URDU قرآن کی بے حرمتی پر ولی امر مسلمین...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم...
رہبر معظم کا امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت میں اہم پیغام
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ میں قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی کے نفرت انگيز عمل کے بعد ایرانی عوام اورعظیم امت اسلامی کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں اس نفرت انگیز سازش کا اصلی محرک امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کو قراردیا اور اسلام و قرآن کے بارے میں صہیونیوں کی عداوت اور سازشوں کے پس پردہ اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سنگين جرم میں اپنی عدم مداخلت کے دعوی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے اس عظیم جرم میں ملوث اصلی عناصر اور سازش کاروں کو اچھی طرح کیفر کردار تک پہنچائے ۔
ولی امر مسلمین کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله العزیز الحکیم: انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون
ملت عزیز ایران – امت بزرگ اسلام
امریکہ میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور توہین کا جنون آمیز اور نفرت انگيز واقعہ درحقیقت ایک بھیانک ، تلخ اور سنگين واقعہ ہے اور اس کو صرف چند احمق شرپسنداور دیوانے افراد کی سعی و کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ کام بعض ان مراکز کی جانب سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منظم و مرتب منصوبے کے تحت انجام پذير ہوا ہے جو کئی برسوں سے دنیا کو اسلام سے ڈرانے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کی جد وجہد میں مصروف ہیں اورسینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تبلیغاتی اورنشریاتی وسائل کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں ان کے فاسد اور مجرم حلقوں کا یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس کا آغاز سلمان رشدی ملعون سے ہوا اور ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی توہین آمیز حرکت اور ہالی وڈ میں اسلام کے خلاف بنائی گئی دسیوں فلموں کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا ، جو اب اس نفرت انگیزعمل کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ان شرپسند حرکات کے پس پردہ کون لوگ اور کون شرپسندعناصرہیں ؟
حالیہ برسوں میں ان شرارتوں کا سلسلہ افغانستان، عراق، فلسطین ، لبنان اور پاکستان میں جاری رہا ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کےشک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس سازش کا اصلی نقشہ اور حقیقی منصوبہ صہیونی افکار اور تسلط پسند نظام کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جنکا امریکی حکومت، امریکی سکیورٹی اور فوجی اداروں نیز برطانوی حکومت اور بعض دیگر یورپی حکومتوں پر اچھا خاصا تسلط ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو 11 ستمبر کے واقعہ میں ملوث ہیں اور مستقل تحقیقات کی روشنی میں 11 ستمبر کی کارروائیوں کا الزام انہی عناصر کے دوش پر عائد ہوتا ہے جنھوں نے امریکہ کے اس دور کے جرائم پیشہ صدر کو افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کیا اور اس نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اطلاعات اور رپورٹوں کے مطابق اسی شخص نے کل اعلان کیا ہے کہ چرچ کے وارد ہونے سے اس صلیبی جنگ کا میدان کامل ہوگیا ہے۔
حالیہ نفرت انگیز اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف عیسائی برادری کو ہر لحاظ سےاسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں وارد کیا جائے اور پادریوں اور چرچ کی مداخلت سے اس کو مذہبی رنگ دیا جائےتا کہ مذہبی تعصبات و تعلقات کا اس پر گہرا اثر پڑے اور دوسری طرف امت اسلام کے دل کو مجروح کرکے اس کی توجہ کو مشرق وسطی اورعالم اسلام کے مسائل سے غافل کردیا جائے۔
عداوت اور دشمنی پر مبنی یہ اقدام کوئي نیا اقدام نہیں ہےبلکہ یہ عمل امریکی حکومت اور صہیونزم کی سرکردگی میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے طویل المدت منصوبہ کا حصہ ہے۔ سامراجی و استکباری رہنما اور آئمہ کفر اس لئے اسلام کے مقابلے میں آگئے ہیں، کیونکہ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت کا دین ہے ، اور قرآن رحمت و حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی کتاب ہے، تمام ادیان ابراہیمی اور تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر اسلام کا مقابلہ کرنے کی صہیونیوں کی نفرت انگيز حرکتوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں ، امریکی حکام فریبکارانہ اور خالی باتیں بنا کر اپنے آپ کو اس سنگین جرم کی ہمراہی کرنے سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان ، عراق، لبنان اور فلسطین میں کئی ملین مسلمانوں کی عزت و حرمت، حقوق اور ان کے مقدسات کو پامال کیا جارہا ہے،لاکھوں افراد ہلاک، کئی ہزار مرد و عورتیں قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا،ہزاروں بچے اور عورتیں اغوا،کئی ملین زخمی اور معذور اور آوارہ وطن لوگوں کوکس جرم کی سزامیں قربانی اور ذبح کیا گيا ہے ؟ مسلمانوں کی اس مظلومانہ حالت کے باوجود، مغربی میڈيا میں کیوں مسلمانوں کو تشدد پسند اور اسلام اور قرآن کو بشریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ ہر انسان جانتا ہے کہ امریکی حکومت کے اندر موجود صہیونیوں کی مدد ، تعاون اور مداخلت کے بغیر اتنی بڑی اور وسیع سازش کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے؟!
ایران اور پوری دنیا میں میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
میں مندرجہ ذیل چند نکات کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
اول: اس حادثے اور اس سے پہلے رونما ہونےوالے حوادث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج سامراجی نظام کے حملے کا اصلی نشانہ، اسلام عزیز اور قرآن مجید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی آشکارا دشمنی کا اصلی سبب بھی یہی ہے اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کا آشکار مقابلہ بی اسی وجہ سے ہے اور دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا اظہار محض ایک شیطانی فریب اور بہت بڑا جھوٹ ہے وہ اسلام اور ہر اس فرد کے دشمن ہیں جو اسلام کا پابند ہے اور جس میں مسلمان ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
دوم : اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عداوتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے لیکر اب تک نوراسلام ہمیشہ کی نسبت درخشاں تر ہوگیا ہے اور عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کا جذبہ پیدا ہورہا ہے اورلوگوں کے دلوں میں اسلام نے اپنا نفوذ اور راستہ بنالیا ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ امت اسلامی ہمیشہ کی نسبت بیدار ہوچکی ہے مسلمان قوموں نے اب سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی دو صدیوں سے پڑی ہوئی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ناقابل برداشت اور ناقابل تحمل اور بہت ہی تلخ عمل ہے لیکن یہ عمل اپنے دل میں ایک عظیم بشارت کا بھی حامل ہے کہ قرآن مجید کا درخشاں آفتاب روبروز درخشاں تر اور بلند تر ہوتا جائے گا۔
سوم : ہم سب کو جان لینا چاہیے کہ حالیہ حادثے کا تعلق چرچ اور عیسائی برادری نہیں ہے اور کچھ صہیونی مزدور پادریوں کی نازیبا حرکات کا الزام عیسائیوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کے دوش پر عائد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم مسلمان اس قسم کے نازیبا عمل کو دوسرے ادیان کے مقدسات کے لئے ہر گزروا نہیں رکھیں گے اس سازش اور منصوبہ کا اصلی مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی دیوار قائم کرنا ہے جبکہ ہمیں قرآن مجید نے جو درس دیا ہے وہ ااس نقطہ کے بالکل مد مقابل ہے۔
چہارم: آج تمام مسلمانوں کا امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں اپنی عدم مداخلت کے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرنے والے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے اصلی کھلاڑیوں اور اصلی مجرم عناصر کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دیں۔
والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
22/شہریور/1389
10m:8s
33803
Dec 7 2008 پيغام حج By Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei -...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی...
بسم الله الرحمن الرحيم
وحی کی سرزمین نے ایک بار پھر مؤمنین کی عظیم جمعیت کو اپنی سالانہ ضیافت میں اکٹھا کیا ہوا ہے. پوری دنیا سے مشتاق جانیں اسلام و قرآن کی جائے ولادت (حجاز) ایسے اعمال و مناسک بجالارہے ہیں جن میں غور و تدبر، انسانیت کے لئے اسلام و قرآن کے ابدی سبق کا جلوہ دکھاتا ہے اور یہ اعمال و مناسک بذات خود اسی سبق پر عمل کرنے اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں علامتی اقدامات ہیں.
اس عظیم درس کا ہدف انسان کی ابدی نجات و رستگاری اور سربلندی و سرفرازی ہے. اور اس کا راستہ صالح اور نیک انسان کی تربیت اور صالح و نیک معاشرے کی تشکیل ہے، ایسا انسان جو اپنے دل اور اپنے عمل میں خدائے واحد کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو شرک اور اخلاقی آلودگیوں اور منحرف کرنے والی نفسانی خواہشات سے پاک کردے؛ اور ایسا معاشرہ جس کی تشکیل میں عدل و انصاف، حریت و ایمان اور نشاط و انبساط سمیت زندگی اور پیشرفت کے تمام نشانے بروئے کار لائے گئے ہوں.
فریضہ حج میں اس فردی اور معاشرتی تربیت کے تمام عناصر اکٹھے کئے گئے ہیں. احرام اور تمام فردی تشخصات اور تمام نفسانی لذات و خواہشات سے خارج ہونے کے ابتدائی لمحوں سے لے کر توحید کی علامت (کعبہ شریف) کے گرد طواف کرنے اور بت شکن و فداکار ابراہیم (ع) کے مقام پر نماز بجالانے تک اور دو پہاڑیوں کے درمیان تیز قدموں سے چلنے کے مرحلے سے لے کر صحرائے عرفات میں ہر نسل اور ہر زبان کے یکتاپرستوں کے عظیم اجتماع کے بیچ سکون کے مرحلے تک اور مشعر الحرام میں ایک رات راز و نیاز میں گذارنے اور اس عظیم جمعیت کے مابین موجودگی کے باوجود ہر دل کا الگ الگ خدا کے ساتھ انس پیدا کرنے تک اور پھر منی میں حاضر ہوکر شیطانی علامتوں پر سنگباری اور اس کے بعد قربانی دینے کے عمل کو مجسم کرنا اور مسکینوں اور راہگیروں کو کھانا کھلانا، یہ اعمال سب کے سب تعلیم و تربیت اور تمرین کے زمرے میں آتے ہیں.
اس مکمل مجموعۂ اعمال میں، ایک طرف سے اخلاص و صفائے دل اور مادی مصروفیات سے دستبرداری اور دوسری طرف سے سعی و کوشش اور ثابت قدمی؛ ایک طرف سے خدا کے ساتھ انس و خلوت اور خلق خدا کے ساتھ وحدت و یکدلی اور یکرنگی دوسری طرف سے دل و جان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام اور دل امت اسلامی کی عظیم جماعت کے اتحاد و یگانگت کے سپرد کرنا؛ ایک طرف سے حق تعالی کی بارگاہ میں عجز و انکسار اور دوسری طرف سے باطل کے مد مقابل ثابَت قَدمی اور اُستواری، المختصر ایک طرف سے آخرت کے ماحول میں پرواز کرنا اور دوسری طرف سے دنیا کو سنوارنے کا عزم صمیم، سب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں اور سب کی ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور مشق کی جاتی ہے: «وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».(1)
اور اس طرح كعبہ شریف اور مناسك حج، انسانی معاشروں کی مضبوطی اور استواری کا سبب اور انسانوں کے لئے نفع اور بهره مندی کی ذرائع سی بهرپور هین: «جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»(2) و «ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ» (3)
ہر ملک اور ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو آج ہمیشہ سے بیشتر اس عظیم فریضے کی قدر و قیمت کا ادراک اور اس کی قدرشناسی کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے؛ کیونکہ مسلمانوں کے سامنے کا افق ہر زمانے سے زیادہ روشن ہے اور فرد و معاشرے کے لئے اسلام کے مقرر کردہ عظیم اہداف کے حصول کے حوالے سے وہ آج ہمیشہ سے کہیں زیادہ پرامید ہیں. اگر امت اسلامی گذشتہ دوصدیوں کے دوران مغرب کی مادی تہذیب اور بائیں اور دائیں بازو کی الحادی قوتوں کے مقابلے میں ہزیمت اور سقوط و انتشار کا شکار تھی آج پندرہویں صدی ہجری میں مغرب کے سیاسی اور معاشی مکاتب کے پاؤں دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ضعف و ہزیمت و انتشار کی طرف رواں دواں ہیں. اور اسلام نے مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بحالی و بازیافت اور دنیا میں توحیدی افکار اور عدل و معنویت کی منطق کے احیاء کی بدولت عزت و سربلندی اور روئیدگی و بالیدگی کے نئے دور کا آغاز کیا ہے.
وہ لوگ جو ماضی قریب میں ناامیدیوں کے گیت گارہے تھے اور نہ صرف اسلام اور مسلمین بلکہ دینداری اور معنویت کی اساس تک کو مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے تباہ ہوتا ہوا سمجھ رہے تھے آج اسلام کی تجدید حیات اور نشات ثانیہ اور اس کے مقابلے میں ان یلغار کرنے والی قوتوں کے ضعف و زوال کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کررہے ہیں اور زبان و دل کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کررہے ہیں.
میں مکمل اطمینان کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ابھی شروع کا مرحلہ ہے اور خدا کے وعدوں کی حتمیت اور عملی جامہ پہننے یعنی باطل پر حق کی فتح اور قرآن کی امّت کی تعمیر نو اور جدید اسلامی تمدن و تہذیب کے قیام کے مراحل عنقریب آرہے ہیں: «وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ» (4)
اس فسخ ناپذیر وعدے کا عملی جامہ پہننے کی اولین اور اہم ترین نشانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی نامی گرامی عمارت کی تعمیر تھی جس نے ایران کو اسلام کی حاکمیت و تمدن کے تفکرات کے مضبوط ترین قلعے میں تبدیل کیا. اس معجزنما وجود کا عین اسی وقت ظہور ہوا جب مادیت کی ہنگامہ خیزیوں اور اسلام کے خلاف بائیں اور دائیں بازو کی قوتوں کی بدمستیوں کا عروج تھا اور دنیا کی تمام مادی قوتیں اسلام کے اس ظہور نو کے خلاف صف آرا ہوئی تھیں اور انہوں نے اسلامی کے خلاف ہرقسم کے سیاسی، فوجی، معاشی اور تبلیغاتی اقدامات کئے مگر اسلام نے استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح دنیائے اسلام میں نئی امیدیں ظہور پذیر ہوئیں اور قلبوں میں شوق و جذبہ ابھرا؛ اس زمانے سے وقت جتنا بھی گذرا ہے اسلامی نظام کے استحکام اور ثابت قدمی میں – خدا کے فضل و قدرت سے - اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی امیدوں کی جڑیں بھی اتنی ہی مضبوط ہوگئی ہیں. اس روداد سے اب تین عشرے گذرنے کو ہیں اور ان تین عشروں میں مشرق وسطی اور افریقی و ایشیائی ممالک اس فتح مندانہ تقابل کا میدان بن چکے ہیں. فلسطین اور اسلامی انتفاضہ اور مسلم فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان اور حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت تحریک کی خونخوار اور مستکبر صہیونی ریاست کے خلاف عظیم فتح؛ عراق اور صدام کی ملحدانہ آمریت کے کھنڈرات پر مسلم عوامی حکومت کی عمارت کی تعمیر؛ افغانستان اور کمیونسٹ قابضین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی ذلت آمیز ہزیمت؛ مشرق وسطی پر امریکہ کے استعماری تسلط کے لئے کی جانی والی سازشوں کی ناکامی؛ غاصب صہیونی ریاست کے اندر تنازعات اور لاعلاج ٹوٹ پھوٹ؛ خطے کے اکثر یا تمام ممالک میں - خاص طور پر نوجوانوں اور دانشوروں کے درمیان - اسلام پسندی کی لہر کی ہمہ گیری ؛ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلامی ایران میں حیرت انگیز سائنسی اور فنی پیشرفت؛ امریکہ کے اندر جنگ افروز اور فساد کے خواہاں حکمرانوں کی سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست ناکامی؛ بیشتر مغربی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا احساس تشخص؛ یہ سارے حقائق اس صدی – یعنی پندرہویں صدی ہجری – میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی فتح و نصرت کی نشانیاں ہیں.
بھائیو اور بہنو! یہ ساری فتوحات اور کامیابیاں جہاد اور اخلاص کا ثمرہ ہیں. جب خداوند عالم کی صدا اس کے بندوں کے حلق سے سنائی دی؛ جب راہ حق کے مجاہدوں کی ہمت و طاقت میدان عمل میں اتر آئی؛ اور جب مسلمانوں نے خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد پر عمل کیا، خدائے علیّ قدیر نے بھی اپنے وعدے کو عمل کا لباس پہنایا اور یوں تاریخ کی سمت بدل گئی: «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» (5) «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » (6) «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» (7) «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ» (8)
یہ تو ابھی آغاز راہ ہے. مسلمان ملتوں کو ابھی بہت سے خوفناک دروں سے گذرنا ہے. ان دروں اور گھاتیوں سے گذرنا بھی ایمان و اخلاص، امید و جہاد اور بصیرت و استقامت کے بغیر ممکن نہیں ہے. مایوسی اور ہر چیز کو تاریک و سیاہ دیکھنے، حق وباطل کے معرکے میں غیرجانبدارانہ موقف اپنانے، بے صبری اور جلدبازی سے کام لینے اور خدا کے وعدوں کی سچائی پر بدگمان ہونے کی صورت میں ان کٹھن راستوں سے گذرنا ناممکن ہوگا اور یہ راہ طے نہ ہوسکے گی.
زخم خوردہ دشمن پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور وہ مزید طاقت بھی میدان میں لائے گا چنانچہ ہوشیار و بیدار، شجاع، دانشمند اور موقع شناس ہونا چاہئے؛ کیونکہ اسی صورت میں دشمن ناکامی کا منہ دیکھے گا. ان تیس برسوں کے دوران ہمارے دشمن خاص طور پر صہیونیت اور امریکہ پوری طاقت کے ساتھ میدان میں تھے اور انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا مگر ناکام رہے. اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا. ان شاء اللہ
دشمن کی شدت عمل اکثر و بیشتر اس کی کمزوری اور بے تدبیری کی علامت ہے. آپ ایک نظر فلسطین اور خاص طور پر غزہ پر ڈالیں. غزہ میں دشمن کے بیرحمانہ اور جلادانہ کردار – جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے – ان مردوں، عورتوں اور بچوں کے آہنی عزم پر غلبہ پانے میں دشمن کی عاجزی اور ضعف کی نشانی ہے جنہوں نے خالی ہاتھوں - غاصب ریاست اور اس کے حامی یعنی امریکی بڑی طاقت اور ان کی سازشوں اور حماس کی قانونی حکومت سے جہاد کے ان متوالوں کی روگردانی کی - امریکی اور صہیونی خواہش کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے. خدا کا سلام و درود ہو اس با استقامت اور عظیم ملت پر. غزہ کے عوام اور حماس کی حکومت نے ان جاودانہ آیات الہی کا زندہ مصداق ہمارے سامنے پیش کیا ہے جہاں رب ذوالجلال کا ارشا ہے کہ:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ»(9) و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ». (10)
حق و باطل کے اس معرکے کا فاتح حق کے سوا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کی یہی صبور اور مظلوم ملت ہی آخرکار دشمن کے مقابلے میں فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوگی. «وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً » (11) آج بھی فلسطینی مزاحمت پر غلبہ پانے میں ناکامی کے علاوه، سیاسی حوالے سے حریت پسندی، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حفاظت و حمایت کے حوالے سے مغربی قوتوں کے دعوے اور نعرے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں چنانچہ اس بنا پر بھی امریکی ریاست اور اکثر یورپی ریاستوں کی آبرو شدت سے مخدوش ہوچکی ہے اور اس بے آبروئی کی قلیل مدت میں تلاقی بھی ممکن نہیں ہے. بے آبرو صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ روسیاہ ہوچکی ہے اور اکثر عرب حکمران بھی اپنی رہی سہی نادرالوجود آبرو ہار چکے ہیں. وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.(11)
والسلام علي عبادالله الصالحین
سيّدعلي حسيني خامنهاي
4 ذيحجةالحرام 1429
13 آذر 1387
3 دسمبر 2008
Urdu Version of the messge of Hajj by Leader Ayatollah Sayyed Ali Khamenei
In the birthplace of Islam and the Holy Qur’an, eager hearts from throughout the world are now engaged in such rites which indeed show a sign of the eternal lesson of Islam and the Holy Qur’an to mankind: symbolic steps for implementing and applying such a lesson.
