[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
31715
[ARABIC] كلمة الإمام الخامنئي في إفتتاح...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و...
كلمة قائد الثورة الاسلامية الإمام الخامنئي في المؤتمر العالمي لعلماء الدين و الصحوة الإسلامية
29/04/2013
بسم الله الرحمن الرحيم
و الحمد لله رب العالمين، و الصلاة و السلام على سيدنا محمد المصطفى، و آله الأطيبين و صحبه المنتجبين، و من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
أرحب بكم أيها الضيوف الأعزاء، و أسأل الله العزيز الرحيم أن يبارك في هذا الجهد الجماعي، و أن يجعله شوطاً فاعلاً على طريق حياة أفضل للمسلمين إنه سميع مجيب.
موضوع الصحوة الإسلامية الذي ستتناولونه في هذا المؤتمر هو اليوم في رأس قائمة قضايا العالم الإسلامي و الأمة الإسلامية.. إنه ظاهرة عظيمة لو بقيت سليمة و تواصلت بإذن الله لاستطاعت أن تقيم الحضارة الإسلامية في أفق ليس ببعيد للعالم الإسلامي و من ثَمّ للبشرية جمعاء.
إنّ البارز أمام أعيننا اليوم، و لا يستطيع أي إنسان مطّلع و ذي بصيرة أن ينكره هو أن الإسلام اليوم قد خرج من هامش المعادلات الاجتماعية و السياسية في العالم، و اتخذ مكانة بارزة و ماثلة في مركز العناصر الفاعلة لحوادث العالم، ليقدم رؤية جديدة على ساحة الحياة و السياسة و الحكم و التطورات الاجتماعية. و يشكل ذلك، في عالمنا المعاصر الذي يعاني بعد هزيمة الشيوعية و الليبرالية من فراغ فكري و نظري عميق، ظاهرةً ذات مغزى و أهمية بالغة.
و هذا أول أثر تركته الحوادث السياسية و الثورية في شمال أفريقيا و المنطقة العربية على الصعيد العالمي، و يبشّر بدوره ببروز حقائق أكبر في المستقبل.
إنّ الصحوة الإسلامية التي يتجنب ذكرها المتحدثون باسم جبهة الاستكبار و الرجعية، بل يخافون أن يجري اسمها على ألسنتهم، هي حقيقة نرى معالمها اليوم في أرجاء العالم الإسلامي كافة. و أبرز معالمها تطلع الرأي العام و خاصة فئة الشباب إلى إحياء مجد الإسلام و عظمته، و وعيهم لحقيقة نظام الهيمنة العالمية، و انكشاف الوجه الخبيث و الظالم و المستكبر لحكومات و دوائر أنشبت أظفارها الدامية لأكثر من قرنين في المشرق الإسلامي و غير الإسلامي، و جعلت مقدرات الشعوب عرضة لنزعتها الشرسة و العدوانية نحو الهيمنة، و ذلك بنقاب المدنية و الحضارة.
أبعاد هذه الصحوة المباركة واسعة غاية السعة و ذات امتداد رمزي، و لكن ما حققته من حاضر العطاء في بعض بلدان شمال أفريقيا من شأنه أن يجعل القلوب واثقة بمعطيات مستقبلية كبرى و هائلة. إن تحقق معاجز الوعود الإلهية يحمل دائماً معه دلالات أمل يبشّر بتحقق وعود أكبر. و ما يحكيه القرآن الكريم عن الوعدين الإلهيين لأمّ موسى هو نموذج من هذه السنة الربانية.
إذ في تلك اللحظات العسيرة، حيث صدر الأمر بإلقاء الصندوق حامل الرضيع في اليمّ، جاء الخطاب الإلهي بالوعد: (إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ). (1) إن تحقق الوعد الأول، و هو الوعد الأصغر الذي شدّ على قلب الأم، أصبح منطلقاً لتحقق وعد الرسالة، و هو أكبر بكثير، و يستلزم طبعاً تحمّل المشاق و المجاهدة و الصبر الطويل: (فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ...). (2) هذا الوعد الحقّ هو تلك الرسالة الكبرى التي تحققت بعد سنين و غيّرت مسيرة التاريخ.
