرا دینگے
اس وقت فضائے عالم میں بس ایک علم لہرائے گا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا
11m:33s
1918
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
31711
[URDU] HAJJ Message 2014 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ...
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
7m:50s
18550
انسانی حقوق کا نعرہ اور منافقت | رہبر...
اخلاقیات میں ایک بری صفت، منافقت کی صفت ہے، لیکن کیا منافقت فقط مذہبی کاموں اور...
اخلاقیات میں ایک بری صفت، منافقت کی صفت ہے، لیکن کیا منافقت فقط مذہبی کاموں اور دینی عقائد کے سلسلے میں کی جاتی ہے؟ نہیں، بلکہ اس کا دائرہ اس سے وسیع ہے۔ انسانی معاشرے کے اندر استعمار اور استکبار کی جانب سے بہت سارے کام اچھے عنوان اور انسانی حقوق کی طرفداری کے نعروں سے آغاز کئے جاتے ہیں، جبکہ ان کاموں کے پیچھے منافقت ہو رہی ہوتی ہے۔ امام خامنہ ای اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے کچھ نمونوں کو بیان کرتے ہیں۔
سکندر اعظم جو مقدونیہ سے آیا، کیا اس کا دعوا بھی علم، ثقافت اور انسانیت کے بارے میں نہیں تھا لیکن کیا حقیقت یہی تھی؟
کیا امریکہ کی حمایت کے نیچے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟
آمریکا کی جانب سے صہیونی حکومت کی حمایت کرنا منافقت نہیں ہے؟
صدام کے حملوں کے پیچھے کون تھا؟
ایٹم بم سے روکنے والا کیا خود اس کا آغاز کرنے والا اور استعمال کرنے والا نہیں ہے؟
کیا یمن کی عوام پر حملوں کے لئے وہ سعودی کی مدد نہیں کرتے؟
کیا ان سب کاموں کو منافقت کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جواب اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#اخلاقیات #صفت #منافقت #دینی #عقائد #معاشرے #استعمار #استکبار #حقوق #امام #نمونہ #ثقافت #انسانیت #حقیقت
2m:40s
8444
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
insan,
huquq,
munafeq,
imam
khamenei,
akhlq,
sefat,
mazhab,
din,
estemar,
estekbar,
aelm,
haqiqat,
amreka,
hemayat,
sddam,
yaman,
eawam,
خداوندِ متعال سے محبت کے آثار | آیت اللہ...
آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی رضوان اللہ علیہ، خداوند متعال سے محبت اور خدا کی...
آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی رضوان اللہ علیہ، خداوند متعال سے محبت اور خدا کی اپنے محب سے محبت اور اس محبت کے آثار کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ حضرت داوؑد علیہ السلام کس چیز میں ممتاز تھے؟ شہید ثانی رضوان اللہ علیہ نے حضرت داؤد کے بارے میں کونسی روایت نقل فرمائی ہے؟ خداوند متعال سے مانوس ہونے والا انسان کن چیزوں کا احساس نہیں کرتا ہے؟ خداوند متعال سے محبت کیسی ہونا شرط ہے؟ کیا خداوند رحیم سے فقط محبت کا زبانی دعوی کافی ہے؟ کیا خداوند متعال کی طرف بڑھنے والا، خدا کی رضا کی خاطر کوشش کرنے والا ناکام واپس پلٹ سکتا ہے؟ انسان حقیقی ہدف سے غافل ہوکر کن چیزوں میں مشغول و سرگرم ہوجاتا ہے؟ خداوندمتعال کی کرامات سے کیا مراد ہے؟ ایک انسان کب خداوند متعال سے محبت کے آثار اپنے اندر مشاہدہ کر سکتا ہے؟
ان تمام اہم سوالات کے جوابات اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے.
#ویڈیو #خدا_سے_محبت_کے_آثار #حضرت_داؤد_علیہ_السلام #دعا_و_مناجات #شہید_ثانی #روایات #ہمنشین #مانوس #تنہائی #وحشت #انتخاب #اطاعت #تہہ_دل_سے_محبت #فریب_دینے_والے_وسائل
3m:8s
1957
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
allah,
muhabbat,
Ayatollah
Mesbah
Yazdi,
hazrat
davod,
shahid,
insan,
haqiqat,
gheflat,
dua,
munajat,
wahshat,
etaeat,
[30 May 2013] پیام رحمان سورہ العادیات - Discussion...