The aim of this great lesson is to ensure the eternal salvation and dignity of mankind by training righteous people and establishing a righteous society; people who worship the One and Only God in their hearts and in practice and cleanse themselves from polytheism, moral impurities and deviant desires, and a society built out of justice, freedom, faith, vitality and all the other signs of life and progress.
The main elements for such personal and social training are incorporated in the Hajj. Going into ihram and leaving individual distinctions behind, abstaining from many carnal joys and desires, circumambulating around the symbol of monotheism and praying in the Place of Ibrahim the Idol-breaker and the Self-Sacrificing, the hurrying between the two hills, finding tranquility in Arafat among the great numbers of monotheists from every color and ethnic background to passing the night in prayer and supplication in al-Mash`ar al-Haram with a fondness for God in one\\\'s heart, devoting one’s heart and soul to God the Almighty in such a congested crowd, being present in Mina and stoning the satanic symbols, the meaningful concretization of sacrificing and feeding the poor and the wayfarer are all aimed at training, practicing and reminding us of it.
In this perfect ritual, sincerity, purity of heart and disentanglement from materialistic engagements, endeavor, resilience, intimacy and seclusion with God, unity, concordance, homogeneity, adorning the soul and heart, committing the heart to solidarity with the great body of the Muslim Ummah, humility before the Ultimate Truth, firmness against falsehood, soaring in the desire for the hereafter and the firm resolution to adorn the world are all interwoven and constantly practiced:
« وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَ فِي الآْخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ ».
And among them there are those who say, “Our Lord, give us good in this world and good in the Hereafter, and save us from the punishment of the Fire.”
This way, the Honored Kaaba and the Hajj rituals contribute to the resilience and the uprising of human societies and are filled with benefit and enjoyment for all mankind:
«جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاس»
«ليَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ»
Allah has made the Kaaba, the Sacred House, a means of sustenance for mankind…
That they may witness the benefits for them, and mention Allah\\\'s Name during the known days.
Today, Muslims from all countries and races should appreciate the value of this great ritual more than before and benefit from it, for the horizon is brighter than ever in the eyes of the Muslim Ummah and the hope for reaching the goals Islam has envisaged for individuals and societies is greater than ever. If, in the last two centuries the Muslim Ummah got disintegrated and was defeated in the confrontation with the Western materialistic civilization and the atheist schools of thought of both the right and the left, today, in the 15th century of the Lunar Hegira, it is the economic and political theories of the West that are paralyzed and fading away. Today, as a result of the Muslims\\\' reawakening and the retrieval of their identity and with the resurgence of monotheistic ideas and the logic of justice and divinity, a new dawn of prosperity and glory has begun for Muslims.
Those who, in the not-so-distant past, were singing the tune of despair and believed that not only Islam and Muslims but also the foundations of spirituality and religiosity had been lost in the invasion of the Western civilization, are now today witnessing the resurgence of Islam and the revival of the Holy Qur’an as well as the gradual debilitation and collapse of those invaders, confirming all this with their tongues and hearts.
I say with full confidence that this is only the beginning and the complete fulfillment of the divine promise of the victory of truth over falsehood, the reconstruction of the Ummah of the Qur’an and the new Islamic civilization are on the way:
«وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ»
Allah has promised those of you who have faith and do righteous deeds that He will surely make them successors in the earth, just as He made those who were before them successors, and He will surely establish for them their religion which He has approved for them, and that He will surely change their state to security after their fear, while they worship Me, not ascribing any partners to Me. And whoever is ungrateful after that it is they who are the transgressors.
The first and foremost sign of this inescapable promise was the victory of the Islamic Revolution in Iran and the establishment of the glorious Islamic system which turned Iran into a strong fortress for the idea of Islamic rule and civilization. The birth of this miraculous phenomenon amidst the height of the materialism and Islamophobia of rightist and leftist politicians and thinkers, and then its resistance against political, military, economic and propaganda strikes coming from all directions, gave rise to the creation of new hope and passion in the hearts of Muslims. With the passage of time and by the grace of God the Almighty, the strength and capabilities of the Islamic Revolution have increased and the hope it created is now more deeply rooted than ever. Over the last thirty years, the Middle East and Muslim countries in Asia and Africa have been the arenas where this victorious struggle is taking place: Palestine and the Islamic Intifada and the emergence of a Muslim Palestinian government; Lebanon and the historic victory of Hizbollah and the Islamic resistance against the arrogant bloodthirsty Zionist regime; Iraq and the establishment of a Muslim and populist government on the ruins of the atheist regime and the dictator Saddam; Afghanistan and the humiliating defeat of the Communist occupiers and their puppet government; the defeat and failure of all the plots hatched by arrogant America to dominate the Middle East; the incurable problems and chaos inside the usurper Zionist regime; the prevalence of the Islam-seeking masses in all or most of the neighboring countries and especially among the youth and intellectuals; the amazing scientific and technological progress in Islamic Iran achieved under severe economic sanctions and embargoes; the defeat of warmongers in America in the political and economic arenas and Muslim minorities\\\' regaining their true identity and dignity in most of the Western countries. These are all clear indications of the triumph and advancements of Islam in its struggle against its enemies in this century that is the 15th century of Lunar Hegira.
Brothers and sisters! These victories are all the fruits of jihad and sincerity. When the voice of God was heard from the lips of His servants, and the resoluteness and strength of the fighters of the true path were deployed and when the Muslims fulfilled their promise to God the Exalted and the Almighty fulfilled His promise in response, the path of history was changed:
« أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم» «إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ » «ً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز» «إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الأَْشْهادُ»
Fulfill My covenant that I may fulfill your covenant, and be in awe of Me alone.
If you help Allah, He will help you and make your feet steady.
Allah will surely help those who help Him. Indeed Allah is all-Strong, all-Mighty.
Indeed We shall help Our apostles and those who have faith in the life of the world and on the day when the witnesses rise up.
But this is still the beginning. Muslim nations still face treacherous roads ahead. One can never survive them unless one is equipped with the power of faith, sincerity, hope and jihad as well as insight and patience. This path cannot be taken with despair and pessimism, apathy and lack of spirit, impatience, lethargy and disbelief in the fulfillment of the divine promise.
The wounded enemy is now resorting to anything and will spare no effort to strike back. We need to be resourceful, wise and to take advantage of opportunities. This way all the efforts of the enemy will fail. In the last thirty years, the enemies, mostly the US and Zionism, have been utilizing all their capacities but have failed miserably. The same thing will happen in the future, too, inshallah.
The severity and intensity of the enemy\\\'s actions usually show just how weak and imprudent he is. Look at Palestine and especially Gaza. The cruel and ruthless acts of the enemy, which are unprecedented in the history of human atrocities, are indicative of his weakness in overcoming the firm resolve of men, women and children who, with their empty hands, are standing against the Occupant Regime and its supporter, the superpower called America; they have spurned its demand which is to reject the Hamas government. May God the Almighty’s blessings be showered upon this resolute and great nation. The people of Gaza and the Hamas government have given meaning to the following everlasting verses of the Holy Qur’an which says:
«وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الأَْمْوالِ وَ الأَْنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ *الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ *أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» و «لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوالِكُمْ وَ أَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذىً كَثِيراً وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُْمُورِ».
We will surely test you with a measure of fear and hunger and a loss of wealth, lives, and fruits; and give good news to the patient.
Those who, when an affliction visits them, say, \\\"Indeed we belong to Allah, and to Him do we indeed return.\\\"
It is they who receive the blessings of their Lord and His mercy, and it is they who are the rightly guided.
You will surely be tested in your possessions and your souls, and you will surely hear from those who were given the Book before you and from the polytheists much affront; but if you are patient and God wary, that is indeed the steadiest of courses.
Truth will emerge triumphant in its battle with falsehood and it is the oppressed and steadfast nation of Palestine that will ultimately be victorious over the enemy.
«وَ كانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزاً »
And Allah is all-Strong, all-Mighty.
Even today, the enemy has failed to break the resistance of the Palestinians. The claims of freedom and democracy and the slogans of human rights have turned out to be nothing but lies. This has greatly disgraced the US and most European regimes; disgraces from which they will not be able to recover soon. The infamous Zionist regime is more notorious than before and some Arab regimes have lost their honor and reputation which they did not have in this test.
وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
السلام علی عباد الله الصالحین
Sayyed Ali Husainy Khamenei
15m:5s
32728
[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
32225
[19 Jan 14] Islamic Unity Conference - Full Speech by Leader Sayed Ali...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک...
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔
یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔
امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فتنے کا ماحول\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔
بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔
بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔
البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔
اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔
ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔
مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔
وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔
سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔
کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، \\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\"اسلامی بیداری\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔
امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔
اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
Source
http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&id=498232
23m:14s
25061
Drama Serial - Zamin Ensanha Episode 1 - زمین انسان ها Farsi...
Artists:Ali Nasirian, Asal Badie, Soroush Sehat, Maede Tahmasebi and ...
Year: 1390
Director: AbolHassan Davoodi
Zaman Pakhsh: Saturday and...
Artists:Ali Nasirian, Asal Badie, Soroush Sehat, Maede Tahmasebi and ...
Year: 1390
Director: AbolHassan Davoodi
Zaman Pakhsh: Saturday and Monday - شنبه و دوشنبه ها
خلاصه:
داستان اين سريال در يك بيمارستان ميگذرد. در اين بيمارستان چند پزشك در حال گذراندن دوره هستند تا تخصص خود را در رشته مغز و اعصاب بگيرند. بيماران زيادي به اين بيمارستان مراجعه ميكنند و با خود قصههاي متفاوتي را ميآورند و داستان زندگي و گرفتاريهاي اين بيماران در كنار زندگي پزشكان جوان بازگو ميشود. هركدام از اين شخصيتها پيشينه و زندگي گذشتهاي دارد كه در طول مجموعه به آن پرداخته ميشود.
48m:8s
24093
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
44m:15s
21036
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
40m:1s
20376
کابل یونیورسٹی میں بم دھماکہ و اصلی...
ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
ولی امرِ...
ناحق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ خطے میں موجود انسان دشمن اور اسلام کے لبادے میں موجود اسلام دشمن تکفیری گروہوں اور اُن کے سرپرستوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ خطے میں تکفیری گروہوں کے مسئلے میں اصل جُرم کس نے انجام دیا؟ داعش جیسے زہریلے گروہ کو کس نے تشکیل دیا؟ کیا امریکی اِن انسان دشمن گروہوں کی تشکیل کا اعتراف کرتے ہیں؟ خطے کی وہ حکومتیں جنہوں نے اِس گروہ کی مالی اور دیگر طریقوں سے مدد کی ہے اُن کا گناہ زیادہ ہے یا جہالت کا شکار داعشی افراد کا گناہ؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #کابل_یونیورسٹی #تکفیری_گروہ #اصلی_جرم #امریکی #سعودی #پیروی #تعاون #پیسے #اعتراف #دہشت_گرد
2m:42s
16775
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
kabul,
bomb
blast,
asli
mujrim,
nahaq,
university,
insan
dushman,
islam,
takfeeri
goroh,
asl
jurm,
daesh,
isis,
zehreele,
tashkeel,
eteraaf,
daesh
ko
kisne
banaya
hai,
hukumatein,
maali,
imdaad,
jehalat,
amrika,
israel,
england,
saudi,
paise,
dehshat
gard,
insaniyat
ke
dushman,
[ARABIC] Sayyed Hassan Nasrallah كلمة السيد حسن...
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان...
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وسورية لن تبقيا في ايران وسورية وانما ستتدحرج على مستوى المنطقة باكملها. واشار السيد نصر الله في احتفال يوم الشهيد في مجمع سيد الشهداء (ع) في الضاحية الجنوبية لبيروت عصر الجمعة الى انه رغم كل التهديدات في المنطقة فالاوضاع المحلية والاقليمية والدولية اليوم لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقاييس والمعايير.
واعتبر السيد نصر الله ان الحديث عن اعتداء او حرب جديدة على لبنان يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، مشيرا الى انه اذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
ودعا سماحته من يراهنون على سقوط النظام السوري الى ترك هذا الرهان ، وقال لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهو سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واكد السيد نصر الله ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء لكنه دعا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو عندما اوقفت اميركا تمويل هذه المنظمة لأنها اعترفت بفلسطين متسائلا الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما لاميركا من التزاماتها الدولية فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز لبنان؟ واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية والغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان ليهدد لبنان بعقوبات.
الجنوب اليوم قوي آمن
في بداية خطابه اكد السيد نصر الله ان الشهداء صناع حياة بإرادة الله تعالى وان الجهاد والشهادة و إرادة الصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى. واشار الى ان الشهداء هم نتاج الايمان بالله وباليوم الاخر و نتاج المعرفة واهل المعرفة، معرفة الهدف ومعرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف ومعرفة العدو والصديق والاولويات والزمان والمكان، وهذا الذي نسميه البصيرة.
واذ اشار السيد نصر الله الى ان محبي الامام موسى الصدر يعيشون اجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود الى اعاد الامام ورفيقيه الى لبنان ان شاء الله، تطرق الى كلام قرأه كان قاله الامام الصدر في جلسة داخلية عام 1978 وهو انه يشعر بالاسى الكبير لما يعيشه الجنوب الذي تحول لمكسر عصى والذي تعتدي عليه اسرائيل، واضاف: قلت له في نفسي عندما تعود ستفخر بتلامذتك وابنائك وكل اصدقائهم وحلفائهم وبالمقاومة التي اسستَ وضحيت من اجل ان تقوم، وان هذا الجنوب اليوم قوي آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل اصبح حاضرا وبقوة في المعادلة الاقليمية ايضا.
احتمالات الحرب.. وقلب الطاولة على المعتدي
اضاف سماحته: فيما يعني اي اعتداء او حرب جديدة على لبنان فالحديث يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، واذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
واكد ان ذلك ليس كرم اخلاق من اسرائيل و اميركا ومجلس الامن الدولي بل لأن لبنان بات بلد قويا وبات قادرا بجيشه وشعبه ومقاومته على الحاق الهزيمة واصبح في موقع يستطيع ان يقلب فيه الطاولة على المعتدي وان يحول التهديد الى فرصة حقيقية. واكد ان ذلك لا يعني ان ننام ابدا وان هذه المقاومة لم تنم في يوم من الايام .
وتابع السيد حسن نصر الله: اقول للذين يئسوا في انفسهم ولم ييأسوا على مستوى الخطاب عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا ان تتخلى عن سلاحها انما تطلبون ان نكون المغبون المَهين الذي لم يستفد من كل التجارب ويسلم كرامة اهله ووطنه لابشع عدو عرفه التاريخ وهو اسرائيل، لذلك في يوم الشهيد ندعو للتمسك بالمقاومة والجيش والارادة الشعبية لانها عنصر القوة الحقيقي.
الوضع الداخلي والحكومة
واكد السيد نصر الله ان الحكومة اثبتت حتى الآن انها حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية واساسية تمثل غالبية نيابية وغالبية شعبية جدية وحكومة بحث ونقاش وحوار ليست حكومة الراي الواحد وشمولية، يتناقش اطرافها ويتخذون القرارات لا ياتيهم "اس ام اس" من احد ولا تتلقى اشارات من احد.
واضاف سماحته ان الحكومة مدعوة الى مزيد من العمل والانجاز والجدية ومتابعة الملفات وان لا تصغي الى كل الضجيج مشددا على ان الاهم ان تعطي الاولوية المطلقة لحاجات الناس وهناك استحقاقات امام الحكومة كالحد الادنى للأجور ورواتب القطاع العام والمعلمين والنفط والغاز واستحقاق الكهرباء والماء الضمان الصحي والتعيينات وملفات ادارية حساسة لا تحتاج الى انفاق، ومواضيع انسانية يجب ان نقاربها من منظار انسانية. واشار الى ان الحكومة معنية ان تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها.
الوضع الأمني
ودعا السيد نصر الله الجميع الى الحفاظ على الوضع الامني لأن الامن شرط الاستقرار والصحة والعافية كما دعا وسائل الاعلام الى عدم تضخيم الاحداث الفردية والى التثبت من المعطيات قبل إطلاق التصريحات.
واضاف: ندعو الى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن واثبتت كل التجارب القاسية التي مر بها لبنان انه في نهاية المطاف كان يضيع ويتقسم كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص.
تمويل المحكمة.. وفضيحة اليونيسكو
السيد نصر الله اشار الى ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء داعيا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو . وقال: من المفيد ان ينتبه اللبنانيون والراي العام الى ما حدث في موضوع اليونيسكو وهي منظمة دولية اعترفت بدولة فلسطين بل بقطعة من فلسطين على ارض 67 بل ليس معلوما انها اراضي الـعام 67 فغضبت اميركا لانها اعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وقامت بإجراء واوقفت تمويل هذه المنظمة. الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما دوليا لاميركا؟ فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز للبنان واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية الغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان وبكل وقاحة وبعد الذي حصل في اليونيسكو ويهدد لبنان بعقوبات.. هذا يفضح اميركا في العالم وحلفاء اميركا في لبنان.
إيران وسورية
ودعا السيد نصر الله الى ترك الرهان على الخارج والتطورات الاقليمية مضيفا: اقول لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام الرئيس بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واضاف: شهدنا خلال الايام الماضية تصاعد التهديدات وطرح بقوة احتمال قيام العدو الاسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية وتصاعد التهديد والاحتمالات.. القيادة في الجمهورية الاسلامية ردت بشكل حازم وكان الاوضح ما قاله الامام الخامنئي وما قاله عين الحقيقة والواقع وان ايران بجيشها وشعبها وعزمها لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الاساطيل وهذا امر محسوم .
وتوقف السيد نصر الله عند خلفيات هذه التهديدات وقال: من الان الى اخر العام هناك انسحاب اميركي من العراق وما يجري انسحاب وهزيمة كبيرة للمشروع الاميركي ، واميركا المهزومة في العراق غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية فتنسحب تحت النار السياسية والاعلامية عبر التهويل على المنطقة وايران وسورية وشعوب المنطقة فيصبح الاهتمام مركزا على هذه التطورات ويصبح خبر انسحاب الاميركي خبرا عاديا وليس في صدارة الاحداث، لذا يجب التركيز بالمقابل على موضوع الانسحاب واثاره السياسية والعسكرية والامنية على منطقنتا ومستقبلها.
ثانيا: من الطبيعي ان تقوم اميركا في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في الحاق الهزيمة بها في المنطقة ولا يختلف اثنان ان الدولتين اللتين وقفتا بوجه الاحتلال الاميركي ولم تستلم للشروط الاميركية هما ايران وسورية.
الامر الثالث الذي يجب الانتباه اليه: التحولات التي حصلت في منطقتنا اذ لا شك ان سقوط نظام زين العابدين خسارة للمشروع الاميركي وسقوط نظام القذافي خسارة وسقوط نظام حسني مبارك الخسارة العظمى لاميركا واسرائيل.. في مسار التحولات محور الممانعة والمقاومة والرفض لاسرائيل ومشاريع الهيمنة يقوى ويكبر وللتعويض عن خسارة اميركا يجب ان تنتقل بسورية وايران الى موقع دفاعي والانشغال بذاتها وامنها واقتصادها.
الامر الرابع: اميركا تريد اخضاع ايران وسورية وجر ايران الى التفاوض المباشر واخضاع سورية لتقبل ما لم تكن تقبله..
واشار السيد نصر الله الى ان هذا التهويل والتهديد هو بناء على هذه الخلفيات ويضاف عليها وقائع الوضع الاقتصادي في اوروبا والوضع المالي والاقتصادي في اميركا كارثي.
اضاف: من جهة ثانية ايران صلبة مقتدرة لديها قائد لا مثيل له في هذا العالم وايران سترد الصاع صاعين، فمن يجرؤ ان يشن حربا على ايران؟ وعليهم ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وعلى سورية لن تبقيا في ايران وسوريا وانما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة باكملها.
الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة
وختم سماحته: في يوم الشهيد نؤكد اننا منذ فاتح عهد الاستشهاديين الى اليوم والى المستقبل دخلنا في عصر الانتصارات وولى زمن الهزائم وكل ما علينا ان نحفظ وصايا وامال الشهداء ونواصل طريقهم وسنفعل ذلك حتما، وللشهداء بيعة في اعناقنا لا تنقضي حتى نلتقي بهم.. وقال: رغم كل التهديدات في المنطقة ، اليوم الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقايسس والمعايير، وما دمنا اهل الايمان واهل المعرفة والعشق سننتصر ان شاء الله.
وفي ما يلي النص الكامل لكلمة الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله
بسم الله الرحمن الرحيم والحمد الله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا ونبينا خاتم النبيين أبي القاسم محمد وعلى اله الطيبين الطاهرين وصحبه الأخيار المنتجبين وعلى جميع الأنبياء والمرسلين، السلام عليكم جميعا ورحمة الله وبركاته.
في البداية نتوجه بالتحية إلى أرواح الشهداء العطرة والزكية ونهدي إليهم ثواب الفاتحة...
في مثل هذا اليوم من كل سنة نلتقي تحت راية وخيمة وعنوان الشهداء. في اليوم الذي اختاره حزب الله منذ البداية يوما لشهيده، يوم شهيد حزب الله. بطبيعة الحال كل فصيل من فصائل المقاومة، كل حركة من حركات المقاومة، كل شعب من شعوب المقاومة في المنطقة له شهداؤه الذين ينتمون إلى إطاره الخاص، ومن حقه الطبيعي أن يحيي لهم يوما وذكرى. وفي الحقيقة أن إحياء يوم الشهيد هو بمثابة تعويض عن الذكرى السنوية لكل شهيد على حدة، كما كانت تجري العادة أحيانا. ونحن نأمل إن شاء الله أن يأتي يوم يُقر فيه في لبنان يوما لشهيد الوطن، لكل الشهداء من كل حركات المقاومة وفصائل المقاومة، من الجيش إلى القوى الأمنية، إلى القوى السياسية إلى الشهداء من أبناء الشعب اللبناني ليكون عيدا وطنيا جامعا.
في البداية وقبل أن أتحدث أيضا عن شهيد حزب الله، يجب أن انحني إجلالا واحتراما وتقديرا لكل إخواننا الشهداء في بقية حركات المقاومة وفصائل المقاومة الذين نقدر جهودهم وتضحياتهم وعطاءاتهم، وشراكتهم الحقيقية في تحرير لبنان وفي الدفاع عن لبنان وفي تحقيق كل الأهداف التي تحققت حتى الآن.
كما هي العادة أود في البداية أن أشير إلى إنني سأتكلم أولا في كلمة عن الشهداء في يوم الشهيد وعن المقاومة، هذا عنوان، وكلمة عن الوضع اللبناني المحلي الداخلي، وكلمة في الوضع الإقليمي.
اليوم وفي يوم الشهيد، بطبيعة الحال، نحن نحتفي هنا بكل شهداء حزب الله، الذين فيهم القادة من السيد عباس الأمين العام إلى الشيخ راغب إلى الشهيد القائد الحاج عماد إلى صف من كوادر وقيادي هذه المقاومة الإسلامية إلى الاستشهاديين العظام الذين كان فاتح عهدهم ومسارهم الاستشهادي احمد قصير إلى كل الشهداء المجاهدين من المقاومين ومن الرجال والنساء والأطفال والصغار والكبار. نحن نحتفي بهذا الجمع الكبير الذي تجاوز الآلاف من شهداء جماعة آمنت بهذا الطريق كانت جزءا من وطنها وشعبها، كانت جزءا من أمتها، حملت همومها وهموم أمتها واختارت الطريق الصحيح وقدمت في الطريق الذي أمنت به، ومن اجل القضية التي آمنت بها كل هذا الجمع العظيم والكريم والشريف من الشهداء.
طبعاً انتخاب هذا اليوم، يعني 11 - 11 من كل سنة مناسبته المعروفة هي العملية الاستشهادية التي نفذها الاستشهادي أحمد قصير في مدينة صور والتي استهدفت مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي. هذه العملية التي مازالت حتى اليوم متميزة عن كل عمليات المقاومة ومازالت حتى اليوم أيضا هي العملية الأضخم والأكبر والأهم في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي نظرا لحجم الخسائر التي لحقت بالعدو على يد شهيد واحد وفي لحظة واحدة، لقد اعترف العدو نفسه بسقوط ما يزيد عن 120 130 140 خليني احتاط وأقول بالحد الأدنى العدو اعترف بما يزيد عن مقتل مئة ضابط وجندي بينهم أيضا جنرالات كبار، حجم الخسائر التي ألحقت بالعدو الخسائر المعنوية والنفسية، النتائج المعنوية والنفسية والسياسية على جبهة العدو وعلى جبهة الوطن كانت عظيمة جدا وكانت هذه العملية إيذان مبكر بالهزيمة التي تنتظر العدو. أنا من الأشخاص الذين لا يغيب عن ناظري وجه شارون البائس والمكتئب وهو يقف على حطام مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي في مدينة صور، أيضا هذه العملية هي عملية تأسيسية في تاريخ المقاومة هي العملية الاستشهادية الأولى في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي هذا النوع من العمليات الاستشهادية - أن يقتحم استشهادي بسيارته المليئة بالمتفجرات مقر عسكري ويفجر نفسه في هذا المقر، هذه لأول مرة، ولذلك نطلق على الشهيد أحمد فاتح عصر الاستشهاديين، ولذلك أيضا كان بحق صاحب لقب أمير الاستشهادييين لأن الأمير ليس من يجلس في الخلف وإنما الذي يتقدم جميع المجاهدين والشهداء في الأمام لأنه كان في الطليعة لأنه كان الأول كان الأمير، زمان العملية المبكر أيضا بعد أشهر قليلة جدا من الإجتياح الإسرائيلي للبنان وتوهم البعض في لبنان وفي المنطقة أن لبنان دخل في العصر الإسرائيلي بشكل نهائي وأن علينا ان نرتب أمورنا للانسجام مع هذا العصر الإسرائيلي جاءت عملية الاستشهادي أحمد قصير لتقول: لا هذا زمنا آخر وعصرا آخر هذا زمن المقاومة زمن الاستشهاديين زمن الانتصارات الآتية.
أيها الإخوة والأخوات في هذا العام اختار اخواننا عنوانا ليوم الشهيد سمي يوم "الحياة" وهذه تسمية صحيحة مئة بالمئة بل هي من اصح التسميات :
أولا: لأن الشهداء أحياء، الشهداء أحياء، لست أنا من يقول ذلك وإنما الله سبحانه وتعالى خالق الموت والحياة هو الذي يقول ذلك "ولا تحسبنا الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون" أحياء عند ربهم يرزقون الآن هم أحياء يرزقون من كل ما يتمنون فرحين بما أتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم"، الذين مازالوا هنا مازالوا ينتظرون مازالوا على العهد هم في عقل وخاطر وبال كل شهيد لحق بالمقام الأعلى ويستبشرون بكم بالذين مازالوا يواصلون الدرب ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أمواتاً بل أحياء ولكن لا تشعرون".
ثانيا: لأنهم أعطونا الحياة، أي حياة؟ الحياة الكريمة العزيزة لأنهم منحوا لبلدنا ولشعبنا ولوطننا كرامة وعزة وسيادة وأمنا وتحريرا واحساسا بالثقة وإطمئنانا للحاضر والمستقبل وهذه هي الحياة الحقيقية التي يتطلع أليها كل انسان هذه هي المدرسة مدرسة الإسلام العظيم الذي يقول لنا مفهوما آخر عن الحياة الذي يقول لنا الحياة في موتكم قاهرين والموت في حياتكم مقهورين يعني بعد عام 1982 عندما احتل الصهاينة نصف لبنان وأرادوا أن يهيمنوا على كل لبنان وكانت دباباتهم وملالاتهم وجنودهم يسرحون ويمرحون بل كانوا يسبحون على شواطئ لبنان بكل أمان لو رضي اللبنانيون ان يعيشوا ويأكلوا ويشربوا ولكن تبقى أرضهم محتلة وكراماتهم منتهكة وشبابهم ونساءهم يقادون بذل إلى السجون وسيادتهم مصادرة ومصيرهم مرمي في المجهول يعني لو رضوا حياة الذل والهوان والخضوع هل تسمى هذه حياة؟ أبدا هذا موت على شاكلة الحياة، إذا هؤلاء الشهداء هم صناع حياة بإرادة الله سبحانه وتعالى . الله سبحانه وتعالى جعل للحياة المادية أسباب طبيعية وللحياة المعنوية الانسانية الحقيقية خلق أسباب مؤدية إلى هذا النوع من الحياة وكان الجهاد وكانت الشهادة وكانت إرادة الثابتين والصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى.
هؤلاء الشهداء هم نتاج الإيمان بالله وباليوم الآخر، هم نتاج المعرفة، هم أهل المعرفة - معرفة الهدف معرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف معرفة العدو والصديق معرفة الأولويات معرفة الزمان والمكان هذا الذي نسميه البصيرة. عندما يمضي الانسان على بصيرة من أمره عندما يكون الانسان صاحب بصيرة هذه هي البصيرة هؤلاء أيضا هم اهل العزم والإرادة والثبات والشجاعة كلنا يتذكر في بدايات مواجهة الإحتلال كيف كان العالم كله يقف إلى جانب إسرائيل وكيف كانت المعنويات محطمة والبؤس يعم الوجوه واليأس يسيطر على العقول والقلوب وقف المقاومون، من هنا نستعيد الجذور والينابيع التي نستمد منها هذا المعنى، في كلمة لأمير المؤمنين علي عليه السلام يقول"اني والله وأنا اقول لكم كل فرد في هذه المقاومة كان ومازال يحمل هذه الروح"، يقول علي عليه السلام "اني والله لو لقيتهم فردا لو كنت وحدي أني والله لو لقيتهم فردا وهم ملئ الأرض ما باليت وما استوحشت".
هذا هو جوهر المقاومة والمقاومين في لبنان لم يستوحشوا لقلة الناصر والمعين، لم يستوحشوا لكثرة العدو ولكثرة مؤيدي العدو ولكثرة مساندي العدو ولكثرة المراهنين على العدو بل كان كل واحد منهم يقف ويقول للصهاينة وللأمريكي وللقوات المتعددة الجنسيات اني والله لو لقيتكم فردا وانتم ملئ الأرض ما باليت ولا استوحشت.
هؤلاء هم أهل العزم وهؤلاء هم اهل المحبة اهل العشق اهل الشوق في تتمة الكلمة يقول علي عليه السلام"وأني إلى ربي لمشتاق ولحسن ثواب ربي لمنتظر" هؤلاء هم العشاق المشتاقون إلى لقاء الله سبحانه وتعالى، ولذلك هم ينظرون كانوا ومازالوا ينظرون إلى أقصى القوم وليس إلى مواقع أقدامهم إلى نهاية النهايات، هذا المعنى ايضا هو الذي يستطيع ان يفسر لنا بدقة السر الحقيقي في انتصار حرب تموز فلم يكن هذا السلاح ولا هذا التكتيك ولا هذا التخطيط ولا هذه الإدارة ولا كل الوسائل المتاحة لتمكن لبنان والمقاومة من الانتصار لولا هؤلاء الرجال الذين رسخت أقدامهم في الأرض فما بالوا ولا استوحشوا ولا وهنوا ولا ضعفوا ولا استكانوا ولا خافوا ولا هربوا ولا فروا وهكذا هم يبقون من مدرسة الشهداء ومدرسة المقاومة هذه نحن اليوم نعيش الإطمئنان في لبنان الإطمئنان للمرة الأولى في تاريخ لبنان منذ قيام الكيان الصهيوني الغاصب لفلسطين عام 1948 ليس من السهل أيها الإخواة والاخوات ان يعيش الانسان في بلد وفي جواره وحش كاسر مفترس طماع خداع كيف ليمكن لانسان ان يطمئن على أهله على دماءهم على أعراضهم على كراماتهم على مستقبلهم في جوار كيان عنصري عدواني من هذا النوع، اليوم وللمرة الأولى يشعر لبنان ويشعر جنوب لبنان بالتحديد بالطمأنينة بالهدوء بالأمن بالاستقرار بالثقة، قبل أسابيع كنت أقرأ نصا لسماحة الإمام القائد السيد موسى الصدر "أعاده الله بخير ورفيقيه والذي نعيش هذه الأيام كلنا، كل محبيه، أجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود إلى إعادة الامام ورفيقيه إلى لبنان ان شاء الله"، منشور مؤخرا وهو كلام في جلسة داخلية في عام 1978 قبيل الغزو الإسرائيلي عام 1978 في لقاء داخلي مع الإخوة كوادر حركة أمل كان يقول لهم ما مضمونه انه يشعر بالأسى الشديد بالحزن الكبير لما يعيشه الجنوب وأهل الجنوب - الجنوب الذي تحول إلى مكسر عصى الجنوب الذي تعتدي عليه اسرائيل فتدمر البيوت والبلدات من كفرشوبا إلى غيرها والتي تهجر أهله عندما شاءت، الجنوب الذي لا يشعر بالأمان، الجنوب الذي ينزف، ثم يتحدث بقلب محروق يقول للأسف لبنان ضعيف الجنوب ضعيف لأن لبنان ولأن الجنوب لأننا في لبنان جميعا ضعفاء العدو يفعل ما يشاء ويعتدي متى يشاء ويتحدث بقلب محروق ويقول ان الاكثرين لا يعنيهم ما يجري في الجنوب ولا يسمعون إلى كل النداءات إلى كل الصراخ الذي نطلقه. وأنا أقرا هذه الكلمات للإمام الصدر مباشرة قلت له في نفسي يا سماحة الإمام عندما تعود ان شاء الله ستفخر بأبنائك ستفخر بأحبائك ستفخر بتلامذتك ستفخر بأتباع خطك ستفخر بكل أصدقائهم وحلفائهم، ستفخر بالمقاومة التي أسست وناديت وضحيت من اجل ان تقوم على أرض لبنان وعلى ارض جنوب لبنان هذا الجنوب يا سيدي اليوم قويا آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل أصبح حاضر وبقوة في المعادلة الإقليمية أيضا.
اليوم، فيما يعني أي احتمال يتعلق باعتداء أو عدوان أو حرب إسرائيلية جديدة على لبنان وبالرغم من كل ما يقال في بعض التحليلات وبعض المقالات أعتقد أنه يدخل في دائرة التهويل ، نحن ما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو الإسرائيلي بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن أحداث وتطورات المنطقة والوضع الإقليمي، إذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة فنحن نستبعد أن يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبان، وليس السبب في هذا الإستبعاد ليس كرم إسرائيل ولا الفضل لأمريكا ولا الفضل للمتمع الدولي ولا الفضل لمجلس الامن الدولي ولا كرم أخلاق من أحد ولا كرم أخلاق من أحد ولا لأنّ احد أصبح "آدمي" بل لسبب بسيط جدا هو أنّ لبنان لم يعد ضعيفا وأن لبننا بات بلدا قويا وأن لبنان بجيشه وشعبه ومقاومته بات قادرا على الدفاع وعلى إلحاق الهزيمة بالمعتدي أيضا ، بل أكثر من ذلك أنّ لأبننا أصبح في الموقع الذي يستطيع أن يقلب فيه الطاولة على من يعتدي عليه وأن يحوّل التهديد إلى فرصة حقيقية.
عندما تتراجع هذه القوة وتضعف لا سمح الله وعندما تتفكك هذه القوة يمكن لإسرائيل ان تعاود التفكير بالإعتداء والحرب على لبنان والسيطرة على لبنان، لكن ما دام هذا الإيمان وهذه البصيرة وهذه الإرادة قائمة وهذا الثلاثي الذهبي متماسكاً فإن اسرائيل ستبقى واقفة بعجز وغير قادرة على أن تشنّ حرباً، وإذا جاء يوم لتشنّ فيه حرباً ستكون حرب اللاخيار أي المغامرة الأخيرة في حياة هذا الكيان.
إننا في الوقت الذي على مستوى القراءة والتحليل نستبعد فيه حرباً اسرائيلية على لبنان من هذا النوع بمعزل عن أحداث المنطقة، فهذا لا يعني أن ننام، وأنا أود أن أؤكد لكم أنّ هذه المقاومة التي ننتمي إليها لم تنم في يوم من الأيام، منذ عام 82 ومنذ احمد قصير لم تنم إلى عام 2000 عندما كان الإنتصار الكبير في لبنان في 25 أيار، وفي 26 أيار عام 2000 لم تنم هذه المقاومة وإنما بقيت يقظة وتعمل وتحضّر وتجهّز، لأنها تعرف أن بلدها وشعبها في جوار أي عدو، إلى عام 2006 وبعده ومنذ 15 آب 2006 إلى اليوم هذه المقاومة لم تنم.
أعود إلى كلمة لأمير المؤمنين (علي) عليه السلام يقول : "إنّ أخ الحرب اليَقْظَان الأَرِقْ" من كان في جواره عدو محارب، من كان ما زال في حالة حرب، حتى الذين يقولون أنّ لبنان في هدنة لا تعترف فيها إسرائيل يعني هناك حرب، مع العلم أنّ القرار 1701 الذي يُنَادى به حتى اليوم لم تصل فيه إسرائيل إلى وقف إطلاق النار وهناك وقف عمليات (...). المقاومة في لبنان هكذا "يقظان أرق" ، ثمّ يقول عليه السلام "ومن نامَ لم يُنَمْ عنه" حتى لو بعض الناس في لبنان راحوا ناموا، "ليش" الجيش الإسرائيلي نائم !؟ الإسرائيلي منذ العام 2006 لليوم (يعمل على) التدريب والتجهيز والتسليح والتصنيع والمناورات، في قبالنا عدو لم ينم فكيف ننام، "ومن َضعُفَ أُوذي ومن ترك الجهاد كان كالمغبون المهين".
أقول للذين يأسوا ولم ييأسوا يعني هم في داخلهم يأسوا لكن في خطابهم السياسي لم ييأسوا : عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا أن تتخلى عن سلاحها إنما تطالبوننا بأن نكون "المغبون المهين والمغبون الذليل" الذي لم يَسْتَفِد من كل التجارب والذي يسلّم كرامة أهله وشعبه ووطنه لأبشع عدو عرفه التاريخ وهو إسرائيل. لذلك نحن في يوم الشهيد ويوم الشهداء ندعو إلى التمسك بالمقاومة والتمسك بالجيش والتمسك بالإرادة الشعبية لأنها عنصر القوة الحقيقي.
بالوضع الداخلي، أثبتت الحكومة حتى الآن أنّها حكومة تنوّع، حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية وأساسية، حكومة تمثّل غالبية نيابية وغالبية شعبية جديّة، حكومة نقاش وبحث وحوار، ليست حكومة الرأي الواحد ولا حكومة شمولية، حكومة يتناقش أطرافها ويتخذون القرارات "ما بيجييهم "SMS" من أحد لا من (جيفري) فيلتمان ولا من السفارة الفرنسية ولا من دنيس روس الذي "فل" ولا من ذلك الذي لا نحبه ناظر القرار 1559 (تيري رود) لارسن. لا تتلقى إشارات ولا إيحاءات من أحد (بل) حكومة وطنية حقيقية. هذه الحكومة مدعوة اليوم إلى مزيد من العمل والإنجاز وإلى المزيد من الجدية ومتابعة الملفات وأن لا تصغي إلى كل الضجيج الذي يثار من هنا وهناك ويراد إشغالها بقضايا وهمية لا اساس لها.