و من النماذج الأخرى التذكير بالقدرة الإلهية الفائقة في قمع المهاجمين للكعبة، و الذي ورد في القرآن بلسان الرسول الأعظم (ألم يجعل كيدهم في تضليل) (3) و ذلك لتشجيع المخاطبين علی امتثال الأمر الالهي: (فليعبدوا رب هذا البيت). (4)
و في موضع آخر يذكّر سبحانه رسوله بما أغدقه عليه من نعم تشبه المعجزة: (أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى، وَ وَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى)، ليكون ذلك وسيلة لتقوية معنويات نبيّه الحبيب و إيمانه بالوعد الإلهي في قوله: (مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى)، (5) و مثل هذه الأمثلة كثيرة في القرآن الكريم.
حين انتصر الإسلام في إيران، و استطاع أن يفتح قلاع أمريكا و الصهيونية في أحد أكثر البلدان حساسية من هذه المنطقة المهمة بامتياز، عَلِم أهل العبرة و الحكمة أنهم إذا انتهجوا طریق الصبر و البصيرة فإن فتوحات أخرى ستتعاقب علیهم، و قد تعاقبت فعلاً.
الحقائق الساطعة في الجمهورية الإسلامية و التي يعترف بها الأعداء قد تحققت بأجمعها في ظل الثقة بالوعد الإلهي و الصبر و المقاومة و الاستمداد من ربّ العالمين. شعبنا كان يرفع دائماً صوته بالقول: (كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ)، (6) أمام وساوس الضعفاء الذين كانوا يردّدون في الفترات الحرجة: (إِنَّا لَمُدْرَكُونَ). (7)
هذه التجربة الثمینة هي اليوم في متناول الشعوب التي نهضت بوجه الاستكبار و الاستبداد، و استطاعت أن تسقط أو تزلزل عروش الحكومات الفاسدة الخاضعة و التابعة لأمريكا. الثبات و الصبر و البصيرة و الثقة بالوعد الإلهي في قوله سبحانه: (وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ)، (8) بإمكانها أن تمهّد طريق العزّ هذا أمام الأمة الإسلامية حتى تصل إلى قمة الحضارة الإسلامية.
إنني في هذا الاجتماع الهام لعلماء الأمة بمختلف أقطارهم و مذاهبهم أرى من المناسب أن أبيّن عدة نقاط ضرورية حول قضايا الصحوة الإسلامية:
الأولى: إن الأمواج الأولى للصحوة في بلدان هذه المنطقة، و التي اقترنت ببدايات دخول الغزو الاستعماري، قد انطلقت غالباً على يد علماء الدين و المصلحين الدينيين. لقد خلدت صفحات التاريخ و للأبد أسماء قادة و شخصيات بارزة من أمثال السيد جمال الدين الأسد آبادي، و محمد عبده، و الميرزا الشيرازي، و الآخوند الخراساني، و محمود الحسن، و محمد علي، و الشيخ فضل الله النوري، و الحاج آقا نور الله، و أبي الأعلى المودودي، و عشرات من كبار علماء الدين المعروفين و المجاهدين و المتنفذين من إيران و مصر و الهند و العراق. و يبرز في عصرنا الراهن اسم الإمام الخميني العظيم مثل كوكب ساطع على جبين الثورة الإسلامية في إيران. و كان لمئات العلماء المعروفين و آلاف العلماء غير المعروفين في الحاضر و الماضي دور في المشاريع الإصلاحية الكبيرة و الصغيرة على ساحة مختلف البلدان. و قائمة المصلحين الدينيين من غير علماء الدين كحسن البنا و إقبال اللاهوري هي طويلة أيضاً و مثيرة للإعجاب.
و قد كانت المرجعيّة الفكريّة لعلماء الدين و رجال الفكر الديني بدرجة و أخرى، و في كل مكان. لقد كانوا سنداً روحياً قوياً للجماهير، و حيثما قامت قيامة التحولات الكبرى ظهروا في دور المرشد و الهادي، و تقدموا لمواجهة الخطر في مقدمة صفوف الحراك الشعبي، و ازداد الارتباط الفكري بينهم و بين الناس، و ازداد معه تأثيرهم في دفع الناس نحو الطريق الصحيح. و هذا له من الفائدة و البركة لنهضة الصحوة الإسلامية بمقدار ما يجرّ على أعداء الأمة و الحاقدين على الإسلام و المعارضين لسيادة القيم الإسلامية من انزعاج و امتعاض ما يدفعهم إلى محاولة إلغاء هذه المرجعية الفكرية للمؤسسات الدينية و استحداث أقطاب جديدة عرفوا بالتجربة أنها يمكن المساومة معها بسهولة على حساب المبادئ و القيم الدينية. و هذا ما لا يحدث إطلاقاً مع العلماء الأتقياء و رجال الدين الملتزمين.
