امریکہ کا شام سے فرار | شیخ اکرم الکعبی |...
امریکہ کے شام سے نکلنے سے کتنا عرصہ پہلے اسی بات کی پیش گوئی کی جا چکی تھی؟ کیا اس...
امریکہ کے شام سے نکلنے سے کتنا عرصہ پہلے اسی بات کی پیش گوئی کی جا چکی تھی؟ کیا اس بات کی بھی پہلے سے ہی پیش گوئی کی جا چکی تھی کہ دہشت گرد امریکی افواج؛ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کو تنہا چھوڑ دیں گی؟ کیا امریکہ نے مسعود بارزانی کو بھی تنہا چھوڑ دیا تھا؟ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے شام سے امریکیوں کے نکلنے کے بارے میں کیا کہا؟
ان سوالات کے جوابات، حَشدِ شَعبی کی ایک بنیادی ترین فورس \\\\\\\'\\\\\\\'مقاومت اسلامی نُجَباء\\\\\\\'\\\\\\\' کے سیکرٹری جنرل شیخ اکرم الکعبی کی زبانی ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
#ویڈیو #شیخ_اکرم_الکعبی #امریکی_خنجر #امریکی_صدر #ٹرمپ #شام #داعش #کرد #ڈیموکریٹک_فورسز #امریکہ #قسد #مسعود_بارزانی #پشت_پہ_خنجر
1m:46s
1092
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Faraar,
America,
Sham,
Syria,
Sheikh
Akram
Al
Kaabi,
Democratic,
Forces,
Massoud
Barzani,
Hashad
al
Shaabi,
Muqavemat,
Islam,
General,
Trump,
Daesh,
ISIS,
امریکہ,
شام,
فرار,
اکرم
الکعبی,
شیخ
اکرم
الکعبی,
جہاد نکاح کا شکار ایک معصوم لڑکی Arabic sub...
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو جاری کیا ہے جس میں 15...
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو جاری کیا ہے جس میں 15 سالہ نوجوان شامی لڑکی نے اپنی آب بیتی سناتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں۔ انٹرویو میں دہشت گردوں کی جنسی درندگی بننے والی نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اس کا نام روان میلادالدہ ہے اور 1997 میں پیدا ہوئی تھی۔جس کے باپ کا نام میلاد موسی الدہ ہے۔ہمارا گھرانہ 5 افراد پر مشتمل ہے۔میں ایک کسان کی بیٹی ہوں جو جنگ سے پہلے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جاتی تو گھر والے یقینا مجھے سزا دیتے تھے۔ جب ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے تو میرا باپ شامی باغیوں کو گھر میں لاتا تھا۔جن کے ساتھ 3،4 ہتھیار ہوتے تھے۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ یہاں کیوں آتے تھے۔میں 15 دن سے خوف زدہ تھی کہ میرا باپ، ماں، بہن اور بھائی میرے کمرے میں نہیں آئے اور نہ ہی کسی قسم کی بات چیت کی۔میرے پاس کسی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی نہ ٹی وی، نہ ریڈیو اور نہ ٹیلی فون وغیرہ۔میں باتھ روم میں اور جیسے ہی کمرے میں واپس آئی۔میں حیران رہ گئی کہ میرا باپ مجھے خوراک یا جو کچھ میں چاہتی مجھے مہیا کرتا تھا۔لیکن اس نے مجھے گھر سے باہر کچھ بھی کرنے سے منع کر دیا۔ حتی کہ مجھے سکول جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔15دن کے بعد میرا باپ میرے پاس آکر کہنے لگاکہ جا کر نہا لو۔میں اپنے کی یہ بات سن کر حیران ہو گئی۔میں نے اپنے کپڑے لیے اور نہانے کے لئے چلی گئی۔جب میں نہا رہی تھی تو ایک شخص اندر آ گیا جس کی عمر50 سال کے قریب تھی۔جس نے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ وہ میرے قریب ہونے لگ گیا۔اس نے کسی قسم کا خیال نہ کیا جب کہ چھوٹے سے باتھ میں میں چلا رہی تھی۔اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور کمرے میں لے گیا۔جب کہ چیخنے چلانے کی آوازیں میرا باپ سن رہا تھا۔ لیکن اس نے مجھے اس آدمی سے چھڑانے کی کسی قسم کی کوشش نہ کی۔جو کچھ وہ میرے ساتھ کر سکتا تھا اس نے کیا اور اسی دوران دوسرا آدمی بھی آگیا۔اس نے بھی وہی کیا جو پہلے والا کر چکا تھا۔ جس کے بعد میں ہوش و حواس کھو بیٹھی اور تقریبا 45 منٹ کے بعد مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں نے اپنے باپ کو بلایا جب وہ کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا کہ جب میں چیخ اور چلا رہی تھی تو آپ مجھے اس مصیبت سے نجات دلانے کیوں نہیں آئے۔اس نے بتایا کہ یہ سب سہی تھا اور یہ جہاد تھا۔ لہذا آپ اس کو ہر وقت کر سکتی ہو اور مجاہدین آپ کے ساتھ سو سکتے ہیں۔اس سے آپ کے گناہ مٹ جائیں گے اور آپ مرنے کے بعدشہید کہلاو گی اور سیدھا جنت میں جاو گی۔میں نے پوچھا کہ یہ کیسا جہاد ہے؟ جس کے میں مسلسل 23 دن بیمار رہی۔ میں اپنے باپ سے کہا کہ مجھے دوائی لا دو یا ڈاکٹر کو معائنہ کراو لیکن اس نے انکار کردیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ سے وہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔یہ عرصہ ایک ہفتے تک جاری رہا۔جب بھی میرا باپ ان آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دیتا تو میں ان سے بچنے کی کوشش کرتی لیکن وہ مجھے زیادتی کا نشانہ بنا دیتے۔ایک بار ایک آدمی جس کو میں جانتی تھی کمرے میں آیا میں نے اسے کچھ نہ کرنے کا کہا تو اس نے کہا کہ آپ کا باپ مجھے آپ کے ساتھ سونے سے منع نہیں کرے گا۔ جس کے بعد میرا باپ مجھے نہانے کے لئے کہا لیکن میں وہاں سے فرار ہونا چاہتی تھی۔ گھر کا دروازہ ایک ہونے کی وجہ سے فرار ہونا مشکل تھا۔ اگر وہاں سے فرار ہوتی تو فوجیوں کی نظر میں آجاتی۔ باغی فوجی مجھے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد کمرے سے باہر نکلے تو میں نے سنا کہ میرا باپ انہیں اس گاوں کو چھوڑنے کا کہ رہا تھا۔ جس کے بعد وہ دوسرے گاوں تصل میں چلے گئے۔اس کے بعد میری والدہ، بھائی اور بہن گھر واپس آئے تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ مجھے اکیلا کیوں یہاں چھوڑ گئے تھے۔لیکن اس نے مجھے بتایا کہ جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ہے اچھا ہوا ہے۔ جس کے بعد اس نے مجھے دھمکی دی کہ کسی کو بتانا نہیں ورنہ آپ کو مار دوں گی۔جب میری ماں باہر جاتی یا واپس آتی تو نہاتی تھی۔وہ اسے ْجہاد النکاح۔کہتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد میرے باپ نے ماں سے کہا کہ وہ مجھے روان لے آئے۔جس سے مجھے فورا خیال آیا کہ وہ مجھے دوسرے گاوں لے جانا چاہتے ہیں جہاں وہ جہاد النکاح کرنےجاتی ہے۔ میں اس کے باوجود ماں کے ساتھ جانے کے لئے آمادہ ہوگئی۔ ہم تصل گاوں جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوئےاور جب وہ فوجی چیک پوائنٹ پر رکی۔ تو میں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا جس کے باعث ایک فوج میرے پاس آیا اور گاڑی سے باہر نکالا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں چیخ رہی ہو تو میں نے اسے سارا واقعہ بتا دیا۔جو میرے ساتھ ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے کار میں بیٹھا کر ایک پرامن گھر میں منتقل کر دیا
6m:55s
11246
Film Passageway - فیلم سینمایی گذرگاه - Farsi sub English
زمان : 1:25:47
دانلود مستقیم فیلم سینمایی گذرگاه به نویسندگی و کارگردانی شهریار...
زمان : 1:25:47
دانلود مستقیم فیلم سینمایی گذرگاه به نویسندگی و کارگردانی شهریار بحرانی محصول سال 1365 ماجرای یک رزمنده به نام ناصر به همراه سه تن از همرزمانش (احمد- قاسم و محمد) برای عملیات گشت و شناسایی به جبهه اعزام می شود. ناصر حلقه ی ازدواجش را به عاطفه که تازه به عقد او در آمده می دهد و عازم می شود. در جبهه برای انجام مأموریت ناصر و همرزمانش به وسیله ی یک راهنمای محلی از راه مخفی ادامه مسیر می دهند اما راهنمای محلی توسط عراقی ها کشته می شود و گروه مجبور می شود از راه اصلی به شناسایی برود. مأموریت که انهدام یک پل تدارکاتی در مسیر یک گذرگاه است، به خوبی انجام می گیرد، اما قاسم و محمد که از لباس مبدل عراقی ها استفاده کرده بودند به عنوان نظامیان خاطی به جوخه ی اعدام سپرده می شوند، ناصر بعد از شکنجه شدن توسط دو عراقی ناراضی موفق به فرار شده و احمد نیز فرار می کند اما بعد از نجات ناصر به دلیل بیماری، جانباز مجهول الهویه شناخته می شود، اما احمد او را شناسایی می کند و ناصر بهبود می یابد و عاطفه حلقه ی ازدواج را به ناصر هدیه می دهد.
دانلود فیلم سینمایی گذرگاه با لینک مستقیم و کیفیت بسیار بالا
85m:47s
66731
[Speech on 02.05.2021] Martyrdom of Imam Ali (AS) | Quaid Syed |...
كلمة السيد عبد الملك بدرالدين الحوثي في ذكرى استشهاد الإمام علي عليه السلام - 20...
كلمة السيد عبد الملك بدرالدين الحوثي في ذكرى استشهاد الإمام علي عليه السلام - 20 رمضان 1442هـ 02-05-2021
أَعُـوْذُ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيْمِ
بِـسْـــمِ اللهِ الرَّحْـمَـنِ الرَّحِـيْـمِ
الحمدُ لله رَبِّ العالمين، وأَشهَـدُ أن لا إلهَ إلَّا اللهُ الملكُ الحقُّ المُبين، وأشهَدُ أنَّ سيدَنا مُحَمَّــداً عبدُهُ ورَسُــوْلُه خاتمُ النبيين.
اللّهم صَلِّ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، وبارِكْ على مُحَمَّــدٍ وعلى آلِ مُحَمَّــد، كما صَلَّيْتَ وبارَكْتَ على إبراهيمَ وعلى آلِ إبراهيمَ إنك حميدٌ مجيدٌ، وارضَ اللهم برضاك عن أصحابه الأخيار المنتجبين، وعن سائر عبادك الصالحين.
أيُّها الإخوة والأخوات
السَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
وعظَّم الله لنا ولكم الأجر، في ذكرى استشهاد أمير المؤمنين، وسيِّد الوصيين، وإمام المتقين، علي بن أبي طالب \"عليه السلام\"، الذي أصيب في ليلة التاسع عشر من شهر رمضان المبارك، والتحق بالرفيق الأعلى في ليلة الحادي والعشرين من شهر رمضان المبارك آنذاك، فكان ميعاده للقاء ربه في أشرف الليالي، وأشرف الشهور، وأشرف الأوقات وأفضلها.
واستشهد الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" وهو يقوم بدوره العظيم، في التصدي لحركة النفاق والانحراف في الأمة، ويواصل مشوار الإسلام في امتداده الأصيل والنقي، الإسلام المحمدي الأصيل، الإسلام الذي هو وفق منهج الله \"سبحانه وتعالى\".