نشر ہونے کی تاریخ:5/30/2013
موضوع:سورہ العادیات
مہمان:مولانا مہدی حسنی
پیام رحمان:...
نشر ہونے کی تاریخ:5/30/2013
موضوع:سورہ العادیات
مہمان:مولانا مہدی حسنی
پیام رحمان: چالیس منٹ کے دورانیئے کا براہ راست نشر کیا جانے والا پروگرام ہے۔ جمعرات کو شام پیش کئے جانے والا یہ پروگرام قم اسٹوڈیو سے نشر ہوتا ہے۔ قرآنی سوروں کی تفسیر اور اہم نکات پر بحث کے لئے اسٹوڈیو میں متعلقہ موضوع کے ماہرین کو دعوت دی جاتی ہے۔ پروگرام کے دوران قرآنی آیات کی تلاوت، سبق آموز واقعات، نشید وغیرہ کی کلپس بھی دکھائی جاتی ہیں۔
دورانیہ:00:43:48
43m:48s
10332
Nohy - ان ذکر الخیر فی العالمین - حاج...
واحد: ان ذکر الخیر فی العلمین اوله حسین آخره حسین و اصله حسین من والا الحسین نجی...
واحد: ان ذکر الخیر فی العلمین اوله حسین آخره حسین و اصله حسین من والا الحسین نجی من عاد الحسین هلک نورک مصباح الدجی یا لیتنا کنا معک
با صدای حاج مهدی رسولی
مداحی فارسی، ترکی و عربي نوحه جدید مراسم عزادارى شب دوم محرم 1398 - 1441
هیئت ثارالله رهروان امام و شهدا زنجان
Ena Zekrol Khair Fel Alamein by Haj Mahdi Rasuli - Nohay of Imam Hussain and Nasheed of Muharram
Best Farsi Noha 2019 with Lyrics
متن: ان ذكر الخير في العالمين
اولة حسين آخرة حسين و اصلة حسين
من والا الحسين نجي
من عاد الحسين هلك
نورك مصباح الدجي
يا ليتنا كنا معك
خون تو در رگهاست؛ ثارک ثار الله
حب تو در دلهاست؛ حبک حب الله
یا ابا عبدالله
کرب و بلاسی حرم الله حسین
ای که بهشتیده تربت اطهرون جنتیمیز حسین
رسم حسین، سیر حسین، راه حسین
جرآتیمیز حسین غیرتیمیز حسین عزتیمیز حسین
انتخاب اولیم
انتخاب آخریم
کربلادی کربلا
ثارالله دی رهبریم
ای او گوزل آدی، معنی آزادی
درس شهادتده، عالمون استادی
یا اباعبدالله
کیم قدمین راه حسینه قویا
عشقه وفاسی وار
جام بلاسی وار
کرب و بلاسی وار
کیم باش اگه دشمنه عجزیدن
خبط و خطاسی وار
دلده هراسی وار
رنگ و ریاسی وار
معیار شرف حسین
مبنای هدف حسین
نور صف به صف حسین
شاه جان به کف حسین
کرب و بلاسینده
باشدان آخان قانلار
مکتبه جان ویردی
یتمیش ایکی جانلار
Thank you for watching our video
#HaiderNohe #Zainabiyontv #Muharram
Follow us on:
Website: http://www.zainabiyontv.tk
Facebook: https://fb.com/zainabiyontv
Aparat: https://aparat.com/Zainabiyontv
Twitter: https://twitter.com/zainabiyontv
ShiaTV: https://www.shiatv.net/user/ZainabiyonTV
6m:54s
3506
زوال کی طرف گامزن امریکہ | امام خامنہ...
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ...
