ہمارا روشن مستقبل | ترانہ: گروہ مہر طحہٰ...
کسی بھی ملت کی عزت و سربلندی کا راز درحقیقت کچھ صفات اور خصوصیات میں پوشیدہ ہوتا...
کسی بھی ملت کی عزت و سربلندی کا راز درحقیقت کچھ صفات اور خصوصیات میں پوشیدہ ہوتا ہے. ایک الٰہی اور واقعی اسلامی معاشرے کی کامیابی و بقا کا راز ایمان، وحدت، بے لوث خدمت، شعور و بیداری، غیرت، شہدا کا خون، مسلسل استقامت اور الٰہی رہبریت و قیادت کی سرپرستی ہوتا ہے.
ان خصوصیات کی حامل ایک ملت کو اگرچہ بے پناہ دشمنیوں اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان سختیوں اور دشمنیوں پر استقامت کا نتیجہ ایک روشن اور عزت مندانہ معاشرہ اور زندگی کی صورت میں سامنے آتا ہے.
اسلامی انقلاب کی عزت مندانہ استقامت اور کامیابی کے حوالے سے ایک خوبصورت ترانہ اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے.
#ویڈیو #ہمارا_روشن_مسقبل #گروہ_مہر_طحہ #بلندی #حماسہ_سازی #دشمن #ہماری_عزت #ہماری_استقامت #نور_ولایت #ایمان #وحدت #خاک_عشق #آغوش_امید#ترانہ
3m:56s
9039
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
dushman,
hemase
sazi,
tarana,
video,
hmara
roshen
mostaqbil,
group
mehr
taha,
ezat,
esteqamat,
noor,
noor
wilayat,
wahdat,
khak,
khak
eshq,
omid,
برفیلی چٹانوں پر اسرائیل کو آگ لگانے کا...
حزب اللہ لبنان ایک الٰہی تنظیم ہے جس نے کئی سالوں سے اسرائیل کی ناک میں دم کر رکھا...
حزب اللہ لبنان ایک الٰہی تنظیم ہے جس نے کئی سالوں سے اسرائیل کی ناک میں دم کر رکھا ہے، 1982 میں چند نہتے جوانوں نے اس الٰہی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اب حزب اللہ کا رعب ودبدبہ دشمن پر اتنا بیٹھ چکا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے نام سے ہی خوف کھاتا ہے حزب اللہ کی جنگی مشقوں سے اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت کی نیند حرام ہوتی ہے- حال ہی میں حزب اللہ کی پہلی دفعہ برفیلی چٹانوں پر جنگی مشق کی ایک ویڈو وائرل ہوئی ہے جس سے اسرائیلی فوجوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ حزب اللہ کے شان وشوکت سے اسرائیل اب ہر طرف سے پستا ہی چلا جائے گا کیونکہ سید حسن نصراللہ فرماتے ہیں کہ حزب اللہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کا رعب و دبدبہ اس کے آگے آگے چلتا ہے۔
2m:27s
2261
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Hisbullah,
lebenon,
israel,
azm,
khof,
syed
hasan
nasrullah,
jangi,
elahi,
israely
khof,
khsosisat,
hisbollah
lebenon,
منصب اور ہماری ذمہ داری | امام سید علی...
ویسے تو ہر انسان خدا وند متعال کی بارگاہ میں جوابدہ اور مسؤل ہے کیونکہ انسان کو...
ویسے تو ہر انسان خدا وند متعال کی بارگاہ میں جوابدہ اور مسؤل ہے کیونکہ انسان کو عبث اور بیھودہ خلق نہیں کیا گیا ہے ہر انسان کی کچھ انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں بنتی ہیں جن کی درست ادائیگی سعادت کا باعث اور ان کی ادائیگی میں سستی، کاہلی اور کم اہمیت دینے سے ابدی بد بختی اور رسوائی مقدر بن جاتی ہے. بالخصوص وہ افراد جو کسی عہدے اور منصب پر فائز ہیں ان کی ذمہ داریاں اہمیت کے لحاظ سے دوگنی ہو جاتی ہیں یعنی ایک عام انسان کی نسبت اسے اپنا محاسبہ زیادہ کرنا چاہیے، اپنی عبادات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ نصرت الٰہی اور برکات الٰہی ہماری زندگی میں اور ہمارے کاموں میں شامل ہو جائیں.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے اس ویڈیو میں استفادہ کیجئے.
#ویڈیو #عہدہ #منصب #نگرانی_بڑھانے_کی_ضرورت #دوستانہ_نشست #نماز_شب #نافلہ_شب #سورہ_ہود #آسمانی_برکتیں #معنویت #الہی_حیات
2m:37s
10212
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
ayatollah,
imam
khamenei,
imam
khomeini,
mansab,
zema
dariya,
elahi,
manaviat,
iran,
imam
sayyid
ali
khamenei,
حسینیؑ انقلاب کی خصوصیت | سید ہاشم...
علامہ سید ہاشم الحیدری، جو کہ عراق کے انقلابی علماء میں سے ہیں، اس خطاب میں جو کہ...