والإمام عليٌّ \"عليه السلام\" عندما نتحدث عنه، فمن المهم لنا كأمةٍ مسلمةٍ أن نستفيد من سيرته، ومن عطائه، وأن نعي منزلته، وطبيعة علاقتنا به كأمةٍ مسلمة.
وعندما نعود إلى الآيات القرآنية، والنصوص النبوية، ونعود إلى سيرة عليٍّ \"عليه السلام\"، نجد كل ذلك يتمحور حول جانبين أساسيين، كلٌّ منهما له علاقةٌ بنا نحن:
الأول: أنَّ الروايات، وقبل ذلك الآيات القرآنية، إضافةً إلى سيرة عليٍّ \"عليه السلام\"، كل ذلك يقدِّم لنا نحن علياً \"عليه السلام\" باعتباره النموذج، وحسب التعبير القرآني: الشاهد، الذي يقدِّم الصورة المتكاملة الراقية عن الإسلام، الإسلام في أثره في الإنسان، الإسلام الذي يتجسد كـ:
مبادئ.
وأخلاق.
وقيم.
وسيرة عملية في واقع الحياة.
وهذا جانبٌ مهمٌ لنا نحن، نتطلَّع إلى عليٍّ \"عليه السلام\" على هذا الأساس؛ لنرى فيه ما يجسِّد هذا الإسلام بشكلٍ كاملٍ وراقٍ، يبرز:
عظمته.
قيمته.
أثره.
أهميته.
ونرى أيضاً هذا الإسلام في الواقع الحياتي والعملي في أثره ونتائجه، وفي أثره التربوي في الإنسان، كيف يسمو بهذا الإنسان، كيف يرتقي بهذا الإنسان، كيف تبرز آثاره على كل المستويات في هذا الإنسان، فيؤدي دوره في الحياة دوراً عظيماً متكاملاً.
ونرى الإسلام بصفائه، بنقائه، بحقيقته، سليماً من كل شائبة، من كل تشويش، وهذه مسألة في غاية الأهمية لنا نحن، نحن في أمسِّ الحاجة إليها كأمةٍ مسلمة؛ لأنه في تاريخ الأمة وإلى اليوم، يبرز الكثير ممن يُقدَّم لنا باعتباره يُقدِّم النموذج الذي يعبِّر:
في سلوكه.
في أعماله.
في مواقفه.
في فكره.
في ثقافته.
عن الإسلام؛ بينما تشوبه الكثير من الشوائب التي تشوِّه الإسلام، وهذا يحصل كثيراً في تاريخ الأمة، وفي حاضرها، ويحصل أيضاً في مستقبلها، فعندما تكون هناك نسخة أصيلة، سليمة، موثَّقة، نقية، متجسِّدة، بسيرتها، بسلوكها، تمثل هي النموذج الحقيقي، يمكننا أن نستفيد من ذلك على امتداد تاريخنا، ثم في حاضرنا، وفي مستقبلنا.
والجانب الآخر بالنسبة للإمام عليٍّ \"عليه السلام\": هو ما يمثله من دورٍ أساسيٍ في الامتداد لهذا الإسلام، ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في موقعه في القدوة والهداية، وهذه أيضاً مسألة مهمةٌ جداً، وبالذات تجاه ما عصف بالأمة من الفتن والمؤامرات، والنشاط الكبير لحركة النفاق والانحراف في داخل الأمة، التي سعت:
إلى تزييف حقيقة الإسلام.
وإلى تغيير الكثير والكثير من معالمه.
وإلى التشويش على الكثير والكثير من حقائقه.
وعندما نتحدث عن عناوين مختصرة من مسيرة عليٍّ في المرحلتين:
في مرحلة التنزيل.
وفي مرحلة التأويل.
في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد ذلك، حتى من خلال عناوين محدودة، وعرضٍ موجز، يتجلى لنا ذلك بوضوح.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" كانت مسيرة حياته متميزة، وعلى نحوٍ فريدٍ وعجيب، فهو وليد الكعبة، وهو في ختام حياته شهيد المحراب، وما بين ولادته واستشهاده مسيرة حياةٍ كلها متميزةً بالإيمان، والتقوى، والعمل الصالح، والسمو، والارتقاء الإنساني والأخلاقي، وعلى نحوٍ عجيب.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" حظي في طفولته، ثم ما بعد ذلك، في كل مرحلة حياته مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، إلى أن توفي رسول الله، حظي بعلاقةٍ واختصاصٍ في صلته برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فهو تربَّى عند رسول الله، كفله رسول الله \"صلى الله وسلم عليه وعلى آله\"، وربَّاه عنده، ومنذ طفولته المبكرة نشأ في بيت رسول الله، وعند رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ورسول الله حتى ما قبل البعثة كان إنساناً عظيماً، ومؤمناً، متكاملاً، وعلى درجةٍ عظيمةٍ في أخلاقه، ونبله، ومرتبةٍ عاليةٍ جداً في ذلك، وموحِّداً لله \"سبحانه وتعالى\"، ويحظى بعناية إلهية خاصة، ما قبل البعثة إلى الناس.
ثم في تلك المرحلة التي ربَّى فيها علياً عنده، لم يكن اهتمامه بعليٍّ \"عليه السلام\" منحصراً على العناية به في التغذية، والاحتياجات الخاصة الإنسانية، فيهتم به فيما يتعلق باحتياجاته كإنسان، من غذاء، وكساء، ونحو ذلك؛ إنما كانت عنايته أيضاً بعليٍّ \"عليه السلام\" متجهةً إلى التربية الأخلاقية، فكما قال عليٌّ \"عليه السلام\"، وهو يتحدث عن تلك المرحلة في طفولته: (ولقد كنت أتَّبعه اتِّباع الفصيل أثر أمه، يرفع لي في كل يومٍ من أخلاقه عَلَماً، ويأمرني بالاقتداء به)، هكذا كان، يتربى تربية يسمو فيها، على المستوى الأخلاقي، والروحي، والتربوي، والإنساني، على نحوٍ فريد، مع قابليةٍ عاليةٍ جداً عند الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، وهبه الله \"سبحانه وتعالى\" قابليةً عالية، ثم هيَّأ له هذا المربي العظيم: رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\".
عند البعثة كان رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" وهو يعتني بهذا الفتى اليافع عنده، كان عليٌّ \"عليه السلام\" السابق إلى الإيمان برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، والمصدِّق به، وبرسالته، وبعثته، على نحوٍ متميز، لم يسبق ذلك شركٌ، ولا شيءٌ من دنس الجاهلية.
الذين أسلموا، أسلموا مع سابقة شرك، مع ماضٍ من دنس الجاهلية وسلبياتها؛ أمَّا الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" فكانت سابقته الإيمانية متميزةً، بأنه لم يسبقها أبداً شيءٌ من الشرك، ولا من دنس الجاهلية ورذائلها.
والسبق فضيلةٌ عظيمة، الله \"سبحانه وتعالى\" يقول في القرآن الكريم: {وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (10) أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ}[الواقعة: 10-11]، سبقٌ إلى الإيمان، سبقٌ إلى أيضاً الإيمان على نحوٍ راقٍ جداً، وإلى نصرة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فسبق كمؤمنٍ عظيمٍ، وجنديٍ متميزٍ، ومناصرٍ صادقٍ، مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\".
ثم في إطار مسيرة حياته، هذه المسيرة الإيمانية مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، كان في حياته، وفي أثر تربية رسول الله له، يرتقي ارتقاءً عظيماً ومتميزاً:
على المستوى الأخلاقي، والإيماني.
وعلى المستوى المعرفي.
وعلى مستوى الهداية، والوعي، والبصيرة.
فكان هو النموذج الأول، والمصداق الأول، لكل ما ورد في القرآن الكريم من آياتٍ قرآنية فيها ثناءٌ على المؤمنين، وحديثٌ عن مواصفاتهم، وبشارةٌ لهم، وكما قال ابن عباسٍ رحمه الله: (أنَّ كل آيةٍ نزلت فيها ثناءٌ على المؤمنين، وبشارةٌ لهم، إلَّا وكان عليٌّ أميرها)، يعني: كان هو المصداق الأول، والنموذج الأكمل، المصداق الأول لتلك الآيات، التي تتحدث عن المؤمنين، عن مواصفاتهم، عن الثناء عليهم، وعن البشارة لهم، وعن النموذج الأكمل فيما بينهم، ولذلك كان هو الشاهد- بحسب التعبير القرآني- الذي يشهد فيما هو عليه من سلوك، في أثر الإسلام فيه، في سموه الإنساني والأخلاقي، يشهد:
على عظمة الرسول.
على عظمة الرسالة.
على عظمة القرآن.
لأنه من خلال أثر التربية النبوية في هذا الإنسان، أثر القرآن فيه، أثر الإسلام فيه، يتجلى للناس أنَّ عظمة الإسلام فعلاً مسألة مؤكَّدة ومتجسِّدة في واقع الحياة، وليست فقط نظريةً مثاليةً لا يمكن أن نلمس، أو نرى آثارها، في واقع الحياة.
عندما نأتي إلى مسيرة حياته في ظل رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، مؤمناً به، ومناصراً له، وجندياً مخلصاً معه، ووزيراً صادقاً، نجد تلك الحياة المتميزة، الإيمانية، العظيمة:
فعلى مستوى الجهاد: كان جهاده في سبيل الله، وبيعه لنفسه من الله \"سبحانه وتعالى\"، وتفانيه في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، على نحوٍ متميزٍ، جعل منه رجل المهمات الصعبة، والمواقف الاستثنائية، والبطولات التي سطَّرها التاريخ، ولا مثيل لها في تاريخ الإسلام:
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" في مرحلة مكة، ما قبل الهجرة، كان ملازماً لرسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وكان هو الحارس الشخصي الملازم على نحوٍ دائم، والحاضر في كل لحظة لأن يفدي رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" بنفسه، بروحه وحياته.
وفي تلك المرحلة الحسَّاسة كان يواصل هذا الدور، إلى أن أتى ميعاد الهجرة من مكة إلى المدينة، فكان هو الذي قام بالمهمة في تلك الليلة، مهمة الفداء، مهمة المبيت على فراش النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في عملية تمويهية أمنية، تمثل غطاءً لخروج النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وانتقاله من منزله إلى خارج مكة، إلى الغار.
فالإمام عليٌّ \"عليه السلام\" في تلك الليلة، عندما عرض عليه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" هذه المهمة الفدائية، تلقَّاها بكل استبشار، بكل رحابة صدر، بكل شوقٍ وتلهف، بإيمانه العظيم، وكان المهم عنده هو سلامة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وبات في تلك الليلة، جاهزاً بشكلٍ تامٍ للشهادة في سبيل الله، والتضحية في سبيل الله، بائعاً نفسه من الله.
وكان أن سطَّر القرآن الكريم ليلة الفداء هذه، وذلك الموقف الذي باع فيه نفسه من الله، واستعد بشكلٍ تامٍ للشهادة في سبيل الله، القرآن سطَّر هذا الموقف وجعله نموذجاً، وهذا ما ركَّز عليه القرآن في كل ما قدَّمه بشأن عليٍّ، أنه يقدمه كنموذج في دائرة العنوان الإيماني؛ ليكون نموذجاً للمؤمنين، نموذجاً للناس في: الإيمان، والارتقاء الإيماني، والالتزام الإيماني، والاستعداد العالي للتضحية في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، فقال الله \"جلَّ شأنه\": {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ}[البقرة: الآية207]، فالقرآن يقدِّم لنا هذا الموقف العظيم، ويكشف لنا في هذه الآية المباركة حتى عن مشاعر عليٍّ \"عليه السلام\"، أنه عندما قدَّم نفسه في سبيل الله، مستعداً للتضحية على نحوٍ تامٍ بدون أي تردد، وبدون أي توجس، وبدون أي قلق، هو يبتغي بذلك مرضاة الله \"سبحانه وتعالى\"، مخلصاً لله \"سبحانه وتعالى\"، وكان الإخلاص لله من أبرز العناوين التي نجدها في سيرة عليٍّ \"عليه السلام\":
في أعماله.
في مواقفه.