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ میلاد رسول اکرم (ص) کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے تسلیم ہو جانے، امریکی انتخابات، امریکہ کے بارے میں اسلامی انقلاب کی پالیسیز اور مختلف ابعاد میں امریکی زوال کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امریکہ کے بارے میں ایک پایا جانے والا غلط تصور کیا ہے؟ امریکہ کے سامنے تسلیم ہوجانے کی مثالیں کونسی ہیں اور کیا نتائج نکلے؟ کیا امریکہ کے سامنے تسلیم ہوجانے والی حکومتیں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں؟ امریکہ سے متعلق اسلامی انقلاب کی کیا پالیسی ہے؟ امریکی حالیہ انتخابات کے بارے میں خود موجود امریکی صدر اور اس کے مقابلے میں کھڑا ہونے والا امیدوار کیا کہتے ہیں؟ امریکہ کے اندر لبرل ڈیموکریسی کے مکروہ چہرے کی کیا حالت ہے؟ امریکہ کے زوال کے بارے میں خود امریکی مصنفین، مقررین اور اہل فکر حضرات کیا کہتے ہیں؟ امریکی دشمنی کو برطرف کرنے کا واحد راستہ کونسا ہے؟
اِن تمام اہم سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اِس ویڈیو کو ضرور دیکھیں اور حالات حاضرہ سے باخبر رہیں۔
#ویڈیو #امریکی_حکومت #غلط_تصور #تسلیم_ہو_جانا #امریکی_پالیسیوں #زیر_تلے #کیمپ_ڈیوڈ #ہماری_پالیسی #انتخابات #دھاندلی #ٹرامپ #لبرل_ڈیموکریسی #مکروہ_چہرہ
5m:50s
11132
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
zawal,
amrika,
america,
sayyid
ali
khamenei,
milade
rasul,
tasleem,
amriki
intekhabat,
irani
policy,
ghalat
tasawwur,
nataej,
islami
inqelab,
hukumatein,
taraqqi,
amriki
sadr,
liberal
democracy,
musannif,
ahle
fikr,
ofool,
dushmani,
wahid
rasta,
amriki
policy,
camp
david,
dhandli,
trump,
biden,
makroof
chehra,
المحاضرة الرمضانية التاسعة للسيد...
ـ 📹 المحاضرة الرمضانية الثامنة لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 08-رمضان-1443هـ...
ـ 📹 المحاضرة الرمضانية الثامنة لـ #السيد_عبدالملك_بدرالدين_الحوثي 08-رمضان-1443هـ 09-04-2022م
#رمضان 🌙 1443هـ
#محاضرة_السيد_القائد
أَعُـوْذُ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيْمِ
بِـسْـــمِ اللهِ الرَّحْـمَـنِ الرَّحِـيْـمِ
الحمدُ لله رَبِّ العالمين، وأَشهَـدُ أن لا إلهَ إلَّا اللهُ الملكُ الحقُّ المُبين، وأشهَدُ أنَّ سيدَنا مُحَمَّــداً عبدُهُ ورَسُــوْلُه خاتمُ النبيين.
اللّهم صَلِّ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، وبارِكْ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، كما صَلَّيْتَ وبارَكْتَ على إبراهيمَ وعلى آلِ إبراهيمَ إنك حميدٌ مجيدٌ، وارضَ اللهم برضاك عن أصحابه الأخيار المنتجبين، وعن سائر عبادك الصالحين والمجاهدين.
أيُّها الإخوة والأخوات
السَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
اللهم اهدنا، وتقبَّل منا، إنك أنت السميع العليم، وتب علينا، إنك أنت التواب الرحيم.
من ضمن الآيات المباركة التي أتت في سياق الحديث عن فريضة صيام شهر رمضان- الآيات المباركة في سورة البقرة- أتى قول الله \"سبحانه وتعالى\": {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ}[البقرة: الآية186].
الدعاء في الحالة الإيمانية هو من لوازم الإيمان، وجزءٌ مما يعبِّر به الإنسان المؤمن عن إيمانه، فالدعاء يعبِّر عن إيمانك بالله \"سبحانه وتعالى\" أنه الحي القيوم، أنه المدبر لشأنك، وشؤون السماوات والأرض، وشؤون الخلائق أجمعين، أنه الرحيم الكريم، أنه أرحم الراحمين، أنه سميع الدعاء، أنه المنعم المتفضل، أنه الملاذ والملجأ، الذي تلجأ إليه، وتلوذ به، وتفر إليه من كل هموم هذه الحياة، ومن كل التحديات والمخاطر فيها.
ومن جانبٍ آخر، هو يعبِّر ويدل على تذكُّرك لله \"سبحانه وتعالى\"، أنك ذاكرٌ له، لست غافلاً عنه، لست ناسياً له، الحالة البديلة عن الدعاء لله \"سبحانه وتعالى\"، هي: حالة النسيان لله، والالتجاء إلى غير الله \"سبحانه وتعالى\"؛ لأن الإنسان هو عبدٌ ضعيفٌ مفتقرٌ دائماً، يحتاج إلى العون، يحتاج إلى الرعاية، يحتاج إلى المساعدة، هو إمَّا أن يكون متوجِّهاً إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، وإلَّا كان البديل أن يتوجه إلى غير الله، إلى أمثاله من العبيد الضعفاء المحتاجين، الفقراء إلى الله \"سبحانه وتعالى\".