إن هذا يضاعف ثقل مسؤولية علماء الدين. فعليهم أن يسدّوا الطريق أمام الاختراق بفطنة و دقة متناهية و بمعرفة أساليب العدوّ الخادعة و حيله، و أن يحبطوا مكائده. إن الانشداد للموائد الملوّنة بمتاع الدنيا من أكبر الآفات. و التلوث بهبات أصحاب المال و السلطة و عطاياهم، و الارتباط المادي بطواغيت الشهوة و القوة من أخطر عوامل الانفصال عن الناس و التفريط بثقتهم و محبتهم. الأنانية و حبّ الجاه الذي يجرّ الضعفاء إلى أقطاب القوة يشكّلان أرضية خصبة للتلوث بالفساد و الانحراف. لا بدّ أن نضع نصب أعيننا قوله سبحانه: (تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ). (9)
إننا اليوم، في عصر حراك الصحوة الإسلامية و ما تبعثه في النفوس من أمل، نشاهد أحيانًا مساعي خدم أمريكا و الصهيونية لاصطناع مرجعيات فكرية مشبوهة من ناحية، و مساعي الغارقين في المال و مستنقع الشهوات لجرّ أهل الدين و التقوى إلى موائدهم المسمومة الملوثة من ناحية أخرى.
فعلى علماء الدين و الرجال المتدينين و المحافظين على الدين أن يراقبوا هذه الأمور بشدة و دقّة.
المسألة الثانية، ضرورة رسم هدف بعيد المدى للصحوة الإسلامية في البلدان المسلمة يوضع أمام الجماهير ليكون البوصلة في حركتها للوصول إليه. و بمعرفة هذا الهدف يمكن رسم خريطة الطريق و تحديد الأهداف القريبة و المتوسطة. هذا الهدف النهائي لا يمكن أن يكون أقل من إقامة «الحضارة الإسلامية المجيدة». الأمة الإسلامية، بكل أجزائها في إطار الشعوب و البلدان، يجب أن تعتلي مكانتها الحضارية التي يدعو إليها القرآن الكريم.
إن من الخصائص الأصلية و العامة لهذه الحضارة استثمار أبناء البشر لجميع ما أودعه الله في عالم الطبيعة و في وجودهم من مواهب و طاقات مادية و معنوية لتحقيق سعادتهم و سموّهم. و يمكن، بل و ينبغي مشاهدة مظاهر هذه الحضارة في إقامة حكومة شعبية، و في قوانين مستلهمة من القرآن، و في الاجتهاد و تلبية الاحتياجات المستحدثة للبشر، و في رفض الجمود الفكري و الرجعية، ناهيك عن البدعة و الالتقاط، و في إنتاج الرفاه و الثروة العامة، و في استتباب العدل، و في التخلص من الاقتصاد القائم على الاستئثار و الربا و التكاثر، و في إشاعة الأخلاق الإنسانية، و في الدفاع عن المظلومين في العالم، و في السعي و العمل و الابداع.
و من مستلزمات هذا البناء الحضاري النظرة الاجتهادية و العلمية للساحات المختلفة بدء من العلوم الإنسانية و نظام التربية و التعليم الرسمي، و مروراً بالاقتصاد و النظام المصرفي، و انتهاء بالإنتاج الصناعي و التقني و وسائل الإعلام الحديثة و الفن و السينما، بالإضافة إلى العلاقات الدولية و غيرها من الساحات.
و تدلّ التجربة علی أن كل ذلك ممكن و في متناول مجتمعاتنا بطاقاتها المتوفرة. لا يجوز أن ننظر إلى هذا الأفق بنظرة متسرعة أو متشائمة. التشاؤم في تقويم قدراتنا كفران بنعم الله، و الغفلة عن الإمداد الإلهي و دعم سنن الكون انزلاق في ورطة : (الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ). (10)
نحن قادرون على أن نكسر حلقات الاحتكارات العلمية و الاقتصادية و السياسية لقوى الهيمنة، و أن نجعل الأمة الإسلامية سبّاقة لإحقاق حقوق أكثرية شعوب العالم التي هي اليوم مقهورة أمام أقلية مستكبرة.