في جهاده.
في كل أعماله الصالحة، الإخلاص لله، والابتغاء لمرضاة الله، والسعي لنيل محبة لله \"سبحانه وتعالى\" ومرضاته، كان هو الهدف والغاية الرئيسية للإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، وهذا درسٌ عظيمٌ ومهمٌ لنا جميعاً، لكل المسلمين، لكل المؤمنين.
وهكذا استمر في عطائه مع الله \"سبحانه وتعالى\"، بعد هجرة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" أدَّى عنه الودائع، وكان يؤدِّي أيضاً هذا النوع من المهام، التي لها صلة مباشرة وخاصة برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فيؤدي عنه، فأدَّى عنه الودائع في مكة، كان هو أيضاً الذي يقضي دينه، يؤدي كل المهام الخاصة المتصلة بالنبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، يثق به ثقةً كاملة، ويطمئن إليه أنه سيؤدي عنه ما يؤديه.
وهاجر أيضاً، والتحق برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ونقل معه أسرة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى المدينة، في قصةٍ مشهورة، تحدى فيها خطر المشركين، عندما حاولوا أن يلحقوا به، وأن يحولوا بينه وبين الهجرة، وأن يعيدوا من معه من أسرة رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، إلَّا أنه تصدى لهم بكل حزم، ونجح في مهمته.
في مرحلة المدينة أدَّى دوره على نحوٍ عظيمٍ ومتميز، فكان في كل أدائه الجهادي، وفي كل المعارك، وفي كل المواقف والتحديات، التي كانت أبرز ملاحم الإسلام، هو البطل الأول، الذي يؤدِّي دوره العظيم، كجنديٍ عظيمٍ متميز، ومتفانٍ في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\":
في غزوة بدرٍ الكبرى:
كان له أكبر رصيدٍ بين المجاهدين مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، في تفانيه، واستبساله، ونكايته بالمشركين، وكان هو من باشر القتل بمعظم القتلى الذين قتلوا في غزوة بدر، وعندما برز هو وعمه حمزة بن عبد المطلب، وابن عمه عبيدة بن الحارث، نزلت الآية القرآنية: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ}[الحج: من الآية19]،فكان هو المخاصم لأعداء الله، للذين واجهوا الإسلام، وحاربوا الإسلام، وبرز هو وعمه وابن عمه في أول ما بدأت تلك المواجهة، في تلك المعركة، في موقفٍ تاريخيٍ مذكورٍ في السِّير النبوية. واستمر كذلك.
في معركة أحد:
كان له أبرز دورٍ في نصرة الإسلام، في الجهاد، فكان هو قاتل حملة الرايات، وقاتل الصناديد والأبطال من المشركين، وكان هو الثابت، المتفاني، المستبسل، عند الهزيمة، التي شملت الكثير من المسلمين، {إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ}[آل عمران: من الآية153]، كانت هزيمةً مؤلمة.
وكانت المرحلة آنذاك وذلك الظرف الحساس يشكِّل خطورةً كبيرةً على حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فكان ثابتاً مع رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ومستبسلاً، ومتفانياً، إلى حدٍ عجيب، كانت كلما أتت كتيبة تتجه نحو النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وتزحف بكل جدية، وبكل اهتمام، بهدف قتله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، يتجه الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" إلى تلك الكتيبة بكل استبسال وتفانٍ، ويقتل قائدها، فتنكسر، وترجع من زحفها، ثم يتجه إلى الكتيبة الأخرى... وهكذا، من هنا وهناك بكل استبسالٍ وتفانٍ، إلى درجة أن عَجِب جبرائيل- وهو حاضرٌ إلى جوار النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"- من هذا الاستبسال، من هذا التفاني، فقال: (إنَّ هذه لهي المواساة)، فقال النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (إنَّه منِّي، وأنا منه)، فقال جبرائيل: (وأنا منكما)، هذا شرفٌ عظيمٌ جداً جداً.
في معركة الخندق:
وهي معركة خطيرة وحساسة، وحوصرت فيها المدينة، وبلغت الحالة في داخل المدينة مبلغاً كبيراً من الضغط النفسي والمعنوي على المسلمين، {هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا}[الأحزاب: من الآية11]، وتحدث المنافقون بالإرجاف، والتهويل، والتشكيك، ولعبوا دوراً سلبياً في زعزعة الوضع الداخلي للمسلمين، واشتدت المشكلة على المسلمين، وتضاعف الهم والمحنة عليهم.
كان للإمام عليٍّ \"عليه السلام\" دوره البارز والمتميز، وتصدى هو لعمرو بن عبد ود العامري، وضربه ضربته الشهيرة، وقُتِلَ، وهو من أكابر فرسان المشركين، ومثَّل قتله ضربة معنوية كبيرة للأعداء.
وكانت تلك المواقف البطولية، وذلك الدور الرئيسي، في كل تلك المرحلة، مرحلة غزوة الخندق، منذ بداية الحصار، إلى حين انكشافه، وهزيمة المشركين ورجوعهم، كان الدور المحوري البارز للإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، يقدم النموذج الذي تحدثت عنه الآية المباركة في سورة الأحزاب: {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا}[الأحزاب: الآية23]، فكان المصداق الأول، والنموذج الأكمل لهذه النماذج:
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\".
وحمزة بن عبد المطلب.
وجعفر بن أبي طالب.
كانوا هم النموذج الأكمل، وهم المصداق الأول، وهي تشمل كل المؤمنين الذين نهجوا هذا النهج، ولكنهم يبقون دائماً في أول القائمة، وفي أول العنوان، على نحوٍ متميزٍ في كمال ما كانوا عليه من ذلك، وفي أنهم الذين بادروا وسبقوا إلى ذلك.
فيما بعد ذلك أيضاً، في ملاحم الإسلام الأخرى:
في خيبر:
وملحمة خيبر من أبرز الملاحم التاريخية، ومن أهم الملاحم في السيرة النبوية، وقد تراجع فيها المسلمون مرةً تلو أخرى، إلى أن قال النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (لأبعثن غداً عليهم رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، كراراً، غير فرار، يفتح الله على يديه)، الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" كان في المراحل التي تراجع فيها المسلمون في تلك الملحمة، كان مصاباً بالرمد، كان مريضاً، لا يبصر، لا يكاد يبصر موضع قدميه، فلم يكن حضر، وباشر، وشارك، في تلك العمليات التي تراجع فيها المسلمون، ولكن رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" تفل بريقه المبارك في عينيه، ودعا له بالشفاء، وشفي بشكلٍ تام، وأعطاه الراية، وانطلق، وفتح الله على يديه، في لحظةٍ سريعةٍ، ومعركةٍ حاسمةٍ وسريعة.
وكانت هذه المواصفات العظيمة والراقية تقدمه أيضاً كنموذج، (رجلاً يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، كرار، غير فرار، يفتح الله على يديه).
فنجده أيضاً في ملحمة حنين:
كان هو الثابت، بعد الهزيمة الكبيرة التي لحقت بأكثر المسلمين، ولم يبقَ مع رسول الله إلا القلة القليلة، كان أبرزهم وأكثرهم تفانياً واستبسالاً، وأكثرهم عناءً وجهداً وعملاً، وإسهاماً في الدفع عن رسول الله، وعن الإسلام، والتصدي للأعداء، كان هو عليٌّ \"عليه السلام\"، وأنزل الله سكينته على رسوله، وعلى المؤمنين، وتراجع المسلمون، وختمت تلك الملحمة التاريخية، والمعركة الكبيرة، بالنصر الحاسم لصالح المسلمين.
وهكذا في محطات كثيرة، وفي مراحل كثيرة، وفي تحديات كثيرة، كان يتميز الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" بتفانيه في سبيل الله، ببطولاته، التي لم تكن فقط مبنيةً على الشجاعة الفطرية فحسب؛ وإنما تستند أيضاً إلى هذا الرصيد الإيماني العظيم، وإلى هذا التوفيق والتأييد الإلهي الكبير، الذي كان يحظى به؛ لإيمانه، وصلته بالله \"سبحانه وتعالى\"، وعظيم منزلته في الإسلام.
والجهاد في سبيل الله عندما ينطلق من هذا المنطلق الإيماني، وبهذه القيم، وبهذا الوعي لعظمة الإسلام، وبهذا الحمل للإسلام، كقضية تدافع عنها، وتجسدها في واقعك العملي، يكون فضيلةً عظيمةً، ومرتبةً عاليةً جداً، وهو في سلم الأعمال الصالحة، وفي سلم العناوين، وفي قائمة العناوين الإيمانية، في المرتبة الأولى، {وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (95) دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً}[النساء: 95-96].
الإمام عليٌ \"عليه السلام\" على هذا المستوى في جهاده، في ارتقائه الإيماني، في علمه ومعرفته، وما منحه الله \"سبحانه وتعالى\" من الهداية، كان:
هو الأُذُن الواعية: المصداق الأول في الأُذُن الواعية، في الوعي، في الاستيعاب، في التفهم، في الاستنارة بنور الله \"سبحانه وتعالى\"، في الاستيعاب لما بلَّغه رسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى الأمه، وفيما علَّم به هذا التلميذ العظيم.
وكان هو باب مدينة العلم: كما في النص عن النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وهو يكشف لنا:
المقام العلمي العظيم من جهة.
والجانب المؤتمن لحمل وتبليغ ما أداه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" إلى الأمة، على نحوٍ وثيقٍ، وصادقٍ، ونقيٍ من كل الشوائب، وسليمٍ، أمانةٍ عاليةٍ، واستيعابٍ كبير، ومن واقع هذا الدور الذي يؤديه من خلال اقترانه بالقرآن.
وكان كما قال عنه النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\": (عليٌ مع القرآن، والقرآن مع علي):
فكان مع القرآن: استوعب القرآن، استوعب هداية القرآن الكريم على نحوٍ عظيم، يناسب هذا الدور الذي أوكل إليه، هذا الدور الذي عليه أن يقوم به.
ثم مع ذلك كان مجسداً للقرآن الكريم في واقع حياته:
كمواقف.
وكتعليمات.
وكسلوك.
وكأخلاق.
وكمبادئ.
وكمسيرة عمل، يلتزم به، يتحرك على أساسه.
فكان قرآناً ناطقاً بكل ما تعنيه الكلمة.
وكان يمثل استمرارية الإسلام بشكلٍ صحيح: في تقديمه للأمة، وفي الحركة بالأمة على أساسه، بشكلٍ صحيح؛ حتى تكون الأمة مهتديةً بالقرآن، حتى لا تتشوش عليها هذه العلاقة مع القرآن:
بمفاهيم غير صحيحة.
بتأويلٍ غير صحيح.
بتفسيرٍ غير صحيح.
بتزييفٍ للمفاهيم، التي تحسب على القرآن الكريم.
فكان هو الذي قاتل على تأويل القرآن، كما قاتل النبي على تنزيله، كما أخبر النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" بذلك، وهو يخبر هذه الأمة، ويطلعها على طبيعة هذا الدور، الذي يقوم به عليٌّ \"عليه السلام\" ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فأخبر الأمة أن علياً \"عليه السلام\" سيقاتل على تأويل القرآن، كما قاتل النبي على تنزيله.
فكان في مرحلة التنزيل، في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، ذلك النموذج العظيم، الأكمل، والمصداق الأول، على مستوى العناوين الإيمانية والقرآنية.
وما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\" كان هو الذي يؤدي هذا الدور في:
الحماية للمفاهيم القرآنية.
ومعارف الإسلام.
وحقيقة الإسلام.
ويتحرك بالأمة على هذا الأساس بشكلٍ صحيح؛ حتى يحميها من الانحراف، الانحراف الخطير الذي تتحرك به حركة النفاق والانحراف في داخل الأمة، وتحركت، وتحركت بذلك.
الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" منزلته التي كان فيها في ظل حياة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، حددها، ووضحها، وبينها، النص النبوي، الذي رواه المسلمون بكل مذاهبهم، عندما قال \"صلى الله عليه وعلى آله وسلم\" للإمام عليٍّ \"عليه السلام\": (أنت مني بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه لا نبي بعد)، فله هذه المنزلة وهو يؤدي هذا الدور، في عهد النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، وما بعد وفاته.
وبقي الإمام عليٌّ \"عليه السلام\" يمثل العلامة الفارقة بين الإيمان والنفاق، فهو يمثل الاتجاه الصحيح، السليم، في مسيرة الإسلام، وعندما أتت حركة النفاق لتناوئ هذا المسار، ولتحارب هذا المسار والامتداد الأصيل والصحيح، كانت مكشوفة، كانت مفضوحة؛ لأن هناك ما يعبر عن الامتداد الصحيح، ما يمثل النموذج، وما يمثل الشاهد، وما له موقع القيادة والهداية، وهذه نعمة كبيرة جداً للأمة، هذه نعمة جداً، حتى لا تلتبس الأمور ما بعد وفاة النبي \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"؛ لأن النبي أنذر أمته بأنها مقبلةٌ على فتنٍ كقطع الليل المظلم، وأنها مقبلةٌ على حالةٍ من التلبيس والانحراف، وأنها مقبلة على حالةٍ من الانحراف، الذي يشكل خطورةً كبيرةً عليها:
في نقاء الإسلام.
في فهمها الصحيح للإسلام.
في أن تسير بشكلٍ مكتملٍ، وفق مبادئ الإسلام كاملةً نقية.
فعملية الانحراف والتلبيس لن تأتي لتغير العنوان الإسلامي بكله، ولكنها تشوشه، تُلَبِّس فيه، تزيف الكثير من حقائقه؛ فتلبس الحق بالباطل، وتحول هذا الإسلام إلى إسلامٍ مختلطٍ بكثيرٍ من المفاهيم، التي تحسب عليه وليست منه، وإنما هي في حقيقة أمرها تعبر عن النفاق، وقد كان هذا الخطر على نحوٍ كبيرٍ جداً، في مرحلة عودة الدور الأموي، والنفوذ الأموي، من جديد في واقع الأمة، وكان يشكِّل خطراً كبيراً جداً على هذه الأمة، في إسلامها:
في إسلامها أن يبقى نقياً.
أن يبقى سليماً.
أن تبقى له ثمرته الحقيقية في الإنسان والحياة.
وأن يبقى له أثره المبتغى منه في واقع الحياة، وفي الدنيا والآخرة.
فالدور الأموي الذي شكَّل تهديداً بالغاً، وغذى معه كل أشكال الانحراف، ووظف معه كل حالات الانحراف الموجودة والممتدة في مختلف الساحة الإسلامية، والتي وصلت إلى مستوى التوغل إلى داخل الكوفة، عاصمة الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، عاصمة الأمة الإسلامية، فوظف كل حالة الانحراف، وغذاها، وحركها، بما في ذلك ظاهرة الخوارج، استفاد منها الجانب الأموي، وحركها وفق خيوطه وأساليبه الماكرة والخبيثة، وشغَّلها على النحو الذي يحقق له أهدافه ومآربه الشيطانية.
فالإمام عليٌّ \"عليه السلام\" تصدى للدور الأموي على أكمل وجه، قام بمسؤولياته على أكمل وجه، حفظ للإسلام نقاءه:
وهو يبلِّغ.
وهو يعبِّر.
وهو يقدِّم هذا الإسلام.
وهو يجسد هذا الإسلام:
في مواقفه.
في سلوكه.
في أعماله.
في مواقفه.
وهو يجاهد بكل أشكال الجهاد، ويدافع عن هذا الإسلام، عن الأمة نفسها؛ ليبقى لها هذا الإسلام كما هو، وليعطي هذا الامتداد في مرحلة من أخطر المراحل، ومن أسوأ المراحل، تشكل تهديداً على الإسلام، وتمثل منعطفاً خطيراً جداً في تاريخ الأمة.
وفي نهاية المطاف استشهد، ضحى بحياته، بروحه، في سبيل الله \"سبحانه وتعالى\"، وقد أتم دوره، وقام بواجبه، على أكمل وجه.
فكان هو الشاهد في كل تلك المراحل:
في مرحلة التنزيل.
وفي مرحلة التأويل.
وكان هو النموذج، الذي يمكن للأمة أن تتطلع إليه في كل عصر، لتقيس على تلك الروحية، على تلك المنهجية، كل النماذج الأخرى، فتشاهد النموذج الأصيل، والعظيم جداً، والراقي جداً، والكامل، الذي تقيس عليه النماذج الأخرى مهما صغرت، فلا تلتبس عليها مسألة الرموز، مسألة القادة، مسألة الأعلام، الذين تسير بعدهم، الذين تتأثر بهم، الذين تتجه بهم؛ لأن أمامها نموذج واضح جداً، وكامل جداً، ويؤدي دوره في الشهادة على نحوٍ مستمرٍ عبر الأجيال.
عندما نأتي إلى زمننا هذا، نتطلع إلى الإمام عليٍّ \"عليه السلام\" وهو في هذا الموقع:
في موقع القدوة والقيادة.
وهو في موقع أيضاً النموذج الأكمل، والمصداق الأول، لكل تلك العناوين والمواصفات الإيمانية العظيمة.
فنرى فيه مدرسةً متكاملةً، معطاءةً وغنية، نستهدي بها، نستهدي بسيرتها، نستهدي بما قدمه:
في مواقفه.
في صبره.
في عطائه.
ونجد فيه النموذج الإنساني الراقي، المكتمل، الذي قدمه القرآن أيضاً في سورة الإنسان، في عطائه الإنساني، وهو كما قال عنه \"سبحانه وتعالى\"، وهو يقدم صورةً من عطائه مع أصحاب الكساء: {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (9) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا}[الإنسان: 8-10]، وهكذا تقدمه هذه الآيات المباركة، وهو في عطائه، إلى هذا المستوى الذي يؤثر على نفسه في أضيق الحالات، في أشد الظروف، في أقسى الظروف، على المستوى المعيشي، فيؤثر حتى بطعامه، الذي لا يمتلك غيره، يؤثر الفئات المحتاجة، من:
مسكينٍ.
ويتيمٍ.
وأسير.
ويبقى جائعاً. هذا هو عليٌّ \"عليه السلام\" في عطائه الراقي جداً، وبإخلاصٍ عظيمٍ لله \"سبحانه وتعالى\"، ليس لأهداف أخرى، حتى على مستوى الشكور، على مستوى الثناء، على مستوى المديح، لم يسع لذلك من خلال عطائه، فكان ذلك النموذج الراقي في عطائه، في إخلاصه، تجسدت حالته الإيمانية:
في اهتمامه بأمر الناس.
واهتمامه بعباد الله.
ورحمته بالمستضعفين.
ودفاعه عنهم.
وعطائه لهم.
مع خوفٍ من الله \"سبحانه وتعالى\".
ومحبةٍ عظيمةٍ لله \"جلَّ شأنه\".
وصلةٍ إيمانيةٍ راقية.
ثم كان هو ذلك الذي عندما أتت الشهادة قال كلمته الشهيرة: (فزت ورب الكعبة)؛ لأنه:
كان على يقين من سلامة منهجه، من صحة موقفه.
كان على بصيرةٍ عاليةٍ تجاه مسيرته ومواقفه.
كان يدرك أيضاً فضل الشهادة، وعظيم منزلتها، وعظيم منزلته هو فيما أداه، وفيما توفق له، وفيما كان عليه من إيمانٍ عظيم، وفيما عمل به وقدمه من العمل الصالح العظيم.
وبقيت أعماله، وآثار أعماله، ممتدةً فيما قدمه، وفيما أسهم به:
في رفع راية الإسلام.
وفي تخليد الحق.
وفي خدمة المستضعفين.
ممتدةً إلى يوم القيامة.
مدرسةٌ، وقدوةٌ، ومنهجيةٌ نستفيدها من الإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، في مرحلةٍ نحن في أمسِّ الحاجة إلى ذلك.
وكان حبه علامةً فارقةً بين الإيمان والنفاق؛ لهذا الدور الذي يؤديه في مستقبل الأمة، ويبقى علامةً فارقةً بين الإيمان، وبين النفاق؛ لأن:
الإيمان في امتداده الأصيل: جسَّده عليٌّ، وقدمه علي.
والنفاق: كان دائماً في الاتجاه المناوئ لعلي، والمعارض لعلي، والباغض لعلي، والكاره لعلي، والمستاء دائماً من أمير المؤمنين علي بن أبي طالب \"عليه السلام\".
نسأل الله أن يوفقنا وإياكم لأن نقتدي بالإمام عليٍّ \"عليه السلام\"، لأن نقتدي برسول الله \"صلوات الله وسلامه عليه وعلى آله\"، فيما يمثله عليٌّ من حلقة وصلٍ برسول الله، حلقة وصلٍ موثوقةٍ، وأمينةٍ، وصادقةٍ، وأصيلةٍ، ونسأل الله أن يوفقنا وإياكم لما يرضيه عنا، وأن يرحم شهداءنا الأبرار، وأن يشفي جرحانا، وأن يفرِّج عن أسرانا، وأن ينصرنا بنصره، إنه سميع الدعاء.
والسَّـلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ؛؛؛
41m:26s
2265
[FARSI][1October11] بیانات ولی امر مسلمین در...
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم...
بيانات در كنفرانس حمايت از انتفاضه فلسطين
بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليكم و رحمةالله
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد و ءاله الطّاهرين
و صحبه المنتجبين و على من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
قال الله الحكيم: «اذن للّذين يقاتلون بأنّهم ظلموا و انّ الله على نصرهم لقدير. الّذين اخرجوا من ديارهم بغير حقّ الّا ان يقولوا ربّنا الله و لو لا دفع الله النّاس بعضهم ببعض لهدّمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد يذكر فيها اسم الله كثيرا و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(1)
به ميهمانان عزيز و همهى حضار گرامى خوشامد ميگويم. در ميان همهى موضوعاتى كه شايسته است نخبگان دينى و سياسى از سراسر جهان اسلام به آن بپردازند، مسئلهى فلسطين داراى برجستگى ويژهاى است. فلسطين، مسئلهى اول در ميان همهى موضوعات مشترك كشورهاى اسلامى است. مشخصات منحصر به فردى در اين مسئله وجود دارد:
اول اين كه يك كشور مسلمان از ملت آن، غصب و به بيگانگانى كه از كشورهاى گوناگون گردآورى شده و جامعهاى جعلى و موزائيكى تشكيل دادهاند، سپرده شده است.
دوم اين كه اين حادثهى بىسابقه در تاريخ، با كشتار و جنايت و ظلم و اهانت مستمر انجام گرفته است.
سوم آن كه قبلهى اول مسلمانان و بسيارى از مراكز محترم دينى كه در اين كشور قرار دارد، به تخريب و توهين و زوال تهديد شده است.
چهارم آن كه اين دولت و جامعهى جعلى در حساسترين نقطهى جهان اسلام، از آغاز تاكنون، نقش يك پايگاه نظامى و امنيتى و سياسى را براى دولتهاى استكبارى بازى كرده و محور غرب استعمارى كه به علل گوناگون، دشمن اتحاد و اعتلاء و پيشرفت كشورهاى اسلامى است، از آن همواره چون خنجرى در پهلوى امت اسلامى استفاده كرده است.
پنجم آن كه صهيونيسم كه خطر اخلاقى و سياسى و اقتصادى بزرگى براى جامعهى بشرى است، اين جاى پا را وسيلهاى و نقطهى اتكائى براى گسترش نفوذ و سلطهى خود در جهان قرار داده است.
نكات ديگرى را هم ميتوان بر اينها افزود: هزينهى مالى و انسانىِ سنگينى كه كشورهاى اسلامى تاكنون پرداختهاند. اشتغال ذهنى دولتها و ملتهاى مسلمان. رنج ميليونها آوارهى فلسطينى، كه بسيارى از آنان پس از شش دهه هنوز در اردوگاهها زندگى ميكنند. انقطاع تاريخ يك كانون مهمِ تمدنى در جهان اسلام و الى غير ذلك.
