آسمانِ شہادت کے ستاروں میں چمکتا سورج |...
مقاومت کا راستہ الٰہی، فطری، پاکیزہ و مقدس اور انبیا کا راستہ ہے۔ ظالموں کے خلاف...
مقاومت کا راستہ الٰہی، فطری، پاکیزہ و مقدس اور انبیا کا راستہ ہے۔ ظالموں کے خلاف اٹھنے والوں اور ان کے غرور کو خاک میں ملانے والوں سے ہر انسان محبت کرتا ہے۔ یہاں شیعہ، سنی، مسلم، غیر مسلم کی حد بندی بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ شام کے ایسے ہی آزاد منش بچوں کا شہید قاسم سلیمانیؒ کو بہترین خراجِ عقیدت ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
نورخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
(صف:8) کامنظوم ترجمہ
#عربی_ترانہ #چمکتا_سورج #قاسم_سلیمانی #دمشق #کلیسا #مہاجر_کیمپ #فوعہ #کفریا #انتقام #شیر #دشمن #ہیبت #شہید #ظالم #راستہ #لشکر
2m:55s
3130
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
aasmaan,
shahadat,
sitaro,
sooraj,
arabi,
tarana,
muqawemat,
ilahi,
fitri,
pakeeza,
moqaddas,
zaalimo,
ghuroor,
khaak,
mohabbat,
insan,
shia,
sunni,
muslim,
GhairMuslim,
sham,
aazaad,
damascus,
QasimSolemani,
aqeedat,
سنی شیعہ کا انقلاب اسلامی میں کردار |...
کیا اسلامی جمہوریہ ایران میں صرف شیعہ انقلاب اسلامی کے حامی ہیں؟ انقلاب اسلامی...
کیا اسلامی جمہوریہ ایران میں صرف شیعہ انقلاب اسلامی کے حامی ہیں؟ انقلاب اسلامی کے بارے میں ایران کے اہل سنت شہریوں کا کیا رویہ ہے؟ کیا اہل سنت علماء اور عوام بھی انقلاب اسلامی کی تحریک کا حصہ تھے؟ کیا ایران، عراق جنگ میں سنی عوام نے بھی شمولیت کی تھی؟ ایران میں موجود سنی عوام نے انقلاب اسلامی کے لیے کون کون سی قربانیاں دی ہیں؟ انقلابی جدوجہد کی تاریخ میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا ایران کے اہل سنت علاقوں سے متعلق کیا کہنا ہے؟ دشمنوں کا ایران کے سنی عوام کے متعلق کیا منصوبہ ہے؟
ان سب سوالات کو جاننے کےلیے ولی امر مسلمین کی یہ ویڈیو ضرور دیکھیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #سیستان #بلوچستان #ایرانی_اہل_سنت #سنی_عوام #تاریخ_انقلاب_اسلامی #ہفتہ_وحدت #وحدت_امت
10m:11s
5260
عالمی پابندیوں کے باوجود، اتنی ترقی کی...
آج اسلامی دنیا کا مرکز کون سا ملک ہے؟ کیا کوئی ملک، عالمی پابندیوں کے باوجود ترقی...
آج اسلامی دنیا کا مرکز کون سا ملک ہے؟ کیا کوئی ملک، عالمی پابندیوں کے باوجود ترقی کر سکتا ہے؟ دنیا کا کون سا واحد ملک حقیقی عدالت کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے؟ ایران نے 43 سالوں میں کن مادی اور معنوی میدانوں میں ترقی کی ہے؟ ان سوالات کے جوابات، سید ہاشم الحیدری کی زبانی، ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
#ویڈیو #سید_ہاشم_الحیدری #ایران #شیعہ #سنی #امام_علی #صنعت #طب #ولی_فقیہ #ولایت_فقیہ #سائنس #ٹیکنالوجی #دفاع #انقلاب #امام_حسین #شاہ #پابندیاں #بینک
2m:18s
5459
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
Iran,
Shiah,
suni,
sanat,
tib,
science,
technology,
inqilab,
Shah,
pabandiyan,
bank,
فرقہ واریت میں امریکی کردار | امام سید...
دنیا کی شیطانی طاقتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان نفرت پیدا کی...
دنیا کی شیطانی طاقتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان نفرت پیدا کی جائے اور مسلمان ممالک میں فرقہ وارنہ ذہنیت کو فروغ دیا جائے تا کہ مسلمانوں کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا کر کے اپنے مذموم شیطانی مقاصد کی تکمیل کر سکیں. اسلامی دنیا میں فرقہ واریت کے فروغ میں امریکہ کا ہمیشہ سے بنیادی اور اہم کردار رہا ہے. اسلامی ممالک میں موجود اپنے زر خرید غلاموں کے ذریعے کبھی طالبان تو کبھی داعش اور القاعدہ کے نام سے مسلمان ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیلتے رہیں.
اسلامی انقلاب نے روز اول سے ہی فرقہ واریت کی لعنت سے نجات اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اپنا بنیادی کردار ادا کیا ہے.
اس حوالے ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات اس ویڈیو میں مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #اسلامی_جمہوریہ #اتحاد_بین_المسلمین #تاکید #وجہ #شیعہ #سنی #اختلافات #سوچی_سمجھی_سازش #سیاسی_لٹیچر #امریکی
2m:18s
11138
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
firqah,
amarica,
mamalik,
muslim,
muslman,
ikhtilafat,
islami
inqilab,
musalman
mumalik,
ummat
Musalmah,
firqa
wariyat,
Amrici
kirdaar,
کریم امامؑ | امام حسن مجتبیٰؑ | فارسی...
«آقایِ مہربون» کے عنوان سے یہ ایک بہترین فارسی ترانہ ہے جس میں «امیر طلاجوران»...
«آقایِ مہربون» کے عنوان سے یہ ایک بہترین فارسی ترانہ ہے جس میں «امیر طلاجوران» نامی فارسی شاعر نے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی مہربانی اور بخشش و کرم کی صفت کا بہترین انداز میں ذکر کیا ہے۔ مانگنے کے بعد عطا کرنے والے کو «سخی» جبکہ مانگنے سے پہلے ہی عطا کر دینے والے کو «کریم» کہتے ہیں۔ عرب ہوں یا عجم ، شیعہ ہوں یا سنی تمام نامور علماء ، امام حسن مجتبیٰؑ کی اس بخشش و کرم کی صفت کے قائل تھے اور ہیں۔ چنانچہ «سیوطی» اپنی کتاب «تاریخ الخلفاء» میں ذکر کرتے ہیں کہ امام حسنؑ نے اپنی پوری زندگی میں 2 بار اپنا سارا مال اور 3 بار اپنا آدھا مال اللہ کی راہ میں ضرورت مندوں کو دے دیا۔
علاوہ ازیں اس ترانے میں شاعر نے اس موضوع کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ یوم الاثنین یعنی سوموار کا دن امام حسنؑ اور امام حسینؑ سے منسوب ہے۔ دنیا کی مزید کون کون سی عظیم شخصیات، امام حسنؑ کی عاشق ہیں؟ «امیر نقدی» کی سرپرستی میں، «نجم الثاقب» نامی ترانے پڑھنے والے گروہ کے ذریعے ریلیز ہونے والے اس خوبصورت اور بہترین ترانے میں ملاحظہ فرمائیں۔
#ویڈیو #ترانہ #امام_حسن_علیہ_السلام #کریم_امام #عشق #بندگی #سوموار #یا_حسن #بخشش #عرب_و_عجم #عباس_علمدار #علی_اکبر
3m:50s
1298
کیا یہ ایرانی اسلام ہے؟ | سید ھاشم...
آخری سانسیں لیتے ہوئے عالمی استکباری نظام کی پوری دنیا کو \"حقیقی اسلامی نظام...
آخری سانسیں لیتے ہوئے عالمی استکباری نظام کی پوری دنیا کو \"حقیقی اسلامی نظام اور نظریہ مقاومت\" سے دور رکھنے کی بے شمار ناکام کوششوں میں سے ایک کوشش یہ تھی کہ اسے صرف ایک \"ایرانی اور خمینی نظریہ\" کہہ کر مسترد کر دیا جائے جبکہ یہی نظریہ آج پوری دنیا کے \"شیعہ، سنی، مسلم، غیر مسلم\" ، \"مظلوم اور مستضعف لیکن آزاد اور شجاع\" دلوں کی آواز بن چکا ہے۔ ایران میں یہ نظریہ کیسے کامیاب ہوا، مشہور عراقی عالم و مجاہد سید ہاشم الحیدری کی زبانی ضرور ملاحظہ فرمائیں ۔
#ویڈیو #سید_ہاشم_الحیدری #مقاومت #امریکہ #مرجعیت #ایران #اہلبیت #امام_خمینی #امام_علی #امام_حسین #ولایت_فقیہ #رسول_اللہ #رسول
1m:25s
1473
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
mqavmt
,
America,
Iran,
ahlbit,
rasool,
Shiah,
suni,
muslim,
ghair
muslim,
mazloom,
21Nov13 سانحہ راولپنڈی - شیعہ سنی علماء کی...
[Media watch 21 Nov 2013 ] سانحہ راولپنڈی کے خلاف شیعہ سنی علماء کی مشترکہ پریس کانفرنس - Urdu
[Media watch 21 Nov 2013 ] سانحہ راولپنڈی کے خلاف شیعہ سنی علماء کی مشترکہ پریس کانفرنس - Urdu
3m:11s
5547
[01] مجلس وحدت مسلمین و سنی اتحاد کونسل کی...
[Media Watch] Samaa News : Majlis Wahdate Muslimeen Aur Sunni Ittehad Council Ki Mushtarqa News Conference - Brother Nasir Sherazi : MWM Pak |...
[Media Watch] Samaa News : Majlis Wahdate Muslimeen Aur Sunni Ittehad Council Ki Mushtarqa News Conference - Brother Nasir Sherazi : MWM Pak | SahabZada Hamid Raza Sahab : Sunni Ittehad Council | Brother Faisal Raza Abidi : Voice Of Shuhada Urdu
7m:25s
5794
[02] مجلس وحدت مسلمین و سنی اتحاد کونسل کی...
[Media Watch] Samaa News : Majlis Wahdate Muslimeen Aur Sunni Ittehad Council Ki Mushtarqa News Conference - Brother Nasir Sherazi : MWM Pak |...
[Media Watch] Samaa News : Majlis Wahdate Muslimeen Aur Sunni Ittehad Council Ki Mushtarqa News Conference - Brother Nasir Sherazi : MWM Pak | SahabZada Hamid Raza Sahab : Sunni Ittehad Council | Brother Faisal Raza Abidi : Voice Of Shuhada Urdu
7m:55s
5179
Video Tags:
Shia,,Sunni,,Ikhtilaf,,Sehyouni,,Agenda,,Hay,,Khateeb,,Juma,,Sahar,,Urdu,,News
Video Tags:
Rehber,,Inqilab,,Islami,,Shia,,Wa,,Sunni,,Sakht,,Halat,,main,,Ek,,Dosray,,Kay,,Sath,,Sahar,,Urdu,,News
Video Tags:
Islami,,Jimhoria,,Main,,Shia,,Wa,,Sunni,,Ek,,Dosray,,Kay,,Sath,,Hain,,Sahar,,Urdu,,News
[19 January 2014] دیدار مسئولان نظام و ميهمانان...
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت...