الأهم ان تعطي الحكومة الأهمية المطلقة لهموم الناس وحاجات الناس المعيشية والإجتماعية والإقتصادية، هناك استحقاقات أمام الحكومة من حسم موضع الحد الأدنى للأجور وموضوع رواتب العمال والقطاع العام والمعلمين، ومسائل تتعلق بالنفط والغاز وهذا استحقاق حقيقي، ونحن نقترب من نهاية العام، موضوع الكهرباء موضوع الماء والضمان الصحي والتعيينات الإدارية، هناك ملفات حساسة ومهمة جدا ولا تحتاج إلى انفاق، يعني مثلا التعيينات الإدارية وأن تصبح الإدارة مكتملة قادرة على الفعل والإنجاز فهذا لا يحتاج إلى أموال وموازنات وضرائب جديدة فهذا خلل حقيقي موجود في البلد اليوم، استكمال الإدارة يوفر الكثير من الأعباء والمصاعب على المواطنين، على سبيل المثال المسارعة إلى تشكيل محافظة بعلبك الهرمل، وتشكيل محافظة عكار، كذلك الإدارات التي لا تقوم بوظائفها وواجباتها تجاه المواطنين بسبب الفراغ الإداري الهائل، هناك عشرات آلاف المطلوبين بمذكرات منذ عشرات السنين وأحيانًا بقضايا بسيطة وتافهة، هذا الأمر يمكن أن يناقش لمعالجته لأنّه حينئذ يخفف عبء على القوى الأمنية، فعندما يطلع مسؤولو قوى الأمن ويقولون لدينا 30 إلى 40 ألف مذكرة توقيف فقط بمحافظة واحدة، يطلع أغلب أسباب مذكرات التوقيف تافهة ويمكن التسامح فيها، معالجة هذا الأمر سواء على عهدة الحكومة أو على عهدة المجلس النيابي من المؤكد يساعد (على حلها).
هناك نوع من القضايا الإنسانية التي يجب مقاربتها في شكل انساني، هناك خطوة أنجزت قبل أيام في مجلس النواب تتعلق بملف "الهاربين" إلى اسرائيل، وكان هناك تفسيرات عديدة وكثيرة ونحن كنّا مِنَ الذين أيّدوا الإقتراح الذي قُدّم في مجلس النواب وكنّا منسجمين مع أنفسنا لأن هذا المعنى والمضمون ورد في التفاهم الموقع بيننا وبين التيار الوطني الحر عام 2006 ونحن نفي بتفاهماتنا واتفاقاتنا، وطبعا الحكومة معنية بالمسارعة إلى إصدار المراسيم ومعالجة هذا الموضوع بالحدود التي تم التصويت عليها في مجلس النواب وخلفية هذه المعالجة هي خلفية انسانية، لكن اسمحوا لي أن أذكّر والبعض يقول لماذا دائما تذكروننا، لأن هناك أناس تحدثوا وعَزُوا سبب هروب الناس لأنّه حدثت مجازر أو خافت من المجازر عام 2000، طبعا يومها كان هناك أناس مضروب على رأسهم لم يعرفوا ماذا يجري لأنّ رهاناتهم خسرت بالإنسحاب يوم 25 أيار عام 2000 ، وهناك أناس لم يكونوا قد خلقوا أو خلقوا وكانوا صغارا. فيحتاجون للتذكير أنه في 25 أيار عام 2000 لم يقتل أحد، أُنجز التحرير ولم يقتل احد لا من جماعة انطوان لحد ولا من المدنيين بل سقط شهداء من المقاومة ولم يُقتل أحد ولم تُرتكب أي مجزرة ولم يهدم أي دار ولا أي مكان للعبادة ولم تنتهك كرامة احد، العملاء الذين تمّ توقيفهم تمّ تسليمهم مباشرة للقضاء اللبناني الذي نعرف كيف تصرف معهم. وأنا أظن أن هؤلاء الذين هربوا إلى إسرائيل وطبعا حقهم كان أن يهربوا لأن المناخ والصورة الذهنية التي كانت سائدة في ذلك الوقت تساعد على هذا الخيار، أَضِفْ إلى أنّ هناك بعضهم يعرفون أعمالهم فطبيعي أن يهربوا، لكن بعد أن شاهدوا المشهد الحضاري الأخلاقي الإنساني كيف تعاطت المقاومة بكل فصائلها وكيف تعاطى أهل الجنوب الذين قُتِلَ أطفالهم واعْتَدِيَ على أعراضهم في معتقل الخيام كيف تعاطوا مع العملاء ومع عائلات العملاء وبعدها كيف تعاطى القضاء اللبناني، أعتقد أنّ كُثُراً منهم ندموا على هروبهم ولكنهم هربوا وأخطأوا. فقط أريد أنّ أذكّر بعض هؤلاء "الأبطال" ـ بين هلالين يعني ـ أنه لم يحصل مجازر ولا قتل ولا اعتداءات وعليهم أن يراجعوا التاريخ، إذا نسوا في 11 عاما ويغيروا التاريخ ـ وطبعا هم كل يوم يغيرون التاريخ ويشوهون الوقائع ـ كان لا بدّ من التذكير به.
الحكومة معنية أن تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها ونساندها باعتبار هذه الحكومة حكومة متنوعة وطنية.
فيما يعني الوضع الأمني، ندعو الجميع إلى الحفاظ على الإستقرار الامني في البلد لأنه شرط أساسي لكل شيء فهو شرط الإقتصاد والإستقرار السياسي والطمأنينة والصحة والعافية، وفي هذا السياق أدعو أيضا بعض الجهات السياسية ووسائل الإعلام إلى عدم تضخيم الأحداث الفردية التي تحصل والتي تحصل في أي مكان من العالم، وأيضا إلى التأكد والتثبت من المعلومات والمعطيات قبل إطلاق تصريحات يتبيّن في ما بعد أن المعلومات مبنية على خطأ ولا أساس لها من الصحة.
في هذا السياق أيضا ندعو إلى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني وطبعا التعاون مع كل القوى الأمنية وتحييدها ما أمكن، ولكن نؤكد على أولوية تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن، وقد أثبتت كل التجارب القاسية والمؤلمة التي مر بها لبنان وشعب لبنان أنه في نهاية المطاف كان ينهار كل شيء ويتقسم كل شيء ويضيع كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص. من يريد أن "يناقر" في السياسة لا بأس "يكمّل مناقرة فينا" وبالحكومة وبالدولة وبمجلس النواب ولكن لندع مؤسسة الجيش جانبا ولنحافظ عليها وعلى موقعها الوطني وصورتها الوطنية لأن هذا هو التصرف بخلفية وطنية.
في موضوع تمويل المحكمة (الدولية)، قلنا أنّ هذا الموضوع يناقش إن شاء الله في مجلس الوزراء ولكن هناك مستجد يسترعي الوقوف عنده قليلا هو ما حصل مع منظمة اليونيسكو، من مفيد أن ينتبه اللبنانيون وأيضا الرأي العام العربي والعالمي إلى هذه النقطة جيدا، منظمة اليونيسكو منظمة دولية تُعْنَى بالشأن الثقافي، اعترفت هذه المنظمة ـ والمصادفة أنه لم يكن فيها حق الفيتو ـ بدولة فلسطين وطبعا بأي دولة فلسطين؟ ليس بدولة فلسطين من البحر إلى النهر بل بقطعة من فلسطين يعني (حدود) الـ 67 أنها دولة وحتى أنه غير معلوم إذا كانت (دولة حدود) الـ 67، دولة فلسطين على الأرض التي ستقام عليها على ضوء المفاوضات لاحقا أو ما يحصل، غضبت أمريكا لأنّ هذه المنظمة الدولية الثقافية أعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وليس كل حقه، فأدانت موقفها وبالتالي هي تدين كل الذين صوّتوا لمصلحة دولة فلسطين ثمّ عملت إجراء وأوقفت التمويل بدون سابق إنذار. اليوم أعلنت اليونيسكو أنها ستجمد جميع برامجها إلى نهاية العام 2011.
هنا ألفت إلى أنّ منظمة اليونيسكو منظمة معترف بها دولياً وهي منظمة دولية ولم تشكّل لا في ظروف "بوشية – شيراكية" ولا بتهريب قانوني او دستوري مثل المحكمة الدولية، ومن جهة أخرى أنّ هذه المنظمة يستمر عملها ويتوقف عملها على هذا التمويل، وهي قامت بأمر محق ومنصف وعادل ويجب أن تكمله، تقوم الإدارة الأميركية بأخذ هذا الموقف. ألم يكن تمويل اليونيسكو التزاماً من قبل الإدارة الأميركية، أليس هذا من التزاماتها الدولية؟ لماذا يَحِل للإدارة الأميركية ويجوز لها أن تتحلّل من التزاماتها الدولية ولا يجوز للبنان لو كان هناك التزام؟ هناك بعض الناس انتبهوا أنّ هذا يؤثر على موضوع المحكمة فقالوا كلاما حمّال أوجه لكن أغلب قوى 14 آذار لم تعلّق على هذا الأمر. من حق أميركا ليس فقط ان تقطع أموال اليونيسكو بل أنّ تخرب وتدمر اليونيسكو لأنها وقفت إلى جانب شعب فلسطين، أما لبنان فلا حق له، وإذا لم يموّل المحكمة غير الدستورية وغير القانونية التي كلنا بتنا نعرف سيرتها وسلوكها وأهدافها ولا داعي للتكرار فيأتي (جيفري) فيلتمان ـ وانظروا إلى الوقاحة ـ بعد القرار الأمريكي بوقف تمويل اليونيسكو يهدد لبنان بعقوبات، هذا يفضح الإدارة الأميركية ويفضح حلفاء أمريكا في العالم ويفضح حلفاء أمريكا في لبنان.
بكل الأحوال، أمام هذه الفضيحة قدّم دولة الرئيس فؤاد السنيورة مخرجا للأميركيين وللحفاظ على اليونيسكو، وعلى ذمة الإعلام أنا أقرأ المكتوب الذي يقول " قدّم الحل الذي يحمي منظمة اليونيسكو من العقاب الأمريكي وناشد الرئيس السنيورة جامعة الدول العربية والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية الصديقة المبادرة إلى جمع وتسديد المبالغ التي كانت ستدفعها الولايات المتحدة وإسرائيل، بهذه الخطوة يمكن ببساطة ـ بحسب السنيورة ـ إحباط الإبتزاز الإسرائيلي والتهويل والضغوط الأمريكية من أجل الهيمنة". الآن (بمعزل) عن إدانة أمريكا أو عدم إدانتها و(فرض) عليها عقوبات وتُقَاطع ويُرفع الإصبع بوجهها هذا له علاقة بالعالم وعقلهم وشجاعتهم ووحدة المعايير أو ازدواجية المعايير، أريد أن أذهب إلى هذا المخرج، الرئيس السنيورة قدّم مخرجاً جميلاً، فليعتمده مع حكومة الرئيس الميقاتي. "حلّوا عن الرئيس الميقاتي وعن حكومة الرئيس الميقاتي"، وناشدوا جامعة الدول العربية ( وهذه المسألة لا تحتاج لذلك) والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية المعنية بتمويل 50 و60 مليون دولار ليدفعوها إلى المحكمة. هناك أمير عربي يستطيع ان يستغني عن بعض الحفلات في لندن او باريس وأن يدفع هذين القرشين، ولنتفادى كل هذا المشكل في البلد ومعركة مفتوحة شهر وشهرين وثلاثة وباتهامات للرئيس ميقاتي، لأن الرجل مقتنع بما يقوله، واتهامات للحكومة وبالويل والثبور وعظائم الأمور وبأن لبنان سيخرّب اقتصاده ويدمر وسيعزَل دوليا. إذا أنتم تحبون لبنان حقاً وحريصون على لبنان وتريدون خلاصه وأمنه فيما نحن "راسنا يابس" وأنتم أناس منفتحون وحواريون هذا مخرج: ما ترضونه لمنظمة اليونيسكو ارتضوه للمحكمة الدولية، رغم ان اليونيسكوا أنصفت قوماً والمحكمة الدولية تعتدي على آخرين، ومع ذلك هذا مخرج يمكن ان تعتمدوا عليه وتتكلوا على الله وتدعوا الرئيس ميقاتي "يعرف ينام".
اليوم الغرفة الأولى أو الثانية في المحكمة مجتمعة وتناقش مسألة المحاكمة الغيابية، أنا لن أعلق على هذا الموضوع لأننا نحن بتنا نتصرف مع هذه المحكمة على أنها غير موجودة ولن نضيع وقتكم.
النقطة الأخيرة في الوضع المحلي أدخل منها باختصار على الوضع الإقليمي، هو توجيه نصيحة في الداخل اللبناني لكل القوى السياسية: تعالوا لنهتم ببلدنا ولنعالج أزماته وملفاته في الحكومة، في مجلس النواب، في طاولة الحوار، في أي مكان شئتم، تعالوا لنعطي أولوية واتركوا الرهان على الخارج وعلى التطورات الإقليمية، لأن البعض في لبنان راهن على التطورات الإقليمية. أنا في خطاب سابق تحدثت عن خمسة رهانات خلال خمس سنوات ولن أعيد. اليوم لا تعذبوا أنفسكم، أقول لكل الذين يؤجلون الملفات او الخيارات او المعالجات او يصنعون آمالاً وأوهاماً على شيء واحد هو سقوط نظام الرئيس بشّار الأسد في سوريا، وأنا أقول لهم: دعوا هذا الرهان جانباً، وأقول لهم أيضاً هذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة فلا تضيعوا اوقاتكم. ارجعوا للتفكير لبنانيا ووطنيا، الغريب أن بعض الناس يرفعون شعار "لبنان أولاً"، إلا في الرهانات يأتي لبنان في الآخر. راهنوا على لبنان أولاً على اللبنانيين أولاً على قدرات لبنان أولاً وعلى عقول وإرادة وحوار اللبنانيين وتعاونهم، فقط هذه نصيحة في الشق المحلي .
في الشق الإقليمي، لا يوجد متسع من الوقت لأتحدث عن كل الوضع الإقليمي والوضع العربي، ولكن الأهم خلال الأيام القليلة الماضية، هو التطور المرتبط بايران وسوريا والتهديدات الإسرائيلية والأميركية والغربية واعادة فتح الملف النووي الإيراني.
شهدنا في الأيام القليلة الماضية تصاعداً في التهديدات والدفع فجأة بدون سابق انذار، طرح بقوة احتمال ان يقوم العدو الإسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية، وصارت الكرة تتدحرج اعلاميا وسياسيا وتصريحات ومواقف وتصاعد التهديد والإحتمالات. طبعا القيادة في الجمهورية الإسلامية في ايران ردّت بشكل حازم وقاطع، وكان السقف الأعلى والأوضح ما قاله بالأمس سماحة الإمام السيد الخامنئي دام ظله الشريف، وما قاله هو عين الواقع والحقيقة، إيران القوية بجيشها بحرسها بتعبئتها بشعبها بوحدتها بإيمانها بعزمها، لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الأساطيل، وعندما جاءت الأساطيل الأميركية والجيوش الأميركية واحتلت كل المنطقة في محيط ايران، حيث تتواجد اليوم القوات الأميركية في باكستان وافغانستان والعراق وتركيا والخليج ودول الخليج ومياه الخليج، ولكن مع ذلك لم تضعف إيران ولم تتراجع عزيمتها ولم تخضع للشروط ولم تنجر إلى مفاوضات مباشرة مع الأميركيين، فلا التهويل ولا الأساطيل يمكن ان تمسّ بإرداة وعزيمة وقرار القيادة والشعب في ايران، وهذا أمر محسوم.
تعالوا نتحدث عن الحدث قليلاً، هل يمكن أن تذهب الأمور في هذا الاتجاه وكيف نفهم ما يحصل؟ إذا عدنا قليلاً إلى الخلفيات، وهنا نريد أن أتحدث عن ايران وسوريا سوياً، يجب ان لا يغيب عن بالنا أولاً انه منذ اليوم إلى آخر السنة، هناك انسحاب أميركي من العراق، وهزيمة كبيرة للمشروع الأميركي.
في عام 2000 خرج أناس وقالوا إن المقاومة في لبنان لم تنتصر وإنما إسرائيل انسحبت وهذا اتفاق تحت الطاولة (كلام بلا طعمة)، سيخرج الآن أيضاَ من يقول إن أميركا أخذت قراراً بأن تخرج؟! أمريكا التي جاءت وتحملت هذا الحجم الهائل من الخسائر البشرية والمالية والاقتصادية، هذا الانهيار القوي في اقتصادها وماليتها هل من المعقول أنها وبهذه البساطة خارجة من العراق! الجواب أكيد لا. أمريكا الخارجة من العراق، المهزومة في العراق، يجب أن تفعل شيئاً ما. أولاً، أي دولة عادة تقوم بانسحاب، هناك أناس ينسحبون تحت النار الحقيقية، لكن أميركا غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية، لذا تريد ان تعمل دخاناً وغباراً وضباباً وأن تنسحب تحت النار السياسية والإعلامية، وهذا اسمه تهويل على المنطقة وحرب في المنطقة واعتداء على ايران وسوريا حتى يصبح اهتمام العالم كله والمنطقة كلها وشعوبها مركزاً على هذا النوع من التوقعات والأحداث، ويصبح خبر الإنسحاب الأميركي والهزيمة الأميركية في العراق خبراً عادياً بل مغفولاً عنه ولا يبقى في صدارة الأحداث. وهنا مسؤولية القيادات السياسية والجهات الإعلامية كلها أن تسلط الضوء على هذا الإنسحاب وعلى هذه الهزيمة لأن لها آثار ونتائج استراتيجية وتاريخية على كل صعيد معنوي ونفسي وسياسي وعسكري على منطقتنا ومستقبل منطقتنا.
ثانياً، من الطبيعي ان تقوم الإدارة الأميركية في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في إلحاق الهزيمة بها وبمشروعها في العراق، ولا أحد يختلف على أن الدولتين اللتين وقفتا في وجه الإحتلال الأميركي للعراق وعارضتا ودعمتا الشعب العراقي والمقاومة في العراق وصمود الشعب العراقي ولم تستسلما لشروط لا كولن باول ولا من جاء بعده، هما إيران وسوريا. في لحظة الهزيمة والأسى والفشل الأميركي، أمريكا تريد أن تقول لإيران وسوريا لا تفرحوا أنكم حققتم انجازاً أنتم ستبقون تحت الضغط والتهويل والسيف، والعصا سوف تبقى مشرّعة في وجوهكم، هذا أمر طبيعي من أميركا. تصوروا أن الولايات المتحدة الأميركية ستخرج من العراق وتعترف بهزيمتها، رغم أن الجمهوريين في أمريكا قالوا إنها هزيمة كبرى، ثم يسمح لإيران ولسوريا ولشعوب المنطقة ولكل الذين أيّدوا الشعب العراقي والمقاومة العراقية بالاحتفال بهذا النصر التاريخي.
الأمر الثالث الذي يجب الانتباه إليه، أن التحولات التي حصلت في منطقتنا، طبعاً، هناك خلاف بين النخب ومحللي الأحداث وقارئيها حول فهم وقراءة الأمور التي تحصل في منطقتنا، لكن بمعزل عن كل القراءات، هناك قدر متيقن، فلا شك بأن سقوط نظام زين العابدين بن علي هو خسارة للمشروع الأميركي وللحضور الأميركي الغربي في منطقتنا، سقوط نظام القذافي خسارة، سقوط نظام حسني مبارك هو الخسارة العظمى لأمريكا وإسرائيل؟ إذاً، هناك تحولات في المنطقة ليست لمصلحة أمريكا وإسرائيل، لكن لاحقاً هل تستطيع أن تعيد هذه الأنظمة لمصلحتها فهذا بحث آخر. لكن في مسار التحولات الكبرى في المنطقة، من الواضح ان محور المقاومة والممانعة والرفض لإسرائيل ولمشاريع الهيمنة كان يقوى ويكبر، وهذا سيتيح لإيران ولسوريا ان تحصلا على حلفاء جدد وأنصار جدد وأعضاء جدد في هذا المحور، وهذا يمكن ان يعني المزيد من النفوذ والحضور والفعالية.
وللتعويض عن خسارة أميركا في مصر وتونس وليبيا وخصوصا في مصر، يجب ان ينتقل بسوريا وبايران إلى موقع دفاعي، والإنشغال بذاتها ووضعها وأمنها واقتصادها.