امروزه بر اين دلائل، يك نكتهى كليدى و اساسى ديگر افزوده شده است و آن، نهضت بيدارى اسلامى است كه سراسر منطقه را فرا گرفته و فصل تازه و تعيين كنندهاى در سرگذشت امت اسلامى گشوده است. اين حركت عظيم كه بىگمان ميتواند به ايجاد يك مجموعهى مقتدر و پيشرفته و منسجم اسلامى در اين نقطهى حساس جهان منتهى شود و به حول و قوهى الهى و با عزم راسخ پيشروان اين نهضت، نقطهى پايان بر دوران عقبماندگى و ضعف و حقارت ملتهاى مسلمان بگذارد، بخش مهمى از نيرو و حماسهى خود را از قضيهى فلسطين گرفته است.
ظلم و زورگوئى روزافزون رژيم صهيونيستى و همراهى برخى حكام مستبد و فاسد و مزدور آمريكا با آن از يك سو، و سر برآوردن مقاومت جانانهى فلسطينى و لبنانى و پيروزىهاى معجزآساى جوانان مؤمن در جنگهاى سى و سه روزهى لبنان و بيست و دو روزهى غزه از سوى ديگر، از جملهى عوامل مهمى بودند كه اقيانوس بظاهر آرام ملتهاى مصر و تونس و ليبى و ديگر كشورهاى منطقه را به تلاطم در آوردند.
اين يك واقعيت است كه رژيم سراپا مسلح صهيونيست و مدعى شكستناپذيرى، در لبنان در جنگى نابرابر، از مشت گرهشدهى مجاهدان مؤمن و دلاور، شكست سخت و ذلتبارى خورد؛ و پس از آن، در برابر مقاومت مظلومانه و پولادين غزه، بار ديگر شمشير كُند خود را آزمود و ناكام ماند.
اينها بايد در تحليل اوضاع كنونى منطقه مورد ملاحظهى جدى قرار گيرد و درستىِ هر تصميمى كه گرفته ميشود، با آن سنجيده شود.
پس اين، قضاوت دقيقى است كه مسئلهى فلسطين، امروز اهميت و فوريت مضاعف يافته است و ملت فلسطين حق دارد كه در اوضاع كنونى منطقه، انتظار بيشترى از كشورهاى مسلمان داشته باشد.
نگاهى به گذشته و حال بيندازيم و براى آينده، نقشهى راهى ترسيم كنيم. من رئوس مطالبى را در ميان ميگذارم.
بيش از شش دهه از فاجعهى غصب فلسطين ميگذرد. عوامل اصلى اين فاجعهى خونين، همه شناختهشدهاند و دولت استعمارگر انگليس در رأس آنهاست، كه سياست و سلاح و نيروى نظامى و امنيتى و اقتصادى و فرهنگى آن و سپس ديگر دولتهاى مستكبر غربى و شرقى، در خدمت اين ظلم بزرگ به كار افتاد. ملت بىپناه فلسطين در زير چنگال بىرحم اشغالگران، قتلعام و از خانه و كاشانهى خود رانده شد. تا امروز هنوز يكصدم فاجعهى انسانى و مدنىاى كه به دست مدعيان تمدن و اخلاق، در آن روزگار اتفاق افتاد، به تصوير كشيده نشده و بهرهاى از هنرهاى رسانهاى و تصويرى نيافته است. اربابان عمدهى هنرهاى تصويرى و سينما و تلويزيون و مافياهاى فيلمسازىِ غربى اين را نخواسته و اجازهى آن را ندادهاند. يك ملت در سكوت، قتلعام و آواره و بىخانمان شد.
مقاومتهائى در آغاز كار پديد آمد كه با شدت و قساوت سركوب شد. از بيرون مرزهاى فلسطين و عمدتاً از مصر، مردانى با انگيزهى اسلامى تلاشهائى كردند كه از حمايت لازم برخوردار نشد و نتوانست تأثيرى در صحنه بگذارد.
پس از آن، نوبت به جنگهاى رسمى و كلاسيك ميان چند كشور عرب با ارتش صهيونيست رسيد. مصر و سوريه و اردن نيروهاى نظامى خود را وارد صحنه كردند، ولى كمك بىدريغ و انبوه و روزافزون نظامى و تداركاتى و مالى از سوى آمريكا و انگليس و فرانسه به رژيم غاصب، ارتشهاى عربى را ناكام كرد. آنها نه فقط نتوانستند به ملت فلسطين كمك كنند، كه بخشهاى مهمى از سرزمينهاى خود را هم در اين جنگها از دست دادند.
با آشكار شدن ناتوانى دولتهاى عرب همسايه با فلسطين، بتدريج هستههاى مقاومتِ سازمانيافته در قالب گروههاى مسلح فلسطينى شكل گرفت و پس از چندى از گرد آمدن آنها، «سازمان آزاديبخش فلسطين» تشكيل يافت. اين برق اميدى بود كه خوش درخشيد، ولى طولى نكشيد كه خاموش شد. اين ناكامى را ميتوان به علل متعددى منسوب كرد، ولى علت اساسى، دورى آنان از مردم و از عقيده و ايمان اسلامى آنان بود. ايدئولوژى چپ و يا صرفاً احساسات ناسيوناليستى، آن چيزى نبود كه مسئلهى پيچيده و دشوار فلسطين به آن نياز داشت. آنچه ميتوانست ملتى را به ميدان مقاومت وارد كند و نيروئى شكستناپذير از آنان فراهم آورد، اسلام و جهاد و شهادت بود. آنها اين را بدرستى درك نكردند. من در ماههاى اول انقلاب كبير اسلامى كه سران سازمان آزاديبخش روحيهى تازهاى يافته و به تهران مكرراً آمد و شد ميكردند، از يكى از اركان آن سازمان پرسيدم: چرا پرچم اسلام را در مبارزهى بحق خود بلند نميكنيد؟ پاسخ او اين بود كه در ميان ما، بعضى هم مسيحىاند. اين شخص بعدها در يك كشور عربى به دست صهيونيستها ترور و كشته شد و انشاءالله مشمول مغفرت الهى قرار گرفته باشد؛ ولى اين استدلال او ناقص و نارسا بود. به گمان من، يك مبارز مسيحىِ مؤمن در كنار يك جمع مجاهد فداكارى كه خالصانه، با ايمان به خدا و قيامت و با اميد به كمك الهى ميجنگد و از حمايت مادى و معنوى مردمش برخوردار است، انگيزهى بيشترى براى مبارزه مىيابد تا در كنار گروه بىايمان و متكى به احساسات ناپايدار و دور از پشتيبانىِ وفادارانهى مردمى.
نبود ايمان راسخ دينى و انقطاع از مردم، بتدريج آنان را خنثى و بىتأثير كرد. البته در ميان آنان، مردان شريف و پرانگيزه و غيور بودند، ولى مجموعه و سازمان به راه ديگرى رفت. انحراف آنان، به مسئلهى فلسطين ضربه زد و هنوز هم ميزند. آنها هم مانند برخى دولتهاى خائن عربى، به آرمان مقاومت - كه تنها راه نجات فلسطين بوده و هست - پشت كردند؛ و البته نه فقط به فلسطين، كه به خود هم ضربهى سختى وارد كردند. به قول شاعر مسيحى عرب:
لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم
طول الحياة مضاضات و ءالام
سى و دو سال از عمر نكبت، بدين ترتيب سپرى شد؛ ولى ناگهان دست قدرت خداوند ورق را برگردانيد. پيروزى انقلاب اسلامى در ايران در سال 1979 - 1357 هجرى شمسى - اوضاع اين منطقه را زير و رو كرد و صفحهى جديدى را گشود. در ميان تأثيرات شگرف جهانىِ اين انقلاب و ضربههاى شديد و عميقى كه بر سياستهاى استكبارى وارد ساخت، از همه سريعتر و آشكارتر، ضربه به دولت صهيونيست بود. اظهارات سران آن رژيم در آن روزها، خواندنى و حاكى از حال و روز سياه و پر اضطراب آنهاست. در اولين هفتههاى پيروزى، سفارت دولت جعلى اسرائيل در تهران تعطيل و كاركنان آن اخراج شدند و محل آن رسماً به نمايندگى سازمان آزاديبخش فلسطين داده شد؛ كه تا امروز هم در آنجا مستقرند.
امام بزرگوار ما اعلام كردند كه يكى از هدفهاى اين انقلاب، آزادى سرزمين فلسطين و قطع غدهى سرطانى اسرائيل است. امواج پرقدرت اين انقلاب، كه آن روز همهى دنيا را فرا گرفت، هر جا رفت - با اين پيام رفت كه «فلسطين بايد آزاد شود». گرفتارىهاى پياپى و بزرگى كه دشمنان انقلاب بر نظام جمهورى اسلامى ايران تحميل كردند - كه يك قلم آن، جنگ هشت سالهى رژيم صدام حسين به تحريك آمريكا و انگليس و پشتيبانى رژيمهاى مرتجع عرب بود - نيز نتوانست انگيزهى دفاع از فلسطين را از جمهورى اسلامى بگيرد.
بدينگونه خون تازهاى در رگهاى فلسطين دميده شد. گروههاى مجاهد فلسطينىِ مسلمان سر برآوردند. مقاومت لبنان، جبههى نيرومند و تازهاى در برابر دشمن و حاميانش گشود. فلسطين به جاى تكيه به دولتهاى عربى و بدون دست دراز كردن به سوى مجامع جهانى، از قبيل سازمان ملل - كه شريك جرم دولتهاى استكبارى بودند - به خود، به جوانان خود، به ايمان عميق اسلامى خود و به مردان و زنان فداكار خود تكيه كرد. اين، كليد همهى فتوحات و موفقيتهاست.
در سه دههى گذشته، اين روند روزبهروز پيشرفت و افزايش داشته است. شكست ذلتبار رژيم صهيونيستى در لبنان در سال 2006 - 1385 هجرى شمسى - ناكامى فضاحتبار آن ارتش پر مدعا در غزه در سال 2008 - 1387 هجرى شمسى - فرار از جنوب لبنان و عقبنشينى از غزه، تشكيل دولت مقاومت در غزه، و در يك جمله، تبديل ملت فلسطين از مجموعهاى از انسانهاى درمانده و نااميد، به ملت اميدوار و مقاوم و داراى اعتماد به نفس، مشخصههاى بارز سى سال اخير است.
اين تصوير كلى و اجمالى آنگاه كامل خواهد شد كه تحركات سازشكارانه و خيانتبارى كه هدف از آن، خاموش كردن مقاومت و اعترافگيرى از گروههاى فلسطينى و دولتهاى عرب به مشروعيت اسرائيل بود، نيز بدرستى ديده شود. اين تحركات كه آغاز آن به دست جانشين خائن و ناخلف جمال عبدالناصر در پيمان ننگين «كمپ ديويد» اتفاق افتاد، همواره خواسته است نقش سوهان را در عزم پولادين مقاومت ايفاء كند. در قرارداد كمپ ديويد، براى نخستين بار، يك دولت عرب، رسماً به صهيونيستى بودن سرزمين اسلامى فلسطين اعتراف كرد و پاى نوشتهاى را كه در آن، اسرائيل خانهى ملى يهوديان شناخته شده است، امضاى خود را گذاشت.
از آن پس تا قرارداد «اسلو» در سال 1993 - 1372 هجرى شمسى - و پس از آن در طرحهاى تكميلى كه با ميداندارى آمريكا و همراهى كشورهاى استعمارگر اروپائى، پىدرپى بر دوش گروههاى سازشكار و بىهمتى از فلسطينيان گذاشته شد، همهى سعى دشمن بر آن بود كه با وعدههاى پوچ و فريبآميز، ملت و گروههاى فلسطينى را از گزينهى «مقاومت» منصرف كنند و به بازى ناشيانه در ميدان سياست سرگرم سازند. بىاعتبارى همهى اين معاهدات، بسيار زود آشكار شد و صهيونيستها و حاميان آنها بارها نشان دادند كه به آنچه نوشته شده است، به چشم ورق پارههاى بىارزشى مينگرند. هدف از اين طرحها، پديد آوردن دودلى در فلسطينيان، و به طمع انداختن افراد بىايمان و دنياطلبِ آنان، و زمينگير نمودن حركت مقاومت اسلامى بوده است و بس.