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در خجسته سالروز میلاد تاریخ سازِ نبی مكرم اسلام و ولادت پربركت امام صادق (ع) در دیدار «جمعی از مسئولان كشور، میهمانان كنفرانس وحدت اسلامی و گروههایی از مردم»، با دعوت از جهان اسلام برای برآورده ساختن انتظارات پیامبر خاتم، تاكید كردند: امروز مهمترین مساله ی دنیای اسلام، وحدت است و با وجود همه توطئه ها، آینده امت اسلامی در پرتو «وحدت، آگاهی و بیداری اسلامی»، درخشان و نوید بخش خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای با تبریك عید سعید میلاد پیامبر اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) و ولادت پربركت امام جعفر صادق (ع)، «آزادی از تصورات و اوهام» و سپس تلاش برای «آزادی از ظلم و ستم حكومتهای مستبد و ایجاد حكومت عادلانه» را دو روش اساسی اسلام برای آزادی بشر برشمردند و افزودند: ملتهای مسلمان باید با ایجاد آزادی درونی و فكری، تلاش كنند با دستیابی به «استقلال سیاسی، استقرار حكومتهای مردمی، برپایی مردم سالاری دینی و حركت براساس شریعت اسلام»، خود را به آزادی مورد نظر اسلام عزیز برسانند.
ایشان، توطئه ها و تحركات دشمنان اسلام برای جلوگیری از آزادی حقیقی و سعادت امت اسلامی را، پیچیده و چند بعدی خواندند و خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف میان مسلمانان، محور اساسی ترفندهای استكبار است.
حضرت آیتالله خامنهای، تلاش ۶۵ ساله برای فراموش شدن مسئله فلسطین و تحمیل وجود رژیم جعلی، جنایتكار و غاصب صهیونیستی بر ملتهای مسلمان را، نمونه ای از تلاشهای مستبدانه امریكا و دیگر زورگویان جهانی خواندند و افزودند: جنگهای ۳۳ روزه لبنان، ۲۲ روزه و ۸ روزه غزه نشان داد بجز برخی دولتها كه عملاً حافظ منافع بیگانگان شده اند ملتهای مسلمان با هوشیاری، هویت و موجودیت فلسطین را حفظ كرده و به رژیم صهیونیستی و حامیانش سیلی می زنند.
رهبر انقلاب در نگاهی كلان به مسائل جهان اسلام، غافل كردن امت اسلامی از مسئله فلسطین را از جمله اهداف مهم دشمنان اسلام در به راه انداختن جنگهای داخلی، دامن زدن به اختلاف و ترویج تفكرات تكفیری و افراطی برشمردند.
ایشان با ابراز تأسف عمیق افزودند: عده ای تكفیری بجای توجه به رژیم خبیث صهیونیستی، به اسم اسلام و شریعت، اكثر مسلمانان را تكفیر می كنند و زمینه ساز جنگ و خشونت و اختلاف می شوند و به همین علت، وجود این جریان تكفیری، مژده ای برای دشمنان اسلام است.
رهبر انقلاب با اشاره به آیه شریفه «اَشدّاء علیَ الكُفّارِ رُحَماء بَینَهُم» افزودند: جریان تكفیری، این دستور صریح پروردگار را نادیده می گیرد و با تقسیم مسلمانان به «مسلمان و كافر»، آنها را به جان هم می اندازد.
ایشان سؤال كردند: با این وضع آیا كسی می تواند تردید كند كه وجود این جریان و پشتیبانی مالی و تسلیحاتی از آن، كار دستگاههای امنیتی و خبیث دولتهای استكباری و دست نشاندگان آنها نیست؟
حضرت آیتالله خامنهای با توجه به این واقعیات، جریان تكفیری را خطری بزرگ برای دنیای اسلام برشمردند و با توصیه به كشورهای اسلامی برای مراقبت و هوشیاری كامل، افزودند: متأسفانه برخی دولتهای مسلمان، به عواقب حمایت از این جریان بی توجهند و نمی فهمند كه این آتش، دامن همه آنها را هم خواهد گرفت.
رهبر انقلاب اسلامی، تشدید اختلافات میان شیعه و سنی و افزایش درگیریهای داخلی ملتهای مسلمان در سه چهار سال اخیر را عكس العمل ستم گران جهانی در مقابل تشدید بیداری اسلامی در تعدادی از كشورها برشمردند.
ایشان افزودند: مستكبران تلاش می كنند برای تحت الشعاع قرار دادن بیداری اسلامی، پیروان مذاهب مختلف اسلامی را با یكدیگر درگیر كنند و سپس با برجسته كردن اقدامات شنیع جریان تكفیری نظیرِ «جویدن جگر انسان های به قتل رسیده»، اصل اسلام را در افكار عمومی جهانیان، زشت جلوه دهند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: بدون تردید این مسائل یك باره به وجود نیامده است و قدرتهای جهانی برای ایجاد آنها، مدتها برنامه ریزی و سیاستگذاری كرده اند.
حضرت آیتالله خامنهای مقابله با هر عامل ضد وحدت را تكلیف بزرگ شیعه و سنی و دیگر شاخه های مذهبی خواندند و خاطرنشان كردند: نخبگان سیاسی، علمی و دینی برای ایجاد وحدت در جوامع اسلامی، وظایف سنگینی برعهده دارند.
رهبر انقلاب در همین زمینه، «علمای دنیای اسلام» را به برحذر داشتن ملتها از اختلافات فرقه ای و مذهبی، «دانشمندانِ دانشگاهها» را به تبیین اهمیت اهداف اسلامی برای دانشجویان و «نخبگان سیاسی امت اسلامی» را به تكیه بر مردم و دوری از بیگانگان و دشمنان اسلام فراخواندند و تاكید كردند: امروز مهمترین مساله در دنیای اسلام، وحدت است.
ایشان با اشاره به خروج تدریجی ملتهای مسلمان از زیر بار سلطه مستقیم استعمارگران، هشدار دادند: مستكبران درصددند منافع دوران سلطه مستقیم را با سلطه غیرمستقیم سیاسی، فرهنگی و اقتصادی تامین كنند.
حضرت آیتالله خامنهای «بیداری و آگاهی»، را تنها راه سعادت امت اسلامی برشمردند و خاطرنشان كردند: امكانات فراوان، موقعیت جغرافیایی ممتاز، میراث تاریخی بسیار ارزشمند و منابع اقتصادی بی نظیر كشورهای اسلامی، می تواند در سایه وحدت و همدلی، عزت و كرامت و آقایی مسلمانان را رقم بزند.
ایشان پیروزی انقلاب اسلامی و استحكام الگوی جمهوری اسلامی را با وجود ۳۵ سال توطئه های گوناگون مستكبران، از نشانه های آینده نوید بخش امت اسلامی دانستند و تأكید كردند: به فضل الهی ملت ایران و نظام اسلامی روز به روز قوی تر، ریشه دار تر و مقتدر تر خواهد شد.
در پایان این دیدار، حضرت آیتالله خامنهای، دقایقی در جمع میهمانان خارجی كنفرانس وحدت اسلامی حضور یافتند.
قبل از سخنان رهبر انقلاب اسلامی، آقای روحانی رئیس جمهور با تبریك میلاد مبارك پیامبر خاتم و حضرت امام جعفر صادق (ع)، به تاریكی مطلق فرهنگی، اجتماعی و سیاسی دوران جاهلیت اشاره كرد و گفت: در آن اوضاع اسف بار، میلاد پیامبر رحمت، نور هدایت و رستگاری را در تاریخ جاری كرد.
رئیس جمهور با اشاره به مشكلات و اختلافات موجود در جهان اسلام گفت بی تردید پیامبر اسلام در مقابل منحرفین و كسانی كه راه تكفیر و افراط و درگیری را در پیش گرفته اند در رنج است و جوامع اسلامی باید بار دیگر به یاری پیامبر رحمت به پا خیزند.
آقای روحانی پیروی از ندای وحدت بخش امام خمینی را تنها راه نجات امت اسلامی خواند و گفت: دین واحد، پیامبر واحد، منافع مشترك، دشمنان مشترك آرمانهایی همچون فلسطین اشغال شده و قدس عزیز می تواند مسلمانان را متحد كند.
رئیس جمهور افزود: امت اسلامی باید با رجوع به قرآن و در پرتو تدبیر، عقلانیت، اعتدال، امید و تلاش بی وقفه، تمدن اسلامی را دوباره احیا كند.
Source: http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=25049
25m:26s
15248
[2/3] Arbaeen e Hussaini a.s Lahore - Hussainyon ki Awaz |...
#Arbaeen_1442_2020 #Imam_Hussain #Ashura
[Arbaeen e Hussaini a.s Lahore]
[اربعین حُسینیؑ لاہور]
[2/3] Hussainyon ki Awaz...
#Arbaeen_1442_2020 #Imam_Hussain #Ashura
[Arbaeen e Hussaini a.s Lahore]
[اربعین حُسینیؑ لاہور]
[2/3] Hussainyon ki Awaz | حُسینیوں کی آواز
Venue: Lahore
بمقام: لاہور
Duration: 09:33
دورانیہ: ۰۹:۳۳
Follow us:
🌐 wisdomgateway.org
🎬 shiatv.net/u/wisdomgateway
👤 fb.com/wisdomgateway
👤 fb.com/wisdomgatewayproduction
📱 telegram.me/wisdomgateway
📞 instagram.com/wisdomgateway
🎥 twitter.com/wisdomgateway
📲https://chat.whatsapp.com/267jCtAoM245SHhsAnFQg3
9m:33s
2752
[ARABIC] 7 FEB 2012 كلمة السيد حسن نصر الله Sayyed...
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة...
إستهل الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله كلمته اليوم الثلاثاء بمناسبة إحتفال المولد النبوي الشريف واسبوع الوحدة الاسلامية في مجمع سيد الشهداء في الضاحية الجنوبية بالترحيب والمباركة للجميع ومن ثم تحدث عن معجزة النبي محمد(ص) وكيف صنع أمة، ومن بعدها تحدث سماحته عن موضوع الوحدة الإسلامية وما تواجهه، واشار إلى موضوع التحريض في ما يسمى المدّ الشيعي ومن ثم إنتقل للحديث عن موضوع الدعم الإيراني لحزب الله ، معتبرا أنه يتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل اشكاله وبدون أملاءات ،كما تطرق سماحته إلى موضوع إتهام الحزب بغسيل الأموال وقال إننا لا نغسل أموالا ولا نغطي ولا نسامح في هذا الموضوع.
وفي الموضوع السوري إعتبر السيد نصر الله أن هناك الكثير من التهويل، مشيرا إلى ان النظام القائم في سورية لديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي لافتا إلى وجود قرار غربي عربي لإسقاط النظام والمطلوب هو رأس المقاومة، ورأى سماحته ان طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر، ومن بعدها تطرق سماحته الى موضوع الحكومة اللبنانية معتبرا انه ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان .
بداية تحدث السيد نصر الله عن "معجزة النبي الكبرى والتي استطاع بها أن يصنع هذه الأمة وأن يوجد هذا التحول وهذه المعجزة التي يمكن اللجوء إليها واللوذ بها والاستعانة بها لايقاظ أمة من جديد لاستنهاض الأمة وقيام الأمة من جديد لاحداث ذلك التحول الفكري والايماني والعقائدي والاجتماعي والروحي والمعنوي والتربوي والثقافي من جديد هو كتاب الله سبحانه وتعالى وهو القرآن الكريم هذا القرآن المعجزة الخالدة ببلاغته ومضمونه وهو الذي نزل على قلب نبي أمي في مجتمع أمي ومعجزة هذا القرآن أيضاً لجهة استمراره في التحدي طوال كل هذه القرون".