الحضارة الإسلامية بمقوماتها الإيمانية و العلمية و الأخلاقية، و عبر الجهاد الدائم، قادرة علی أن تقدم للأمة الإسلامية و للبشرية المشاريع الفكرية المتطورة و الأخلاق السامية، و أن تكون منطلق الخلاص من مظالم الرؤية المادية للكون و من الأخلاق الغارقة في مستنقع الرذيلة التي تشكل أركان الحضارة الغربية القائمة.
المسألة الثالثة: في إطار حركات الصحوة الإسلامية يجب الاهتمام باستمرار بالتجربة المرّة و الفظيعة التي تركتها التبعية للغرب على السياسة و الأخلاق و السلوك و نمط الحياة.
البلدان الإسلامية خلال أكثر من قرن من التبعية لثقافة الدول المستكبرة و سياستها قد مُنيت بآفات مهلكة مثل الذيلية و الذلة السياسية و الفقر الاقتصادي و تهاوي الأخلاق و الفضيلة، و التخلف العلمي المُخجِل، بينما الأمة الإسلامية تمتلك تاريخاً مشرقاً من التقدم في جميع هذه المجالات.
هذا الكلام لا ينبغي اعتباره مناصبة العداء للغرب، نحن لا نكنّ العداء لأية مجموعة إنسانية بسبب تمايزها الجغرافي. نحن تعلمنا من الإمام علي (عليه السلام) ما قاله عن الإنسان أنه: «إمّا أخ لك في الدين أو نظير لك في الخلق». (11) اعتراضنا إنما هو على الظلم و الاستكبار و التحكم و العدوان و الفساد و الانحطاط الأخلاقي و العملي الذي تمارسه القوى الاستعمارية و الاستكبارية ضد شعوبنا. و نحن الآن أيضاً نشاهد تحكّم و تدخل و تعنّت أمريكا و بعض ذيولها في المنطقة داخل البلدان التي تحوّل فيها نسيم الصحوة إلى نهوض عاصف و إلى ثورة. وعود هؤلاء و توعّداتهم يجب أن لا تؤثر في قرارات و مبادرات النخب السياسية و في الحركة الجماهيرية العظيمة.
و هنا أيضاً يجب أن نتلقى الدروس من التجارب. أولئك الذين انشدّت قلوبهم لسنوات طويلة بوعود أمريكا و جعلوا الركون إلى الظالم أساساً لنهجهم و سياستهم لم يستطيعوا أن يحلّوا مشكلة من مشاكل شعبهم أو أن يبعدوا ظلماً عنهم أو عن غيرهم. بل إن هؤلاء باستسلامهم لأمريكا لم يستطيعوا أن يحولوا دون هدم بيت فلسطيني واحد على الأقل في إرض هي ملك للفلسطينيين.
الساسة و النخب المخدوعة بالتطميع أو المرعوبة بتهديد جبهة الاستكبار و الذين يخسرون فرصة الصحوة الإسلامية يجب أن يخشوا ما وجهه الله سبحانه إليهم من تهديد إذ قال: (أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَ أَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ). (12)
المسألة الرابعة: إن أخطر ما يواجه حركة الصحوة الاسلامية اليوم هو إثارة الخلافات و دفع هذا الحراك نحو صدامات دموية طائفية و مذهبية و قومية و محلیة. هذه المؤامرة تتابع أجهزة الجاسوسية الغربية و الصهيونية تنفيذها اليوم بجدٍ و اهتمام في منطقة تمتد من شرق آسيا حتى شمال أفريقيا، و خاصة في المنطقة العربية، بدعم من دولارات النفط و الساسة المأجورين. و الأموال التي یمکن استخدمها في تحقيق رفاه خلق الله، تُنفق في التهديد و التكفير و الاغتيال و التفجير و إراقة دم المسلمين و إضرام نيران الأحقاد الدفينة. أولئك الذين يرون في قوة اتحاد المسلمين مانعاً لتطبيق أهدافهم الخبيثة رأوا في إثارة الخلافات داخل الأمة الإسلامية أيسر طريق لتنفيذ أهدافهم الشيطانية، و جعلوا من اختلاف وجهات النظر في الفقه و الكلام و التاريخ و الحديث، و هو اختلاف طبيعي لا يمكن اجتنابه، ذريعة للتكفير و سفك الدماء و الفتنة و الفساد.