علامہ سید ہاشم الحیدری، جو کہ عراق کے انقلابی علماء میں سے ہیں، اس خطاب میں جو کہ عاشوراء کی مناسبت سے بیان کیا ہے، امام حسینؑ کی تحریک کی ایک اہم خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام حسینؑ کا انقلاب اپنے اہداف و مقاصداور راہ و روش کے اعتبار سے ایک خالصاً الٰہی انقلاب تھا۔ امام حسین علیہ السلام کا راستہ یزید کی راہ سے مکمل جدا اور مختلف تھا لہٰذا ہر زمانے میں جو بھی الٰہی تحریک اٹھے ضروری ہے کہ وہ اپنی روش کے اعتبار سے حسینی ہو؛ یعنی کوئی ایسا اقدام نہ اٹھائے جس سے لشکر باطل خوش ہو۔ یا کوئی ایسا کام نہ کرے جسے لشکر ابلیس کی تائید حاصل ہو صرف اسی صورت میں وہ تحریک محفوظ رہ سکتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی خالص الہی تحریک کے خدو خال کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا میں رونما ہونے والے دیگر انقلابی تحریکوں میں کونسی خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے؟
علامہ سید ہاشم الحیدری کے بیانات پر مشتمل اس ویڈیو میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
#عراق #انقلابی #عاشوراء #نہضت #امام #حسین #خصوصیت #انقلاب #اہداف #مقاصد #روش #یزید #جدا #تحریک #حسینی #باطل #لشکر #ابلیس
2m:33s
2029
Video Tags:
ayat,
Media,
WilayatMedia,
enqelab,
Syed
Hashim
Al
Haidari,
imam,
imam
husayn,
iraq,
ealem,
ashura,
tahric,
yazid,
nehzat,
hadaf,
maqsad,
batel,
eblis,
Tafseer e Surah Al Baqarah, Ayat 124 | Hazrat Ibraheem aor mansabe...
اس ویڈیو میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر124 کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
اس آیت میں پروردگار...
اس ویڈیو میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر124 کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔
اس آیت میں پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم( علیہ السلام) کے امتحانوں اور ان کے منصب امامت کا تذکرہ کیا ہے، حضرت ابراہیم کو منصب امامت زندگی کے آخری ایام میں ملا کیوں کہ یہ منصب انہوں نے اپنی ذریت کے لئے مانگا اور جوانی میں تو ان کی ذریت نہیں تھی، یہ منصب جن کو ملے گا ان کا معصوم ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ منصب ظالمین کو نہیں مل سکتا اور محمد و آل محمد کی ذوات ہیں جو آل ابراہیم ہیں۔
12m:36s
619
Saudi Arabia Approves israeli Jets To Use Saudi Airspace To Bomb Iran -...
Saudi Arabia Approves Israeli Jets To Use Saudi Airspace To Bomb Iran
السعودية تفتح مجالها الجوي لاسرائيل من...
Saudi Arabia Approves Israeli Jets To Use Saudi Airspace To Bomb Iran
السعودية تفتح مجالها الجوي لاسرائيل من اجل مهاجمة ايران
حزب الله البسيج الجمهورية الاسلامية حماس الجهاد الاسلامي سوريا تركيا
الجنس الثالت معلاية الهيئة كاس العالم كرة القدم ايطاليا جنوب افريقيا
لميس نور الكلباني الكلب العريفي اسرائيل ال سعود الكلاب الصهاينة والوهابية وكل من يقف معهم جيش الكبسة
0m:50s
8274
[CLIP] السيد نصر الله على شتم زوجات النبي -...
Sayyed Hassan Nasrallah speaking about the recent events surrounding the slandering of Aisha and the companions of the Prophet Mohamed by a layman...
Sayyed Hassan Nasrallah speaking about the recent events surrounding the slandering of Aisha and the companions of the Prophet Mohamed by a layman wearing religious garb in London by the name of Yassir al-Habeeb.
السيد حسن نصر الله يتحدث عن الأحداث الأخيرة المحيطة قذف عائشة وصحابة النبي محمد من قبل شخصا عاديا ارتداء الزي الديني في لندن من قبل اسم ياسر آل حبيب.
1m:38s
7529
Back to Square Allvlvh young Bahraini بازگشت جوانان...
Back to Square Allvlvh young Bahraini
بازگشت جوانان بحرین به میدان اللولوه و بی نتیجه بودن تلاش...
Back to Square Allvlvh young Bahraini
بازگشت جوانان بحرین به میدان اللولوه و بی نتیجه بودن تلاش ها آل خلیفه برای سرکوب
2m:46s
4628
[Qatar Exposed] Qatari Emir secretly visited Israel Clip English
أمير قطر زار اسرائيل سرا
أمير قطر الشيخ حمد بن خليفة آل ثاني قام بزيارة سرية الى...
أمير قطر زار اسرائيل سرا
أمير قطر الشيخ حمد بن خليفة آل ثاني قام بزيارة سرية الى اسرائيل
Qatari Emir Sheikh Hamad bin Khalifa Al Thani has made a secret visit to Israel despite the fact that Doha and Tel Aviv have no political relations, a video has revealed.
Israeli Kadima leader Tzipi Livni welcomed the Emir and Qatari Prime Minister Sheikh Hamad Bin Jasim Bin Jaber Al Thani during the visit.
The Qatari Emir and his delegation also met several high-ranking Israeli officials.
Signing a new gas export contract and writing Qatari textbooks by Israeli experts were among topics discussed between Sheikh Hamad and Livni.
Sheikh Hamad reportedly stressed the significance of political relations between the two sides.
Livni informed Qatar of its important role in talks between Arabs and Israel.
Qatar and Israel have common viewpoints regarding Iran's nuclear program. Doha has repeatedly supported Tel Aviv against Iran. Qatar would also be able to assist Israel in the event of a military strike against Iran's nuclear facilities.
It is noteworthy that in April 2008, Livni, who was Israeli foreign minister, used a visit to Qatar to lobby the Arab state to oppose Iran's nuclear program.
AGB/HGH
1m:44s
7156
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
31715
خطاب السيد حسن نصرالله مهرجان الوعد...
في الموضوع البحريني اشار السيد نصر الله الى ان الحراك الشعبي المتواصل في البحرين...
في الموضوع البحريني اشار السيد نصر الله الى ان الحراك الشعبي المتواصل في البحرين يعبر عن كثير من الصمود والصبر والايمان والقدرة على التحمل رغم الاذى.