واضاف سماحته أن" الرسول استطاع أن يصنع أمة عظيمة وحضارة كبرى ولكن من أي شيء وهو الذي انطلق وقام وبعث في جزيرة العرب شبه الجزيرة العربية من شعب كان يسوده الجهل والأمية والجاهلية والخرافات وعبادة الأوثان والأصنام والتمزق والعصبيات القبلية والعشائرية والعائلية والاقتتال وغياب أي جامع مركزي من دين أو قضية أو قيادة أو مشروع أو ثقافة".
وتابع سماحته أنه" ومن الواقع السيء المنحط فكريا ودينيا وأخلاقيا وإنسانيا إلى الحد الذي كان يئد فيه الأب ابنته فقط لأنها أنثى استطاع النبي أن يصنع أمة وهذه هي المعجزة أمة مؤمنة أمة أخلاق أمة قيم أمة حضارة أمة استطاعت أيضاً أن تدخل التاريخ من بابه الواسع وخلال عقود قليلة أمة كان لها ولا زال تاريخها وحضورها وتأثيرها في العالم".
وأشار السيد نصر الله إلى أننا"بعد 1400 سنة يصل إلى أجيالنا الحاضرة القرآن مصونا مصانا محفوظا من أي زيادة أو نقصان أو تحريف أو تزوير أليست هذه معجزة الهية واضحة للعيان".
واعتبر سماحته أن"أساس هذا القرآن وهذا الدين الذي جاء به محمد يا اخواني وأخواتي هو الدعوة إلى التوحيد وإلى الوحدة إلى توحيد الخالق وإلى الوحدة بين بين الناس بين عباد الخالق الواحد الذين يجمعهم أنهم خلق الله سبحانه وتعالى فالناس صنفان إما أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق هذا هو خطاب ديننا والتزامنا".
ومن ثم بدأ سماحته بالعنوان الأول وهو الوحدة الاسلامية واعتبر أنه يجب التنبه والتثبت من المعلومات والحقائق في زمن كثرت فيه المحن ".
وأضاف سماحته " لا يجوز أن نبني على كل ما يقال في وسائل الاعلام ونحن نشهد خصوصاً في السنوات الأخيرة مرحلة عجيبة غريبة قد لا يكون لها مثيل أو نظير في التاريخ يعني ينسبون لجهات مواقف أصلا لم تصدر عنها ثم يبنى عليها مواقف وتحليلات وعداوات وحروب يخترع ويختلق أحداث ووقائع ويطلب اتخاذ مواقف على أساس أحداث لم تحدث ووقائع لم تقع إنما فبركت وزورت ووضعت وهذا يجري الآن في كل ساعة وفي كل دقيقة وإذا كان الانسان يريد أن ينفي فقط لا يعمل شيئا سوى إصدار بيانات النفي".
ولفت سماحته إلى أنه يجب على الانسان أن يعرف كيف يبني موقفا ويجب أن يتأكد من المعلومات والوقائع دون الوقوع في جو الأكاذيب والشائعات التي يستخدم لها اليوم أقوى وأهم مؤسسات رأي عام في العالم ".
واعتبر السيد نصر الله أنه عندما نتحدث عن موضوع الوحدة الاسلامية طبعا هذا مشروع عمل له الكثيرون خلال مئات السنين وحتى قبل انتصار الثورة الاسلامية في إيران وقبل الامام الخميني(قدس) لكن مما لا شك فيه أن انتصار هذه الثورة بقيادة الامام سنة 1979 وقيام دولة بأهمية وسعة وقوة الجمهورية الاسلامية وتبني قيادة هذه الجمهورية لهذا الهدف لهذا المشروع لهذا الشعار وعملت له طوال سنين على المستوى المؤسساتي والاعلامي والفكري أعطى دفعا خاصا لفكرة ومشروع الوحدة الاسلامية".
وأوضح سماحته أنه" لم يكن يوما المقصود ان يتم تذويب المذاهب الاسلامية في مذهب واحد أو أن يصبح المسلمون جميعا أتباع مذهب واحد على الاطلاق".
التحريض في موضوع ما يسمى المد الشيعي
وفي موضوع ما يسمى حركة التشيع والمد الشيعي في المنطقة قال سماحته إنه"لم يكن مطروحا أبدا أن يصبح الشيعة سنة أو يصبح السنة شيعة وهذا مجرد اوهام للتحريض". وأضاف أنه"على المسلمين أن يقتربوا من بعض أن يتعارفوا أن يتحادثوا أن يبحثوا عن مصالحهم الكبرى كأمة وأن يتحابوا ويتعاونوا لخدمة هذه الأهداف والمصالح الكبرى وليس مطلوبا أكثر من ذلك لا أن يتنازل أحد لأحد على مستوى التفاصيل العقائدية ولا على مستوى الفروع الفقهية".
وأضاف سماحته"بطبيعة الحال المستكبرون والمستعمرون والمحتلون ليس لهم مصلحة في أن تجتمع كلمة هذه الأمة وتتعاون على قاعدة فرق تسد ولذلك لن يسمحوا بذلك لأن سيطرة هذه القوى الكبرى على النفط والغاز والمقدسات".
وأشار السيد إلى انه"المسألة بالنسبة لأميركا ليست مذهب الحاكم ولا دينه إنما موقعه السياسي وأداؤه السياسي وولاؤه السياسي ".
وأضاف سماحته" ذنب إيران أنها أسقطت الشاه وأعادت التوازن للأمة بعد خروج مصر في كامب دايفيد واستمرت الحرب على إيران 8 سنوات وكانت مدعومة أميركياً وغربياً وللاسف الشديد أغلب الدول العربية دعمتها وبعض الدول العربية الغنية أنفقت مليارات الدولارات على هذه الحرب هذه المليارات الممنوعة والمحجوبة عن فلسطين وهذه الأموال المحجوبة عن فصائل المقاومة الفلسطينية التي تريد بحق أن تستعيد أرضها ومقدسات الأمة ولكنها أنفقت لتمويل الحرب على دولة إسلامية فتية رفعت شعار فلسطين والزحف نحو القدس وكان لهذه الحرب الأثر الكبير على مشروع الوحدة في الأمة وكان هناك تداعيات خطيرة".
وتابع سماحته"بعد فشل الحرب وذهاب أماني إسقاط نظام الجمهورية الاسلامية في إيران أدراج الرياح بدأ البحث عن طريقة أخرى للحؤول دون تلاقي المسلمين في هذه الأمة وكل شعوب أمتنا تريد الكرامة والعزة والاستقلال،و بعد الحرب ذهبوا لموضوع الفتنة المذهبية واختراع ما أسموه المد الايراني والمد الشيعي وهذا الآن هو مادة الحرب الناعمة التي تستخدمها اميركا والغرب في مواجهة الأمة".
وأضاف"التهمة هي أن إيران تقوم بانشاء مد شيعي في العالم الاسلامي وأنها تريد أن تشيّع السنّة في العالم الاسلامي أي أن إيران تريد تشييع مليار ونصف مسلم بالحد الأدنى ولذلك يتم الحديث عن خطر داهم اسمه المد الشيعي وهذا عمل الشياطين لا يستند إلى أي وقائع أو حقائق".
وأوضح سماحته أنه في الموضوع الديني لا أساس للمد الشيعي من الصحة ولكن نعم هناك من يروج له وأنا سأقول بعض التفاصيل مثلا في مصر التقيت مع شخصيات كبيرة وقد صدقت ان هناك حركة مد كبيرة وان ايران تقودها وان التشيع وصل لحد 5 مليون".
وتابع سماحته"أنا شخص منفتح وأعرف كبار العلماء والشخصيات من السنة في سورية وألتقي بهم وهذا شرف لي ولكن بعضهم فعلا أجرى معي نقاشا تفصيليا وقال إن هناك حركة تشييع كبرى في سورية وان نظام الرئيس الاسد متهم بدعم هذه الحركة وحتى الآن تشيع في سورية 6 مليون وبالفعل مستشار أحد الملوك العرب فاتحني بهذا الموضوع وقال لي إن تقارير قدمت لبعض الملوك حول ذلك الأمر".
واضاف" ذهبت إلى الشام في ذلك الحين والتقيت مع المسؤولين وحتى مع جهات أمنية وطلبت القيام بدراسة للعثور على هؤلاء الملايين الستة ولكن لا شيء حصل ولم نر ولا حتى 1000 ولا 500 هناك حالات فردية تحصل أينما كان حيث هناك شباب سنّة تشيعوا والعكس صحيح أيضاً لكن لا شيء اسمه مد شيعي ومد سني على الإطلاق".
وأردف سماحته بالقول"هناك قيادات دينية كبيرة مقتنعة بهذا الكلام إلى حد أن إحدى المرجعيات الدينية الكبرى في العالم الاسلامية قدم لها تقرير وصدقت مضمونه وأنه لقد تشيع خلال 33 سنة من انتصار الثورة الى اليوم تشيع 50 مليون سني وهذا شيء مضحك بالفعل".
وتابع سماحته"أقول لكم اليوم في ذكرى ولادة رسول الله محمد (ص) نحن مسلمون شيعة لعلي بن أبي طالب (ع) أتباع مذهب الامام جعفر بن محمد الصادق عليهما السلام نحن نؤمن بأنّ أتباع المذاهب الاسلامية الأخرى كلها هم مسلمون لنا ما لهم وعلينا ما عليهم وكل مسلم يملك الحرية الكاملة في أن يتبع المذهب الذي يريد ونحن كما قال الامام الخامنئي(قدس) ليس لدى أحد منا مشروع الدعوة إلى التشيع وتحويل أي سني إلى شيعي و بكل وضوح هذا ليس برنامجنا ولا هدفنا ".
وتمنى سماحته أن"نصل بهذه النقطة إلى مكان حاسم وأن لا يسمح أي منا خصوصاً في وسط إخواننا أهل السنة لأحد أن يزرع كذبا أو فتنة من هذا النوع وكنت أقول للجهات الفلسطينية ولاخواننا في معسكرات التدريب أن التدريب هو عسكري أما الثقافة فتعود لهم وللجهة التي ينتمون إليها ونرفض فتح أي باب لأي شبهة من هذا النوع".
واعتبر سماحته أنه"نحن كحركة إسلامية في لبنان عندما نتحدث عن تعاون وطني بين المسلمين والمسيحيين وعن ضرورة بناء دولة وطنية في لبنان يشارك فيها الجميع يتمثل فيها الجميع تخدم مصالح الجميع تحمي الجميع نحن لا نتكلم سياسة بل ننطلق من أصولنا الدينية العقائدية الفقهية وهذا ليس تكتيكا سياسياً".
وأضاف سماحته"كل علمائنا من السيد موسى الصدر والسيد محمد حسين فضل الله والسيد محمد مهدي شمس الدين ومراجعنا اليوم يتفقون على ذلك ونحن في حزب الله لا يمكن ان نشارك في الانتخابات النيابية او الحكومة اذا لم يكن هناك مسوغ ديني أو شرعي وهذا موقف فقهي نحن معنيون به وبالتالي انتماؤنا الديني لا يمكن أن يشكل حائلا دون أن نبني دولة سويا وان يكون مجتمعنا متعاونا".
التحريض على مواقف سابقة
وأشار سماحته إلى انه "بعض الناس من أجل التحريض ينطلقون من مواقف أخذت في الـ82 والـ83 أننا نريد إقامة جمهورية إسلامية وهذا صحيح لقد خطبنا بذلك في بداية الثمانينات لكن أريد أن أذكر القيادات المسيحية اليوم التي تتحدث بالتعايش والسلم الأهلي كيف كانوا يتحدثون يومها بالوطن المسيحي والتقسيم والفدرالية!؟".
وأضاف "حزب الله منذ أكثر من 20 سنة خطابه السياسي واضحاً وهذه قناعاتنا التي نشخصها ونرى أنها مصلحة شعبنا في لبنان من كل الطوائف".
نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله من إيران
وتابع سماحته "على خلفية كلام السيد القائد يوم الجمعة والذي قال فيه بصراحة إن الجمهورية الاسلامية تقدم الدعم لحركات المقاومة في لبنان وفلسطين ولا تريد شيئا مقابل هذا الدعم وإنما تؤدي واجبا شرعيا بهذا الوضوح أستطيع أن أقول من أعلى سلطة في الجمهورية الاسلامية لاول مرة يصدر بهذا الوضوح الشديد وأنا سأبني عليه لمعالجة العديد من المسائل المطروحة ".
وقال سماحته"نعم نحن في حزب الله نتلقى الدعم المعنوي والسياسي والمادي بكل أشكاله الممكنة والمتاحة من الجمهورية الاسلامية في إيران منذ عام 1982" .
وأردف قائلا "هذا الدعم الذي قدم منذ البداية هو مفخرة الجمهورية الاسلامية في إيران لأن هذه المقاومة في لبنان التي حققت أكبر وأهم وأوضح انتصار عربي على إسرائيل في 25 أيار 2000 ما كان هذا الانتصار ليتحقق لولا هذا الدعم المعنوي والمادي والمادي الايراني لحركة المقاومة في لبنان هذا الانتصار الذي تحقق بلا قيد ولا شرط تحقق بدعم إيراني وطبعا كان لسورية دور كبير لكن أتحدث الآن عن إيران".
وتابع سماحته"إن حركة المقاومة التي صمدت وانتصرت في حرب تموز ما كانت لتصمد وتنتصر أيضاً لولا هذا الدعم الايراني وحركة المقاومة في فلسطين هي المعنية تتحدث عن نفسها وسواء تحدثت ام لم تتحدث فهذا شأنها".
ووجه السيد نصر الله الشكر للمسؤولين في إيران الذين يدفعون أثمانا باهظة لوقوفهم إلى جانب فلسطين ولبنان واذا باعت ايران فلسطين اليوم كل شيء يحل فمشكلة أميركا ليست الديمقراطية بل النفط وإسرائيل".
نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح
وأشار سماحته إلى أنه"من آثار هذا الكلام أن أوضح أيضا في الموضوع المالي والمادي ففي كل مدة يطلون عبر وسائل الاعلام ليتحدثوا عن شبكات المخدرات في أميركا وأوروبا وأفريقيا وأن حزب الله يدير هذه الشبكات وهي التي تمول أنشطته وكنا دائما ننفي هذا الموضوع وأنا أضيف أن تجارة المخدرات بالنسبة إلينا حرام وأيضاً أغنانا الله بدولته الاسلامية في إيران عن أي فلس في العالم حلال أو حرام".
وأضاف سماحته "نحن لا نغسّل أموالا ولا نغطي ولا نسامح ولا نقبل بهذا الأمر وبعض ما هو حلال ومباح من الناحية الفقهية لا نقوم به كالتجارة فنحن في حزب الله ليس لدينا أي مشروع تجاري اليوم لا في الداخل ولا في الخارج وقد ألغينا وصفّينا مشاريعنا التجارية التي نفذناها في الفترة السابقة".
وأوضح سماحته أنه" نحن في قيادة حزب الله نؤمن أن أي حركة جهادية أو حزب سياسي تقوم بالتجارة إذا اضطرت ولكن من نتائج ذلك الفساد والافساد ولذلك لدينا مشكلة مع هذا الموضوع وحتى موضوع التبرعات أنا أقول أنني لا أقبل أن يدق أحد أبواب العالم لدينا من المال والسلاح والعتاد ما يكفي للقيام بواجبنا لكن تركنا هيئة دعم المقاومة الاسلامية لاجل من يريد أن يشارك خصوصا أن هناك ما يسمى الجهاد بالمال".
لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم
وأضاف سماحته "نحن قادرون على القيام بمشروعنا المقاوم دفاعا عن لبنان ولسنا بحاجة لأي مشروع حلال أو حرام ".
وتابع" منذ الـ82 الى اليوم لا يوجد أي إملاءات إيرانية مقابل الدعم كما يزعم البعض وقد ذكرت سابقا هذا الموضوع على طاولة الحوار حين كانت برئاسة دولة الرئيس الاستاذ نبيه بري وطلبت ان ياتوا لي بمثل واحد لعمل قام به حزب الله لخدمة مصالح الجمهورية الاسلامية ولم يستطع أحد أن يأتي بمثل واحد وبعد نصف ساعة تذكر واحد موضوع الرهائن وهو موضوع كان له علاقة بمعتقلين لبنانيين لا علاقة له بايران ومصالح ايران".
واعتبر السيد أنه"حتى في ما يتعلق بالتطورات الآتية في المنطقة وهناك تحليل ان اسرائيل اذا قامت بقصف المنشآت النووية الايرانية ماذا يمكن ان يحصل وأنا أقول لكم في ذلك اليوم الذي أستبعده أقول لكم القيادة الايرانية لن تطلب شيئا من حزب الله ولم ترغب بشيء لكن اقول في ذلك اليوم نحن الذين علينا أن نجلس ونفكر ونقرر ماذا نفعل".
واكد سماحته أنه"على كل أبناء المقاومة مجاهدي المقاومة جمهورية المقاومة ان يواجهوا هذه الجمهورية وهذا النظام بالشكر والتقدير والاحترام على هذا الموقف وهذا الدعم".
هناك الكثير من التهويل في الموضوع السوري
وبلغة الدقة والوضوح انتقل السيد نصر لله الى الموضوع السوري حيث قال إن" هناك الكثير من التهويل على هذا الصعيد علينا وعلى غيرنا وأنا أقول لا كثرة التهويل ولا قلة التهويل يمكن أن تنال من موقفنا المبني على رؤية ومن يريد أن يعمل على قلبنا وأعصابنا فهو يراهن على سراب في أي موضوع من الموضوعات وقلبنا في ما نراه حق لا يمكن أن يهزه شيء حتى لو وقف العالم كله في وجهنا ".
ورجع السيد للملاحظة التي قالها في البداية عن التدقيق بالمعطيات وقال" قبل مدة خرجت بعض الفضائيات العربية بخبر عاجل عن جهة معارضة سورية أن حزب الله قصف الزبداني بالكاتيوشا باعتبار أن هناك شخص يأكل (ساندويش) وهو مخبأ وتمر القصة وفي ذلك الوقت لم يكن هناك شيء نهائيا وفي اليوم التالي حزب الله يهاجم الزبداني وتتصدى له الجماعات المسلحة وأن جثث قتلى حزب الله تملأ الطرقات ولم يدلنا أحد على هذه الجثث وهذا مثل عن مقاربة الاعلام للموضوع السوري".
وأضاف " يوم اجتماع مجلس الأمن بدأوا بالحديث عن أن حمص (ولعانة) وهذا يجعل أي شخص ينقز ونحن لدينا موقف سياسي واضح لكن أمام هذا المشهد لا يمكن لأحد إلا أن يتأثر وبعد التدقيق تبين أن لا شيء في حمص وتوقيت الخبر وهذا الضخ قبيل جلسة مجلس الأمن ليس مبنيا على وقائع بل تسخير للاعلام في إطار معركة تريد تحقيق هدفها بالحلال والحرام وبأي شكل من الأشكال ".
النظام قائم في سورية ولديه دستور وجيش وليس معزولا على الصعيد الشعبي
واعتبر سماحته أن "هناك نظام ما زال قائما لديه دستور والجيش مع هذا النظام وحتى الآن بحسب معلوماتنا لا يزال واقفا مع هذا النظام وهناك شريحة كبيرة من الناس تعبر عن تأييدها للنظام وتتظاهر في الشوارع وبالتالي فافتراض أن هذا النظام معزول شعبيا غير صحيح".
وتطرق سماحته إلى ما كتبته بعض الصحف اللبنانية أن هؤلاء الذين احتشدوا في ساحة الأمويون عشرات الآلاف أتى بهم حزب فاعل في الأكثرية أي حزب الله لكن نسأل هناك عشرات الآلاف ذهبوا عن طريق المصنع ولم يشعر بهم أحد إلا جريدة لبنانية معيّنة ؟!
وتابع "هناك جزء من الشعب السوري ما يزال مع النظام وهناك في المقابل معارضة بعضها سياسي وبعضها شعبي وبعضها مسلح وإن باتت تطغى الصبغة المسلحة وهناك مواجهات مسلحة في عدد من المناطق السورية وهذا أمر مسلح وهناك أيضا جزء كبير من سورية ينعم باستقرار".
هناك قرار غربي عربي على إسقاط النظام في سورية
وأضاف سماحته"خارج سورية هناك قرار أميركي إسرائيلي غربي عربي على مستوى دول الاعتدال العربي باسقاط النظام في سورية وهذا لا نقاش فيه وقد رأيناه بأم العين وقبل أسابيع قام موظف اسرائيلي بتحليل شخصي يظهر منه أنه يدافع عن نظام الأسد فلم يبقى أحد في 14 آذار إلا وتحدث عن الموضوع ولكن اليوم هناك شبه اجماع اسرائيلي على وجوب اسقاط نظام الاسد اين 14 آذار لماذا بلعوا لساناتهم هل لأن المشهد تغير؟".
وتابع سماحته "المطلوب اسقاط النظام للاتيان بنظام بديل وبعض الاصدقاء المشتركين قالوا لنا ان لا نقلق وان النظام الجديد سيدعم المقاومة وهذا قيل ويقال في الكواليس لكننا لا نورّط نفسنا بهذا الموقف بل نحن منسجمون مع أنفسنا".
المطلوب في سورية هو رأس المقاومة
واعتبر سماحته أن" المطلوب في سورية هو رأس المقاومة في لبنان وفلسطين ورأس القضية الفلسطينية ورأس الشعب الفلسطيني وهذه هي الحقيقة".
وأشار السيد نصر الله إلى ان" القيادة السورية موافقة على معظم الاصلاحات التي طلبت والقيادة جاهزة للحوار والآن يقولون فات الأوان، كيف فات الأوان وهناك حرب في سورية وهناك من يدفع سورية لحرب أهلية؟ الآن الجماعات المسلحة تقتل من أبناء الطوائف وقتلت من السنّة السوريين أكثر مما قتلت من الطوائف الأخرى وغير صحيح أن الحرب في سورية طائفية وإن كانوا يدفعون نحو حرب أهلية، من يحرص على سورية لا يقول فات الأوان بل يذهب إلى الحوار دون شروط لا بشرط تنحي الرئيس".
طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سورية والرهان على أميركا هو رهان خاسر
وسأل السيد نصر الله "هل إقفال الباب حرص على الشعب السوري وعلى قيادة سوريا وهل يخدم القضية الفلسطينية؟ هذا السلوك من يخدم؟ أنا أقول ما أقول الآن لله عز وجل وهذه وقائع ومعطيات بمعزل عن التفاصيل التي لا يجب أن نغرق فيها لكي لا نذهب للمزيد من القتل وسفك الدماء، طاولة حوار حقيقية هي ما يخدم سوريا والرهان على أميركا هو رهان خاسر بطبيعة الحال وهذا هو موقفنا ونرى فيه مصلحة سورية وشعب سورية ومصلحة لبنان وشعب لبنان وفلسطين وشعب فلسطين بمعزل عن الاحقاد الشخصية أو الفئوية التي ينطلق منها بعض الناس".