پادزهر همهى اين بازىهاى خيانتآميز تاكنون، روحيهى مقاومت در گروههاى اسلامى و ملت فلسطين بوده است. آنها به اذن خدا در برابر دشمن ايستادند و همان طور كه خداوند وعده داده است كه: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»، از كمك و نصرت الهى برخوردار شدند. ايستادگى غزه با وجود محاصرهى كامل، نصرت الهى بود. سقوط رژيم خائن و فاسد حسنى مبارك، نصرت الهى بود. پديد آمدن موج پرقدرت بيدارى اسلامى در منطقه، نصرت الهى است. برافتادن پردهى نفاق و تزوير از چهرهى آمريكا و انگليس و فرانسه و تنفر روزافزون ملتهاى منطقه از آنان، نصرت الهى است. گرفتارىهاى پىدرپى و بيشمار رژيم صهيونيست، از مشكلات سياسى و اقتصادى و اجتماعى داخلىاش گرفته تا انزواى جهانى و انزجار عمومى و حتّى دانشگاههاى اروپائى از آن، همه و همه مظاهر نصرت الهى است. امروز رژيم صهيونيستى از هميشه منفورتر و ضعيفتر و منزوىتر، و حامى اصلىاش آمريكا از هميشه گرفتارتر و سردرگمتر است.
اكنون صفحهى كلى و اجمالى فلسطين در شصت و چند سال گذشته، پيش روى ماست. آينده را بايد با نگاه به آن و درسگيرى از آن تنظيم كرد.
دو نكته را پيشاپيش بايد روشن كرد:
اول اين كه مدعاى ما آزادى فلسطين است، نه آزادىِ بخشى از فلسطين. هر طرحى كه بخواهد فلسطين را تقسيم كند، يكسره مردود است. طرح دو دولت كه لباس حقبهجانبِ «پذيرش دولت فلسطين به عضويت سازمان ملل» را بر آن پوشاندهاند، چيزى جز تن دادن به خواستهى صهيونيستها، يعنى «پذيرش دولت صهيونيستى در سرزمين فلسطين» نيست. اين به معناى پايمال كردن حق ملت فلسطين، ناديده گرفتن حق تاريخى آوارگان فلسطينى، و حتّى تهديد حق فلسطينيانِ ساكن سرزمينهاى 1948 است؛ به معناى باقى ماندن غدهى سرطانى و تهديد دائمى پيكرهى امت اسلامى، مخصوصاً ملتهاى منطقه است؛ به معناى تكرار رنجهاى دهها ساله و پايمال كردن خون شهداست.
هر طرح عملياتى بايد بر مبناى اصلِ «همهى فلسطين براى همهى مردم فلسطين» باشد. فلسطين، فلسطينِ «از نهر تا بحر» است، نه حتّى يك وجب كمتر. البته اين نكته نبايد ناديده بماند كه ملت فلسطين همان طور كه در غزه عمل كردند، هر بخش از خاك فلسطين را كه بتوانند آزاد كنند، به وسيلهى دولت برگزيدهى خود، ادارهى امور آن را بر عهده خواهند گرفت، ولى هرگز هدف نهائى را از ياد نخواهند برد.
نكتهى دوم آن است كه براى دستيابى به اين هدف والا، كار لازم است، نه حرف؛ جدى بودن لازم است، نه كارهاى نمايشى؛ صبر و تدبير لازم است، نه رفتارهاى بيصبرانه و دچار تلوّن. بايد به افقهاى دور نگريست و قدم به قدم با عزم و توكل و اميد به پيش رفت. دولتها و ملتهاى مسلمان، گروههاى مقاومت در فلسطين و لبنان و ديگر كشورها، هر يك ميتوانند نقش و سهم خود از اين مجاهدت همگانى را بشناسند و باذن الله جدول مقاومت را پر كنند.
طرح جمهورى اسلامى براى حل قضيهى فلسطين و التيام اين زخم كهنه، طرحى روشن، منطقى و منطبق بر معارف سياسىِ پذيرفته شدهى افكار عمومىِ جهانى است كه قبلاً به تفصيل ارائه شده است. ما نه جنگ كلاسيكِ ارتشهاى كشورهاى اسلامى را پيشنهاد ميكنيم، و نه به دريا ريختن يهوديان مهاجر را، و نه البته حكميت سازمان ملل و ديگر سازمانهاى بينالمللى را؛ ما همهپرسى از ملت فلسطين را پيشنهاد ميكنيم. ملت فلسطين نيز مانند هر ملت ديگر حق دارد سرنوشت خود را تعيين كند و نظام حاكم بر كشورش را برگزيند. همهى مردم اصلى فلسطين، از مسلمان و مسيحى و يهودى - نه مهاجران بيگانه - در هر جا هستند؛ در داخل فلسطين، در اردوگاهها و در هر نقطهى ديگر، در يك همهپرسىِ عمومى و منضبط شركت كنند و نظام آيندهى فلسطين را تعيين كنند. آن نظام و دولتِ برآمدهى از آن، پس از استقرار، تكليف مهاجران غير فلسطينى را كه در ساليان گذشته به اين كشور كوچ كردهاند، معين خواهد كرد. اين يك طرح عادلانه و منطقى است كه افكار عمومى جهانى آن را بدرستى درك ميكند و ميتواند از حمايت ملتها و دولتهاى مستقل برخوردار شود. البته انتظار نداريم كه صهيونيستهاى غاصب بهآسانى به آن تن در دهند، و اينجاست كه نقش دولتها و ملتها و سازمانهاى مقاومت شكل ميگيرد و معنى مىيابد. مهمترين ركن حمايت از ملت فلسطين، قطع پشتيبانى از دشمن غاصب است؛ و اين وظيفهى بزرگ دولتهاى اسلامى است.
اكنون پس از به ميدان آمدن ملتها و شعارهاى قدرتمندانهى آنان بر ضد رژيم صهيونيست، دولتهاى مسلمان با چه منطقى روابط خود با رژيم غاصب را ادامه ميدهند؟ سند صداقت دولتهاى مسلمان در جانبدارىشان از ملت فلسطين، قطع روابط آشكار و پنهان سياسى و اقتصادى با آن رژيم است. دولتهائى كه ميزبان سفارتخانهها يا دفاتر اقتصادى صهيونيستهايند، نميتوانند مدعى دفاع از فلسطين باشند و هيچ شعار ضد صهيونيستى از سوى آنان، جدى و واقعى تلقى نخواهد شد.
سازمانهاى مقاومت اسلامى كه بار سنگين جهاد را در سالهاى گذشته بر دوش داشتهاند، امروز نيز با همان تكليف بزرگ روبهرويند. مقاومت سازمانيافتهى آنان، بازوى فعالى است كه ميتواند ملت فلسطين را به سوى اين هدف نهائى به پيش ببرد. مقاومت شجاعانه از سوى مردمى كه خانه و كشورشان اشغال شده، در همهى ميثاقهاى بينالمللى به رسميت شناخته شده و مورد تحسين و تجليل قرار گرفته است. تهمت تروريزم از سوى شبكهى سياسى و رسانهاىِ وابسته به صهيونيزم، سخن پوچ و بىارزشى است. تروريست آشكار، رژيم صهيونيستى و حاميان غربى آنهايند؛ و مقاومت فلسطينى، حركتى ضد تروريستهاى جرّار و حركتى انسانى و مقدس است.
در اين ميان، كشورهاى غربى نيز شايسته است صحنه را با نگاهى واقعبينانه بنگرند. غرب امروز بر سر دوراهى است. يا بايد دست از زورگوئى طولانىمدت خود بردارد و حق ملت فلسطين را بشناسد و بيش از اين از نقشهى صهيونيستهاى زورگو و ضد بشر پيروى نكند، و يا در انتظار ضربههاى سختتر در آيندهى نه چندان دور باشد. اين ضربههاى فلج كننده فقط سقوط پىدرپى حكومتهاى گوش به فرمان آنان در منطقهى اسلامى نيست، بلكه آن روزى كه ملتهاى اروپا و آمريكا دريابند كه بيشترين گرفتارىهاى اقتصادى و اجتماعى و اخلاقى آنان منشأ گرفته از سلطهى اختاپوسى صهيونيزم بينالملل بر دولتهاى آنهاست، و دولتمردان آنان به خاطر منافع شخصى و حزبى خود، مطيع و تسليم در برابر زورگوئىهاى كمپانىداران زالوصفت صهيونيست در آمريكا و اروپايند، آنچنان جهنمى براى آنان به وجود خواهند آورد كه هيچ راه خلاصى از آن متصور نيست.
رئيس جمهور آمريكا ميگويد كه امنيت اسرائيل خط قرمز اوست. اين خط قرمز را چه عاملى ترسيم كرده است؟ منافع ملت آمريكا، يا نياز شخص اوباما به پول و پشتيبانى كمپانىهاى صهيونيستى براى به دست آوردن كرسى دومين دورهى رياست جمهورى؟ تا كى شماها خواهيد توانست ملتهاى خود را فريب دهيد؟ آن روزى كه ملت آمريكا بدرستى دريابد كه شماها براى چند صباح بيشتر باقى ماندن در قدرت، تن به ذلت و تبعيت و خاكسارى در برابر زرسالاران صهيونيست دادهايد و مصالح ملت بزرگى را در پاى آنان قربانى كردهايد با شما چه خواهند كرد؟
حضار گرامى و برادران و خواهران عزيز! بدانيد اين خط قرمزِ اوباما و امثال او به دست ملتهاى بهپاخاستهى مسلمان شكسته خواهد شد. آنچه رژيم صهيونيست را تهديد ميكند، موشكهاى ايران يا گروههاى مقاومت نيست، تا در برابر آن سپر موشكى در اينجا و آنجا به پا كنند؛ تهديد حقيقى و بدون علاج، عزم راسخ مردان و زنان و جوانانى در كشورهاى اسلامى است كه ديگر نميخواهند آمريكا و اروپا و عوامل دستنشاندهشان بر آنان حكومت و تحكم و آنان را تحقير كنند. البته آن موشكها هم هرگاه تهديدى از سوى دشمن بروز كند، وظيفهى خود را انجام خواهند داد.
«فاصبر انّ وعد الله حقّ و لا يستخفّنّك الّذين لا يوقنون».(2)
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=17401
36m:29s
20617
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
40m:1s
20324
[Urdu] Hajj 2015 حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا...
[Hajj 1436] حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
حجاج کرام کے نام پیغام
بسم الله...