واضاف سماحته: قرأت في تصريحات بعض الجهات السياسية الخارجية وذكر في بعض مواقع الانترنت ان حزب الله يدفع باتجاه العنف في البحرين، هذا كذب وتضليل وخطأ. لم نفعل وذلك ولن نفعل ذلك بل نعتقد ونؤيد ما تعتقد به قيادة المعارصة في البحرين وعلى راسها سماحة آية الله الشبخ عيسى قاسم من خلال الاصرار على الحراك السلمي، وفي نهاية المطاف آل خليفة لا يستطيعون تجاهل هذا الحراك وسوف يجعل الله لهؤلاء المخلصين الحريصين على وحدتهم فرجا ومخرجا.
ورأى ان السلطة هي من تدفع الامور الى مواجهة مسلحة او تتمنى ان يقوم بعض الجماعات الشبابية بالعنف لتقوم بتحميل بعض القيادات مسؤولية العنف..
في الملف السوري وإذ اكد السيد نصر الله ادانة العمليات الارهابية في دمشق التي ادت الى عدد كبير من الشهداء والجرحى، اشار بشأن العمليات الانتحارية الى ان من التفاهة ما سمعناه من بعض الفضائيات وشخصيات المعارضة من اتهام النظام بالوقوف خلفها واضاف: تقولون انه نظام امني ومخابراتي فهل يرسل نظام امني انتحاريين --اذا كان لديه انتحاريين- وسيارات مفخخة لتدمير مراكز المخابرات ومراكز الامن التابعة له؟؟ هناك شيء مفقود من المنطق في تقديم الامور في سورية..
واعتبر سماحته ان نفس الايدي التي عبثت بالعراق فدمرت وارتكبت المجازر ومراكز الدولة دون اي حس انساني هذه اليد وهذا العقل الذي يريد اليوم ان يدمر سورية. وسأل هل العمليات الانتحارية تؤدي الى الاصلاح والى الديمقراطية؟ مؤكدا اننا نزداد قناعة بموقفنا بشان سورية وان هناك من يريد تدمير سورية: اميركا الغرب اسرائيل بعض الجهات الاقليمية لأنهم يريدون التخلص من الداعم الاساس للمقاومة في لبنان وفلسطين والثأر من الدولة والشعب والجيش التي ساندت المقاومة في لبنان وفلسطين وذهب مسشروع جورج بوش في الشرق الاوسط الجديد ادراج الرياح.
واكد ان ما يجري ليس مطالبة باصلاح ولا ديمقراطية.. جرت انتخابات في ظروف سيئة وكانت نسبة المشاركة مع ذلك لا تقل عن نسبة المشاركة في بعض الدول الاوروبية الهادئة او اميركا اللاتينية او بعض الدول العربية.. واكدا ان هناك من فتح بابا للاصلاح ومصرّ في هذا الاتجاه.. واعتبر السيد نصر الله ان الشعب السوري امام منهجين: منهج الاصلاح ومعالجة الامور بطريقة سياسية، وهناك عقل تدميري ويد تدميرية وجهات حاضرة ان تقدم السلاح والمال والانتحاريين.
86m:6s
11164
[ARABIC][25May12] عيد المقاومة والتحرير الثاني...
السيد نصر الله: الجيش هو الضمانة ولننتبه من الفتنة وموافقون على العودة للحوار...
السيد نصر الله: الجيش هو الضمانة ولننتبه من الفتنة وموافقون على العودة للحوار
احمد شعيتو
اشار الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله في كلمة له أمام احتفال عيد المقاومة والتحرير الثاني عشر الذي اقيم عصراً في بنت جبيل الى اننا نشهد خاتمة طيبة لحادثة اليمة هي قضية المخطوفين اللبنانيين في سورية حيث تم التاكد ان المخطوفين باتوا في الاراضي التركية ويتحضرون للانطلاق الى مطار بيروت.
واضاف ان الواجب الاخلاقي يقتضي ان نتوجه بالشكر لله اولا الذي بلطفه ورحمته كانت هذه الخاتمة ومنّ علينا جميعا وتفضل ان تنتهي الامور بهذه السرعة بدون اثار سلبية بل آثار ايجابية ان شاء الله . واشار الى انه من اللحظات الاولى، الدولة برؤسائها بمسؤوليها باشرت تحمل المسؤولية والعديد من القيادات السياسية عملت على توظيف علاقاتها وطاقاتها.
واعتبر اننا في تعاون وطني واسع وحقيقي وصلنا الى ما وصلنا اليه. وتابع: اتوجه بالشكر الى فخامة رئيس الجمهورية ميشال سليمان، الى دولة رئيس مجلس النواب نبيه بري ودولة رئيس مجلس الوزراء نجيب ميقاتي، الى دولة الرئيس سعد الحريري الذي علمنا انه بذل جهودا خاصة في هذا الاتجاه والى كل من اتصل ووظف علاقاته..
واعلن اننا من اللحظة الاولى كنا على تواصل مع القيادة السورية والسلطات السورية الذين اهتموا بالنساء والرجال الكبار في السن الذين اطلق سراحهم. وبتوجيه من الرئيس بشار الاسد تم تهيئة طائرة لايصال النساء ومن معهن بشكل سريع في تلك الليلة وكان لذلك مساهمة كبيرة في تهدئة النفوس وتطييب الخواطر، من هنا اشكر القيادة السورية، الرئيس بشار الاسد على هذه اللفتة وهذه العناية.
وقال سماحته: يجب ان نشكر العائلات على تحملها وصبرها وان كان البعض حاول في الاعلام ان يصعب الامور. هذا النوع من الاحداث يحتاج الى صبر وحكمة وتعاطي دقيق. يجب ان اتوجه بالشكر ايضا الى الناس الذين ضبطوا انفعالاتهم واستجابوا لنداء الهدوء والعقل.