وهو أيضاً يعبِّر عن رجائك كإنسانٍ مؤمن، أنك ترجو الله، ترجو رحمته، ترجو فضله، تثق به، تتوكل عليه، أنك منيبٌ إليه، توَّابٌ إليه، رجَّاعٌ دائماً في كل المهمات والملمات، وفي كل الأحوال والظروف، إلى رحمته وكرمه وفضله، فالدعاء موقعه من الإيمان هذا الموقع المهم جدًّا، والذي لا بدَّ منه في الحالة الإيمانية.
في إطار الحديث عن صيام شهر رمضان المبارك في الآيات المباركة من سورة البقرة، أتت هذه الآية المباركة، بهذا التعبير الرقيق، الذي يعبِّر عن رحمة الله \"سبحانه وتعالى\"، وعن كرمه، وعن فضله، {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، الله \"سبحانه وتعالى\" هو القريب من عباده، يعلم بكل أحوالهم وظروفهم، ويسمع دعاءهم ونداءهم، يَذْكُر من ذَكَرَه، ويَشْكُر من شَكَرَه، وهو \"سبحانه وتعالى\" يجيب الدعاء، يسمع الدعاء، ويجيب الدعاء، {أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، ويَسَّر لعباده مسألة الدعاء، فليست مسألةً معقَّدةً في وسائلها، وليست مسألةً ترتبط بأشخاص محددين فقط، يَسَّر المسألة إلى هذا المستوى: {أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}، فهو يجيب كل من دعاه إذا دعاه، وفق حكمته ورحمته \"سبحانه وتعالى\" وتدبيره، وهو الحي القيوم، ووفق ما يتعلق أيضاً بأحوال الداعي إذا دعا، وهو ما نتحدث عن بعضٍ منه على نحوٍ مختصرٍ إن شاء الله.
في مسألة الدعاء، الدعاء حالةٌ مطلوبةٌ من الإنسان في كل الأحوال؛ لأنها- كما قلنا- جزءٌ من إيمانه، ومن التزاماته الإيمانية، ومن اهتماماته الإيمانية، تعبِّر عن عمق علاقته بالله \"سبحانه وتعالى\"، فهي حالةٌ مطلوبةٌ في العسر واليسر، وفي الشدة والرخاء، وفي مختلف الحالات، وفي مختلف الظروف، وفي مختلف الأوقات، فالإنسان المؤمن لا يغفل عن الله بشكلٍ مستمر، لا يبقى في حالةٍ من الغفلة والنسيان والإعراض، وينكفئ على نفسه في همومه، في مشاكل حياته، في آماله ورغباته، في متطلبات حياته، كل شيءٍ في واقع حياته يشده إلى الله، حالة اليسر تشده إلى الله، وحالة العسر كذلك، حالة الرخاء تشده إلى الله، وحالة الشدة كذلك، الاهتمامات التي لديه المتعلقة بإيمانه ودينه ومستقبله في آخرته تشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، وظروف وشؤون حياته هذه، بكل ما فيها من هموم ومشاكل ومعاناة، وبكل ما فيها من يسرٍ وخيرٍ، تشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، فهو ذلك الذي يلتجئ إلى الله دوماً، ويتوجه إليه بالدعاء في كل الحالات، كل شيءٍ يشده إلى الله، يدفعه إلى الدعاء لله \"سبحانه وتعالى\".
البرنامج العبادي في الذكر والصلاة يشده إلى الله \"سبحانه وتعالى\"، الأوقات المباركة، الأوقات المميزة، التي تعتبر فرص الاستجابة فيها أكثر، من أهم الأوقات عند الإنسان المؤمن التي يحاول أن يقتنص الفرصة فيها، وألَّا تفوته الفرصة فيها، فهو أيضاً يبحث عن تلك الأوقات، وهو أيضاً يحرص عليها، يحرص على المناسبات، على الأعمال؛ لأن هناك من الأوقات، ومن الأعمال، ومن الحالات، ما تكون فرصة الاستجابة فيها للدعاء أكثر، فهو يحرص على تلك الأوقات المميزة، الحالات المميزة، ومنها: شهر رمضان، ومنها: ليلة القدر أيضاً في داخل شهر رمضان، ومنها: العشر الأواخر في شهر رمضان، ومنها: الأوقات المباركة على الدوام، مثل: أوقات السحر، أوقات آخر الليل، مثل: عقب الصلوات... أوقات متعددة تعطى فيها للإنسان فرصة أن يدعو الله \"سبحانه وتعالى\"، وأن يحظى بالاستجابة من الله \"سبحانه وتعالى\".