[Hajj 1436] حجاج کرام کے نام رہبر معظم کا پیغام - Urdu
حجاج کرام کے نام پیغام
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد لله رب العالمین و الصلا ۃو السلام علی سیّد الخلق اجمعین محمد و آلہ الطاہرین و صحبہ المنتجبین و علی التابعین لہم باحسان الی یوم الدین
اور سلام ہو یکتا پرستی کے مرکز، مومنین کی طواف گاہ اور فرشتوں کی جائے نزول ،کعبہ شریف پر۔ اور سلام ہو مسجد الحرام، عرفات، مشعر اور منی پر اور سلام ہو خضوع و خشوع سےبھرپور دلوں پر، ذکر میں ڈوبی زبانوں پر، بصیرت کے ساتھ کھلنے والی آنکھوں پر، عبرت و سبق کا راستہ پا جانے والے افکار پر اور سلام ہو آپ خوش نصیب حاجیوں پر کہ آپ کو دعوت الہی پر لبیک کہنے کی توفیق نصیب ہوئی اور آپ نعمتوں کے دسترخوان پر تشریف فرما ہیں۔
سب سے پہلی ذمہ داری اس عالمی، تاریخی اور دائمی لبیک پر غور کرنا ہے؛ انّ الحمد و النعمۃ لک و المُلک، لا شَریک لک لبیک۔
ساری تعریفیں اور شکر اس کے لئے ہے، ساری نعمتیں اسی کی طرف سے اور ملک و اقتدار اسی کا ہے۔
حاجی کو یہ زاویہ نگاہ، اس پرمغز و بامعنی فریضے کے شروعاتی مرحلے میں ہی، دے دیا جاتا ہے اور اعمال حج کا سلسلہ اسی طرز نگاہ کے مطابق انجام پاتا ہے اور پھر اسے پائیدار سبق اور کبھی فراموش نہ ہونے والے درس کی مانند اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور زندگی کے لائحہ عمل کو اسی تناظر میں منظم کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ یہ عظیم سبق حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا، وہی پربرکت سرچشمہ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کو تازگی، حرارت اورتحرک عطا کر سکتا ہے اور انھیں ان مسائل سے جن سے وہ دوچار ہیں، اس دور میں اور تمام ادوار میں نجات دلا سکتا ہے۔
نفسانیت، کبر، نفسانی خواہشات، تسلط پسندی اور تسلط برداشت کرنے کی عادت، عالمی استکبار، تساہلی اور ذمہ داریوں سے فرار اور با عزت انسانی زندگی کو ذلیل و خوار کرنے کا جذبہ، یہ سب وہ بت ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکل کر زندگی کا دستور العمل بن جانے والی اس \\\\\\\\\\\\\\\'صدائے ابراہیمی سے ٹوٹ جائیں گے اور دوسروں پر انحصار، دشواریوں اور سختیوں کی جگہ آزادی و وقار اور سلامتی لے لیگی۔
حج سے مشرف ہونے والے محرم برادران و خواہران، بلا تفریق ِملک و قوم، سب اس حکمت آمیز کلام ِپروردگار پر غور کریں اور دنیائے اسلام اور خاص طور پر مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے، ذاتی اور گرد و پیش کے وسائل اور توانائیوں کے مطابق اپنے لئے فریضہ اور ذمہ داری طے کریں اور اس کے تحت کوششیں کریں۔
آج اس علاقے میں ایک طرف امریکا کی شرانگیز پالیسیاں جو جنگ و خونریزی، تباہی و آوارہ وطنی، نیز غربت و پسمانگی اور قومیتی و فرقہ وارانہ تنازعات کی جڑ ہیں، اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے جرائم ہیں، جس نے مملکت فلسطین میں غاصبانہ اقدامات کو شقی القلبی اور خباثت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور بار بار مقدس مسجد الاقصی کی توہین اور مظلوم فلسطینیوں کے جان و مال کی تاراجی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ آپ تمام مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے، جس کے بارے میں آپ کو غور کرنا چاہئے اور اس مسئلے میں اپنے اسلامی فرائض کو سمجھنا چاہئے۔ علمائے دین اور سیاسی و علمی شخصیات کی ذمہ داری زیادہ سنگین ہے، جو بد قسمتی سے اکثر اس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔
علما فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے، سیاسی رہنما دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کرنے اور علمی شخصیات فروعی مسائل میں اپنے ذہن مصروف کرنے کے بجائے، دنیائے اسلام کے سب سے بڑے درد کو سمجھیں اور اپنی اس ذمہ داری کو جس کے تعلق سے وہ عدل الہی کے سامنے جواب دہ ہیں، قبول کریں اور اس کو پورا کریں۔ علاقے میں، عراق، شام، یمن، بحرین، غرب اردن اور غزہ میں اور بعض دیگر ایشیائی اور افریقی ملکوں میں رونما ہونے والے دردناک واقعات امت مسلمہ کی بڑی مشکلات ہیں جن میں عالمی استکبار کی سازش کو سمجھنا اور اس کی راہ حل کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ قومیں اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں اور حکومتیں اپنی سنگین ذمہ داری کے سلسلے میں وفادار رہیں۔
حج اور اس کے پرشکوہ اجتماعات، ان تاریخی ذمہ داریوں کے نمایاں ہونے اور تبادلے کے بہترین مواقع ہیں۔
اورمشرکین سے برائت اس ہمہ گیر فریضے کا نمایا ںترین سیاسی عمل ہے اور اس عمل کو تمام حجاج کرام نے موقع غنیمت سمجھ کر کے انجام دینا چاہئے۔
اس سال مسجد الحرام کے تلخ سانحے نے حجاج کرام اور ان کی قوموں کو غمزدہ کردیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس حادثے میں گزر جانے والے افراد جو نماز، طواف اور عبادت کے عالم میں باری تعالی کے دیدار کے لئے کوچ کر گئے، عظیم سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہوئے اور امن و رحمت و توجہ الہی کے دیار میں سکونت پذیر ہوئے ان شاء اللہ، جو ان کے پسماندگان کے لئے باعث سکون ہے، لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ جو لوگ ظاہراً اللہ کے مہمانوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیںوہ بری الذمہ ہوجائیں۔ اس فرض پر عمل اور اس ذمہ داری کی ادائیگی ہمارا حتمی مطالبہ ہے۔
و السلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
4 ذی الحجہ 1436 (ہجری قمری)
27 شہریور 1394 (ہجری شمسی)
5m:36s
27814
قاسم سلیمانی کے خون کا بدلہ | سیّد حسن...
قرآن کا قانون ہے خون کا بدلہ خون ہے
اسلامِ محمدیؐ کے عظیم الشان سپہ سالار شہید...
قرآن کا قانون ہے خون کا بدلہ خون ہے
اسلامِ محمدیؐ کے عظیم الشان سپہ سالار شہید قاسم سلیمانی کے مقدّس خون کا انتقام امریکہ کو اِس خطے سے ذلیل و رسوا کر کے باہر بھاگا کر لیا جائے گا۔ اب وہ دُور نہیں ہے کہ عَالَمی شیطانی طاقتیں اپنے شیطانی مقاصد کے لیے جس کو چاہیں ماریں اور ڈٹائی کا مظاہرہ کریں اور فرار ہو جائیں الحمداللہ آج مقاومتی بلاک اتنا طاقتور ہے کہ عَالَمی شیطانی طاقتوں کو آسانی کے ساتھ بھاگنے نہیں دے گا بلکہ اُن کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے۔
سید حسن نصراللہ شہید سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کے خون کا انتقام لینے کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں، اِس ویڈیو میں ضرور سنیں۔
#ویڈیو #قاسم_سلیمانی #خون #بدلہ #امت #امریکی_فوج #شہید #تاوان #کامیابی #مقدر
0m:59s
2557
Video Tags:
qasim,
quran,
sulimani,
salar,
shaheed,
amrica,
hassannasrullah,
mahdi,
blood,
intiqam,
video,
Marmoolak | مارمولک (The Lizard) | Farsi
رضا مثقالی، معروف به رضا مارمولک، دزد سابقه داری است که بارها دستگیر و زندانی شده...
رضا مثقالی، معروف به رضا مارمولک، دزد سابقه داری است که بارها دستگیر و زندانی شده و هر بار، پس از مدت کوتاهی از آزادیش، به جهت ارتکاب به خلاف تازه ای، روانه زندان شده است. آخرین باری که او دستگیر می شود، جرم سنگین تری دارد، اتهام او سرقت مسلحانه است. این بار رضا تحویل زندانی می شود که رئیس ساختگیر و انعطاف ناپذیر آن، آقای مجاور، نفوذ و تأثیر بسیاری بر زندانیان دارد، و معتقد است باید آنقدر نسبت به زندانیان سختگیری کرد که دیگر، پس از آزادی، فکر اعمال خلاف را نکنند. او عقیده دارد زندانیان را حتی به زور هم شده باید وادار به درستکاری کرد تا رستگار شده و به بهشت بروند. رضا مارمولک باهوش تر و زیرک تر هم، از مجازات آقای مجاور درامان نمی ماند و هر بار با نافرمانی هایش محکوم به تحمل حبس انفرادی میشود. اما یک بار که مجروح و برای درمان به بیمارستان خارج از زندان منتقل شده، با استفاده از غفلت نگهبان مستقیم خود و پوشیدن لباس یک روحانی بستری در بیمارستان، موفق به فرار میشود. رضا مارمولک، با مصونیتی که در لباس تازه پیدا کرده خود را به شهرکی مرزی می رساند تا با به دست آوردن گذرنامه جعلی از کشور خارج شود. اما شهرک که در انتظار ورود یک روحانی به عنوان امام جماعت است، او را به اشتباه مورد استقبال قرار داده و امامت جماعت محلی را به عهده اش میگذارند. رضا مارمولک به شیوه و برداشت های خود، مردم را موعظه و راهنمایی میکند و خطاهایش را نیز اهالی، تعبیر به اعتقادات نیکوکارانه اش میکنند و...
Satirical commentary on clergymen in post-revolutionary Iran. While in prison, petty criminal Reza (Parviz Parastui) comes across a clergyman, sparking a plan for escape. Reza dons his new acquaintance\'s clerical robes and makes a bid for freedom. He soon learns that being a clergyman brings little respect from the public. Reza travels to the outlying villages, from where he plots to escape the country. However, his plans must be put on hold when the villagers accept him into their community and expect him to perform religious duties. Will Reza\'s prison break transform him into an unlikely pillar of the community?
Synopsis by IMVBox.com
Parviz Parastui ( پرویز پرستویی ), lizard movie, Shahrokh Foroutanian ( شاهرخ فروتنیان), Farideh Sepah Mansour, Maedeh Tahmasebi, Bahram Ebrahimi ( بهرام ابراهیمی ), lizard movie, دانلود فیلم مارمولک, Mehran Rajabi ( مهران رجبی ), Soheila Razavi, Rana Azadivar ( رعنا آزادی ور ), Mehrdad Ziaei ( مهرداد ضیایی ), Sepehr Rezanoor, lizard movie, Ali Abedini, Cyrus Hemati, فیلم مارمولک, Naghi Seif Jamali (نقی سیف جمالی), Kamal Tabrizi ( کمال تبریزی ), The Lizard - Marmoolak - مارمولک, marmolak, marmulak, marmoulak, it movie full movie online, marmalak, «شش قرن و شش سال, السحلية, السحليه, رضا مارمولک, فلم كامل مارمولك, فلم کامل مارمولک, فلم همسر, فیلم مارمولک, film marmolak full, مار مولك, مارملوك, مارمولك, مارمولک, مارمولک فیلم کامل, مازمولک, ماضی مطلق, مامارمولك, ممارمولک, مهظشقی, lezard, Lizard, lizatd, lizzard, mamoolak, mamulak, mamulalk, marmolk, marmool, Marmoolack, marmoolak, marmoolk, marmooolak, Marmoorak, marmuak, marmulk, marmullak, R. lizard, the lixard, the liza, the lizar, the lizard, The Lizard - Marmoolak, The lizard - Marmoolak - مارمولک, The Lizard - Marmoolak-, The Lizard - Marmoolak- مارمولک, The Lizard ( Marmoulak), The lizard marmolat, the lizerx, the lizzard, Marmola, Lizas, رضامارمولک, Mamolak, مارمولككامل, مار, reza marmolak, marm, marmalouk, marmo, The Lazird, The Le, The Lezird, reza mormolak, lizaard, Lizerd, marmaoulak, marmoulark, Mrmolak, مارمولگ, مادمولک, فیلممارمولک, thelizard, the lizard, Malmoulak (The Lizard), Marmolek, marmoolalk, film marmolak, armolak, مامارمولک, mormolak, ماmarmolak, mar molak, مارملك, Reza marmelad, Reza marmoolak, Marmolak ful, فيلم سينمايى مارمولك, Marmalade, فيلم مارمولك, mRMOOLk, Mamorak, reza, Marmoulak , Marmolak, marmulak, فيلم كامل مارمولك, مارمولک فیلم, marmulack, film reza marmulak, mrmulk, lizrd, lezrd, marmolak film .