الأمر الرابع والأخير هو، إن اميركا تريد اخضاع ايران وسوريا وجر إيران إلى التفاوض المباشر مع الولايات المتحدة الأميركية، أما الحديث عن مفاوضات جماعية فإيران لم ترفض هذا في يوم من الأيام مع ألأمم المتحدة، ولكن المفاوضات الثنائية المباشرة، إيران كانت ترفضها وما زالت ترفضها، المطلوب الإخضاع وجر إيران إلى طاولة المفاوضات، المطلوب إخضاع سوريا لتقبل ما لم تكن تقبله في الماضي، هذا هو الهدف الحقيقي، بناءً على هذه الخلفيات وإذا أضفنا إليها وقائع، وقائع لها علاقة حالياً بالوضع المالي والاقتصادي في أوروبا، فإيطاليا تلحق باليونان، والبرتغال يلحق بإيطاليا، والدول تلحق بعضها البعض.
رئيسة صندوق النقد الدولي أمس تحدثت بوضوح أن الاقتصاد العالمي في خطر، الوضع المالي والاقتصادي في أمريكا كارثي وصعب جداً، تصوروا عندما يقف أحد مرشحي الحزب الجمهوري للانتخابات الرئاسية الأميركية، من المفترض أن يفتش عن شعارات شعبية أو أن يبحث عن اللوبي اليهودي الصهيوني ليدعمه، وقف وقال إن برنامجه وقف المساعدات الأميركية الخارجية كلها بما فيها المساعدات لإسرائيل، هذا يؤشر على صعوبة الوضع المالي الاقتصادي في الولايات المتحدة الأميركية، هذا من جهة، ومن جهة ثانية إيران قوية وصلبة ومقتدرة وموحدة ولديها قائد لا مثيل له في هذا العالم، إيران سترد الصاع صاعين، فمَن يجرؤ ان يشنّ حربا على ايران؟ اليوم وزير الدفاع الأميركي "دعس فرامات ورجع خليفاني" وبداً يتحدث بشكل عاقل وأن هذا الوضع يؤدي إلى توتر في المنطقة وأن جنودنا وقواعدنا موجودة في منطقة الخليج ولا أدري إلى أين تجر المنطقة ؟ اذا عليهم ان يفهموا وهم يفهمون جيدا. عليهم ان يفهموا جيداً ان الحرب على ايران وأن الحرب على سوريا لن تبقيا في ايران ولا في سوريا وإنما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة بأكملها. وهذه حسابات حقيقية وواقعية، لا نحن نهدد ولا احد يهدد. لنضع التهديدات جانباً ولا يتخذ أحد مواقف مسبقة، لكن هذا هو الواقع، هذا هو واقع الحال، واليوم أكثر من أي زمن مضى، الدول العربية والإسلامية وحكوماتها وشعوبها معنية بان تتخذ موقفا. انظروا إلى الصلف والوقاحة، إسرائيل التي تملك رؤوساً نووية عسكرية تطالب العالم بالضغط على ايران وتهدد إيران بضرب منشآت نووية سلمية. فما هو سبب هذه الوقاحة وهذا الاستكبار هو أحياناً الاحساس بضعف الآخر بوهن الآخر بانقسام الآخر ، نحن نقول لهم : هذا الرهان على الضعف وعلى الوهن هذا رهان خاسر. زمن الوهن والضعف والتراجع أمام العدو الإسرائيلي أمام العدوان الأميركي، هذا
62m:23s
15961
[ARABIC] كلمة الإمام الخامنئي في إفتتاح...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و الصحوة الإسلامية
29/04/2013
بسم الله الرحمن الرحيم
و الحمد لله رب العالمين، و الصلاة و السلام على سيدنا محمد المصطفى، و آله الأطيبين و صحبه المنتجبين، و من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
أرحب بكم أيها الضيوف الأعزاء، و أسأل الله العزيز الرحيم أن يبارك في هذا الجهد الجماعي، و أن يجعله شوطاً فاعلاً على طريق حياة أفضل للمسلمين إنه سميع مجيب.
موضوع الصحوة الإسلامية الذي ستتناولونه في هذا المؤتمر هو اليوم في رأس قائمة قضايا العالم الإسلامي و الأمة الإسلامية.. إنه ظاهرة عظيمة لو بقيت سليمة و تواصلت بإذن الله لاستطاعت أن تقيم الحضارة الإسلامية في أفق ليس ببعيد للعالم الإسلامي و من ثَمّ للبشرية جمعاء.
إنّ البارز أمام أعيننا اليوم، و لا يستطيع أي إنسان مطّلع و ذي بصيرة أن ينكره هو أن الإسلام اليوم قد خرج من هامش المعادلات الاجتماعية و السياسية في العالم، و اتخذ مكانة بارزة و ماثلة في مركز العناصر الفاعلة لحوادث العالم، ليقدم رؤية جديدة على ساحة الحياة و السياسة و الحكم و التطورات الاجتماعية. و يشكل ذلك، في عالمنا المعاصر الذي يعاني بعد هزيمة الشيوعية و الليبرالية من فراغ فكري و نظري عميق، ظاهرةً ذات مغزى و أهمية بالغة.
و هذا أول أثر تركته الحوادث السياسية و الثورية في شمال أفريقيا و المنطقة العربية على الصعيد العالمي، و يبشّر بدوره ببروز حقائق أكبر في المستقبل.
إنّ الصحوة الإسلامية التي يتجنب ذكرها المتحدثون باسم جبهة الاستكبار و الرجعية، بل يخافون أن يجري اسمها على ألسنتهم، هي حقيقة نرى معالمها اليوم في أرجاء العالم الإسلامي كافة. و أبرز معالمها تطلع الرأي العام و خاصة فئة الشباب إلى إحياء مجد الإسلام و عظمته، و وعيهم لحقيقة نظام الهيمنة العالمية، و انكشاف الوجه الخبيث و الظالم و المستكبر لحكومات و دوائر أنشبت أظفارها الدامية لأكثر من قرنين في المشرق الإسلامي و غير الإسلامي، و جعلت مقدرات الشعوب عرضة لنزعتها الشرسة و العدوانية نحو الهيمنة، و ذلك بنقاب المدنية و الحضارة.
أبعاد هذه الصحوة المباركة واسعة غاية السعة و ذات امتداد رمزي، و لكن ما حققته من حاضر العطاء في بعض بلدان شمال أفريقيا من شأنه أن يجعل القلوب واثقة بمعطيات مستقبلية كبرى و هائلة. إن تحقق معاجز الوعود الإلهية يحمل دائماً معه دلالات أمل يبشّر بتحقق وعود أكبر. و ما يحكيه القرآن الكريم عن الوعدين الإلهيين لأمّ موسى هو نموذج من هذه السنة الربانية.
إذ في تلك اللحظات العسيرة، حيث صدر الأمر بإلقاء الصندوق حامل الرضيع في اليمّ، جاء الخطاب الإلهي بالوعد: (إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ). (1) إن تحقق الوعد الأول، و هو الوعد الأصغر الذي شدّ على قلب الأم، أصبح منطلقاً لتحقق وعد الرسالة، و هو أكبر بكثير، و يستلزم طبعاً تحمّل المشاق و المجاهدة و الصبر الطويل: (فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ...). (2) هذا الوعد الحقّ هو تلك الرسالة الكبرى التي تحققت بعد سنين و غيّرت مسيرة التاريخ.
و من النماذج الأخرى التذكير بالقدرة الإلهية الفائقة في قمع المهاجمين للكعبة، و الذي ورد في القرآن بلسان الرسول الأعظم (ألم يجعل كيدهم في تضليل) (3) و ذلك لتشجيع المخاطبين علی امتثال الأمر الالهي: (فليعبدوا رب هذا البيت). (4)
و في موضع آخر يذكّر سبحانه رسوله بما أغدقه عليه من نعم تشبه المعجزة: (أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى، وَ وَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى)، ليكون ذلك وسيلة لتقوية معنويات نبيّه الحبيب و إيمانه بالوعد الإلهي في قوله: (مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى)، (5) و مثل هذه الأمثلة كثيرة في القرآن الكريم.
حين انتصر الإسلام في إيران، و استطاع أن يفتح قلاع أمريكا و الصهيونية في أحد أكثر البلدان حساسية من هذه المنطقة المهمة بامتياز، عَلِم أهل العبرة و الحكمة أنهم إذا انتهجوا طریق الصبر و البصيرة فإن فتوحات أخرى ستتعاقب علیهم، و قد تعاقبت فعلاً.
الحقائق الساطعة في الجمهورية الإسلامية و التي يعترف بها الأعداء قد تحققت بأجمعها في ظل الثقة بالوعد الإلهي و الصبر و المقاومة و الاستمداد من ربّ العالمين. شعبنا كان يرفع دائماً صوته بالقول: (كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ)، (6) أمام وساوس الضعفاء الذين كانوا يردّدون في الفترات الحرجة: (إِنَّا لَمُدْرَكُونَ). (7)
هذه التجربة الثمینة هي اليوم في متناول الشعوب التي نهضت بوجه الاستكبار و الاستبداد، و استطاعت أن تسقط أو تزلزل عروش الحكومات الفاسدة الخاضعة و التابعة لأمريكا. الثبات و الصبر و البصيرة و الثقة بالوعد الإلهي في قوله سبحانه: (وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ)، (8) بإمكانها أن تمهّد طريق العزّ هذا أمام الأمة الإسلامية حتى تصل إلى قمة الحضارة الإسلامية.
إنني في هذا الاجتماع الهام لعلماء الأمة بمختلف أقطارهم و مذاهبهم أرى من المناسب أن أبيّن عدة نقاط ضرورية حول قضايا الصحوة الإسلامية:
الأولى: إن الأمواج الأولى للصحوة في بلدان هذه المنطقة، و التي اقترنت ببدايات دخول الغزو الاستعماري، قد انطلقت غالباً على يد علماء الدين و المصلحين الدينيين. لقد خلدت صفحات التاريخ و للأبد أسماء قادة و شخصيات بارزة من أمثال السيد جمال الدين الأسد آبادي، و محمد عبده، و الميرزا الشيرازي، و الآخوند الخراساني، و محمود الحسن، و محمد علي، و الشيخ فضل الله النوري، و الحاج آقا نور الله، و أبي الأعلى المودودي، و عشرات من كبار علماء الدين المعروفين و المجاهدين و المتنفذين من إيران و مصر و الهند و العراق. و يبرز في عصرنا الراهن اسم الإمام الخميني العظيم مثل كوكب ساطع على جبين الثورة الإسلامية في إيران. و كان لمئات العلماء المعروفين و آلاف العلماء غير المعروفين في الحاضر و الماضي دور في المشاريع الإصلاحية الكبيرة و الصغيرة على ساحة مختلف البلدان. و قائمة المصلحين الدينيين من غير علماء الدين كحسن البنا و إقبال اللاهوري هي طويلة أيضاً و مثيرة للإعجاب.
و قد كانت المرجعيّة الفكريّة لعلماء الدين و رجال الفكر الديني بدرجة و أخرى، و في كل مكان. لقد كانوا سنداً روحياً قوياً للجماهير، و حيثما قامت قيامة التحولات الكبرى ظهروا في دور المرشد و الهادي، و تقدموا لمواجهة الخطر في مقدمة صفوف الحراك الشعبي، و ازداد الارتباط الفكري بينهم و بين الناس، و ازداد معه تأثيرهم في دفع الناس نحو الطريق الصحيح. و هذا له من الفائدة و البركة لنهضة الصحوة الإسلامية بمقدار ما يجرّ على أعداء الأمة و الحاقدين على الإسلام و المعارضين لسيادة القيم الإسلامية من انزعاج و امتعاض ما يدفعهم إلى محاولة إلغاء هذه المرجعية الفكرية للمؤسسات الدينية و استحداث أقطاب جديدة عرفوا بالتجربة أنها يمكن المساومة معها بسهولة على حساب المبادئ و القيم الدينية. و هذا ما لا يحدث إطلاقاً مع العلماء الأتقياء و رجال الدين الملتزمين.
إن هذا يضاعف ثقل مسؤولية علماء الدين. فعليهم أن يسدّوا الطريق أمام الاختراق بفطنة و دقة متناهية و بمعرفة أساليب العدوّ الخادعة و حيله، و أن يحبطوا مكائده. إن الانشداد للموائد الملوّنة بمتاع الدنيا من أكبر الآفات. و التلوث بهبات أصحاب المال و السلطة و عطاياهم، و الارتباط المادي بطواغيت الشهوة و القوة من أخطر عوامل الانفصال عن الناس و التفريط بثقتهم و محبتهم. الأنانية و حبّ الجاه الذي يجرّ الضعفاء إلى أقطاب القوة يشكّلان أرضية خصبة للتلوث بالفساد و الانحراف. لا بدّ أن نضع نصب أعيننا قوله سبحانه: (تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ). (9)
إننا اليوم، في عصر حراك الصحوة الإسلامية و ما تبعثه في النفوس من أمل، نشاهد أحيانًا مساعي خدم أمريكا و الصهيونية لاصطناع مرجعيات فكرية مشبوهة من ناحية، و مساعي الغارقين في المال و مستنقع الشهوات لجرّ أهل الدين و التقوى إلى موائدهم المسمومة الملوثة من ناحية أخرى.
فعلى علماء الدين و الرجال المتدينين و المحافظين على الدين أن يراقبوا هذه الأمور بشدة و دقّة.
المسألة الثانية، ضرورة رسم هدف بعيد المدى للصحوة الإسلامية في البلدان المسلمة يوضع أمام الجماهير ليكون البوصلة في حركتها للوصول إليه. و بمعرفة هذا الهدف يمكن رسم خريطة الطريق و تحديد الأهداف القريبة و المتوسطة. هذا الهدف النهائي لا يمكن أن يكون أقل من إقامة «الحضارة الإسلامية المجيدة». الأمة الإسلامية، بكل أجزائها في إطار الشعوب و البلدان، يجب أن تعتلي مكانتها الحضارية التي يدعو إليها القرآن الكريم.
إن من الخصائص الأصلية و العامة لهذه الحضارة استثمار أبناء البشر لجميع ما أودعه الله في عالم الطبيعة و في وجودهم من مواهب و طاقات مادية و معنوية لتحقيق سعادتهم و سموّهم. و يمكن، بل و ينبغي مشاهدة مظاهر هذه الحضارة في إقامة حكومة شعبية، و في قوانين مستلهمة من القرآن، و في الاجتهاد و تلبية الاحتياجات المستحدثة للبشر، و في رفض الجمود الفكري و الرجعية، ناهيك عن البدعة و الالتقاط، و في إنتاج الرفاه و الثروة العامة، و في استتباب العدل، و في التخلص من الاقتصاد القائم على الاستئثار و الربا و التكاثر، و في إشاعة الأخلاق الإنسانية، و في الدفاع عن المظلومين في العالم، و في السعي و العمل و الابداع.
و من مستلزمات هذا البناء الحضاري النظرة الاجتهادية و العلمية للساحات المختلفة بدء من العلوم الإنسانية و نظام التربية و التعليم الرسمي، و مروراً بالاقتصاد و النظام المصرفي، و انتهاء بالإنتاج الصناعي و التقني و وسائل الإعلام الحديثة و الفن و السينما، بالإضافة إلى العلاقات الدولية و غيرها من الساحات.
و تدلّ التجربة علی أن كل ذلك ممكن و في متناول مجتمعاتنا بطاقاتها المتوفرة. لا يجوز أن ننظر إلى هذا الأفق بنظرة متسرعة أو متشائمة. التشاؤم في تقويم قدراتنا كفران بنعم الله، و الغفلة عن الإمداد الإلهي و دعم سنن الكون انزلاق في ورطة : (الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ). (10)
نحن قادرون على أن نكسر حلقات الاحتكارات العلمية و الاقتصادية و السياسية لقوى الهيمنة، و أن نجعل الأمة الإسلامية سبّاقة لإحقاق حقوق أكثرية شعوب العالم التي هي اليوم مقهورة أمام أقلية مستكبرة.
الحضارة الإسلامية بمقوماتها الإيمانية و العلمية و الأخلاقية، و عبر الجهاد الدائم، قادرة علی أن تقدم للأمة الإسلامية و للبشرية المشاريع الفكرية المتطورة و الأخلاق السامية، و أن تكون منطلق الخلاص من مظالم الرؤية المادية للكون و من الأخلاق الغارقة في مستنقع الرذيلة التي تشكل أركان الحضارة الغربية القائمة.
المسألة الثالثة: في إطار حركات الصحوة الإسلامية يجب الاهتمام باستمرار بالتجربة المرّة و الفظيعة التي تركتها التبعية للغرب على السياسة و الأخلاق و السلوك و نمط الحياة.
البلدان الإسلامية خلال أكثر من قرن من التبعية لثقافة الدول المستكبرة و سياستها قد مُنيت بآفات مهلكة مثل الذيلية و الذلة السياسية و الفقر الاقتصادي و تهاوي الأخلاق و الفضيلة، و التخلف العلمي المُخجِل، بينما الأمة الإسلامية تمتلك تاريخاً مشرقاً من التقدم في جميع هذه المجالات.
هذا الكلام لا ينبغي اعتباره مناصبة العداء للغرب، نحن لا نكنّ العداء لأية مجموعة إنسانية بسبب تمايزها الجغرافي. نحن تعلمنا من الإمام علي (عليه السلام) ما قاله عن الإنسان أنه: «إمّا أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق». (11) اعتراضنا إنما هو على الظلم و الاستكبار و التحكم و العدوان و الفساد و الانحطاط الأخلاقي و العملي الذي تمارسه القوى الاستعمارية و الاستكبارية ضد شعوبنا. و نحن الآن أيضاً نشاهد تحكّم و تدخل و تعنّت أمريكا و بعض ذيولها في المنطقة داخل البلدان التي تحوّل فيها نسيم الصحوة إلى نهوض عاصف و إلى ثورة. وعود هؤلاء و توعّداتهم يجب أن لا تؤثر في قرارات و مبادرات النخب السياسية و في الحركة الجماهيرية العظيمة.
و هنا أيضاً يجب أن نتلقى الدروس من التجارب. أولئك الذين انشدّت قلوبهم لسنوات طويلة بوعود أمريكا و جعلوا الركون إلى الظالم أساساً لنهجهم و سياستهم لم يستطيعوا أن يحلّوا مشكلة من مشاكل شعبهم أو أن يبعدوا ظلماً عنهم أو عن غيرهم. بل إن هؤلاء باستسلامهم لأمريكا لم يستطيعوا أن يحولوا دون هدم بيت فلسطيني واحد على الأقل في إرض هي ملك للفلسطينيين.
الساسة و النخب المخدوعة بالتطميع أو المرعوبة بتهديد جبهة الاستكبار و الذين يخسرون فرصة الصحوة الإسلامية يجب أن يخشوا ما وجهه الله سبحانه إليهم من تهديد إذ قال: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَ أَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ). (12)
المسألة الرابعة: إن أخطر ما يواجه حركة الصحوة الاسلامية اليوم هو إثارة الخلافات و دفع هذا الحراك نحو صدامات دموية طائفية و مذهبية و قومية و محلیة. هذه المؤامرة تتابع أجهزة الجاسوسية الغربية و الصهيونية تنفيذها اليوم بجدٍ و اهتمام في منطقة تمتد من شرق آسيا حتى شمال أفريقيا، و خاصة في المنطقة العربية، بدعم من دولارات النفط و الساسة المأجورين. و الأموال التي یمکن استخدمها في تحقيق رفاه خلق الله، تُنفق في التهديد و التكفير و الاغتيال و التفجير و إراقة دم المسلمين و إضرام نيران الأحقاد الدفينة. أولئك الذين يرون في قوة اتحاد المسلمين مانعاً لتطبيق أهدافهم الخبيثة رأوا في إثارة الخلافات داخل الأمة الإسلامية أيسر طريق لتنفيذ أهدافهم الشيطانية، و جعلوا من اختلاف وجهات النظر في الفقه و الكلام و التاريخ و الحديث، و هو اختلاف طبيعي لا يمكن اجتنابه، ذريعة للتكفير و سفك الدماء و الفتنة و الفساد.
نظرة فاحصة لساحة النزاعات الداخلية تكشف بوضوح يد العدوّ وراء هذه المآسي. هذه اليد الغادرة تستثمر دون شك الجهل و العصبية و السطحية في مجتمعاتنا، و تصبّ الزيت على النار. مسؤولية المصلحين و النخب الدينية و السياسية في هذا الخضمّ ثقيلة جداً.