واشار الى انه ايضا على المستوى الاقليمي حصلت الاتصالات، موجها شكرا خاصا للمسؤولين الاتراك والحكومة التركية على تعاملها ايضا في هذا المجال سواء رئيس الحكومة السيد اردوغان ووزير الخارجية السيد اوغلو و كل من كان له دور في الاتصالات.
وتطرق السيد نصر الله الى ان حادثة الاعتداء على حملة اخرى التي حصلت في العراق وادت الى شهداء من السيدات الجليلات وعدد من الجرحى، وشكر الاخوة في العراق والقوى السياسية والحكومة على اهتمامها بجرحانا وقال: قد علمت ان السيد رئيس الوزراء نوري المالكي سيضع طائرة خاصة للجرحى وبقية الزوار ليعودوا الى بيروت.
واذ لفت الى انه في اللحظات الاولى هناك اناس انفعلوا ونزلوا الى الطرقات قال: لا معنى لقطع الطرقات والنزول الى الشارع فضلا عن الاعتداءات على الممتلكات.. هذا ماذا يفيد؟ اصبح هناك "موضة" بدات في الـ 2005 مع كل حادث يحصل يتم الاعتداء على الرعايا والعمال السوريين في لبنان. هذا حرام شرعا وهو جريمة فما علاقة هؤلاء الناس؟ لا يجوز ان يتصرف احد خارج الموازين الاخلاقية والشرعية.
وتوجه للمسؤولين في حملات الزيارة سواء الى العراق او ايران بالقول لا داعي لحملات تذهب في البر، المرحلة حساسة وصعبة والموضوع امن الزوار وسلامتهم وهذا ليس علاقة له فقط بامن الزوار بل قد يؤدي الى فتن. واكد ان اي مسؤول حملة يصر ان ياخذ الناس بالبر يتحمل المسؤولية الشرعية والجزائية.
كما توجه للخاطفين بالقول ان عملكم هذا مدان. واضاف: لقد تصرفوا بعقل واستجابوا للوساطات هذا امر جيد ولكن خطف الابرياء والاعتداء على الناس بهذه الطريقة يسيء لكم ولكل ما تدّعون او تقولون انكم تعملون لأجله. اذا كان الغرض الضغط على موقفنا السياسي هذا لن يقدم ولن يؤخر، موقفنا السياسي منطلق من ثوابت ورؤية استراتيجية وقراءة دقيقة وهادئة للاحداث والمشاريع والتهديدات لذلك نحن في سوريا مع الحوار والاصلاح والوحدة الوطنية وانتهاء كل شكل من اشكال المواجهة العسكرية ومع المعالجة السياسية. الفرضية الثانية خطف لبنانيين ليضغط لبنان على السلطات في سوريا لاطلاق معتقلين مقابل مختطفين. هذا لن يجدي. السلطات السورية ليست في وارد فتح هذا الباب ونحن لسنا في وارد الدخول في امر من هذا النوع.
واكد السيد نصر الله ان التجربة التي حصلت اليوم (في اطلاق المخطوفين) تجربة طيبة جدا، لافتا الى اننا من اللحظة الاولى قلنا ان المسؤولية مسؤولية الدولة، والدولة والحكومة يجب ان تتحمل مسؤولياتها والقيادات وكلنا نساند مسعى الدولة، وبعض الناس عقبوا على هذا الموقف انه بداية جيدة، مؤكدا ان هذه ليست بداية بل هذا خط قديم.
التحرير والمقاومة
السيد نصر الله تطرق الى موضوع التحرير فأشار الى ان الارض عادت الى سيادة الدولة والدولة تستطيع ان تتواجد في اي شبر من ارض الجنوب وهذا يعني عودة السيادة الى هذه الارض وهذا انجاز ملموس. واضاف: اليوم نحن موجودون في ارضنا وقرانا والناس تعيش بأمن وسلام وطمأنينة. واكد ان الفتنة التي ارادها الاسرائيلي عام 2000 سقطت بسرعة ويجب ان نشكر الله على ذلك.
واضاف: اقول لمن تعامل مع الاسرائيلي ان هذا الاسرائيلي لا يهتم لا بامنكم ولا بسلامتكم ولا حياتكم ولا دمائكم، قاتل بكم كأكياس رمل ثم ترككم في العراء، ترككم للقتل لتكونوا وقود الفتنة.
ولفت الى انه من يوم التحرير الى اليوم هذه المنطقة الحدودية يعيش الناس فيها مع بعض بسلام وفي ظل سلاح المقاومة ومع وجوده. حتى الناس الذين لجأوا او هربوا الى فلسطين المحتلة لم يطلب احد منهم ذلك، من اليوم الاول كان الموقف واضحا لا تزر وازرة وزر اخرى، والاهالي الذين لم يتورطوا مع الاسرائيلي لا احد يقترب منهم ونقول للاهالي يمكنكم ان ترجعوا ولم يكن احد يريد احداث اي تغيير في الجنوب بل كانت المقاومة تريد الخير للجنوب وان يعيش اهل المنطقة الحدودية بسلام ومحبة مع بعضهم.
ولفت سماحته الى ان الانجاز الاخر حماية الجنوب ولبنان وحماية البلد من الاطماع والتهديدات الاسرائيلية، و في الحماية، المعادلة جيش شعب مقاومة، هذه المعادلة تقوم بانجاز هي حامية الحدود والناس على الحدود واليوم تبنى بيوت على الحدود وهذا تعبير عن الاحساس بالامن والحماية وعن الثقة الكبيرة بالحماية، وطوال الـ12 سنة الاسرائيلي المعتدي بطبعه الطماع بارضنا ومياهنا لا يجرؤ ان يعتدي على قرانا وشعبنا واهلنا.