لمتابعة آخر الأخبار والتقارير على منبر المركز الإعلامي لـ #أنصار_الله في التيليجرام:
https://t.me/AnsarAllahMC
48m:5s
2035
Tafseer e Surah Al Fateha | Ayat 1-2 | Lafz e Allah, Rahmaan Aur...
لفظ اللہ، اس ذات کو کہتے ہیں جو معبود ہو، مخلوق جس سے عشق کرتے ہوں، جس کی ذات کا...
لفظ اللہ، اس ذات کو کہتے ہیں جو معبود ہو، مخلوق جس سے عشق کرتے ہوں، جس کی ذات کا سوچ کر عقلیں دنگ رہ جائیں اور مشکلات اور سختیوں میں مخلوقات جس کی پناہ میں جائیں۔ ساری کی ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جو عالمین کی تربیت کرنے والا اور ان کو پروان چڑھانے والا ہے ۔ کسی کی اس کے اختیاری افعال پر تعریف کرنا \"حمد\" کہلاتا ہے۔
#quran #tafseer #tafseerquran
11m:25s
655
قرآن کریم میں حزب اللہ کی نشانیاں | آیت...
قرآن کریم میں دو قسم کے گروہوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے، ایک گروہ وہ ہے جسے...
قرآن کریم میں دو قسم کے گروہوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے، ایک گروہ وہ ہے جسے «حِزْبُ اللہ» یعنی اللہ کا گروہ، کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: « أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ» آگاہ رہو! اللہ کا گروہ ہی یقیناً کامیاب ہونے والا ہے۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جسے «حزب الشيطٰن» یعنی شیطانی ٹولے کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: «ِ أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُون» آگاہ رہو! شیطان کا گروہ ہی یقیناً خسارے میں ہے۔
«حِزْبُ اللہ» کون ہے؟ قرآن کریم میں «حِزْبُ اللہ» کی کونسی نشانیاں بیان کی گئی ہیں؟ اور «حِزْبُ اللہ» کو دنیا اور آخرت میں اللہ تعالی کس طرح کی نعمتوں سے نوازنے والا ہے؟ ان سوالات کے جوابات سے آگاہی کے لیے علامہ مصباح یزدیؒ کے علمی بیانات پر مبنی اس ویڈیو کو ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
#ویڈیو #مصباح_یزدی #محبت #اللہ #حزبـاللہ #خوشنودی #جنت #رضایت #ایمان #کافر#جنگ #دنیا #آخرت
3m:9s
1302
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
mohabbat
,
Allah,
khushnodi,
jannat,
imaan,
kafir
,
jung,
duniya,
akhirat,
آج اسرائیل محاصرے میں ہے | امام سید علی...
اس میں شک نہیں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا ناپاک وجود ایک ایسے کینسر کے رسولی...
اس میں شک نہیں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا ناپاک وجود ایک ایسے کینسر کے رسولی کی طرح ہے جو بسا اوقات انسان کے جسم کے کسی حصے میں پیدا ہوتی ہے اگر برقت اسکا علاج نہ کیا جائے تو پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لیکر بدن کے تمام اعضاء کی بربادی کا سبب قرار پاسکتی ہے، اور آج اقوام عالم کو اس حقیقت کا علم ہوچکا ہے اور انکی جانب سے اس ناسور کے خلاف رد عمل بھی سامنے آرہاہے، اس جعلی ریاست کی کوشش یہ تھی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا چاروں طرف سے محاصرہ کرے مگر آج خود بطور کامل مقاومتی بلاک کے محاصرے میں آچکی ہے اور وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور 60 سال سے فلسطینیوں کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی کوشش کرنے والی یہ جعلی ریاست خود تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے اور اگراسلامی کے سرکردہ سپاہی سستی کا مظاہرہ نہ کریں اور اپنی توجہ فلسطین سے نہ ہٹا دیں تو بہت جلد اسرائیل کا دم گھٹنے والا ہے اور فلسطین کو اس کے چنگل سے آزادی کا پروانہ ملنے والا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں مزید آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کوضروردیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اسرائیل #محاصرہ #جعلی_صیہونی_حکومت #کینسر #فلسطین #تحریک #یوم_القدس #سرکردہ #طمانچہ #ایران #پیغام #وعدہ #اسلامی_جمہوری_نظام
3m:4s
10992
Video Tags:
yaum
al
Quds,
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Israel,
muhasray,
imam,
syed
Ali
KHAMENEI,
video,
Israel,
muhasAra,
cancer,
Palestine,
tehreek,
sarkardah,
tamacha,
Iran,
paigham,
vaada,
اسرائیل
,
محاصرے,
امام
سید
علی
خامنہ
ای,
یوم
النکبۃ
[FARSI][1October11] بیانات ولی امر مسلمین در...