الحركات الإسلامية امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة
وفي موضوع الحركات الإسلامية التي فازت في الانتخابات في المنطقة العربية إعتبر سماحته أنها امام تحديات خطيرة واستحقاقات صعبة وهي مستهدَفة لان الاميركيين يسعون لجعلها تفشل وهذا يحتاج لكلام كثير لكن بعض القيادات الاسلامية اليوم وأنا أعرفهم جيدا وهم أصدقائي الآن ونظرا للظروف السياسية في بلدانهم لا يأخذون مواقف واضحة في القضية القومية وفي الموضوع الاسرائيلي بل أحيانا قد تصدر عنهم مواقف ملتبسة وعندما نراجع ونناقش يقال لنا انه يجب تفهم تلك الظروف".
حريصون على إستمرار الحكومة
وفي موضوع الحكومة اللبنانية قال سماحته "نحن حريصون على استمرار الحكومة وليس مطلوبا وساطة فمعالجة الازمة مسؤولية الجميع واقول لمن بدأوا يجهزوا "جاكيتاتهم وكرافاتاتهم" للحكومة الجديدة لا حكومة جديدة وهذه الحكومة ستستمر علما أنها ليست حكومة حزب الله".
وأضاف " هذه الحكومة بمعزل عن توصيفها حتى الآن هي أساس استقرار في البلد ويجب أن نجهد لتنجز شيئا والوقت الآن ليس وقت اسقاط حكومات ولا وقت توتير سياسي في لبنان وعلينا بتعاوننا واخلاصنا وانفتاحنا ان نتجاوز هذه المرحلة الصعبة ان شاء الله".
المصدر: قناة المنار
07-02-2012 - 12:47 آخر تحديث 07-02-2012 - 23:48 | 14106 قراءة
72m:21s
15950
[ARABIC] كلمة الإمام الخامنئي في إفتتاح...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و الصحوة الإسلامية
29/04/2013
بسم الله الرحمن الرحيم
و الحمد لله رب العالمين، و الصلاة و السلام على سيدنا محمد المصطفى، و آله الأطيبين و صحبه المنتجبين، و من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
أرحب بكم أيها الضيوف الأعزاء، و أسأل الله العزيز الرحيم أن يبارك في هذا الجهد الجماعي، و أن يجعله شوطاً فاعلاً على طريق حياة أفضل للمسلمين إنه سميع مجيب.
موضوع الصحوة الإسلامية الذي ستتناولونه في هذا المؤتمر هو اليوم في رأس قائمة قضايا العالم الإسلامي و الأمة الإسلامية.. إنه ظاهرة عظيمة لو بقيت سليمة و تواصلت بإذن الله لاستطاعت أن تقيم الحضارة الإسلامية في أفق ليس ببعيد للعالم الإسلامي و من ثَمّ للبشرية جمعاء.
إنّ البارز أمام أعيننا اليوم، و لا يستطيع أي إنسان مطّلع و ذي بصيرة أن ينكره هو أن الإسلام اليوم قد خرج من هامش المعادلات الاجتماعية و السياسية في العالم، و اتخذ مكانة بارزة و ماثلة في مركز العناصر الفاعلة لحوادث العالم، ليقدم رؤية جديدة على ساحة الحياة و السياسة و الحكم و التطورات الاجتماعية. و يشكل ذلك، في عالمنا المعاصر الذي يعاني بعد هزيمة الشيوعية و الليبرالية من فراغ فكري و نظري عميق، ظاهرةً ذات مغزى و أهمية بالغة.
و هذا أول أثر تركته الحوادث السياسية و الثورية في شمال أفريقيا و المنطقة العربية على الصعيد العالمي، و يبشّر بدوره ببروز حقائق أكبر في المستقبل.
إنّ الصحوة الإسلامية التي يتجنب ذكرها المتحدثون باسم جبهة الاستكبار و الرجعية، بل يخافون أن يجري اسمها على ألسنتهم، هي حقيقة نرى معالمها اليوم في أرجاء العالم الإسلامي كافة. و أبرز معالمها تطلع الرأي العام و خاصة فئة الشباب إلى إحياء مجد الإسلام و عظمته، و وعيهم لحقيقة نظام الهيمنة العالمية، و انكشاف الوجه الخبيث و الظالم و المستكبر لحكومات و دوائر أنشبت أظفارها الدامية لأكثر من قرنين في المشرق الإسلامي و غير الإسلامي، و جعلت مقدرات الشعوب عرضة لنزعتها الشرسة و العدوانية نحو الهيمنة، و ذلك بنقاب المدنية و الحضارة.
أبعاد هذه الصحوة المباركة واسعة غاية السعة و ذات امتداد رمزي، و لكن ما حققته من حاضر العطاء في بعض بلدان شمال أفريقيا من شأنه أن يجعل القلوب واثقة بمعطيات مستقبلية كبرى و هائلة. إن تحقق معاجز الوعود الإلهية يحمل دائماً معه دلالات أمل يبشّر بتحقق وعود أكبر. و ما يحكيه القرآن الكريم عن الوعدين الإلهيين لأمّ موسى هو نموذج من هذه السنة الربانية.
إذ في تلك اللحظات العسيرة، حيث صدر الأمر بإلقاء الصندوق حامل الرضيع في اليمّ، جاء الخطاب الإلهي بالوعد: (إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ). (1) إن تحقق الوعد الأول، و هو الوعد الأصغر الذي شدّ على قلب الأم، أصبح منطلقاً لتحقق وعد الرسالة، و هو أكبر بكثير، و يستلزم طبعاً تحمّل المشاق و المجاهدة و الصبر الطويل: (فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ...). (2) هذا الوعد الحقّ هو تلك الرسالة الكبرى التي تحققت بعد سنين و غيّرت مسيرة التاريخ.
و من النماذج الأخرى التذكير بالقدرة الإلهية الفائقة في قمع المهاجمين للكعبة، و الذي ورد في القرآن بلسان الرسول الأعظم (ألم يجعل كيدهم في تضليل) (3) و ذلك لتشجيع المخاطبين علی امتثال الأمر الالهي: (فليعبدوا رب هذا البيت). (4)
و في موضع آخر يذكّر سبحانه رسوله بما أغدقه عليه من نعم تشبه المعجزة: (أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى، وَ وَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى)، ليكون ذلك وسيلة لتقوية معنويات نبيّه الحبيب و إيمانه بالوعد الإلهي في قوله: (مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى)، (5) و مثل هذه الأمثلة كثيرة في القرآن الكريم.
حين انتصر الإسلام في إيران، و استطاع أن يفتح قلاع أمريكا و الصهيونية في أحد أكثر البلدان حساسية من هذه المنطقة المهمة بامتياز، عَلِم أهل العبرة و الحكمة أنهم إذا انتهجوا طریق الصبر و البصيرة فإن فتوحات أخرى ستتعاقب علیهم، و قد تعاقبت فعلاً.
الحقائق الساطعة في الجمهورية الإسلامية و التي يعترف بها الأعداء قد تحققت بأجمعها في ظل الثقة بالوعد الإلهي و الصبر و المقاومة و الاستمداد من ربّ العالمين. شعبنا كان يرفع دائماً صوته بالقول: (كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ)، (6) أمام وساوس الضعفاء الذين كانوا يردّدون في الفترات الحرجة: (إِنَّا لَمُدْرَكُونَ). (7)
هذه التجربة الثمینة هي اليوم في متناول الشعوب التي نهضت بوجه الاستكبار و الاستبداد، و استطاعت أن تسقط أو تزلزل عروش الحكومات الفاسدة الخاضعة و التابعة لأمريكا. الثبات و الصبر و البصيرة و الثقة بالوعد الإلهي في قوله سبحانه: (وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ)، (8) بإمكانها أن تمهّد طريق العزّ هذا أمام الأمة الإسلامية حتى تصل إلى قمة الحضارة الإسلامية.
إنني في هذا الاجتماع الهام لعلماء الأمة بمختلف أقطارهم و مذاهبهم أرى من المناسب أن أبيّن عدة نقاط ضرورية حول قضايا الصحوة الإسلامية:
الأولى: إن الأمواج الأولى للصحوة في بلدان هذه المنطقة، و التي اقترنت ببدايات دخول الغزو الاستعماري، قد انطلقت غالباً على يد علماء الدين و المصلحين الدينيين. لقد خلدت صفحات التاريخ و للأبد أسماء قادة و شخصيات بارزة من أمثال السيد جمال الدين الأسد آبادي، و محمد عبده، و الميرزا الشيرازي، و الآخوند الخراساني، و محمود الحسن، و محمد علي، و الشيخ فضل الله النوري، و الحاج آقا نور الله، و أبي الأعلى المودودي، و عشرات من كبار علماء الدين المعروفين و المجاهدين و المتنفذين من إيران و مصر و الهند و العراق. و يبرز في عصرنا الراهن اسم الإمام الخميني العظيم مثل كوكب ساطع على جبين الثورة الإسلامية في إيران. و كان لمئات العلماء المعروفين و آلاف العلماء غير المعروفين في الحاضر و الماضي دور في المشاريع الإصلاحية الكبيرة و الصغيرة على ساحة مختلف البلدان. و قائمة المصلحين الدينيين من غير علماء الدين كحسن البنا و إقبال اللاهوري هي طويلة أيضاً و مثيرة للإعجاب.
و قد كانت المرجعيّة الفكريّة لعلماء الدين و رجال الفكر الديني بدرجة و أخرى، و في كل مكان. لقد كانوا سنداً روحياً قوياً للجماهير، و حيثما قامت قيامة التحولات الكبرى ظهروا في دور المرشد و الهادي، و تقدموا لمواجهة الخطر في مقدمة صفوف الحراك الشعبي، و ازداد الارتباط الفكري بينهم و بين الناس، و ازداد معه تأثيرهم في دفع الناس نحو الطريق الصحيح. و هذا له من الفائدة و البركة لنهضة الصحوة الإسلامية بمقدار ما يجرّ على أعداء الأمة و الحاقدين على الإسلام و المعارضين لسيادة القيم الإسلامية من انزعاج و امتعاض ما يدفعهم إلى محاولة إلغاء هذه المرجعية الفكرية للمؤسسات الدينية و استحداث أقطاب جديدة عرفوا بالتجربة أنها يمكن المساومة معها بسهولة على حساب المبادئ و القيم الدينية. و هذا ما لا يحدث إطلاقاً مع العلماء الأتقياء و رجال الدين الملتزمين.
إن هذا يضاعف ثقل مسؤولية علماء الدين. فعليهم أن يسدّوا الطريق أمام الاختراق بفطنة و دقة متناهية و بمعرفة أساليب العدوّ الخادعة و حيله، و أن يحبطوا مكائده. إن الانشداد للموائد الملوّنة بمتاع الدنيا من أكبر الآفات. و التلوث بهبات أصحاب المال و السلطة و عطاياهم، و الارتباط المادي بطواغيت الشهوة و القوة من أخطر عوامل الانفصال عن الناس و التفريط بثقتهم و محبتهم. الأنانية و حبّ الجاه الذي يجرّ الضعفاء إلى أقطاب القوة يشكّلان أرضية خصبة للتلوث بالفساد و الانحراف. لا بدّ أن نضع نصب أعيننا قوله سبحانه: (تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ). (9)
إننا اليوم، في عصر حراك الصحوة الإسلامية و ما تبعثه في النفوس من أمل، نشاهد أحيانًا مساعي خدم أمريكا و الصهيونية لاصطناع مرجعيات فكرية مشبوهة من ناحية، و مساعي الغارقين في المال و مستنقع الشهوات لجرّ أهل الدين و التقوى إلى موائدهم المسمومة الملوثة من ناحية أخرى.
فعلى علماء الدين و الرجال المتدينين و المحافظين على الدين أن يراقبوا هذه الأمور بشدة و دقّة.