نظرة فاحصة لساحة النزاعات الداخلية تكشف بوضوح يد العدوّ وراء هذه المآسي. هذه اليد الغادرة تستثمر دون شك الجهل و العصبية و السطحية في مجتمعاتنا، و تصبّ الزيت على النار. مسؤولية المصلحين و النخب الدينية و السياسية في هذا الخضمّ ثقيلة جداً.
ليبيا بشكل، و مصر و تونس بشكل أخر، و سوريا بشكل، و باكستان بشكل أخر، و العراق و لبنان بشكل، تعاني اليوم أو في معرض المعاناة من هذه النيران الخطرة. لا بدّ من المراقبة الشديدة و البحث عن العلاج.
من السذاجة أن نعزو كل ذلك إلى عوامل و دوافع عقائدية أو قومية. الدعاية الغربية و الإعلام الإقليمي التابع و المأجور يصوّران الحرب المدمّرة في سورية بأنها نزاع سنّي ــ شيعي، و يوفران بذلك مساحة آمنة للصهاينة و أعداء المقاومة في سوريا و لبنان. بينما النزاع في سوريا ليس بين طرفين سني و شيعي، بل بين أنصار المقاومة ضد الصهيونية و معارضي هذه المقاومة. ليست حكومة سوريا حكومة شيعية، و لا المعارضة العلمانية المعادية للإسلام مجموعة سنية، إنما المنفذون لهذا السيناريو المأساوي كانوا بارعين في قدرتهم على استغلال المشاعر الدينية للسذج في هذا الحريق المهلك. نظرة إلى الساحة و الفاعلين فيها على المستويات المختلفة توضّح هذه المسألة لكل إنسان منصف.
هذه الموجة الإعلامية تؤدّي دورها بشكل آخر في البحرين لاختلاق الكذب و الخداع. في البحرين هناك أكثرية مظلومة محرومة لسنوات طويلة من حق التصويت و سائر الحقوق الأساسية للشعب، قد نهضت للمطالبة بحقها. ترى هل يصحّ أن نعتبر الصراع شيعيا سنياً لأن هذه الأكثرية المظلومة من الشيعة، و الحكومة المتجبّرة العلمانية تتظاهر بالتسنّن ؟!
المستعمرون الأوربيون و الأمريكيون و من لفّ لفهم في المنطقة يريدون طبعاً أن يصوّروا الأمر بهذا الشكل، و لكن أهذه هي الحقيقة؟!
هذا ما يستدعي من جميع علماء الدين المصلحين و المنصفين أن يقفوا تجاهه بتأمّل و دقة و شعور بالمسؤولية، و يحتّم عليهم أن يعرفوا أهداف العدو في إثارة الخلافات الطائفية و القومية و الحزبية.
المسألة الخامسة: إن سلامة مسيرة حركات الصحوة الإسلامية يجب أن نبحث عنها، فيما نبحث، في موقفها تجاه قضية فلسطين. منذ ستين عاماً حتى الآن لم تنزل على قلب الأمة الإسلامية كارثة أكبر من اغتصاب فلسطين.
مأساة فلسطين منذ اليوم الأول حتى الآن كانت مزيجاً من القتل و الارهاب و الهدم و الغصب و الإساءة للمقدسات الإسلامية. وجوب الصمود و النضال أمام هذا العدو المحارب هو موضع اتفاق جميع المذاهب الإسلامية و محل إجماع كل التيارات الوطنية الصادقة و السليمة.
إنّ أيّ تيار في البلدان الإسلامية يتناسى هذا الواجب الديني و الوطني انصياعاً للإرادة الأمريكية المتعنتة أو بمبررات غير منطقية يجب أن لا يتوقع غير التشكيك في وفائه للإسلام و في صدق ادعاءاته الوطنية.
إنّ هذا هو المحكّ. كل من يرفض شعار تحرير القدس الشريف و إنقاذ الشعب الفلسطيني و أرض فلسطين، أو يجعلها مسألة ثانوية و يدير ظهره لجبهة المقاومة، فهو متّهم.
الأمة الإسلامية يجب أن تضع نصب عينيها هذا المؤشر و المعيار الواضح الأساسي في كل مكان و زمان.