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم...
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
36m:29s
20819
[URDU] Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei - HAJJ Message 2011
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام...
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
10m:25s
21699
MWM اھم اعلان - قرآن و سنت کانفرنس - Urdu
ایم ڈبلیو ایم نے قرآن و سنت کانفرنس کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا
اسلام...
ایم ڈبلیو ایم نے قرآن و سنت کانفرنس کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا
اسلام ٹائمز: مرکزی مسؤل اطلاعات ایم ڈبلیو ایم کا کہنا ہے کہ قرآن و سنت کانفرنس کا مقصد اتحاد امت ہے، جس میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے گی۔
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی مسؤل اطلاعات و نشریات سید ناصر عباس شیرازی نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شیعیان پاکستان کا عظیم اجتماع یکم جولائی کو سرزمین لاہور پر منعقد ہو گا، جس میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شریک ہوں گے۔ ملت تشیع پاکستان اس سے قبل بھی اسی جگہ پر دو عظیم اجتماع کر چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اجتماع بھی ملکی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو گا۔
سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ پورے ملک میں رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور علمائے کرام اس حوالے سے دورہ جات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کانفرنس کا مقصد اتحاد امت ہے، جس میں امت مسلمہ کو دہشتگردی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں امن، وحدت اور بھائی چارے کا علم لے کر نکلے ہیں، جن کو پاکستان سے محبت ہے ان کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، ہم پاکستان کے استحکام اور اسلام کی سربلندی کے لئے استعماری سازشوں کے سامنے سسیہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پوری شیعہ قوم علامہ ناصر عباس کی قیادت میں متحد ہے اور ہم تمام شیعہ جماعتوں، انجمنوں، تنظیموں، ماتمی سنگتوں اور ذاکرین کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پیغام امن اور محبت ہے۔ مجلس وحدت پوری قوم کو ایک لڑی میں پروئے گی، جس سے استعمار کی سازشیں اور ہتھکنڈے ناکام ہو جائیں گے۔ ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ ماضی میں اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں نے ملت کا شیرازہ بکھیرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن ہم نے پوری قوم کو اتحاد کی دعوت دی ہے، آج کے اس پرآشوب دور میں اتحاد اہم ترین ضرورت ہے۔
سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ کراچی میں مجلس وحدت مسلمین کے عظیم اجتماع نے استعمار کی نیندیں حرام کر دیں ہیں، اس کے بعد ضلعی ہیڈکوارٹرز پر بھی جلسوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کے بعد یکم جولائی کو لاہور میں منعقد ہونے والا جلسہ ملکی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ملت کے نوجوان بھی ہمارے دست و بازو ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ کسی بھی قوم کا مستقبل نوجوان ہوتے ہیں اور نوجوانوں کی تربیت بہتر انداز میں ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے، اس حوالے سے بھی مجلس وحدت مسلمین تربیتی امور پر مصروف عمل ہے۔
2m:9s
10652
الامام الخامنئي: سورية حرب بين جبهتي...
أكد الإمام السيد علي الخامنئي أن ما يجري على الساحة السورية عبارة عن حرب بين جبهة...
أكد الإمام السيد علي الخامنئي أن ما يجري على الساحة السورية عبارة عن حرب بين جبهة الكفر والإستعمار وبين جبهة المساندة للمقاومة والنضال، مؤكداً أن الطرف الذي سيخسر هو جبهة الكفر والاستكبار.