ليبيا بشكل، و مصر و تونس بشكل أخر، و سوريا بشكل، و باكستان بشكل أخر، و العراق و لبنان بشكل، تعاني اليوم أو في معرض المعاناة من هذه النيران الخطرة. لا بدّ من المراقبة الشديدة و البحث عن العلاج.
من السذاجة أن نعزو كل ذلك إلى عوامل و دوافع عقائدية أو قومية. الدعاية الغربية و الإعلام الإقليمي التابع و المأجور يصوّران الحرب المدمّرة في سورية بأنها نزاع سنّي ــ شيعي، و يوفران بذلك مساحة آمنة للصهاينة و أعداء المقاومة في سوريا و لبنان. بينما النزاع في سوريا ليس بين طرفين سني و شيعي، بل بين أنصار المقاومة ضد الصهيونية و معارضي هذه المقاومة. ليست حكومة سوريا حكومة شيعية، و لا المعارضة العلمانية المعادية للإسلام مجموعة سنية، إنما المنفذون لهذا السيناريو المأساوي كانوا بارعين في قدرتهم على استغلال المشاعر الدينية للسذج في هذا الحريق المهلك. نظرة إلى الساحة و الفاعلين فيها على المستويات المختلفة توضّح هذه المسألة لكل إنسان منصف.
هذه الموجة الإعلامية تؤدّي دورها بشكل آخر في البحرين لاختلاق الكذب و الخداع. في البحرين هناك أكثرية مظلومة محرومة لسنوات طويلة من حق التصويت و سائر الحقوق الأساسية للشعب، قد نهضت للمطالبة بحقها. ترى هل يصحّ أن نعتبر الصراع شيعيا سنياً لأن هذه الأكثرية المظلومة من الشيعة، و الحكومة المتجبّرة العلمانية تتظاهر بالتسنّن ؟!
المستعمرون الأوربيون و الأمريكيون و من لفّ لفهم في المنطقة يريدون طبعاً أن يصوّروا الأمر بهذا الشكل، و لكن أهذه هي الحقيقة؟!
هذا ما يستدعي من جميع علماء الدين المصلحين و المنصفين أن يقفوا تجاهه بتأمّل و دقة و شعور بالمسؤولية، و يحتّم عليهم أن يعرفوا أهداف العدو في إثارة الخلافات الطائفية و القومية و الحزبية.
المسألة الخامسة: إن سلامة مسيرة حركات الصحوة الإسلامية يجب أن نبحث عنها، فيما نبحث، في موقفها تجاه قضية فلسطين. منذ ستين عاماً حتى الآن لم تنزل على قلب الأمة الإسلامية كارثة أكبر من اغتصاب فلسطين.
مأساة فلسطين منذ اليوم الأول حتى الآن كانت مزيجاً من القتل و الارهاب و الهدم و الغصب و الإساءة للمقدسات الإسلامية. وجوب الصمود و النضال أمام هذا العدو المحارب هو موضع اتفاق جميع المذاهب الإسلامية و محل إجماع كل التيارات الوطنية الصادقة و السليمة.
إنّ أيّ تيار في البلدان الإسلامية يتناسى هذا الواجب الديني و الوطني انصياعاً للإرادة الأمريكية المتعنتة أو بمبررات غير منطقية يجب أن لا يتوقع غير التشكيك في وفائه للإسلام و في صدق ادعاءاته الوطنية.
إنّ هذا هو المحكّ. كل من يرفض شعار تحرير القدس الشريف و إنقاذ الشعب الفلسطيني و أرض فلسطين، أو يجعلها مسألة ثانوية و يدير ظهره لجبهة المقاومة، فهو متّهم.
الأمة الإسلامية يجب أن تضع نصب عينيها هذا المؤشر و المعيار الواضح الأساسي في كل مكان و زمان.
أيها الضيوف الأعزاء.. أيها الإخوة و الأخوات..
لا تبعدوا عن أنظاركم كيد العدوّ، فإن غفلتنا توفّر الفرصة للعدوّ.
إنّ درس الإمام علي (عليه السلام) لنا هو أنه: «من نام لم يُنَم عنه». (13) تجربتنا في الجمهورية الإسلامية هي بدورها مليئة بدروس العبرة في هذا المجال. إذ بعد انتصار الثورة الإسلامية في إيران، بدأت الحكومات الغربية و الأمريكية المستكبرة التي كانت منذ أمد بعيد تسيطر على طواغيت إيران و تتحكم في المصير السياسي و الاقتصادي و الثقافي لبلدنا، و تستهين بالقوة الضخمة للايمان الإسلامي في داخل المجتمع، و كانت غافلة عن قوة الإسلام و القرآن في التعبئة و التوجيه، بدأت تفهم فجأة ما وقعت فيه من غفلة، فتحركت دوائرها السيادية و أجهزتها الاستخبارية و مراكز صنع القرار فيها لِتَجبُرَ ما مُنيت به من هزيمة فاحشة .
رأينا خلال هذه الأعوام التي تربو علی الثلاثين أنواع المؤامرات و المخططات، و الذي بدّد مكرهم أساساً هو عاملان: الثبات على المبادئ الإسلامية، و الحضور الجماهيري في الساحة.
هذان العاملان هما مفتاح الفتح و الفَرَج في كل مكان. العامل الأول يضمنه الإيمان الصادق بالوعد الإلهي، و العامل الثاني سيبقى ببركة الجهود المخلصة و البيان الصادق. الشعب الذي يؤمن بصدقِ قادته و إخلاصهم يجعل الساحة فاعلة بحضوره المبارك. و أينما بقي الشعب في الساحة بعزم راسخ فإن أية قدرة ستكون عاجزة عن إنزال الهزيمة به. هذه تجربة ناجحة لكل الشعوب التي صنعت بحضورها الصحوة الإسلامية.
أسأل الله تعالى لكم و لكل الشعوب أن يسددكم و يأخذ بأیدیکم و يعينكم و يغدق عليكم شآبيب رحمته إنه تعالى سميع مجيب.
و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.
الهوامش:
1 - سورة القصص، الآیة 7 .
2 - سورة القصص، الآیة 13 .
3 - سورة الفیل، الآیة 2 .
4 - سورة قریش، الآیة 3 .
5 - سورة الضحی، الآیة 3 .
6 - سورة الشعراء، الآیة 62 .
7 - سورة الشعراء، الآیة 61 .
8 - سورة الحج، الآیة 40 .
9 - سورة القصص، الآیة 83 .
10 - سورة الفتح، الآیة 6 .
11 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 53 .
12 - سورة إبراهیم، الآیتان 28 و 29 .
13 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 62 .
Source: http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1569
39m:39s
15446
دیدار رئیس و مسئولان قوه قضائیه Sayyed Ali...
بیانات در دیدار رئیس و مسئولان قوه قضائیه
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12801
حضرت...
بیانات در دیدار رئیس و مسئولان قوه قضائیه
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12801
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی صبح امروز در دیدار رئیس و مسئولان عالی قوه قضاییه و جمعی از قضات و كاركنان دستگاه قضایی، صبر همراه با بصیرت در مقابل سختیها را عامل اصلی پیشرفت حركت رو به جلوی ملت ایران در 33 سال گذشته ارزیابی كردند و با اشاره به نیاز قوه قضاییه به دو ركن مهم اقتدار و اعتماد عمومی افزودند: هرگونه اقدام و یا القای تشكیك برای زیر سؤال بردن فعالیتها، گزارشها و آمارهای مسئولان عالی سه قوه بویژه قوه قضاییه، اقدامی نادرست، ضداعتماد عمومی و برخلاف مصالح كشور است و همه مسئولان، صاحبان تریبونها و رسانهها باید به این موضوع مهم كاملاً توجه كنند.
در این دیدار كه در آستانه سالگرد حادثه انفجار تروریستی دفتر حزب جمهوری اسلامی در هفتم تیر سال 1360 و شهادت آیتالله دكتر بهشتی و 72 تن از یاران انقلاب برگزار شد و جمعی از خانوادههای شهدای حادثه هفتم تیر نیز حضور داشتند، رهبر انقلاب اسلامی با گرامیداشت یاد و خاطره این شهدا بویژه شهید مظلوم آیتالله دكتر بهشتی، خاطرنشان كردند: حادثه هفتم تیر حقیقتاً یك محنت بود اما ملت ایران با صبر و بصیرتی كه از طرف امام بزرگوار (ره) تزریق میشد، این محنت را تبدیل به نعمت كرد و موج را به طرف خود دشمن برگرداند.
حضرت آیتالله خامنهای، این درس امتحان پس داده شده ملت ایران را عامل اصلی پیشرفتها و حركت رو به جلو دانستند و افزودند: ملت ایران به دلیل اهداف والای خود كه همان رسیدن به ارزشهای اسلامی و تحقق مبانی اسلامی در جامعه و انتشار آن در جهان است، همواره با زورگویان عالم و استعمارگران و دیكتاتورها و سختیهای تحمیلی از طرف آنها مواجه بوده و خواهد بود، بنابراین باید با صبر همراه با بصیرت در مقابل سختیها ایستاد و محنتها را به نردبانی برای پیشرفت و ارتقاء تبدیل كرد.
مسائل مربوط به قوه قضاییه بخش دیگری از سخنان رهبر انقلاب اسلامی بود.
حضرت آیتالله خامنهای، اقتدار و اعتماد عمومی را دو ركن اصلی مورد نیاز قوه قضاییه برشمردند و تأكید كردند: اقتدار قوه قضاییه با تأمین زیرساختهای مناسب انسانی و فنی بوجود میآید.
ایشان افزودند: تربیت انسانهای شایسته، فاضل، امین و درستكار و همچنین ابتكار و نوآوری، وضع قوانین صحیح و بهرهگیری درست و براساس تشخیص عقلی، از پیشرفتهای گوناگون فنی و سازمانی، زمینهساز استحكام درونی قوه قضاییه و اقتدار آن خواهد بود.
رهبر انقلاب اسلامی لازمه جلب اعتماد عمومی به عنوان دومین ركن مورد نیاز قوه قضاییه را، تأمین عدالت دانستند و تأكید كردند: تبدیل شدن عدالت به جریانی فراگیر و دائمی در قوه قضاییه نیازمند تقوا، نگاه بیطرفانه در حوادث كوچك و بزرگ، و عملكرد دقیق و حكیمانه به قانون است.
حضرت آیتالله خامنهای در همین خصوص به موضوع سلب اعتماد عمومی هم اشاره كردند و با انتقاد از برخی القای تشكیكها در اقدامات و گزارشهای قوه قضاییه و همچنین قوای مجریه و مقننه، افزودند: زیر سؤال بردن زحمات و گزارشهای رسمی مسئولان عالی نظام در سه قوه و سلب اعتماد عمومی، كاری غلط و نادرست است و همه مسئولان، صاحبان تریبونها و رسانهها باید متوجه این موضوع مهم باشند.
ایشان با اشاره به احتمال اشتباه در برخی گزارشها و یا آمارها خاطرنشان كردند: نباید با تعمیم این موضوع و القای شبهه، اعتماد مردم را از بین برد.
رهبر انقلاب اسلامی به موضوع رسانهای كردن اتهامات نیز اشاره كردند و افزودند: متهم شدن به معنای مجرم بودن نیست، بنابراین هیچكس در قوه قضاییه و در خارج از این قوه و در رسانه ها حق ندارد تا زمانیكه جرمی ثابت نشده، آن را رسانهای كند.
حضرت آیتالله خامنهای با انتقاد از برخی فشارها به قوه قضاییه برای افشاگری، خاطرنشان كردند: هیچ لزومی به افشاگری وجود ندارد و هیچكس حق ریختن آبروی یك مسلمان را ندارد.
ایشان با تأكید بر اینكه در شرع فقط در مواردی خیلی خاص، اجازه انتشار مجازات و یا علنی شدن مشخصات شخص مجازات شونده، داده شده است، افزودند: حتی در مواردی كه جرم در دادگاه نیز اثبات میشود، نباید نام فرد مجرم علنی و رسانهای شود زیرا خانواده وی تحت فشار قرار میگیرند و دچار مشكل میشوند.
رهبر انقلاب اسلامی در پایان سخنان خود با اشاره به پیشرفتهای قوه قضاییه از ابتدای پیروزی انقلاب اسلامی تاكنون و در دورههای مختلف خاطرنشان كردند: در دوره فعلی نیز شخصیت برجستهای از لحاظ علم، ابتكار، نشاط، انگیزه و همت در رأس قوه قضاییه قرار دارد و اقدامات عالمانه و مبتكرانه تحسین برانگیزی انجام گرفته است.
در ابتدای این دیدار، آیتالله آملی لاریجانی رئیس قوه قضاییه ضمن گرامیداشت یاد و خاطره شهدای حادثه تروریستی هفتم تیر بویژه شهید آیتالله بهشتی، گزارشی از اقدامات انجام گرفته در قوه قضاییه در دو سال گذشته ارائه كرد.
تلاش برای برطرف كردن مشكل كمبود نیروی انسانی كارآمد از طریق جذب یكهزار نیروی جدید، آموزش ضمن خدمت قضات و كاركنان، اهتمام جدی به نظارت درونی در قوه قضاییه از طریق تأسیس معاونت نظارت در دیوانعالی كشور و دادستانی كل كشور و فعال شدن شورایعالی نظارت در قوه قضاییه، توسعه زیرساختهای سختافزاری و طراحی نرمافزارهای مورد نیاز برای تسهیل در ارائه خدمات، تشكیل معاونت پیشگیری و همكاری با دستگاهها برای پیشگیری از جرم، ایجاد زیرساختهای لازم برای دسترسی آسان مردم به اطلاعات حقوقی، تلاش برای حل مشكلات معیشتی قضات و كاركنان دستگاه قضایی، بهبود شرایط فیزیكی زندانها، و كاهش میانگین زمان رسیدگی به پروندههای قضایی از جمله مواردی بود كه آیتالله آملی لاریجانی در گزارش خود به آنها اشاره كرد.
رئیس قوه قضاییه همچنین با اشاره به عملكرد دستگاه قضایی در برخورد با عوامل و سران فتنه 88 و تأكید بر برخورد با سایر جریانات انحرافی، گفت: قوه قضاییه به مبارزه بیامان، قاطعانه و عادلانه خود با مجرمان جرایم خاص، قاچاقچیان مواد مخدر، سارقان مسلح، متجاوزان به نوامیس، اشرار و مفسدان اقتصادی ادامه خواهد داد.
50m:11s
15319
[19 January 2014] دیدار مسئولان نظام و ميهمانان...
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت...
دیدار مسئولان نظام و ميهمانان كنفرانس وحدت اسلامی با رهبر انقلاب اسلامی
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی در خجسته سالروز میلاد تاریخ سازِ نبی مكرم اسلام و ولادت پربركت امام صادق (ع) در دیدار «جمعی از مسئولان كشور، میهمانان كنفرانس وحدت اسلامی و گروههایی از مردم»، با دعوت از جهان اسلام برای برآورده ساختن انتظارات پیامبر خاتم، تاكید كردند: امروز مهمترین مساله ی دنیای اسلام، وحدت است و با وجود همه توطئه ها، آینده امت اسلامی در پرتو «وحدت، آگاهی و بیداری اسلامی»، درخشان و نوید بخش خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای با تبریك عید سعید میلاد پیامبر اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) و ولادت پربركت امام جعفر صادق (ع)، «آزادی از تصورات و اوهام» و سپس تلاش برای «آزادی از ظلم و ستم حكومتهای مستبد و ایجاد حكومت عادلانه» را دو روش اساسی اسلام برای آزادی بشر برشمردند و افزودند: ملتهای مسلمان باید با ایجاد آزادی درونی و فكری، تلاش كنند با دستیابی به «استقلال سیاسی، استقرار حكومتهای مردمی، برپایی مردم سالاری دینی و حركت براساس شریعت اسلام»، خود را به آزادی مورد نظر اسلام عزیز برسانند.
ایشان، توطئه ها و تحركات دشمنان اسلام برای جلوگیری از آزادی حقیقی و سعادت امت اسلامی را، پیچیده و چند بعدی خواندند و خاطرنشان كردند: ایجاد اختلاف میان مسلمانان، محور اساسی ترفندهای استكبار است.
حضرت آیتالله خامنهای، تلاش ۶۵ ساله برای فراموش شدن مسئله فلسطین و تحمیل وجود رژیم جعلی، جنایتكار و غاصب صهیونیستی بر ملتهای مسلمان را، نمونه ای از تلاشهای مستبدانه امریكا و دیگر زورگویان جهانی خواندند و افزودند: جنگهای ۳۳ روزه لبنان، ۲۲ روزه و ۸ روزه غزه نشان داد بجز برخی دولتها كه عملاً حافظ منافع بیگانگان شده اند ملتهای مسلمان با هوشیاری، هویت و موجودیت فلسطین را حفظ كرده و به رژیم صهیونیستی و حامیانش سیلی می زنند.
رهبر انقلاب در نگاهی كلان به مسائل جهان اسلام، غافل كردن امت اسلامی از مسئله فلسطین را از جمله اهداف مهم دشمنان اسلام در به راه انداختن جنگهای داخلی، دامن زدن به اختلاف و ترویج تفكرات تكفیری و افراطی برشمردند.
ایشان با ابراز تأسف عمیق افزودند: عده ای تكفیری بجای توجه به رژیم خبیث صهیونیستی، به اسم اسلام و شریعت، اكثر مسلمانان را تكفیر می كنند و زمینه ساز جنگ و خشونت و اختلاف می شوند و به همین علت، وجود این جریان تكفیری، مژده ای برای دشمنان اسلام است.
رهبر انقلاب با اشاره به آیه شریفه «اَشدّاء علیَ الكُفّارِ رُحَماء بَینَهُم» افزودند: جریان تكفیری، این دستور صریح پروردگار را نادیده می گیرد و با تقسیم مسلمانان به «مسلمان و كافر»، آنها را به جان هم می اندازد.
ایشان سؤال كردند: با این وضع آیا كسی می تواند تردید كند كه وجود این جریان و پشتیبانی مالی و تسلیحاتی از آن، كار دستگاههای امنیتی و خبیث دولتهای استكباری و دست نشاندگان آنها نیست؟
حضرت آیتالله خامنهای با توجه به این واقعیات، جریان تكفیری را خطری بزرگ برای دنیای اسلام برشمردند و با توصیه به كشورهای اسلامی برای مراقبت و هوشیاری كامل، افزودند: متأسفانه برخی دولتهای مسلمان، به عواقب حمایت از این جریان بی توجهند و نمی فهمند كه این آتش، دامن همه آنها را هم خواهد گرفت.
رهبر انقلاب اسلامی، تشدید اختلافات میان شیعه و سنی و افزایش درگیریهای داخلی ملتهای مسلمان در سه چهار سال اخیر را عكس العمل ستم گران جهانی در مقابل تشدید بیداری اسلامی در تعدادی از كشورها برشمردند.
ایشان افزودند: مستكبران تلاش می كنند برای تحت الشعاع قرار دادن بیداری اسلامی، پیروان مذاهب مختلف اسلامی را با یكدیگر درگیر كنند و سپس با برجسته كردن اقدامات شنیع جریان تكفیری نظیرِ «جویدن جگر انسان های به قتل رسیده»، اصل اسلام را در افكار عمومی جهانیان، زشت جلوه دهند.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: بدون تردید این مسائل یك باره به وجود نیامده است و قدرتهای جهانی برای ایجاد آنها، مدتها برنامه ریزی و سیاستگذاری كرده اند.
حضرت آیتالله خامنهای مقابله با هر عامل ضد وحدت را تكلیف بزرگ شیعه و سنی و دیگر شاخه های مذهبی خواندند و خاطرنشان كردند: نخبگان سیاسی، علمی و دینی برای ایجاد وحدت در جوامع اسلامی، وظایف سنگینی برعهده دارند.
رهبر انقلاب در همین زمینه، «علمای دنیای اسلام» را به برحذر داشتن ملتها از اختلافات فرقه ای و مذهبی، «دانشمندانِ دانشگاهها» را به تبیین اهمیت اهداف اسلامی برای دانشجویان و «نخبگان سیاسی امت اسلامی» را به تكیه بر مردم و دوری از بیگانگان و دشمنان اسلام فراخواندند و تاكید كردند: امروز مهمترین مساله در دنیای اسلام، وحدت است.