واكد ان الجدار في كفركلا مؤشر على ان انسحاب العدو الاسرائيلي من لبنان اجهز او دق المسامير الاخيرة في نعش اسرائيل الكبرى، وهذا المشروع انتهى هنا بدماء شهدائكم بصمودكم وبطولاتكم وتضحياتكم.
فوضى السلاح
وقال السيد نصر الله: هناك بحث في البلد اليوم امام فوضى السلاح التي شهدناها أن تعالوا لنهدأ قليلا وهناك ملف جديد اسمه فوضى وانتشار السلاح ونأتي بهذا الموضوع وسلاح المقاومة ونسميهم السلاح غير الشرعي ونقاربهم كملف واحد.. هذه مغالطة كبيرة جدا وليست شطارة. السبب الاول: اتحدث عن انجاز سلاح المقاومة، قولوا لي عن كل السلاح الاخر سواء كان مع قوى 8 او 14 اذار الغير موضوع في معادلة الردع ما هو انجازه وما هي قضيته هناك فارق جوهري بين السلاحين.
حانب اخر: ليس هناك مشكلة ان يتناقش كل شيء.. ومن يريد ان يحمل سلاحا ليواجه به العدو يمكن ان نجمع كل الطاقات لنحمي بلدنا.. تعالوا لننظم كل هذا السلاح في معادلة الجيش والشعب والمقاومة.
وتابع: لما نتكلم عن هذه المعادلة يجب ان اميز بين معادلة حماية البلد لمواجهة العدو الاسرائيلي وبين معادلة حماية السلم الاهلي والامن والاستقرار في الداخل هذان موضوعان مختلفان.. في مواجهة اسرائيل قناعتنا المبنية على التجربة التي نجحت في لبنان وفي غزة في العراق وافغانستان ومنطق التاريخ والحقائق والعدو واطماعه وامكاناته نقول حماية البلد بمعادلة جيش شعب مقاومة، اما في الداخل فالمسؤول عن الأمن والاستقرار وحماية اللبنانيين هي الدولة والدولة فقط من خلال الجيش اللبناني والمؤسسات الرسمية اللبنانية.
الجيش ضمانة.. من يمنع الانهيار؟
وتطرق السيد نصر الله الى مسألة الجيش واكد ان آخر ضمانة يمكن ان تحمي السلم الاهلي في لبنان هي الجيش اللبناني لذلك يجب ان نحافظ على هذه المؤسسة وأن نحميها وندافع عن وجودها في الساحة حتى لو حصلت احداث مؤلمة.
وقال: في 13 ايلول 93 كان أناس يتظاهرون ومقابلهم جيش وقوى امن واطلق عليها الرصاص وسقط 50 بين شهيد وجريح هل اطلقنا النار على الجيش اللبناني؟ هل طالبنا باخراج الجيش من الضاحية ومحيطها؟ ابدا.. الذين قتلوا اخواننا في مستديرة المطار اين هم؟ الموضوع كان واضحا وليس بحاجة لتحقيق. بعد مدة قتل متظاهرون في حي السلم برصاص الجيش هل احد بالضاحية حمل السلاح على الجيش او طالب بخروج الجيش؟ ابدا.. قبل مدة في مار مخايل كان شباب يتظاهرون، اطلق عليهم النار وقتلوا.. ماذا حصل؟ استنكرنا واعترضنا وخطبنا وطالبنا بالمحاكمة.
واعتبر السيد نصر الله ان القول ان الحادث في عكار الذي ادى الى استشهاد الشيخين مؤسف ومحزن ومدان لكن فلنضعه في سياقه الطبيعي، واضاف: نقول قضاء ومحاسبة، لكن الجيش يجب ان يحفظ ويصان من اجل سلامة هذا البلد ومستقبله.
واكد اننا يجب ان ننتبه من الانجرار الى اي قتال وهناك من يعمل ليكون هناك قتال في اي مكان من الامكنة. واذ تساءل لماذا يحصل اشتباكات في باب التبانة وجبل محسن اشار الى ان الحادثة في كاراكاس كان يمكن ان تذهب للاسوأ، كما اكد انه في حادثة طريق الجديدة جهات حزبية تتحمل المسؤولية متسائلا اين كانت الدولة واين كان الجيش واين كانت القوى الامنية واكد ان هذه الحادثة لا يجوز ان تتكرر لأنها قد تودي بالبلد الى مخاطر اساسية.
وشدد السيد نصر الله على ان من يتصور انه يستطيع ان يمسك الارض ويمنع الانهيار في البلد او الانحدار الى حرب اهلية هو خاطئ ومشتبه. واذا اكد ان من اوصل الشارع الى هنا القيادات السياسية حذر من انه امام التحريض الطائفي والمذهبي قد تصبح القيادات عناصر والعناصر قيادات.
وفي موضوع الموقوفين الاسلاميين جدد الدعوة الى سرعة محاكمتهم وادانة من تثبت ادانته واطلاق من تثبت براءته مشددا على ان تحميل الطائفة الشيعية مسؤولية بقائهم في السجون ظلم وتزوير.
نعود الى الحوار بلا شروط.. فليأتوا بلا شروط
وحول دعوة رئيس الجمهورية الى الحوار امس اعلن السيد نصر الله باسم حزب الله الموافقة على العودة الى طاولة الحوار والمشاركة فيها وبلا شروط داعيا قوى 14 اذار الى العودة بلا شروط اذا كانت فعلا خائفة قلقة على البلد وترى الى اين هو ذاهب واضاف: لكن من يقول يجب ان تستقيل الحكومة ويجب ويجب.. قبل الذهاب الى الحوار، فهذا لا يريد حوارا بل يريد سلطة.