المسألة الثانية، ضرورة رسم هدف بعيد المدى للصحوة الإسلامية في البلدان المسلمة يوضع أمام الجماهير ليكون البوصلة في حركتها للوصول إليه. و بمعرفة هذا الهدف يمكن رسم خريطة الطريق و تحديد الأهداف القريبة و المتوسطة. هذا الهدف النهائي لا يمكن أن يكون أقل من إقامة «الحضارة الإسلامية المجيدة». الأمة الإسلامية، بكل أجزائها في إطار الشعوب و البلدان، يجب أن تعتلي مكانتها الحضارية التي يدعو إليها القرآن الكريم.
إن من الخصائص الأصلية و العامة لهذه الحضارة استثمار أبناء البشر لجميع ما أودعه الله في عالم الطبيعة و في وجودهم من مواهب و طاقات مادية و معنوية لتحقيق سعادتهم و سموّهم. و يمكن، بل و ينبغي مشاهدة مظاهر هذه الحضارة في إقامة حكومة شعبية، و في قوانين مستلهمة من القرآن، و في الاجتهاد و تلبية الاحتياجات المستحدثة للبشر، و في رفض الجمود الفكري و الرجعية، ناهيك عن البدعة و الالتقاط، و في إنتاج الرفاه و الثروة العامة، و في استتباب العدل، و في التخلص من الاقتصاد القائم على الاستئثار و الربا و التكاثر، و في إشاعة الأخلاق الإنسانية، و في الدفاع عن المظلومين في العالم، و في السعي و العمل و الابداع.
و من مستلزمات هذا البناء الحضاري النظرة الاجتهادية و العلمية للساحات المختلفة بدء من العلوم الإنسانية و نظام التربية و التعليم الرسمي، و مروراً بالاقتصاد و النظام المصرفي، و انتهاء بالإنتاج الصناعي و التقني و وسائل الإعلام الحديثة و الفن و السينما، بالإضافة إلى العلاقات الدولية و غيرها من الساحات.
و تدلّ التجربة علی أن كل ذلك ممكن و في متناول مجتمعاتنا بطاقاتها المتوفرة. لا يجوز أن ننظر إلى هذا الأفق بنظرة متسرعة أو متشائمة. التشاؤم في تقويم قدراتنا كفران بنعم الله، و الغفلة عن الإمداد الإلهي و دعم سنن الكون انزلاق في ورطة : (الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ). (10)
نحن قادرون على أن نكسر حلقات الاحتكارات العلمية و الاقتصادية و السياسية لقوى الهيمنة، و أن نجعل الأمة الإسلامية سبّاقة لإحقاق حقوق أكثرية شعوب العالم التي هي اليوم مقهورة أمام أقلية مستكبرة.
الحضارة الإسلامية بمقوماتها الإيمانية و العلمية و الأخلاقية، و عبر الجهاد الدائم، قادرة علی أن تقدم للأمة الإسلامية و للبشرية المشاريع الفكرية المتطورة و الأخلاق السامية، و أن تكون منطلق الخلاص من مظالم الرؤية المادية للكون و من الأخلاق الغارقة في مستنقع الرذيلة التي تشكل أركان الحضارة الغربية القائمة.
المسألة الثالثة: في إطار حركات الصحوة الإسلامية يجب الاهتمام باستمرار بالتجربة المرّة و الفظيعة التي تركتها التبعية للغرب على السياسة و الأخلاق و السلوك و نمط الحياة.
البلدان الإسلامية خلال أكثر من قرن من التبعية لثقافة الدول المستكبرة و سياستها قد مُنيت بآفات مهلكة مثل الذيلية و الذلة السياسية و الفقر الاقتصادي و تهاوي الأخلاق و الفضيلة، و التخلف العلمي المُخجِل، بينما الأمة الإسلامية تمتلك تاريخاً مشرقاً من التقدم في جميع هذه المجالات.
هذا الكلام لا ينبغي اعتباره مناصبة العداء للغرب، نحن لا نكنّ العداء لأية مجموعة إنسانية بسبب تمايزها الجغرافي. نحن تعلمنا من الإمام علي (عليه السلام) ما قاله عن الإنسان أنه: «إمّا أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق». (11) اعتراضنا إنما هو على الظلم و الاستكبار و التحكم و العدوان و الفساد و الانحطاط الأخلاقي و العملي الذي تمارسه القوى الاستعمارية و الاستكبارية ضد شعوبنا. و نحن الآن أيضاً نشاهد تحكّم و تدخل و تعنّت أمريكا و بعض ذيولها في المنطقة داخل البلدان التي تحوّل فيها نسيم الصحوة إلى نهوض عاصف و إلى ثورة. وعود هؤلاء و توعّداتهم يجب أن لا تؤثر في قرارات و مبادرات النخب السياسية و في الحركة الجماهيرية العظيمة.
و هنا أيضاً يجب أن نتلقى الدروس من التجارب. أولئك الذين انشدّت قلوبهم لسنوات طويلة بوعود أمريكا و جعلوا الركون إلى الظالم أساساً لنهجهم و سياستهم لم يستطيعوا أن يحلّوا مشكلة من مشاكل شعبهم أو أن يبعدوا ظلماً عنهم أو عن غيرهم. بل إن هؤلاء باستسلامهم لأمريكا لم يستطيعوا أن يحولوا دون هدم بيت فلسطيني واحد على الأقل في إرض هي ملك للفلسطينيين.
الساسة و النخب المخدوعة بالتطميع أو المرعوبة بتهديد جبهة الاستكبار و الذين يخسرون فرصة الصحوة الإسلامية يجب أن يخشوا ما وجهه الله سبحانه إليهم من تهديد إذ قال: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَ أَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ). (12)
المسألة الرابعة: إن أخطر ما يواجه حركة الصحوة الاسلامية اليوم هو إثارة الخلافات و دفع هذا الحراك نحو صدامات دموية طائفية و مذهبية و قومية و محلیة. هذه المؤامرة تتابع أجهزة الجاسوسية الغربية و الصهيونية تنفيذها اليوم بجدٍ و اهتمام في منطقة تمتد من شرق آسيا حتى شمال أفريقيا، و خاصة في المنطقة العربية، بدعم من دولارات النفط و الساسة المأجورين. و الأموال التي یمکن استخدمها في تحقيق رفاه خلق الله، تُنفق في التهديد و التكفير و الاغتيال و التفجير و إراقة دم المسلمين و إضرام نيران الأحقاد الدفينة. أولئك الذين يرون في قوة اتحاد المسلمين مانعاً لتطبيق أهدافهم الخبيثة رأوا في إثارة الخلافات داخل الأمة الإسلامية أيسر طريق لتنفيذ أهدافهم الشيطانية، و جعلوا من اختلاف وجهات النظر في الفقه و الكلام و التاريخ و الحديث، و هو اختلاف طبيعي لا يمكن اجتنابه، ذريعة للتكفير و سفك الدماء و الفتنة و الفساد.
نظرة فاحصة لساحة النزاعات الداخلية تكشف بوضوح يد العدوّ وراء هذه المآسي. هذه اليد الغادرة تستثمر دون شك الجهل و العصبية و السطحية في مجتمعاتنا، و تصبّ الزيت على النار. مسؤولية المصلحين و النخب الدينية و السياسية في هذا الخضمّ ثقيلة جداً.
ليبيا بشكل، و مصر و تونس بشكل أخر، و سوريا بشكل، و باكستان بشكل أخر، و العراق و لبنان بشكل، تعاني اليوم أو في معرض المعاناة من هذه النيران الخطرة. لا بدّ من المراقبة الشديدة و البحث عن العلاج.
من السذاجة أن نعزو كل ذلك إلى عوامل و دوافع عقائدية أو قومية. الدعاية الغربية و الإعلام الإقليمي التابع و المأجور يصوّران الحرب المدمّرة في سورية بأنها نزاع سنّي ــ شيعي، و يوفران بذلك مساحة آمنة للصهاينة و أعداء المقاومة في سوريا و لبنان. بينما النزاع في سوريا ليس بين طرفين سني و شيعي، بل بين أنصار المقاومة ضد الصهيونية و معارضي هذه المقاومة. ليست حكومة سوريا حكومة شيعية، و لا المعارضة العلمانية المعادية للإسلام مجموعة سنية، إنما المنفذون لهذا السيناريو المأساوي كانوا بارعين في قدرتهم على استغلال المشاعر الدينية للسذج في هذا الحريق المهلك. نظرة إلى الساحة و الفاعلين فيها على المستويات المختلفة توضّح هذه المسألة لكل إنسان منصف.
هذه الموجة الإعلامية تؤدّي دورها بشكل آخر في البحرين لاختلاق الكذب و الخداع. في البحرين هناك أكثرية مظلومة محرومة لسنوات طويلة من حق التصويت و سائر الحقوق الأساسية للشعب، قد نهضت للمطالبة بحقها. ترى هل يصحّ أن نعتبر الصراع شيعيا سنياً لأن هذه الأكثرية المظلومة من الشيعة، و الحكومة المتجبّرة العلمانية تتظاهر بالتسنّن ؟!
المستعمرون الأوربيون و الأمريكيون و من لفّ لفهم في المنطقة يريدون طبعاً أن يصوّروا الأمر بهذا الشكل، و لكن أهذه هي الحقيقة؟!
هذا ما يستدعي من جميع علماء الدين المصلحين و المنصفين أن يقفوا تجاهه بتأمّل و دقة و شعور بالمسؤولية، و يحتّم عليهم أن يعرفوا أهداف العدو في إثارة الخلافات الطائفية و القومية و الحزبية.
المسألة الخامسة: إن سلامة مسيرة حركات الصحوة الإسلامية يجب أن نبحث عنها، فيما نبحث، في موقفها تجاه قضية فلسطين. منذ ستين عاماً حتى الآن لم تنزل على قلب الأمة الإسلامية كارثة أكبر من اغتصاب فلسطين.
مأساة فلسطين منذ اليوم الأول حتى الآن كانت مزيجاً من القتل و الارهاب و الهدم و الغصب و الإساءة للمقدسات الإسلامية. وجوب الصمود و النضال أمام هذا العدو المحارب هو موضع اتفاق جميع المذاهب الإسلامية و محل إجماع كل التيارات الوطنية الصادقة و السليمة.
إنّ أيّ تيار في البلدان الإسلامية يتناسى هذا الواجب الديني و الوطني انصياعاً للإرادة الأمريكية المتعنتة أو بمبررات غير منطقية يجب أن لا يتوقع غير التشكيك في وفائه للإسلام و في صدق ادعاءاته الوطنية.
إنّ هذا هو المحكّ. كل من يرفض شعار تحرير القدس الشريف و إنقاذ الشعب الفلسطيني و أرض فلسطين، أو يجعلها مسألة ثانوية و يدير ظهره لجبهة المقاومة، فهو متّهم.
الأمة الإسلامية يجب أن تضع نصب عينيها هذا المؤشر و المعيار الواضح الأساسي في كل مكان و زمان.
أيها الضيوف الأعزاء.. أيها الإخوة و الأخوات..
لا تبعدوا عن أنظاركم كيد العدوّ، فإن غفلتنا توفّر الفرصة للعدوّ.
إنّ درس الإمام علي (عليه السلام) لنا هو أنه: «من نام لم يُنَم عنه». (13) تجربتنا في الجمهورية الإسلامية هي بدورها مليئة بدروس العبرة في هذا المجال. إذ بعد انتصار الثورة الإسلامية في إيران، بدأت الحكومات الغربية و الأمريكية المستكبرة التي كانت منذ أمد بعيد تسيطر على طواغيت إيران و تتحكم في المصير السياسي و الاقتصادي و الثقافي لبلدنا، و تستهين بالقوة الضخمة للايمان الإسلامي في داخل المجتمع، و كانت غافلة عن قوة الإسلام و القرآن في التعبئة و التوجيه، بدأت تفهم فجأة ما وقعت فيه من غفلة، فتحركت دوائرها السيادية و أجهزتها الاستخبارية و مراكز صنع القرار فيها لِتَجبُرَ ما مُنيت به من هزيمة فاحشة .