واعتبر سماحته خلال استقباله وفد تجمع العلماء المسلمين في لبنان أننا\"على قناعة راسخة بأن هذه المحنة ستزول وستتجاوزها شعوب المنطقة ونعتقد أنه بالإمكان تجاوز هذه المشاكل بالصمود والإستقامة والإصرار\".
وأشار الإمام الخامنئي إلى أن الطرف الذي يتحمل اكبر الخسائر والأضرار هم أنفسهم الذين تزعم الدول الإستكبارية ارداة مساعدتهم وتحريرهم.
ولفت سماحته إلى أن\"وجود بذور المؤامرة والدسيسة توزع بشكل كبير في لبنان وأن مختلف الأطراف السياسية المرتبطة بالإستعمار وجبهة الكفر تحاول أن تستغل هذا الموقف إلى أبعد حدود مضيفاً نحن على قناعة راسخة بأن واجب مختلف الأطراف على الساحة اللبنانية أن تتقارب مع بعضها وإلا فإن الأعداء سيأخذون لبنان إلى الاسوأ ويضيقون عليه بحيث يصعب الاستمرار والبقاء\"، مشيراً إلى\" أنهم يريدون إسقاط لبنان الذي كان يتميز من بين جميع الدول العربية باستطاعته إنزال أكبر هزيمة بالعدو الإسرائيلي\"، مشدداً بان مؤامرة العدو اصبحت في نطاق واسع جداً .
وأضاف سماحته \"نحن نرفع شعار الوحدة والتقارب بين السنة والشيعة واليوم في لبنان وسوريا وبلاد الشام نحن أحوج إلى هذا الموقف وكذلك العالم الاسلامي باسره، محذراً من ان هناك دولارات نفطية كثيرة تصرف من اجل بث الفتنة بين الاخوة في العالم الاسلامي \".
وأكد \"أننا مكلفون شرعاً ووجداناً أن نصمد أمام الأعداء وهذا التكليف فريضة سياسية أيضاً مؤكداً حاجة العالم الإسلامي الماسة إلى مثل هذه الوحدة واستقلاليتها واستعادتها\".
1m:57s
9710
[18 Jan 2013] Zavia Nigah - بحرین کی انقلابی تحریک...
[18 Jan 2013] Zavia Nigah - افغانستان-امریکا کا سیکورٹی معاہدہ،کرزئی کی مشکلات - Urdu...
[18 Jan 2013] Zavia Nigah - افغانستان-امریکا کا سیکورٹی معاہدہ،کرزئی کی مشکلات - Urdu
مہمان:محترم ارشاد عارف-محترم رضی الحسن رضوی
زاویہ نگاہ: براہ راست نشر کیا جانے والا چالیس منٹ کے دورانیئے کا پروگرام ہے جس کے پروڈیوسر جناب خروجی ہیں۔ یہ پروگرام ہر ہفتے جمعے کو شام پیش کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام میں مختلف علاقائی و عالمی مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ پروگرام میں میزبان اور متعلقہ نظریہ پرداز کے درمیان تجزیاتی گفتگو ہوتی ہے۔
37m:3s
5126
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
44m:15s
20613
[23 Apr 2013] Andaz-e-Jahan - پاکستان کا سیاسی...
مہمان:ڈاکٹر اعجاز حسین-ڈاکٹر مقصود صدیقی-پروفیسر عرفان صدیقی-
انداز جہاں: چالیس...
مہمان:ڈاکٹر اعجاز حسین-ڈاکٹر مقصود صدیقی-پروفیسر عرفان صدیقی-
انداز جہاں: چالیس منٹ کے دورانیئے کا براہ راست نشر ہونے والا پروگرام ہے جس کے پروڈیوسر جناب رفیعی پور ہیں۔ پیر اور جمعے کے علاوہ ہر روز یہ پروگرام شام پیش کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام میں اہم علاقائی و عالمی مسائل و تغیرات خاص طور پر بر صغیر کے سیاسی معاملات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ پروگرام میں متعلقہ موضوع کے ماہر اور میزبان کی گفتگو ہوتی ہے جبکہ پروگرام میں نئی دہلی، اسلام آباد اور لندن اسٹوڈیو سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اور بعض اوقات ٹیلی فون لائن کے ذریعے ماہرین شرکت کرتے ہیں۔ پروگرام کے دوران موضوع سے متعلق تصاویر، خبریں اور ویڈیو کلپس بھی پیش کی جاتی ہیں۔
دورانیہ:00:44:36
44m:36s
5477