Website: https://www.imvbox.com/
Facebook: https://www.facebook.com/imvbox/
Twitter: https://twitter.com/IMVBox
Instagram: https://www.instagram.com/imvbox/
109m:5s
4240
Rosvaei - Full Movie | فیلم سینمایی رسوایی | Farsi
خلاصه داستان:
افسانه دختر جنوب شهری که به علت بدهی های مالی پدر زیر فشار طلبکاران...
خلاصه داستان:
افسانه دختر جنوب شهری که به علت بدهی های مالی پدر زیر فشار طلبکاران قرار دارد اقدام به دزدیدن سفته های پدرش می کند. در حین فرار با روحانی زاهدی آشنا می شود. روحانی در مسیر کمک به افسانه دچار مشکلاتی می شود.
بازیگران:
اکبر عبدی، الناز شاکردوست، محمدرضا شریفینیا، کامران تفتی، مریم کاویانی، تینا آخوندتبار، ارسلان قاسمی، امیر دژاکام، امیر نوری، اسماعیل خلج، مجید مشیری، آرزو افشار، مهسا کامیابی، عباس محبوب، محبوبه بیات، ابولفضل همراه، فرامرز روشنایی و…
👇👇🙏 لطفا یک دقیقه وقت بزارید و در این کانال عضو بشید
https://bit.ly/3aiFxiw
👇 فیلم های سینمایی
https://bit.ly/2x5uQBL
👇👇 تمام قسمت های سریال دندون طلا
https://bit.ly/2PF2MLX
👇👇🙏 لطفا در کانال ملودیک عضو بشید
https://bit.ly/2wiMYre
👇👇موزیک خوب گوش کنید
https://bit.ly/2wiMYre
👇مجید خراطها
https://bit.ly/3ai14I6
👇یوسف زمانی
https://bit.ly/2TwZlb4
👇سهراب پاکزاد
https://bit.ly/2TfddI8
👇سامان جلیلی
https://bit.ly/2PEkOO5
👇آصف آریا
https://bit.ly/2TuJvh5
👇علیرضا روزگار
https://bit.ly/3aiH3Be
👇امیر تاجیک
https://bit.ly/38auSot
👇مهدی یغمایی
https://bit.ly/2x0jZJ3
102m:5s
2272
افغانستان میں امریکی کارستانیاں | ولی...
جب امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے امریکہ کو شیطان بزرگ کہا تو اُس وقت کچھ مغرب زدہ،...
جب امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے امریکہ کو شیطان بزرگ کہا تو اُس وقت کچھ مغرب زدہ، لبرل، سیکولر اور کج فکر دینی و مذہبی افراد تعجب کا شکار تھے اور امریکہ کو حقوق بشر کا علمبردار اور انسانیت کا خیر خواہ سمجھ بیٹھے تھے لیکن آج دنیا کے سامنے یہ بات واضح اور روشن ہوچکی ہے کہ دنیا کے جس کونے میں بھی امریکی قدم پڑے ہیں وہاں سوائے تباہی، فرقہ واریت، لسانیت اور بربادی کے سوا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ آج اِس کی جیتی جاگتی مثال افغانستان کی ہے جہاں امریکہ دہشت گردی کے خاتمہ اور تعمیر و ترقی کے بہانے داخل ہوا اور آج 20 سال کے بعد افغانستان میں بے تحاشہ لوگوں کا قتل عام کرنے اور افغانستان کو کھنڈر بنانے کے بعد شرمناک طریقے سے فرار ہوگیا۔
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے گرانبہا بیانات سے آگاہی کے لیے اِس مختصر ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#امریکی_کارستانیاں #برادر_ملک #افغانستان #زبان #دین #ثقافت #منشیات #مشکلات #قتل
2m:17s
10044
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khamenei,
Afghanistan,
America,
imam
khomaini,
Satan,
Liberal,
secular,
insan,
Human
rights,
qatal,
mulk,
zaban,
islam,
musalamn,
muslem,
تمام ممالک کے لیے درس آموز سبق | ولی امرِ...
دنیا کے وہ ممالک بالخصوص اسلامی ممالک جو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آلہ کار بنے...
دنیا کے وہ ممالک بالخصوص اسلامی ممالک جو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور ان سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں، انہیں اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مغربی طاقتیں بالخصوص شیطان اکبر امریکہ قابل اعتماد نہیں ہیں، دنیا کی یہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے ممالک کا استحصال کرتی ہیں اور آخر میں انہیں اور ان کی عوام کو تن و تنہا چھوڑ کر تماشہ دیکھتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال افغانستان کی ہے جہاں 20 سال تعمیر و ترقی اور جمہوریت کے نام پر تباہی پھیلانے، جرائم اور منشیات کی ترویج کے بعد انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر امریکی فرار ہوگئے.
اس موضوع پر ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #درس_آموز_سبق #امریکی_فوج #ہتھیار #افغانستان #طالبان #سرنگون #جرائم #منشیات #قتل
1m:47s
9286
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
mamalek,
dars,
sabaq,
imam,
imam
khamenei,
islam,
America,
shaytan,
aetemad,
Afghanistan,
taleban,
منطق مظلوم و ظالم | امام خمینی رضوان...
عصر حاضر کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت امریکہ اپنے شیطانی اور شوم آلہ کاروں کو مختلف...
عصر حاضر کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت امریکہ اپنے شیطانی اور شوم آلہ کاروں کو مختلف ممالک میں برسر اقتدار لے کر آتا ہے اور ان کے ذریعے ملتوں اور اقوام پر مسلط رہتا ہے. اور جب اقوام بیدار ہوتی ہیں اور ان خائن حکمرانوں سے اقتدار چھین لیتی ہے تو وہ اپنے ان مہروں اور پٹھووں کو کسی مناسب وقت میں استعمال کرنے کے لیے بچا کر رکھتا ہے تاکہ بوقت ضرورت ان خائنوں اور ضمیر فروشوں سے استفادہ کر سکے. ایسے ہی خائنوں اور آلہ کاروں میں سے ایک ایران کا بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا جو لاکھوں لوگوں کے قتل عام اور ہر چیز نابود کرنے کے بعد اس ملک کے ذخائر اور بے تحاشہ اموال لے کر فرار ہوگیا اور اپنے شیطانی آقاوں کی آغوش میں پناہ لے لی.
اس بارے میں مزید آگاہی کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #منطق #ظالم #مظلوم #مظلوم_ملت #ذخائر #جھونپڑی #محل #خزانے #تیل #بھوک #امریکہ #قبضہ #قاتل_شخص #باپ_بیٹے #انتقام_جوئی #جمی_کارتر #لوٹی_اموال
6m:51s
9353
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khomeini,
manteq,
mazlom,
zalem,
America,
shautani
taqat,
mellat,
hukamran,
eeqtedar,
iran,
reza
shah,
pahlawi,
mulk,
نہ رُکنے والا امریکی اور صیہونی زوال |...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن اور امریکی،...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن اور امریکی، یورپی اور صیہونی مسلسل زوال کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امریکی اور یورپی ممالک کن کمزوریوں اور خامیوں کا شکار ہیں؟ حساس ترین علاقوں میں مقاومتی محاذوں کی کیا صورتحال ہے؟ مسلم اقوام میں بہتر مستقبل کی نوید دینے والی کونسی مثبت علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں؟ مسلم ممالک میں ظاہر ہونے والی مبارک علامتوں کی حفاظت کے لیے کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟سینچری ڈیل کی ناکامی سے فرار کی کونسی ناکام کوشش کی جا رہی ہے؟ کیا صیہونی حکومت کا زوال رک جائے گا؟
ان تمام اہم ترین سوالات کے جوابات کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #نہ_رکنے_والا_امریکی_اور_صیہونی_زوال #ولی_امرمسلمین #طاقت_کا_توازن #اسلامی_دنیا #یورپ #امریکہ #سیاسی_سماجی_حوادث #بےنقاب #مقاومتی_طاقتوں_کارشد #شوق #رغبت #حریت_پسندی #مبارک_علامتیں
2m:10s
12390
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
siyasi,
islam,
islami
dunya,
imam,
imam
syed
ali
khamenei,
mobarak,
shoq,
america,
na
rokne
wala
amreci
aur
saihoone
zawal,
muslim,
moqawimat,
powerfull,
europe,
wali
ame
muslimeen,
dunya,
taqat,
raghbat,
pasandy,
muslim
countries,
امریکیوں کی بزدلانہ حرکت | جنرل قاآنی |...
11 ستمبر کو امریکہ کے شہر نیویارک کے تجارتی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں پیش آنے والے...
11 ستمبر کو امریکہ کے شہر نیویارک کے تجارتی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں پیش آنے والے حادثے کو القاعدہ سے منسوب کرتے ہوئے اس وقت کی امریکی حکومت نے افغانستان پر لشکر کشی کی، بظاہر امریکیوں کی جانب سےاس لشکر کشی کا مقصد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا تھا لیکن اسکی آڑ میں امریکیوں کا اصل مقصد، اسلامی نظام کو نقصان پہنچانا تھا۔
امریکیوں نے اسی بہانے افغانستان میں بہت سے مومنین اور عام شہریوں کا قتل عام کیا اور بہت سے جرائم کے مرتکب ہوئے تاہم 20 سال افغانستان میں رہنے کے بعد آخر کار طالبان کے ہاتھوں انکی بنائی ہوئی فوج کو شکست فاش ہوئی اور رسوائی کے ساتھ انہیں وہاں سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔
امریکہ کے اس خطے میں وارد ہونے سے پہلے جمہوریہ اسلامی ایران نے کس بات سے انہیں خبردار کیا تھا؟ امریکہ کی جانب سے اس خطے میں لشکر کشی کا مقصد کیا تھا؟ اور انہوں نے عراقی سرزمیں میں کونسی بزدلانہ حرکت کی؟ ان تمام باتوں کو آپ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے جنرل قاآنی کی اس ویڈیو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
#ویڈیو #جنرل_قاانی #افغانستان #فوج #بزدلانہ #شہید #قاسم_سلیمانی #ابومہدی #بیس_سال #جرائم
1m:52s
1882
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
america,
General
Qaani,
New
York,
afghanistan,
islam,
muemen,
taliban,
jang,
iran,
iraq,
اَب تو ضرور جانا چاہیے! | امام خمینیؒ |...
بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے 14 سال کی جلا وطنی کے بعد...
بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے 14 سال کی جلا وطنی کے بعد جب ایران آنے کا عزم و ارادہ کیا تو عوامی انقلاب کے پیش نظر اس وقت رضا پہلوی ایران سے فرار کرچکا تھا اور امور مملکت پر بختیار براجمان تھا تو اس وقت امام خمینیؒ کو بار بار یہ پیغام دیا جارہا تھا کہ ابھی ان کے ایران آنے کے لیے وقت مناسب نہیں ہے، لیکن امام خمینیؒ نے اپنے پروگرام کے تحت؛ بہمن ماہ، 1357 ہجری شمسی، بمطابق یکم فروری، 1979ء کو 14 سال کی جلا وطنی کے بعد؛ ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اور تقریباً تیس لاکھ سے زائد لوگوں نے مہر آباد ائیرپورٹ پر امام خمینیؒ کا پر تپاک استقبال کیا اور اس دن کو ایران کے سرکاری کیلنڈر میں عشرہ فجر کے آغاز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ امام خمینیؒ کو ایران آنے سے روکنے کے لیے بار بار پیغام بھیجنے کے پیچھے مقصد کیا تھا؟ آئیں اسی سوال کے جواب سے آگاہی کے لیے خود رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینیؒ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی زبانی اس ویڈیو کو دیکھتے ہیں جس میں امام خمینیؒ نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے۔
#ویڈیو #امام_خمینی #فرانس #ایران #شاہ #بختیار #پیغام #صورتحال #جلدی #ائیرپورٹ #سنجیدگی #انقلاب
1m:31s
7974
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Imam,
Imam
Khomeini,
Enqelab,enqelab
Islami,
Iran,
Fajr,
Shah,
France,
Bakhteyar,