رأينا خلال هذه الأعوام التي تربو علی الثلاثين أنواع المؤامرات و المخططات، و الذي بدّد مكرهم أساساً هو عاملان: الثبات على المبادئ الإسلامية، و الحضور الجماهيري في الساحة.
هذان العاملان هما مفتاح الفتح و الفَرَج في كل مكان. العامل الأول يضمنه الإيمان الصادق بالوعد الإلهي، و العامل الثاني سيبقى ببركة الجهود المخلصة و البيان الصادق. الشعب الذي يؤمن بصدقِ قادته و إخلاصهم يجعل الساحة فاعلة بحضوره المبارك. و أينما بقي الشعب في الساحة بعزم راسخ فإن أية قدرة ستكون عاجزة عن إنزال الهزيمة به. هذه تجربة ناجحة لكل الشعوب التي صنعت بحضورها الصحوة الإسلامية.
أسأل الله تعالى لكم و لكل الشعوب أن يسددكم و يأخذ بأیدیکم و يعينكم و يغدق عليكم شآبيب رحمته إنه تعالى سميع مجيب.
و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.
الهوامش:
1 - سورة القصص، الآیة 7 .
2 - سورة القصص، الآیة 13 .
3 - سورة الفیل، الآیة 2 .
4 - سورة قریش، الآیة 3 .
5 - سورة الضحی، الآیة 3 .
6 - سورة الشعراء، الآیة 62 .
7 - سورة الشعراء، الآیة 61 .
8 - سورة الحج، الآیة 40 .
9 - سورة القصص، الآیة 83 .
10 - سورة الفتح، الآیة 6 .
11 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 53 .
12 - سورة إبراهیم، الآیتان 28 و 29 .
13 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 62 .
Source: http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1569
39m:39s
15441
[Awaze Wahdat] (گلگت میں 35 سال بعد جشنِ عید...
[Awaze Wahdat] (گلگت میں 35 سال بعد جشنِ عید میلادالنبی (ص - Urdu
صاحبزادہ حامد رضا...
[Awaze Wahdat] (گلگت میں 35 سال بعد جشنِ عید میلادالنبی (ص - Urdu
صاحبزادہ حامد رضا سربراہ سنی اتحاد کونسل کا خصوصی خطاب
میں مجلس وحدت المسلمین کا شکرگزار ہوں کہ جنہوں نےاپنے وعدے کا لحاظ رکھتے ہوے آج 35 سال بعد گلگت کی سر زمین پر محفل میلاد کے انعقاد میں سنی اتحاد کونسل کے ساھّ تعاون کیا گلگت کے مسلمان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ چاروں طرف دھمکیوں کے باوجود عزیم الشان محفل کا انعقاد کیا
1m:40s
5315
[Awaze Wahdat] بارہ ربیع الاول: تکفیری قوتوں...
[Awaze Wahdat] Speech : H.I Raja Nasir Abbas | MWM Pak |بارہ ربیع الاول: تکفیری قوتوں کی شکست کا دن، وہ دن...
[Awaze Wahdat] Speech : H.I Raja Nasir Abbas | MWM Pak |بارہ ربیع الاول: تکفیری قوتوں کی شکست کا دن، وہ دن کہ جس دن شیعہ اور سنی عوام نے کانگریسی ایجنٹوں کی فرقی واریت کی سازش کو ناکام بنایا اور یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں شیعہ و سنی لبیک یا رسول اللہ (ص) کے شعار تلے متحد ہے۔ - Urdu
3m:43s
5414
[Clip] Hussaini VS Yazidi | Sachy Hussaini Kesy Banty Hen | H.I Molana...
حسینی کیسے بنتے ہیں؟ یزیدی کیسے بنتے ہیں؟
حسینی بننے کی تین صفات یزیدی بننے کی...
حسینی کیسے بنتے ہیں؟ یزیدی کیسے بنتے ہیں؟
حسینی بننے کی تین صفات یزیدی بننے کی تین صفات۔
سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں امام حسین شہید ہوئے اس سوسائٹی نے ساتھ کیوں نہیں دیا۔ معاشرہ مردہ کیوں ہوا کیوں امام حسین کی نصرت نہیں کی۔ امام کی شہادت کے بعد ری ایکشن نہیں دیا۔ یہ معاشرہ رسول اللہ اور امام حسین کو جانتا تھا۔ امام حسین ع کو امام مانتے تھے۔ رسول اللہ کی حدیث سنی ہوئی تھی۔ امام مانتے تھے مگر ساتھ نہیں دیا۔
حسینی وہ ہے جو امام کے لشکر کیساتھ یا امام سے ذہنی طور پر تھے۔
یزیدی وہ تھے جو لشکر یزید میں تھے یا اس کے فکر رکھتے تھے۔
فردک نے کہا کہ \"کوفیوں کے دل ساتھ ہیں مگر شمشیریں آپ کے خلاف تھی\"۔
دلوں کا ساتھ ہونا حسینی ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔ دل و زبان اور جذبات میں حسینی ہیں مگر عمل میں امام نہیں ہے۔ عمل میں ریفلیکٹ ہونا چاہئے۔
مجلس، جلوس میں جاتے ہیں عمل میں ریفلیکشن جھلک آتی ہے مگر امام کیلئے کچھ کرو بھی تو۔ دل، زبان اور جذبات میں امام ہے مگر عمل میں امام کیساتھ نہیں ہیں۔ جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ کام نہیں کرتے جو کرنا چاہئے تھے۔
رسول اکرم صہ سانحہ کربلا سے 50 برس مدینہ میں آئے اور تھوڑے سے لوگوں سے اسلامی معاشرہ قائم کیا۔لوگوں نے دل، زبان جذبات اور عمل مین رسول اللہ کا ساتھ دیا۔ 50 برس کے بعد کیا ہوا کہ امام حسین ع کا ساتھ نہیں دیا۔ 60 سال پہلے 313 تھے، خندق میں ہزار، فتح مکہ میں ایک لاکھ تھے مگر 50 برس کے بعد کیا عجیب ہوا اور رسول اللہ کے نواسہ نے ندا دی مگر اس کا ساتھ نہیں دیا۔
جنگ بدر کے وقت تو قرآن نازل نہیں ہوا تھا، اہلبیت کا 60سال کا کریکٹر کافی نہیں تھا کہ لوگ ساتھ دے دیتے؟
کیا مصیبت تھی؟ ہم کو گہرائی میں جانا پڑے گا۔
ہم مجلس میں ہیں تو امتحان میں بھی حسینی ہونگے یہ دہوکا نہیں ہونا چاہئے۔
13 محرم کو جو کوفی آئے انہوں نے گریا کیا۔ کیا انہوں نے وہ کیا جو کرنا چاہئے تھا؟.
عبیداللہ ابن زیاد کی دربار میں جاتے اور دارامارہ میں جاکر کہتے کہ ہم تیرے دہوکہ میں نہیں آئیں گے یہ ہونا چاہئے تھا۔ جو بعد میں مختار نے ان سے انتقام لیا۔
کوفی بزدل اور ڈرپوک تھے ان کے دلوں میں خوف تھا اس وجہ سے سید الشہدا کا ساتھ نہیں دیا۔ اپنے سامنے دین کا جنازہ دیکھ رہے تھے ان کو عبیداللہ سے ڈر تھا کہ وہ گلے کٹوا دیتا تھا۔
نابینہ صحابی نے عبیداللہ کے دربار میں اس کو کہا کہ اہلبیت حق پر تھے اور اس کا تعلق ازدی قبیلہ سے تھا۔ اس نے دربار میں اپنے قبیلہ کو پکارا مگر اس کو دربار میں چھوڑ دیا اور رات کو اس کو اس کے گھر میں شہید کروا دیا۔ دن ہی دن میں ساز باز کرلی ازدی قبیلہ والوں کیساتھ ۔ اس صحابی رسول کو رات کو گہر میں شہید کرلیا اور قبیلہ نے ساتھ نہیں دیا۔
قبیلہ والے دن میں ساتھ دیں گے اور سردار کو کہتا ہے کہ میرا ساتھ دینا ہے۔
عبید اللہ نے خوف پھلایا۔ امام نے پکارا کہ ساتھ دو مگر عبیداللہ نے سرداروں کیساتھ ساز باز کرلی
سردار کی سننی تھی یا حسین ابن علی کی سننی تھی؟
خواص کو ایلیٹ اور عوام کو پبلک کہتے ہیں ایلیٹ دولتمند، علما, بڑے عہدوں پر براجمان تھے ۔
عبید اللہ نے سرداروں سے کہا کہ سائیڈ پر ہوجایو۔ سردار خوف اور دولت کی لالچ میں اگئے۔ خواص کو خوف اور لالچ نے مروا دیا۔ سرداروں کو پیسا ملا۔ عصبیت یہ ہے کہ میں سردار کیساتھ چلوں گا۔
خوف، لالچ اور عصبیت نے معاشرہ کو امام حسین سے دور کیا۔
جہاں یزید اور عبیداللہ جیت گئے تو جان، مال،اور عہدہ کا لالچ۔
جہاں پر خوف، لالچ یا عصبیت ہوگی تو یزیدیت کا جہنڈا جھلائیگا
خوف، لالچ اور عصبیت ہوگی تو امام حسین کا ساتھ نہیں دیں گے۔
دل، زبان اور جذبات میں امام کیساتھ تھے مگر ساتھ نہیں دیں گے چاہے لبیک یا حسین ہی کیوں نہ کہیں۔
خوف نہ ہو،لالچ نہ ہو اور حق پر چلنا جانتے ہوں تو وہ امام حسین کا ساتھ دیں گے۔
کسی مذمت کرنے والے کی مذمت سے حق پر چلنے سے نہیں ڈرتے۔
نہ خوف، نہ لالچ اور نہ ڈر ہو تو لبیک یا حسین کہے تو یہ حسینی ہے۔
استاد محترم سید علی مرتضی زیدی کی مجلس سے انتخاب
#AllamaAliMurtazaZaidi
#Hussaini
......
Like page on Facebook👇
https://www.facebook.com/alirazahiraj5/
•Like,Share And Subscribe Channel
Copyright Disclaimer Under Section 107 of the Copyright Act 1976, allowance is made for \'Fair Use\'
for purposes such as criticism, comment, news reporting, teaching, scholarship, and research,
Fair use is a permitted by copyright statute that might otherwise be infringing,
Non-profit, educational or personal use tips the balance in favor of fair use
Contact Info
https://www.instagram.com/alirazahiraj/
28m:38s
4531
[FARSI] HAJJ Message 2013 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری...
پیام به كنگره عظیم حج
حضرت آیتالله العظمی خامنهای به مناسبت برگزاری كنگرهی عظیم حج پیامی صادر كردند.
متن این پیام كه روز دوشنبه بیست و دوم آبانماه ۱۳۹۲ توسط حجتالاسلام قاضیعسكر -نماينده ولی فقيه و سرپرست حجاج ایرانی- در مراسم برائت از مشركان در صحرای عرفات قرائت شد، به این شرح است:
بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
والحمدللّه ربّ العالمین و الصّلاة والسّلام علی سیّدالانبیاء و المرسلین و علی آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین
فرا رسیدن موسم حج را باید عید بزرگ امّت اسلامی به شمار آورد. فرصت مغتنمی كه این روزهای گرانبها در همهی سالها برای مسلمانان جهان پدید میآورد، كیمیای معجزهگری است كه اگر قدر آن شناخته و چنانكه شایسته است به كار گرفته شود، بسیاری از آسیبها و آسیبپذیریهای دنیای اسلام، علاج خواهد شد.