وحول تشكيل حكومة الوحدة في الكيان الاسرائيلي رأى انها على الاعم الاغلب اسبابها داخلية تتعلق بالتركيبة الداخلية والانقسامات السياسية اكثر من موضوع حرب في المنطقة وهذا عنصر مطمئن لكن لا يعني عدم امكانية استخدامها في اي عدوان على لبنان او غزة او سورية او ايران والرد هو استمرار اليقظة والجهوزية.
وختم سماحته بالقول ان هذا البلد كما حررتموه بدمائكم وفلذات اكبادكم والقادة والشهداء من كل الاحزاب وكما استعدنا سيادتنا وحريتنا وارضنا واسرانا ان شاء الله سنحمي هذا البلد وهذا الجنوب وعيشه المشترك وسلمه وسنحمي الجنوب الذي هو الجبهة المتقدمة لحماية لبنان الذي كان 2006 الجبهة المتقدمة لحماية المنطقة، وان شاء الله معكم وبشجاعتكم وحكمتكم لن يكون هناك الا اعياد وانجازات وانتصارات.
83m:24s
12054
يوم الوداع لـ شهداء المجزرة الدامية في...
جانب من مراسم زفاف الشهداء: خالد اللباد، حسن آل زاهري، محمد المناسف - في العوامية...
جانب من مراسم زفاف الشهداء: خالد اللباد، حسن آل زاهري، محمد المناسف - في العوامية بالمنطقة الشرقية يوم الأحد الموافق 30 سبتمبر 2012م - وهؤلاء الشهداء الذين قتلهم العدو السعودي يوم الأربعاء الموافق 26 سبتمبر 2012م.
4m:15s
4972
[16Dec12][ARABIC] في حفل التخرج الجامعي السنوي...
كلمة الأمين العام لحزب الله، سماحة السيد حسن نصر الله، في حفل التخرج الجامعي...
كلمة الأمين العام لحزب الله، سماحة السيد حسن نصر الله، في حفل التخرج الجامعي السنوي الـ\\\"23\\\" - دفعة الرسول الأكرم (ص)، 16 ديسمبر 2012.
73m:3s
5391
Sahifa Kamilah - Dua for Friday - Urdu
In the Name of Allah, the All-beneficent, the All-merciful.
الْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلاوَّلِ قَبْلَ...
In the Name of Allah, the All-beneficent, the All-merciful.
الْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلاوَّلِ قَبْلَ ٱلإِنْشَاءِ وَٱلإِحْيَاءِ
al¦amdu lill¡hi al-awwali qabla al-insh¡\\\'i wal-i¦y¡\\\'i
All praise be to Allah, the First before the bringing forth and the giving of life,
وَٱلآخِرِ بَعْدَ فَنَاءِ ٱلاشْيَاءِ
wal-¡khiri ba`da fan¡\\\'i al-ashy¡\\\'i
and the Last after the annihilation of all things,
ٱلْعَلِيمِ ٱلَّذِي لاَ يَنْسَىٰ مَنْ ذَكَرَهُ
al`al¢mi alladh¢ l¡ yans¡ man dhakarah£
the All-knowing Who forgets not him who remembers Him,
وَلاَ يَنْقُصُ مَنْ شَكَرَهُ
wa l¡ yanqu¥u man shakarah£
decreases not him who thanks Him,
وَلاَ يُخَيِّبُ مَنْ دَعَاهُ
wa l¡ yukhayyibu man da`¡hu
disappoints not him who supplicates Him,
وَلاَ يَقْطَعُ رَجَاءَ مَنْ رَجَاهُ
wa l¡ yaq§a`u raj¡\\\'a man raj¡hu
and cuts not off the hope of him who hopes in Him!
اَللَّهُمَّ إِنِّي اشْهِدُكَ
all¡humma inn¢ ush-hiduka
O Allah, I call You to witness
وَكَفَىٰ بِكَ شَهيداً
wa kaf¡ bika shah¢dan
and You are sufficient Witness
وَاشْهِدُ جَمِيعَ مَلائِكَتِكَ
wa ush-hidu jam¢`a mal¡\\\'ikatika
and I call to witness all Your angels,
وَسُكَّانَ سَموَاتِكَ
wa sukk¡na sam¡w¡tika
the inhabitants of Your heavens,
وَحَمَلَةَ عَرْشِكَ
wa ¦amalata `arshika
the bearers of Your Throne,
وَمَنْ بَعَثْتَ مِنْ انْبيَائِكَ وَرُسُلِكَ
wa man ba`athta min anbiy¡\\\'ika wa rusulika
Your prophets and Your messengers whom You have sent out,
وَ انْشَاْتَ مِنْ اصْنَافِ خَلْقِكَ
wa ansha\\\'ta min a¥n¡fi khalqika
and the various kinds of creatures You have brought forth,
انِّي اشْهَدُ انَّكَ انْتَ ٱللَّهُ
ann¢ ash-hadu annaka anta all¡hu
that I bear witness that You are Allah;
لاَ إِلٰهَ إِلاَّ انْتَ وَحْدَكَ
l¡ il¡ha ill¡ anta wa¦daka
there is no god but You, You alone,
لاَ شَرِيكَ لَكَ وَلاَ عَدِيلَ
l¡ shar¢ka laka wa l¡ `ad¢la
Who have no associate nor any equal,
وَلاَ خُلْفَ لِقَوْلِكَ وَلاَ تَبْدِيلَ
wa l¡ khulfa liqawlika wa l¡ tabd¢la
and Your word has no failing, nor any change;
وَ انَّ مُحَمَّداً صَلَّىٰ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ
wa anna mu¦ammadan ¥all¡ all¡hu `alayhi wa ¡lih¢ `abduka wa ras£luka
and that Mu¦ammad, Allah bless him and his Household, is Your servant and Your messenger;
ادَّىٰ مَا حَمَّلْتَهُ إِلَىٰ ٱلْعِبَادِ
add¡ m¡ ¦ammaltah£ il¡ al`ib¡di
he delivered to the servants that with which You charged him,
وَجَاهَدَ فِي ٱللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَقَّ ٱلْجِهَادِ
wa j¡hada f¢ all¡hi `azza wa jalla ¦aqqa aljih¡di
struggled for Allah as is His due,
وَ انَّهُ بَشَّرَ بِما هُوَ حَقُّ مِنَ ٱلثَّوابِ
wa annah£ bashshara bim¡ huwa ¦aqqun min alththaw¡bi
gave the good news of the truth of reward,
وَ انْذَرَ بِما هُوَ صِدْقٌ مِنَ ٱلعِقَابِ
wa andhara bim¡ huwa ¥idqun min al`iq¡bi
and warned of the veracity of punishment.