ایشان با اشاره به خروج تدریجی ملتهای مسلمان از زیر بار سلطه مستقیم استعمارگران، هشدار دادند: مستكبران درصددند منافع دوران سلطه مستقیم را با سلطه غیرمستقیم سیاسی، فرهنگی و اقتصادی تامین كنند.
حضرت آیتالله خامنهای «بیداری و آگاهی»، را تنها راه سعادت امت اسلامی برشمردند و خاطرنشان كردند: امكانات فراوان، موقعیت جغرافیایی ممتاز، میراث تاریخی بسیار ارزشمند و منابع اقتصادی بی نظیر كشورهای اسلامی، می تواند در سایه وحدت و همدلی، عزت و كرامت و آقایی مسلمانان را رقم بزند.
ایشان پیروزی انقلاب اسلامی و استحكام الگوی جمهوری اسلامی را با وجود ۳۵ سال توطئه های گوناگون مستكبران، از نشانه های آینده نوید بخش امت اسلامی دانستند و تأكید كردند: به فضل الهی ملت ایران و نظام اسلامی روز به روز قوی تر، ریشه دار تر و مقتدر تر خواهد شد.
در پایان این دیدار، حضرت آیتالله خامنهای، دقایقی در جمع میهمانان خارجی كنفرانس وحدت اسلامی حضور یافتند.
قبل از سخنان رهبر انقلاب اسلامی، آقای روحانی رئیس جمهور با تبریك میلاد مبارك پیامبر خاتم و حضرت امام جعفر صادق (ع)، به تاریكی مطلق فرهنگی، اجتماعی و سیاسی دوران جاهلیت اشاره كرد و گفت: در آن اوضاع اسف بار، میلاد پیامبر رحمت، نور هدایت و رستگاری را در تاریخ جاری كرد.
رئیس جمهور با اشاره به مشكلات و اختلافات موجود در جهان اسلام گفت بی تردید پیامبر اسلام در مقابل منحرفین و كسانی كه راه تكفیر و افراط و درگیری را در پیش گرفته اند در رنج است و جوامع اسلامی باید بار دیگر به یاری پیامبر رحمت به پا خیزند.
آقای روحانی پیروی از ندای وحدت بخش امام خمینی را تنها راه نجات امت اسلامی خواند و گفت: دین واحد، پیامبر واحد، منافع مشترك، دشمنان مشترك آرمانهایی همچون فلسطین اشغال شده و قدس عزیز می تواند مسلمانان را متحد كند.
رئیس جمهور افزود: امت اسلامی باید با رجوع به قرآن و در پرتو تدبیر، عقلانیت، اعتدال، امید و تلاش بی وقفه، تمدن اسلامی را دوباره احیا كند.
Source: http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=25049
25m:26s
15263
ديدار با اساتید و فارغالتحصیلان تخصصی...
دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت با رهبر...
دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت با رهبر انقلاب
http://farsi.khamenei.ir/news-content?id=12888
حضرت آیتالله خامنهای رهبر معظم انقلاب اسلامی امروز در دیدار جمعی از اساتید، كارشناسان، مؤلفان و فارغالتحصیلان تخصصی مهدویت، با اشاره به اهمیت بسیار بالای موضوع مهدویت به عنوان هدف حركت و مجاهدت انبیاء در طول تاریخ، انتظار را بخش جداییناپذیر موضوع مهدویت دانستند و تأكید كردند: یكی از موارد مهم و ضروری در مقولهی مهدویت، افزایش كارهای عالمانه، دقیق و متقن به دست اهل فن و متخصصان واقعی این موضوع و پرهیز از كارهای عامیانه، جاهلانه، غیرمعتبر و براساس تخیلات و توهمات است.
ایشان در سخنان خود، ابتدا به تبیین اهمیت موضوع مهدویت پرداختند و با تأكید بر اینكه مهدویت در شمار چند مسئله اصلی معارف عالیه دینی است، افزودند: هدف حركت انبیاء و بعثتها، پایهریزی جهانی با چارچوب توحیدی و براساس عدالت و بهرهگیری از همهی ظرفیتهای موجود در انسان است و دوران ظهور امام زمان عجلالله تعالی فرجهالشریف نیز، دوران حاكمیت حقیقی توحید، معنویت، دین و عدل بر شئون مختلف زندگی فردی و اجتماعی انسانها است.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: اگر مهدویت نباشد، همه تلاشها و مجاهدت انبیاء بیفایده و بیاثر خواهد بود.
حضرت آیتالله خامنهای به موضوع مهدویت در ادیان الهی نیز اشاره كردند و افزودند: درهمهی ادیان الهی، تقریباً كلیاتی از حقیقت مهدویت بیان شده اما در اسلام، این موضوع از مسلمّات است و در میان مذاهب اسلامی نیز، شیعه، موضوع مهدویت را با مصداق روشن و جزئیات خانوادگی و شخصیتی فرد مورد انتظار كه از روایات معتبر و مستند شیعه و غیرشیعه، به دست آمده، مطرح میكند.
رهبر انقلاب اسلامی بعد از تبیین اهمیت موضوع مهدویت و جایگاه آن در ادیان الهی و مذاهب اسلامی، به موضوع انتظار به عنوان جزء جداییناپذیر مهدویت اشاره و خاطرنشان كردند: انتظار به معنای مترصد یك فرد زنده و حقیقت قطعی بودن، است و این معنا از انتظار، لوازمی دارد كه از جملهی آنها، آمادهشدن روحی و درونی و همچنین اجتماعی انسان برای دوران متوقع و با شرایط ویژه آن است.
حضرت آیتالله خامنهای در همین خصوص افزودند: فرد منتظِر باید همواره خصوصیات و ویژگیهای لازم دوران مورد انتظار را در خود حفظ و تقویت كند و این انتطار، به گونهای است كه از یك طرف، هیچگاه نباید آن را طولانی مدت تصور كرد و از طرف دیگر هیچگاه نباید آن را بسیار نزدیك دانست.
ایشان با اشاره به ویژگیهای دوران ظهور حضرت صاحبالزمان (عج)، تأكید كردند: دوران آن حضرت، دوران حاكمیت توحید، عدل، حق، اخلاص، و عبودیت خدا است، بنابراین افراد منتظِر نیز باید همواره خود را به این ویژگیها نزدیك كنند و به وضع موجود راضی نباشند.
سومین نكتهای كه رهبر انقلاب اسلامی در موضوع مهدویت به آن اشاره كردند، ضرورت انجام كارهای عالمانه، دقیق و مستند بود.
حضرت آیت الله خامنه ای خاطرنشان كردند: یكی از خطرهای بزرگ در موضوع مهدویت، كارهای عامیانه، جاهلانه، غیرمستند و متكی بر تخیلات و توهمات است كه زمینهساز مدعیان دروغین و دوری مردم از حقیقت واقعی انتظار خواهد شد.
ایشان با اشاره به مدعیان دروغینی كه در طول تاریخ برخی علائم ظهور را بر خود یا دیگران تطبیق میدادند، افزودند: همهی این موارد غلط و انحرافی است زیرا برخی مطالب دربارهی علائم ظهور، غیرقابل استناد و ضعیف است و مطالب معتبر را هم نمیتوان براحتی تطبیق داد.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: اینگونه مطالب غلط و انحرافی، باعث میشوند، حقیقت اصلی مهدویت و انتظار مهجور بماند، بنابراین، باید به شدت از كارها و شایعات عوامانه پرهیز كرد.
حضرت آیتالله خامنهای خاطرنشان كردند: البته كار عالمانه و مستند درباره موضوع مهدویت و انتظار نیز بر عهدهی اهل فن و متخصصانی است كه علم حدیث و رجال را به خوبی میدانند و با مسائل و تفكرات فلسفی آشنایی كامل دارند.
آخرین محوری كه رهبر انقلاب اسلامی درخصوص مقولهی مهدویت به آن اشاره كردند، موضوع توسل به امام زمان(عج) و انُس با آن حضرت بود.
ایشان خاطرنشان كردند: آشنایی صحیح و علمی با مقولهی مهدویت زمینه ساز انُس بیشتر با حضرت حجت(عج) و حركت شتابانتر به سمت اهداف عالیه خواهد بود.
رهبر انقلاب اسلامی تأكید كردند: در موضوع انُس با آن حضرت و توسل به ایشان نیز آنچه صحیح و مورد نظر است، توجه و توسل از دور است كه حضرت مهدی(عج) انشاءالله آن را میپذیرند اما برخی ادعاها و مطالب عامیانه درخصوص انُس با حضرت، از طریق دیدار حضوری، غالباً دروغ و یا تخیلات ذهنی است.
حضرت آیتالله خامنهای در بخش دیگری از سخنان خود ضمن تشكر از دستاندركاران، به خدمات فراوان حجتالاسلام والمسلمین قرائتی در بخشهای مختلف بویژه موضوعات نماز، زكات، تفسیر، مهدویت و مبارزه با بیسوادی اشاره كردند و افزودند: آقای قرائتی نمونهی بسیار خوب و الگوی شایستهای است زیرا خدمات ایشان همواره در عرصههایی بوده كه خلاء و نیاز فراوانی در آنجا احساس شده است و این چنین همت و تلاشی، ارزش مضاعف دارد.
رهبر انقلاب اسلامی با اشاره به اینكه نیت خالصانه و برای خدا، تأثیر شگرفی در پیشرفت كارها دارد، بر لزوم استمرار و پیگیری كارهای انجام شده در عرصههای مختلف تأكید كردند.
در ابتدای این دیدار حجتالاسلام والمسلمین قرائتی، گزارشی از فعالیتهای انجام گرفته در نهضت سواد آموزی، ستاد اقامه نماز، ستاد زكات، و تفسیر قرآن كریم ارائه كرد و درخصوص موضوع مهدویت گفت: تاكنون سیصد نفر بصورت تخصصی در موضوع مهدویت تحصیل كردهاند و آموزشهای مجازی، كوتاه مدت و تربیت مربی مهدویت نیز ایجاد شده است.
وی انتشار چند فصلنامه و راهاندازی چندین سایت و مجله الكترونیكی در موضوع مهدویت را از دیگر اقدامات انجام گرفته برشمرد.
در این دیدار جمعی از فعالان و مسئولان ستادهای اقامه نماز، زكات، نهضت سواد آموزی، ترویج فرهنگ قرآنی و تفسیر حضور داشتند.
28m:14s
15202
ولایتِ فقیہ کیا ہے؟ | امام خمینیؒ، رہبر...
اسلام فقط چند رسومات اور عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات...
اسلام فقط چند رسومات اور عبادات کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ خداوندِ متعال نے بنی نوع انسان کی ابدی سعادت کے لیے جامع ترین اجتماعی نظام دیا ایک ایسا نظام جس میں انسان اپنی مادّی ضروریات کے ساتھ ساتھ روحانی ضروریات اور کمال کی منازل تیزی کے ساتھ طے کر سکے اُس نظام کا نام دینِ مبین اسلام ہے اور اِس نظام کی محافظت اور ترقی و پیشرفت کے لیے امامت و ولایت کا نظام عطا کیا جس میں امامِ معصوم علیہ السلام یا اُن کی غیر موجودگی میں ایک ایسا شخص جو امامِ معصوم کی بتائی ہوئی شرائط پر پورا اترتا ہو یعنی ولی فقیہ کہ جس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امّت کی رہنمائی کرے اور طاغوت کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے۔
اِس مختصر ویڈیو میں ولایت فقیہ کے حوالے سے امام خمینیؒ، ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ مصباح یزدی، آیت اللہ محسن قرائتی، استاد علی رضا پناہیان اور استاد رحیم پور ازغدی کے مفید بیانات کو اردو سبٹائیٹل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
#ویڈیو #ولایت_فقیہ #ڈکٹیٹر_شپ #آمریت #اسلام #فقیہ #حکومت_اسلامی #ولایت_مطلقہ #آئیڈیالوجی #آئیڈیالوجسٹ #مرجع_تقلید #مادام_الصلاحیت #مادام_الزمان
9m:52s
14790
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
wilayat
faqih,
imam
khomeini,
sayyid
ali
khamenei,
olama,
islam,
rusumaat,
ibadaat,
zabtae
hayaat,
sa\'adat,
ijtemai
nizam,
maddi,
roohani,
kamaal,
muhafezat,
taraqqi,
wilayat,
imam
masoom,
sharaet,
wali
faqih,
ummat,
rehnumai,
taghoot,
shaheed
murtaza
mutahhari,
ayatullah
misbah
yazdi,
ayatullah
mohsin
qarati,
ustad
alireza
panahiyan,
ustad
rahimpour
azghadi,
ideology,
ideologist,
dictatorship,
marje
taqleed,
wilayat
mutlaqa,
قرآن اور تمام انسانیت کی ہر شعبے میں...
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِلنَّاسِ وَبَینَاتٍ...
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِلنَّاسِ وَبَینَاتٍ مِنَ الْهُدَی وَالْفُرْقَانِ.
آں کتابِ زندہ، قرآن حکیم
حکمت او لا یزال است و قدیم
قرآن مجید خداوند متعال کی جانب سے نازل کی گئی ایک ایسی کتاب ہے جس میں تمام انسانوں کے لیے ہدایت موجود ہے یہ ہدایت و رہنمائی زندگی کے کسی ایک شعبے سے یا کسی ایک پہلو سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ الہی کتاب زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے. یہ الہی کتاب انسانیت کے لیے راہ نجات اور شمع ہدایت ہے. اس کتاب سے دوری تمام انسانیت کی تباہی اور زوال کا سبب ہے. اس کتاب کی زندگی بخش ایات میں غور و فکر، تدبر اور تعقل کے ذریعے انسان کمال کی جانب بڑھ سکتا ہے اور انسانیت پستی و ذلت سے بلندی اور عزت کی جانب سفر کر سکتی ہے.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے قلوب کو منور کرنے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #قرآن_اور_تمام_انسانیت_کی_ہرشعبے_میں_ہدایت #ماہ_رمضان_کی_متعدد_فضیلتیں #نزول_قرآن #ہزاروں_خصوصیات #ہدایت_قرآنی #ہم_کلام #علامہ_طباطبائی #سورہ_حمد #گفتگو_کا_سلیقہ #راہ_مستقیم #رہنمائی #دستگیری #قرآن_کا_خطاب #میدان_زندگی #روحانی_ارتقاء #قرب_الہی #معرفت_الہی #جوار_الہی #سب_سے_بڑی_حاجت #انسانی_معاشروں_کےمسائل #باطنی_دشمن #ظاہری_دشمن #اخلاقیات #خاندان #اولاد_کی_تربیت #روحانی_سکون #سیاست #اقتصاد #سماجی_امور
8m:12s
13393
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
quran,
ensan,
rohani,
ensaniat,
medan,
surah
hamd,
dushman,
shaytan,
khandan,
tarbiat,
hidayat
qurani,
allama
tabatabie,
imam,
imam
sayyid
ali
khamenei,
siasat,
eqtesad,
zindagi,
qurb
elahi,
akhlaqiat,
Drama Serial - Zamin Ensanha زمین انسان ها Episode 5 Farsi...
Drama Serial - Zamin Ensanha Episode 5 Farsi sub English
Drama Serial - Zamin Ensanha Episode 3 Farsi sub English Artists:Ali Nasirian, Asal...
Drama Serial - Zamin Ensanha Episode 5 Farsi sub English
Drama Serial - Zamin Ensanha Episode 3 Farsi sub English Artists:Ali Nasirian, Asal Badie, Soroush Sehat, Maede Tahmasebi and ... Year: 1390 Director: AbolHassan Davoodi Zaman Pakhsh: Saturday and Monday - شنبه و دوشنبه ها خلاصه: داستان اين سريال در يك بيمارستان ميگذرد. در اين بيمارستان چند پزشك در حال گذراندن دوره هستند تا تخصص خود را در رشته مغز و اعصاب بگيرند. بيماران زيادي به اين بيمارستان مراجعه ميكنند و با خود قصههاي متفاوتي را ميآورند و داستان زندگي و گرفتاريهاي اين بيماران در كنار زندگي پزشكان جوان بازگو ميشود. هركدام از اين شخصيتها پيشينه و زندگي گذشتهاي دارد كه در طول مجموعه به آن پرداخته ميشود.
44m:30s
13221
ذی الحجہ کا بابرکت اور با اہمیت مہینہ |...
خداوند متعال کی جانب سے انسان کے لئے ہدایت کی راہ کو طے کرنے کے لئے بہترین فرصتیں...
خداوند متعال کی جانب سے انسان کے لئے ہدایت کی راہ کو طے کرنے کے لئے بہترین فرصتیں عنایت ہوتی ہیں، ان میں سے کچھ بہترین اوقات اور زمان بھی ہیں جو مقدس اور بافضیلت ہیں، جن اوقات کے لمحے انسان کے معنوی سفر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔ جو بابرکت مہینہ ہے۔ جس کی اہمیت کی طرف رہبر معظم امام خامنہ ای اشارہ فرما رہے ہیں۔
اس مہینے کی کونسی عظیم مناسبتیں ہیں؟
معنویت کی مناسبتوں سے بھرا یہ کیسا مہینہ ہے؟
اس مہینے کا نبی اکرمؐ اور امام حسینؑ سے کیسا رابطہ ہے؟
امام حسینؑ نے اس مہینے کے کس دن عظیم معارف پر مشتمل دعاء عرفہ پڑھی؟
اور اس کے کونسے ایام، اسلامی تاریخ کے واقعات کے لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں؟
ان سوالات کے جواب اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#انسان #ہدایت #فرصتیں #اوقات #مقدس #مقامات #برکت #معنویت #عرفہ #دعا #اسلامی #تاریخ
2m:31s
12680
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam
khamenei,
rahbar,
zilhajah,
mhena,
ba
barikat,
barekat,
insa,
safar,
muqadas,
fazilat,
imam
hussain,
imam
ali,
dua,
arefa,
islami,
tarikh,
waqiat,
munasibaat,
kirdar,
rehbar,
manavi,
allah,
khudawand,
nabi
e
akram,
rabt,
muhammad,
بعثتِ رسول اکرمؐ کی اہمیت | امام خامنہ...
نگاہ عشق مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسٰیں وہی طہٰ
رسول اکرم...
نگاہ عشق مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسٰیں وہی طہٰ
رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی بعثت درحقیقت تاریکی میں ڈوبی ہوئی دنیا میں ایک الہی نور و روشنی تھی کہ جس کا اجالا ہر طرف پھیل گیا اور جہالت اور ظلم و ستم سے پُر عَالَم میں علم اور عدل و انصاف کی صدا گونجنے لگی۔ اِس مبارک دِن کی نوید گذشتہ انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اپنی امتوں کو سنائی تھی اور امتیں اِسی منجی اور رحمۃ اللعالمین کے انتظار میں تھیں۔ پیغمبر اکرمؐ کی تعلیمات انسان میں رشد و نمو، حرکت، تکمیلِ انسانیت اور ارتقاء پیدا کرتی ہیں، بعثتِ رسول اکرمؐ اسلامی تعلیمات اور معرفت دین ہے۔
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #روز_بعثت #عظمت #اہمیت #رسول_اکرم #واقعہ #ایمان #نصرت #توریت #انجیل #نھج_البلاغہ #احمد
3m:12s
12492
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
besat,
rasul,
ehmiyat,
sayyid
ali
khamenei,
ishq,
quran,
furqan,
yaseen,
taha,
masti,
mohammad,
tareeki,
noor,
jehalat,
dushmani,
raushni,
zulm,
sitam,
insaaf,
ambiya,
ummat,
naved,
rahmatullil
aalameen,
intezar,
talimat,
insan,
rushd,
namu,
harkat,
takmeel,
insaniyat,
irteqa,
islami
taleemaat,
marefate
deen,
مناجات شعبانیہ کا ایک جملہ! | ولی امرِ...
مُناجاتِ شَعبانیہ حضرت علیؑ سے منقول وہ مناجات ہے جسے آپؑ کے بعد تمام آئمہؑ...