حج، چشمهی جوشان فیض الهی است. یكایك شما حاجیان سعادتمند، اكنون این اقبال بلند را به دست آوردهاید كه در این اعمال و مناسكِ آكنده از صفا و معنویّت، دل و جان را شستشویی بسزا داده، از این منبع رحمت و عزّت و قدرت، ذخیرهای برای همهی عمر خویش بردارید. خشوع و تسلیم در برابر خدای رحیم، تعهّد به وظائفی كه بر دوش مسلمان نهاده شده است، نشاط و حركت و اقدام در كار دین و دنیا، رحم و گذشت در تعامل با برادران، جرأت و اعتماد به نفس در برابر حوادث دشوار، امید به كمك و دستگیری خداوند در همه جا و همه چیز، و كوتاهِ سخن ساخت و پرداخت انسانی در طراز مسلمانی را در این عرصهی الهیِ آموزش و پرورش، میتوانید برای خویش تدارك ببینید و خودِ آراسته به این زیورها و بهرهیافته از این ذخیرهها را برای كشور خویش و ملّت خویش و در نهایت برای امّت اسلامی، سوغات برید.
امّت اسلامی امروز بیش از هر چیز به انسانهایی نیاز دارد كه اندیشه و عمل را در كنار ایمان و صفا و اخلاص، و مقاومت در برابر دشمنان كینهورز را در كنار خودسازی معنوی و روحی، فراهم سازند. این یگانه راه نجات جامعهی بزرگ مسلمانان از گرفتاریهایی است كه یا آشكارا به دست دشمن و یا با سستیِ عزم و ایمان و بصیرت، از زمانهای دور در آنها فروافتاده است.
بیشك دوران كنونی، دوران بیداری و هویّتیابی مسلمانان است؛ این حقیقت را از خلال چالشهایی كه كشورهای مسلمان با آن روبهرو شدهاند نیز بروشنی میتوان دریافت. درست در همین شرایط است كه عزم و ارادهی متّكی به ایمان و توكّل و بصیرت و تدبیر، میتواند ملّتهای مسلمان را در این چالشها به پیروزی و سرافرازی برساند و عزّت و كرامت را در سرنوشت آنان رقم زند. جبههی مقابل كه بیداری و عزّت مسلمانان را بر نمیتابد، با همهی توان به میدان آمده و از همهی ابزارهای امنیّتی، روانی، نظامی، اقتصادی و تبلیغاتی برای انفعال و سركوب مسلمانان و به خود مشغول ساختنِ آنان بهره میگیرد. نگاهی به وضعیّت كشورهای غرب آسیا از پاكستان و افغانستان تا سوریّه و عراق و فلسطین و كشورهای خلیج فارس، و نیز كشورهای شمال آفریقا از لیبی و مصر و تونس تا سودان و برخی كشورهای دیگر، حقایق بسیاری را روشن میسازد. جنگهای داخلی؛ عصبیّتهای كور دینی و مذهبی؛ بیثباتیهای سیاسی؛ رواج تروریسم قساوتآمیز؛ ظهور گروهها و جریانهای افراطگر كه به شیوهی اقوام وحشی تاریخ، سینهی انسانها را میشكافند و قلب آنان را با دندان میدرند؛ مسلّحینی كه كودكان و زنان را میكشند، مردان را سر میبرند و به نوامیس تجاوز میكنند، و حتّی در مواردی این جنایات شرمآور و مشمئزكننده را به نام و زیر پرچم دین مرتكب میشوند؛ همه و همه محصول نقشهی شیطانی و استكباری سرویسهای امنیّتی بیگانگان و عوامل حكومتی همدست آنان در منطقه است كه در زمینههای مستعدّ داخلی كشورها امكان وقوع مییابد و روز ملّتها را سیاه و كام آنان را تلخ میكند. یقیناً در چنین اوضاع و احوالی نمیتوان انتظار داشت كه كشورهای مسلمان، خلأهای مادّی و معنوی خود را ترمیم كنند و به امنیّت و رفاه و پیشرفت علمی و اقتدار بینالمللی كه بركات بیداری و هویّتیابی است، دست یابند. این اوضاع محنتبار، میتواند بیداری اسلامی را عقیم و آمادگیهای روحی پدید آمده در دنیای اسلام را ضایع سازد و بار دیگر، سالهای دراز، ملّتهای مسلمان را به ركود و انزوا و انحطاط بكشاند و مسائل اساسی و مهمّ آنان همچون نجات فلسطین و نجات ملّتهای مسلمان از دستاندازی آمریكا و صهیونیسم را به دست فراموشی بسپارد.
علاج بنیانی و اساسی را میتوان در دو جملهی كلیدی خلاصه كرد كه هر دو از بارزترین درسهای حج است:
اوّل: اتّحاد و برادری مسلمانان در زیر لوای توحید،
و دوّم: شناخت دشمن و مقابله با نقشهها و شیوههای او.
تقویت روح اخوّت و همدلی، درس بزرگ حج است. در اینجا حتّی جدال و درشتگویی با دیگران ممنوع است. پوشش یكسان و اَعمال یكسان و حركات یكسان و رفتار مهربان در اینجا به معنی برابری و برادریِ همهی آن كسانی است كه به این كانون توحید معتقد و دلبستهاند. این ردّ صریح اسلام بر هر فكر و عقیده و دعوتی است كه گروهی از مسلمانان و معتقدان به كعبه و توحید را از دائرهی اسلام بیرون بداند. عناصر تكفیری كه امروز بازیچهی سیاست صهیونیستهای غدّار و حامیان غربی آنان شده و دست به جنایتهای سهمگین میزنند و خون مسلمانان و بیگناهان را میریزند، و كسانی از مدّعیان دینداری و ملبّسین به لباس روحانیّت كه در آتش اختلافات شیعه و سنّی و امثال آن میدمند، بدانند كه نفس مراسم حج، باطلكنندهی مدّعای آنان است. شگفتا! كسانی كه مراسم برائت از مشركان را كه ریشه در عمل پیامبر اعظم صلّیاللّه علیه و آله و سلّم دارد، جدال ممنوع قلمداد میكنند، خود از مؤثّرترین دستاندركاران ایجاد منازعههای خونین میان مسلمانانند. اینجانب همچون بسیاری از علمای اسلام و دلسوزان امّت اسلامی بار دیگر اعلام میكنم كه هر گفته و عملی كه موجب برافروختن آتش اختلاف میان مسلمانان شود و نیز اهانت به مقدّسات هر یك از گروههای مسلمان یا تكفیر یكی از مذاهب اسلامی، خدمت به اردوگاه كفر و شرك و خیانت به اسلام و حرام شرعی است.
شناخت دشمن و شیوههای او نیز دوّمین ركن است. اوّلاً وجود دشمن كینتوز را نباید به دست غفلت و فراموشی سپرد و مراسم چندبارهی رمی جمرات در حج، نشانهی نمادین این حضور ذهن همیشگی است. ثانیاً در شناخت دشمن اصلی كه امروزه همان جبههی استكبار جهانی و شبكهی جنایتكار صهیونیسم است، نباید دچار خطا شد. و ثالثاً شیوههای این دشمن عنود را كه تفرقهافكنی میان مسلمانان، و ترویج فساد سیاسی و اخلاقی، و تهدید و تطمیع نخبگان، و فشار اقتصادی بر ملّتها، و ایجاد تردید در باورهای اسلامی است، باید بخوبی تشخیص داد و وابستگان و ایادیِ دانسته و نادانستهی آنان را از این راه شناسایی كرد.
دولتهای استكباری و پیشاپیش آنان آمریكا، به كمك ابزارهای رسانهای فراگیر و پیشرفته، چهرهی واقعی خود را میپوشانند و با دعوی طرفداری از حقوق بشر و دموكراسی، رفتاری خدعهآمیز در برابر افكار عمومی ملّتها در پیش میگیرند. آنان در حالی دم از حقوق ملّتها میزنند كه ملّتهای مسلمان، هر روز بیشتر از گذشته، آتش فتنههای آنان را با جسم و جان خود لمس میكنند. یك نگاه به ملّت مظلوم فلسطین كه دهها سال است روزانه زخمِ جنایات رژیم صهیونیستی و حامیانش را دریافت میكند؛ یا به كشورهای افغانستان و پاكستان و عراق كه تروریسمِ زاییدهی سیاستهای استكبار و ایادی منطقهای آنان، زندگی را به كام ملّتهای آنان تلخ كرده است؛ یا به سوریّه كه به جرم پشتیبانی از جریان مقاومت ضدّ صهیونیستی، آماج كینهی سلطهگران بینالمللی و كارگزاران منطقهای آنان شده و به جنگ خونین داخلی گرفتار آمده است؛ یا به بحرین یا به میانمار كه در هر یك به نحوی، مسلمانان محنتزده و مغفول، و دشمنانشان مورد حمایتند؛ یا به ملّتهای دیگری كه از سوی آمریكا و متّحدانش، پیدرپی به تهاجم نظامی یا تحریم اقتصادی یا خرابكاری امنیّتی تهدید میشوند؛ میتواند چهرهی واقعی این سردمداران نظام سلطه را به همه نشان دهد. نخبگان سیاسی و فرهنگی و دینی در همه جای جهان اسلام باید خود را به افشای این حقایق، متعهّد بدانند. این وظیفهی اخلاقی و دینی همهی ما است. كشورهای شمال آفریقا كه متأسّفانه امروز در معرض اختلافات عمیق داخلی قرار گرفتهاند، بیش از همه باید به این مسئولیّت عظیم، یعنی شناخت دشمن و شیوهها و ترفندهایش توجّه كنند. ادامهی اختلافات میان جریانهای ملّی و غفلت از خطر جنگ خانگی در این كشورها، خطر بزرگی است كه خسارت آن برای امّت اسلامی به این زودیها جبران نخواهد شد.
ما البتّه تردید نداریم كه ملّتهای بهپاخاستهی آن منطقه كه بیداری اسلامی را تجسّم بخشیدند، بإذنالله اجازه نخواهند داد كه عقربهی زمان به عقب برگردد و دوران زمامداران فاسد و وابسته و دیكتاتور، تكرار شود، لیكن غفلت از نقش قدرتهای استكباری در فتنهانگیزی و دخالتهای ویرانگر، كار آنان را دشوار خواهد كرد و دوران عزّت و امنیّت و رفاه را سالها به عقب خواهد افكند. ما به توانایی ملّتها و قدرتی كه خداوند حكیم در عزم و ایمان و بصیرت تودههای مردم قرار داده است، از اعماق دل باور داریم و آن را در بیش از سه دهه در جمهوری اسلامی ایران، به چشم خود دیده و با همهی وجود خود آزمودهایم؛ همّت ما، فراخوان همهی ملّتهای مسلمان به این تجربهی برادرانشان در این كشور سرافراز و خستگیناپذیر است.
از خداوند متعال صلاح حال مسلمانان و دفع كید دشمنان را خواستارم و حجّ مقبول و سلامت جسم و جان و ذخیرهی سرشار معنوی را برای همهی شما حجّاج بیتالله مسألت میكنم.
والسّلام علیكم و رحمة اللّه
سیّد علی خامنهای
پنجم ذیالحجّه ۱۴۳۴ مصادف با ۱۹ مهرماه ۱۳۹۲
14m:43s
9579
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
32211