اَللَّهُمَّ ثَبِّتْنِي عَلَىٰ دِينِكَ مَا احْيَيْتَنِي
all¡humma thabbitn¢ `al¡ d¢nika m¡ a¦yaytan¢
O Allah, make me firm in Your religion as long as You keep me alive,
وَلاَ تُزِغْ قَلْبِي بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِي
wa l¡ tuzigh qalb¢ ba`da idh hadaytan¢
make not my heart swerve after You have guided me,
وَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً
wa hab l¢ min ladunka ra¦matan
and give me mercy from You,
إِنَّكَ انْتَ ٱلْوَهَّابُ
innaka anta alwahh¡bu
surely, You are the All-bestower.
صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ
¥alli `al¡ mu¦ammadin wa ¡li mu¦ammadin
Bless Mu¦ammad and the Household of Mu¦ammad,
وَٱجْعَلْنِي مِنْ اتْبَاعِهِ وَشِيعَتِهِ
waj`aln¢ min atb¡`ih¢ wa sh¢`atih¢
make me one of his followers and his partisans,
وَٱحْشُرْنِي فِي زُمْرَتِهِ
wa¦shurn¢ f¢ zumratih¢
muster me in his band,
وَوَفِّقْنِي لادَاءِ فَرْضِ ٱلْجُمُعَاتِ
wa waffiqn¢ li-ad¡\\\'i far¤i aljumu`¡ti
and give me the success of accomplishing the obligatory observance of Fridays,
وَمَا اوْجَبْتَ عَلَيَّ فِيهَا مِنَ ٱلطَّاعَاتِ
wa m¡ awjabta `alayya f¢h¡ min a§§¡`¡ti
performing the acts of obedience which You have made incumbent upon me within it,
وَقَسَمْتَ لاهْلِهَا مِنَ ٱلعَطَاءِ
wa qasamta li-ahlih¡ min al`a§¡\\\'i
and receiving the bestowal which You have apportioned for its people
فِي يَوْمِ ٱلْجزَاءِ
f¢ yawmi aljaz¡\\\'i
on the Day of Recompense!
إِنَّكَ انْتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
innaka anta al`az¢zu al¦ak¢mu
Surely, You are the Almighty, the All-wise!
2m:27s
9583
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
40m:1s
20342
[19 January 2014] دیدار مسئولان نظام و ميهمانان...
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت...
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در خجسته سالروز میلاد تاریخ سازِ نبی مكرم اسلام و ولادت پربركت امام صادق (ع) در دیدار «جمعی از مسئولان كشور، میهمانان كنفرانس وحدت اسلامی و گروههایی از مردم»، با دعوت از جهان اسلام برای برآورده ساختن انتظارات پیامبر خاتم، تاكید كردند: امروز مهمترین مساله ی دنیای اسلام، وحدت است و با وجود همه توطئه ها، آینده امت اسلامی در پرتو «وحدت، آگاهی و بیداری اسلامی»، درخشان و نوید بخش خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای با تبریك عید سعید میلاد پیامبر اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) و ولادت پربركت امام جعفر صادق (ع)، «آزادی از تصورات و اوهام» و سپس تلاش برای «آزادی از ظلم و ستم حكومتهای مستبد و ایجاد حكومت عادلانه» را دو روش اساسی اسلام برای آزادی بشر برشمردند و افزودند: ملتهای مسلمان باید با ایجاد آزادی درونی و فكری، تلاش كنند با دستیابی به «استقلال سیاسی، استقرار حكومتهای مردمی، برپایی مردم سالاری دینی و حركت براساس شریعت اسلام»، خود را به آزادی مورد نظر اسلام عزیز برسانند.
ایشان، توطئه ها و تحركات دشمنان اسلام برای جلوگیری از آزادی حقیقی و سعادت امت اسلامی را، پیچیده و چند بعدی خواندند و خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف میان مسلمانان، محور اساسی ترفندهای استكبار است.
حضرت آیتالله خامنهای، تلاش ۶۵ ساله برای فراموش شدن مسئله فلسطین و تحمیل وجود رژیم جعلی، جنایتكار و غاصب صهیونیستی بر ملتهای مسلمان را، نمونه ای از تلاشهای مستبدانه امریكا و دیگر زورگویان جهانی خواندند و افزودند: جنگهای ۳۳ روزه لبنان، ۲۲ روزه و ۸ روزه غزه نشان داد بجز برخی دولتها كه عملاً حافظ منافع بیگانگان شده اند ملتهای مسلمان با هوشیاری، هویت و موجودیت فلسطین را حفظ كرده و به رژیم صهیونیستی و حامیانش سیلی می زنند.
رهبر انقلاب در نگاهی كلان به مسائل جهان اسلام، غافل كردن امت اسلامی از مسئله فلسطین را از جمله اهداف مهم دشمنان اسلام در به راه انداختن جنگهای داخلی، دامن زدن به اختلاف و ترویج تفكرات تكفیری و افراطی برشمردند.