مُناجاتِ شَعبانیہ حضرت علیؑ سے منقول وہ مناجات ہے جسے آپؑ کے بعد تمام آئمہؑ پابندی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ اس مناجات کو اللہ کے صالح ترین بندوں کا اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز کا کامل ترین نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ شیعیان اہل بیت عام طور پر ماہ شعبان میں مناجات شعبانیہ کی قرائت کا اہتمام کرتے ہیں۔
یہ مناجات آئمہ کی سطح کی دعا ہے یعنی اس کی سطح بہت بلند ہے۔ انسان جب اس دعا کو پڑھتا ہے، سمجھتا ہے کہ اسلام میں راز و نیاز کی روح درحقیقت ہے کیا؟ اس دعا میں عرفان اور خدا کے ساتھ عشق و محبت، اور غیر اللہ سے منقطع ہونے کے سوا، کچھ نہیں ہے، اور مختصر یہ کہ مکمل طور پر معنویت اور روحانیت ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ہے، حتی اس میں ایسی عبارات ہیں جن کے ادراک کا تصور بھی ہمارے لئے بہت مشکل ہے:
الهى! هَبْ لى كَمالَ الْانْقِطاعِ الَيْكَ وَانِرْ ابْصارَ قُلوبِنا بِضِياءِ نَظَرِها الَيْكَ۔۔۔(مطهری، مجموعه آثار، ج22، ص734-733)
اِس مناجات کا ایک جملہ ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی زبانی سننے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #مناجات_شعبانیہ #ایک_جملہ #رحمت #تیری_بارگاہ #توکل #سایہ #عفو #مغفرت #دامن
0m:41s
12300
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
manajat,
sha\'baniyya,
jumla,
waliamr,
muslimeen,
sayyid,
ali,
khamenei,
hazrat,
Ali,
manqool,
aima,
pabandi,
Allah,
saleh,
bandy,
raz,
niyaz,
namoona,
shia,
ahlebayt,
qira\'at,
ehtamam,
buland,
dua,
Islam,
irfan,
rooh,
khuda,
ishq,
muhabbat,
munqata,
ibaraat,
adraak,
tasawur,
تقویٰ، امّتِ اسلامی کی کامیابی کا راستہ...
قرآن مجید اور احادیثِ شریفہ میں متعدد بار تقویٰ کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔...
قرآن مجید اور احادیثِ شریفہ میں متعدد بار تقویٰ کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔ تقویٰ یعنی اپنے نفس کو بُری صفات اور آلودگیوں سے بچانا۔ تقویٰ یعنی اپنے اوپر تسلط پانا اور نفس کے زندان سے رہائی پانا۔ تقویٰ کسی محدودیت کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی حفاظت کا نام ہے۔ قرآنی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق تقویٰ انسان کی دنیاوی اور اخروی مشکلات کے حل کی چابی ہے۔ تقویٰ درحقیقت شہوت اور نفس سے نجات اور حقیقی آزادی کے لیے ایک الہی منصوبہ ہے۔ اسلامی معاشرہ تقویٰ کے زیور سے مزین ہوکر نہ فقط اپنے نفس کے تسلط سے آزادی پا سکتا ہے بلکہ دنیا کی شیطانی اور ظالم و جابر طاقتوں کے شر، ظلم و ستم سے بھی نجات پا سکتا ہے۔
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کیا فرماتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #تقوی #دعوت #راہ_گشا #پروا #غیر_خدا #غیر_الہی_طاقتیں #توجہ #کامیابی_کے_راستے #پیش_قدمی #رشد #ارتقاء
1m:50s
12152
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
taqwa,
ummat
islami,
kamyabi,
sayyid
ali
khamenei,
quran,
hadith,
hadis,
nafs,
buri
sifaat,
aaludgi,
tasallut,
rehai,
hifazat,
zindan,
islami
talimaat,
insan,
dunyawi,
ukhrawi,
mushkilat,
shehwat,
najaat,
haqiqi
azadi,
ilahi
mansuba,
shaytani
taaqat,
zalim,
jabir,
zulm,
sitam,
rushd,
irteqa,
insane
kamil,
خدا کے دین کی نصرت، انسان کے لئے خدا کی...
انسان کو چاہیے کہ اپنی پوری زندگی خدا اور اس کے دین کی راہ میں وقف کردے، جب انسان...
انسان کو چاہیے کہ اپنی پوری زندگی خدا اور اس کے دین کی راہ میں وقف کردے، جب انسان الہی بن جاتا ہے اور ہمیشہ اس کے دین کی خدمت اور نصرت میں رہتا ہے تو کوئی اور طاقت اس پر غالب نہیں آسکتی، خدا اسے ہمیشہ اپنی نصرت اور مدد عنایت کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں قرآن کی وہ کونسی آیت ہے جسے سنہری لفظوں میں لکھ کر ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے.
خدا کی نصرت اور مدد انسان کے کب شامل حال ہوتی ہے؟ قوموں میں تبدیلی کب اور کیسے آتی ہے؟ اور قرآن مجید اس سلسلے میں کیا فرماتا ہے؟ ایرانی ملت کو کیسے خدا کی فتح اور نصرت حاصل ہوئی؟ ایرانی ملت نے عملی طور پر کس چیز کو آزمایا اور اس کا تجربہ کیا؟
اگر انسان ایک قدم بڑھائے تو خدا اس سلسلے میں اس کی کتنی مدد کرتا ہے؟
ان تمام سوالات کے جواب اس وڈیو میں ملاحظہ کریں۔
#زندگی #دین #وقف #الہیٰ #نصرت #غالب #قرآن #سنہری #تبدیلی #فتح #تجربہ #مدد
3m:0s
12067
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
din,
nusrat,
insan,
imam
Syed
Ali
Khamenei,
imam
Khamenei,
zendagi,
taqat,
Quran,
quran
majid,
iran,
melat,
fath,
tajarba,
vaqf,
ghaleb,
madad,
آج اسرائیل محاصرے میں ہے | امام سید علی...
اس میں شک نہیں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا ناپاک وجود ایک ایسے کینسر کے رسولی...
اس میں شک نہیں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا ناپاک وجود ایک ایسے کینسر کے رسولی کی طرح ہے جو بسا اوقات انسان کے جسم کے کسی حصے میں پیدا ہوتی ہے اگر برقت اسکا علاج نہ کیا جائے تو پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لیکر بدن کے تمام اعضاء کی بربادی کا سبب قرار پاسکتی ہے، اور آج اقوام عالم کو اس حقیقت کا علم ہوچکا ہے اور انکی جانب سے اس ناسور کے خلاف رد عمل بھی سامنے آرہاہے، اس جعلی ریاست کی کوشش یہ تھی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا چاروں طرف سے محاصرہ کرے مگر آج خود بطور کامل مقاومتی بلاک کے محاصرے میں آچکی ہے اور وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور 60 سال سے فلسطینیوں کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی کوشش کرنے والی یہ جعلی ریاست خود تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے اور اگراسلامی کے سرکردہ سپاہی سستی کا مظاہرہ نہ کریں اور اپنی توجہ فلسطین سے نہ ہٹا دیں تو بہت جلد اسرائیل کا دم گھٹنے والا ہے اور فلسطین کو اس کے چنگل سے آزادی کا پروانہ ملنے والا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں مزید آگاہی کیلئے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو کوضروردیکھئے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اسرائیل #محاصرہ #جعلی_صیہونی_حکومت #کینسر #فلسطین #تحریک #یوم_القدس #سرکردہ #طمانچہ #ایران #پیغام #وعدہ #اسلامی_جمہوری_نظام
3m:4s
12003
Video Tags:
yaum
al
Quds,
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Israel,
muhasray,
imam,
syed
Ali
KHAMENEI,
video,
Israel,
muhasAra,
cancer,
Palestine,
tehreek,
sarkardah,
tamacha,
Iran,
paigham,
vaada,
اسرائیل
,
محاصرے,
امام
سید
علی
خامنہ
ای,
یوم
النکبۃ
عدل و انصاف، امام زمانہؑ کی عظیم ذمہ...
ہے عشق کے هونٹوں په سدا نام تمهارا
هم سب هیں تیرے طالب دیدار کهاں هو
ولی امرِ...
ہے عشق کے هونٹوں په سدا نام تمهارا
هم سب هیں تیرے طالب دیدار کهاں هو
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عدل و انصاف کے حوالے سے امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی عظیم ذمہ داری کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آج دنیا کے اربوں انسانوں کی کیا حالت ہے؟ عصرِ حاضر میں انسان کس چیز سے محروم ہے؟ کونسی دو چیزیں انسان کے لیے عظیم نعمت ہیں؟ کیا عقل اور تجربے کے ذریعے تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں؟ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے عدالت کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے؟ آج بے عدالتی، جنگ، تجاوز اور کمزور اقوام پر تسلط کے لیے کس چیز کا استعمال کیا جا رہا ہے؟ عصرِ حاضر کی مشکلات کے حل کے لیے کس طاقت کی ضرورت ہے؟ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی ایک عظیم ذمہ داری کیا ہے؟ امام زمانہ علیہ السلام زندگی کے کن شعبوں میں عدالت قائم فرمائیں گے؟ تمام الہی ادیان کو کس چیز کا وعدہ دیا گیا ہے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #مشکلات #سکون #پریشانی #اضطراب #ترقی #نعمت #عقل #تجربہ #گرہیں #عدالت #سائنس #ٹیکنالوجی #الہی_طاقت #بقیۃ_اللہ #آگاہانہ #غیر_آگاہانہ #وعدہ
4m:32s
11995
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
adl,
insaaf,
imame
zamana,
azeem,
zimmedari,
sayyid
ali
khamenei,
ishq,
insan,
mehroom,
halat,
nemat,
aql,
tajruba,
azeem,
masael,
science,
technology,
be
adalati,
jang,
tajawuz,
kamzor
aqwam,
tasallut,
istemaal,
mushkilat,
taaqat,
adalat,
zindagi,
adyaan,
waada,
ilahi
adyan,
baqyatullah,
izterab,
pareshani,
sukoon,
مجالس سید الشہداءؑ اور قیام 15 خرداد |...
واقعہ عاشورہ اور سید الشہداء امام حسین کی بے مثال و مظلومانہ قربانی فقط تاریخ کے...
واقعہ عاشورہ اور سید الشہداء امام حسین کی بے مثال و مظلومانہ قربانی فقط تاریخ کے اوراق کی زینت نہ بنی بلکہ یہ عظیم قربانی اسلام حقیقی یعنی اسلام محمدی کے لیے ایک نئی زندگی اور تا ابد جاودانگی کا سبب بنی. اس عظیم قربانی نے ایک عظیم کربلائی اور عاشورائی مکتب تشکیل دیا جو ہمیشہ انسانی معاشروں میں نئی روح پھونکنے کا سبب بنتا رہے گا. اس الہی مکتب نے ایسے جوانوں کی تربیت کی جو وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کے مذموم و شیطانی عزائم کے مقابل ہمیشہ استقامت کی عملی مثال بنتے رہیں گے جو مادی لذات سے منہ موڑ کر شہادت کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں. اس عظیم قربانی نے ایسی ماوں کی تربیت کی جو الہی اہداف کے حصول کے لیے اپنے جوانوں کو اپنے لاڈلوں کو میدان کار زار بھیجنا اپنے لیے سعادت سمجھتی ہیں. سید مظلومان امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کی یاد یعنی مجالس عزا، سینہ زنی اور عزاداری اس عظیم الہی و حسینی انسان ساز مکتب کو زندہ رکھنے کا وسیلہ بیں. یہی عزاداری اور سینہ زنی تھی جس کی بدولت اسلامی انقلاب کا نور دنیا میں چمکا اور اس انقلاب کی بنیاد بنا. 15 خرداد (ایرانی مہینہ) جس میں انہی مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے ہزاروں شہادتیں دیں اور اپنے خون سے اس الہی انقلاب کی آبیاری کی جو کہ منجی عالم بشریت کے ظہور کا مقدمہ ہے.
اس بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سننے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #امام_خمینی #مجالس_سید_الشہداء #قیام #سینہ_زنی #نوحہ_خوانی #خون #طاقت #سید_مظلومان #مجالس_عزا #سوگواری #اظہار_مظلومیت #جوانوں_کی_تربیت #شہادت #ماوں_کی_تربیت #شہادت_پر_افتخار
2m:45s
11778
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
khomeini,
sina
zani,
azdari,
majalis,
majalis
sayyid
al
shohada,
shohada,
shaheed,
nowha,
nawha,
nawha
khawni,
khon,
taqat,
mazloom,
javan,
tarbiat,
shahadat,
15
khordad,
عزاداری کے پیغام کو سمجھنے کی ضرورت |...
سن اکسٹھ ہجری کو معرض وجود میں آنے والا کربلا کا واقعہ، تمام عزاداروں کیلئے پیغام...
سن اکسٹھ ہجری کو معرض وجود میں آنے والا کربلا کا واقعہ، تمام عزاداروں کیلئے پیغام کا حامل ہے لہذا امام حسین علیہ السلام پر گریہ اورعزاداری کرتے وقت ہرعزادار کو عزاداری کے پیغام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد حاصل ہوسکے۔
بسا اوقات انسان عزاداری تو کرتا ہے مگر مقصد عزاداری سےغافل رہتا ہے جس کے نتیجے میں عزاداری سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں اسی لئے اگرعزاداری سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ہوتوعزاداری کا پیغام سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پرچلتے ہوئےانسان ہر دور کے یزید کا مقابلہ کرسکے۔
یہ ویڈیو ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی زبانی عزاداری اور امام حسین علیہ السلام پر بہائے جانے والےاشکوں کے پیغام کی اہمیت پر مشتمل ہے۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #عزاداری #پیغام #امام_حسین #ایام #غفلت #از_تبیین_تا_قیام
0m:47s
11509
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
imam,
imam
husyn,
imam
khamenei,
madahi,
noha,
mosiqi,
insan,
zendegi,
azadari,
shenakht,
hefazat,
imam,
imam
sayyid
ali
khamenei,
imam
khamenei,
azdari,
azdari
ke
paigham
ko
samajne
ki
zarorat,
ذهنتان را از تفکرات غربی خالی کنید - Short...
در قرن نوزدهم جنبشهایی در حمایت از زنان برای اعطای حقوق اولیهای همچون حق رأی،...
در قرن نوزدهم جنبشهایی در حمایت از زنان برای اعطای حقوق اولیهای همچون حق رأی، حق تحصیل و حق درآمد آنها شکل گرفت. با اینکه در نهایت در معدود کشورهایی زنان به این حقوق دست یافتند. در سال ۲۰۱۶ مجمع جهانی اقتصاد اعلام کرد که زنان در طی ۱۷۰ سال آینده به برابری اقتصادی با مردان دست خواهند یافت؛ یعنی حدود دو قرن تا برابری دستمزد طول خواهد کشید. این در حالی است که همچنان یونسکو در اسناد خود بر اشتغال هرچه بیشتر زنان تأکید میکند، این سازمان دولت لوکزامبورگ را متهم کرد که چرا در رسانههایش مردان را بعنوان سرپرست خانواده و زنان را بعنوان مادر و خانهدار تصویرسازی میکند. به استونی هم هشدار داد که نباید کودکان بین ۳ تا ۶ سال در خانه نگهداری شوند بلکه باید به مهدکودکها بروند تا مانع اشتغال مادرانشان نشوند! سیاست برابری جنسی سابقهای طولانی دارد. پایگاه اطلاعرسانی KHAMENEI.IR براساس بخشهایی از بیانات رهبر انقلاب این موضوع را در مستند «ذهنتان را از تفکرات غربی خالی کنید» منتشر میکند.
بخشهایی از بیانات رهبر انقلاب که در این فیلم مشاهده میکنید:
«در نگاه غربی زن وسیلهای برای اطفای شهوت است؛ این غیر قابل کتمان است. این را اگر کسی ادّعا بکند ممکن است کسانی جنجال کنند که نه آقا اینجور نیست؛ لیکن زندگی آنها را که انسان نگاه میکند، اساساً این نگاه حاکم است. در محیط اجتماعی هرچه زن پوشش کمتری داشته باشد، مطلوبتر است. در مورد مرد این حرف را نمیزنند؛ در مهمانی رسمی، مرد بایستی با لباس کامل، پاپیون زده و کت و شلوار پوشیده و احیاناً لباس رسمی وارد بشود؛ امّا خانمها در این مهمانیهای رسمی بایستی به شکل دیگری ظاهر بشوند؛ این جز برای اینکه چشم هرزهی هوسآلود مرد بهرهمند بشود، هیچ فلسفهی دیگری و حکمت دیگری ندارد؛ امروز در دنیای غرب اینجوری است؛ و عملاً بزرگترین ظلمی که امروز در دنیای غرب به زنان میشود، از این قبیل است.» ۱۳۹۳/۰۱/۳۰
«در اروپایی که زن حقّ مالکیّت نداشت و مایملک زن متعلّق به مرد و شوهرش بود، و حقّ تصرّف در مایملک خود نداشت یا از وقتی که دموکراسی در غرب راه افتاده بود زن حقّ رأی دادن نداشت، در یک چنین دنیایی ناگهان مسئلهی انقلاب صنعتی و کارخانجات و حضور مؤثّر شاغل زن در کارخانجات با خرج کمتر برای سرمایهدارها مطرح شد. آنوقت آمدند برای زن حقّ مالکیّت قائل شدند، برای اینکه بتوانند او را به کارخانه بکشانند، به او مزد کمتری بدهند، و طبعاً آمدن او به میدان اشتغال الزامات خودش را داشت و دنبالههای خودش را تا امروز داشت.» ۱۳۹۳/۰۱/۳۰
«اولا تفکّرات آنها، تفکّراتی است مبتنی بر معرفتشناسی مادّی و غیرالهی، که این خودش یک غلطی است... اگر میخواهید دربارهی مسئلهی زن راهبرد درست را پیدا کنید و این راهبرد را با اجرائیّات و الزامات اساسی آن همراه کنید و در بلندمدّت پیش بروید و به نتیجه برسید، باید ذهنتان را از تفکّرات غربی در مورد زن تخلیه کنید. نمیگویم بیاطّلاع بمانیم، نه؛ ما طرفدار بیاطّلاعی نیستیم، بنده طرفدار آگاهی و آشنایی هستم، امّا مرجعیّت آن افکار را بکلّی رد کنیم.» ۱۳۹۳/۰۱/۳۰
6m:17s
11315
انقلاب کی مہک سرحدوں سے بالاتر | امام...
اسلام محمدی کا آفتاب ایک انقلاب کی صورت میں دنیا میں چمکا. جس طرح آفتاب کی روشنی...
اسلام محمدی کا آفتاب ایک انقلاب کی صورت میں دنیا میں چمکا. جس طرح آفتاب کی روشنی ہر ذی حیات کو حیات بخشتی ہے، جس طرح بہار کے چمن کی خوشبو کی مہک ہر ذی حیات کو تازگی بخشتی ہے، اسی طرح اسلام محمدی کی خالص تعلیمات مردہ معاشروں کو حیات بخشتی ہیں. دنیا کی ابلیسی طاقتوں نے اسلام کی نورانی کرنوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اسلام کے نام پر اسلام کی بھیانک تصویر دنیا کو دکھانے کی کوشش کی لیکن خاندان رسالت اور مکتب عاشورہ کے پیروکاروں نے اسلامی انقلاب کی شکل میں خالص محمدی اسلام کی حیات بخش تعلیمات کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور دنیا کی ابلیسی طاقتوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے. آج انقلاب کی مقاومتی، الہی اور انسانی تعلیمات سرحدوں سے بالاتر ہر زندہ ضمیر انسان کے دل کی آواز بنتی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ منجی بشریت کے ظہور تک انشاء اللہ جاری و ساری رہے گا.
اس بارے میں ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے استفادہ کرنے کے لیے اس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #انقلاب #مہک #سرحدوں_سے_بالاتر #ملت #پسند #قابل_قبول #مقاومت #فکر #عقیدہ #مشرقی_ایشیا #مشترکہ_بات #طاقتور_محاذ #بہار #خوشبو
2m:39s
11242
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
enqelab,
mahak,
imam,
imam
khamenei,
rahbar,
islam,
aftab,
islam
muhammadi,
shaytani
taqat,
maktab
ashura,
hayat,
muqavemat,
insan,