ایشان با ابراز تأسف عمیق افزودند: عده ای تكفیری بجای توجه به رژیم خبیث صهیونیستی، به اسم اسلام و شریعت، اكثر مسلمانان را تكفیر می كنند و زمینه ساز جنگ و خشونت و اختلاف می شوند و به همین علت، وجود این جریان تكفیری، مژده ای برای دشمنان اسلام است.
رهبر انقلاب با اشاره به آیه شریفه «اَشدّاء علیَ الكُفّارِ رُحَماء بَینَهُم» افزودند: جریان تكفیری، این دستور صریح پروردگار را نادیده می گیرد و با تقسیم مسلمانان به «مسلمان و كافر»، آنها را به جان هم می اندازد.
ایشان سؤال كردند: با این وضع آیا كسی می تواند تردید كند كه وجود این جریان و پشتیبانی مالی و تسلیحاتی از آن، كار دستگاههای امنیتی و خبیث دولتهای استكباری و دست نشاندگان آنها نیست؟
حضرت آیتالله خامنهای با توجه به این واقعیات، جریان تكفیری را خطری بزرگ برای دنیای اسلام برشمردند و با توصیه به كشورهای اسلامی برای مراقبت و هوشیاری كامل، افزودند: متأسفانه برخی دولتهای مسلمان، به عواقب حمایت از این جریان بی توجهند و نمی فهمند كه این آتش، دامن همه آنها را هم خواهد گرفت.
رهبر انقلاب اسلامی، تشدید اختلافات میان شیعه و سنی و افزایش درگیریهای داخلی ملتهای مسلمان در سه چهار سال اخیر را عكس العمل ستم گران جهانی در مقابل تشدید بیداری اسلامی در تعدادی از كشورها برشمردند.
ایشان افزودند: مستكبران تلاش می كنند برای تحت الشعاع قرار دادن بیداری اسلامی، پیروان مذاهب مختلف اسلامی را با یكدیگر درگیر كنند و سپس با برجسته كردن اقدامات شنیع جریان تكفیری نظیرِ «جویدن جگر انسان های به قتل رسیده»، اصل اسلام را در افكار عمومی جهانیان، زشت جلوه دهند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: بدون تردید این مسائل یك باره به وجود نیامده است و قدرتهای جهانی برای ایجاد آنها، مدتها برنامه ریزی و سیاستگذاری كرده اند.
حضرت آیتالله خامنهای مقابله با هر عامل ضد وحدت را تكلیف بزرگ شیعه و سنی و دیگر شاخه های مذهبی خواندند و خاطرنشان كردند: نخبگان سیاسی، علمی و دینی برای ایجاد وحدت در جوامع اسلامی، وظایف سنگینی برعهده دارند.
رهبر انقلاب در همین زمینه، «علمای دنیای اسلام» را به برحذر داشتن ملتها از اختلافات فرقه ای و مذهبی، «دانشمندانِ دانشگاهها» را به تبیین اهمیت اهداف اسلامی برای دانشجویان و «نخبگان سیاسی امت اسلامی» را به تكیه بر مردم و دوری از بیگانگان و دشمنان اسلام فراخواندند و تاكید كردند: امروز مهمترین مساله در دنیای اسلام، وحدت است.
ایشان با اشاره به خروج تدریجی ملتهای مسلمان از زیر بار سلطه مستقیم استعمارگران، هشدار دادند: مستكبران درصددند منافع دوران سلطه مستقیم را با سلطه غیرمستقیم سیاسی، فرهنگی و اقتصادی تامین كنند.
حضرت آیتالله خامنهای «بیداری و آگاهی»، را تنها راه سعادت امت اسلامی برشمردند و خاطرنشان كردند: امكانات فراوان، موقعیت جغرافیایی ممتاز، میراث تاریخی بسیار ارزشمند و منابع اقتصادی بی نظیر كشورهای اسلامی، می تواند در سایه وحدت و همدلی، عزت و كرامت و آقایی مسلمانان را رقم بزند.
ایشان پیروزی انقلاب اسلامی و استحكام الگوی جمهوری اسلامی را با وجود ۳۵ سال توطئه های گوناگون مستكبران، از نشانه های آینده نوید بخش امت اسلامی دانستند و تأكید كردند: به فضل الهی ملت ایران و نظام اسلامی روز به روز قوی تر، ریشه دار تر و مقتدر تر خواهد شد.
در پایان این دیدار، حضرت آیتالله خامنهای، دقایقی در جمع میهمانان خارجی كنفرانس وحدت اسلامی حضور یافتند.
قبل از سخنان رهبر انقلاب اسلامی، آقای روحانی رئیس جمهور با تبریك میلاد مبارك پیامبر خاتم و حضرت امام جعفر صادق (ع)، به تاریكی مطلق فرهنگی، اجتماعی و سیاسی دوران جاهلیت اشاره كرد و گفت: در آن اوضاع اسف بار، میلاد پیامبر رحمت، نور هدایت و رستگاری را در تاریخ جاری كرد.
رئیس جمهور با اشاره به مشكلات و اختلافات موجود در جهان اسلام گفت بی تردید پیامبر اسلام در مقابل منحرفین و كسانی كه راه تكفیر و افراط و درگیری را در پیش گرفته اند در رنج است و جوامع اسلامی باید بار دیگر به یاری پیامبر رحمت به پا خیزند.
آقای روحانی پیروی از ندای وحدت بخش امام خمینی را تنها راه نجات امت اسلامی خواند و گفت: دین واحد، پیامبر واحد، منافع مشترك، دشمنان مشترك آرمانهایی همچون فلسطین اشغال شده و قدس عزیز می تواند مسلمانان را متحد كند.
رئیس جمهور افزود: امت اسلامی باید با رجوع به قرآن و در پرتو تدبیر، عقلانیت، اعتدال، امید و تلاش بی وقفه، تمدن اسلامی را دوباره احیا كند.
Source: http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=25049
25m:26s
14869