أيها الضيوف الأعزاء.. أيها الإخوة و الأخوات..
لا تبعدوا عن أنظاركم كيد العدوّ، فإن غفلتنا توفّر الفرصة للعدوّ.
إنّ درس الإمام علي (عليه السلام) لنا هو أنه: «من نام لم يُنَم عنه». (13) تجربتنا في الجمهورية الإسلامية هي بدورها مليئة بدروس العبرة في هذا المجال. إذ بعد انتصار الثورة الإسلامية في إيران، بدأت الحكومات الغربية و الأمريكية المستكبرة التي كانت منذ أمد بعيد تسيطر على طواغيت إيران و تتحكم في المصير السياسي و الاقتصادي و الثقافي لبلدنا، و تستهين بالقوة الضخمة للايمان الإسلامي في داخل المجتمع، و كانت غافلة عن قوة الإسلام و القرآن في التعبئة و التوجيه، بدأت تفهم فجأة ما وقعت فيه من غفلة، فتحركت دوائرها السيادية و أجهزتها الاستخبارية و مراكز صنع القرار فيها لِتَجبُرَ ما مُنيت به من هزيمة فاحشة .
رأينا خلال هذه الأعوام التي تربو علی الثلاثين أنواع المؤامرات و المخططات، و الذي بدّد مكرهم أساساً هو عاملان: الثبات على المبادئ الإسلامية، و الحضور الجماهيري في الساحة.
هذان العاملان هما مفتاح الفتح و الفَرَج في كل مكان. العامل الأول يضمنه الإيمان الصادق بالوعد الإلهي، و العامل الثاني سيبقى ببركة الجهود المخلصة و البيان الصادق. الشعب الذي يؤمن بصدقِ قادته و إخلاصهم يجعل الساحة فاعلة بحضوره المبارك. و أينما بقي الشعب في الساحة بعزم راسخ فإن أية قدرة ستكون عاجزة عن إنزال الهزيمة به. هذه تجربة ناجحة لكل الشعوب التي صنعت بحضورها الصحوة الإسلامية.
أسأل الله تعالى لكم و لكل الشعوب أن يسددكم و يأخذ بأیدیکم و يعينكم و يغدق عليكم شآبيب رحمته إنه تعالى سميع مجيب.
و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.
الهوامش:
1 - سورة القصص، الآیة 7 .
2 - سورة القصص، الآیة 13 .
3 - سورة الفیل، الآیة 2 .
4 - سورة قریش، الآیة 3 .
5 - سورة الضحی، الآیة 3 .
6 - سورة الشعراء، الآیة 62 .
7 - سورة الشعراء، الآیة 61 .
8 - سورة الحج، الآیة 40 .
9 - سورة القصص، الآیة 83 .
10 - سورة الفتح، الآیة 6 .
11 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 53 .
12 - سورة إبراهیم، الآیتان 28 و 29 .
13 - نهج البلاغة، الکتاب رقم 62 .
Source: http://arabic.khamenei.ir//index.php?option=com_content&task=view&id=1569
39m:39s
15393
Altyazılı Hizbullah Marşı | Hayhat Ya Mahtal | Uzak Dur Ey İşgalci...
Lübnan Hizbullahı Marşı (Hayhat Ya Mahtal | Uzak Dur Ey İşgalci) Türkçe Altyazılı Olarak Hizmetinizdedir.
Arabic Words\\\\...
Lübnan Hizbullahı Marşı (Hayhat Ya Mahtal | Uzak Dur Ey İşgalci) Türkçe Altyazılı Olarak Hizmetinizdedir.
Arabic Words\\\\
هيهات يا محتل هيهات منا الذل
هيهات الارض لي ربتنا ننساها ونهدم قلعتنا
بالدم منكتب عزتنا منموت وما مننذل
هيهات يا محتل هيهات منا الذل
هيهات الارض لي ربتنا ننساها ونهدم قلعتنا
بالدم منكتب عزتنا منموت وما مننذل
لا مكان للتراجع لا مكان للضعف لا مكان للذل هيهات منا الذلة
هيهات الضخر الصامد بجبال بلادي يلين
وتنام عيون مجاهد عن جيش المحتلين
نحنا عشاق شهادي قوت وعزم وارادة
عالجبهة كل بلادي النصر علينا بتدل
هيهات يا محتل هيهات منا الذل
على حب الارض ربينا من يوم لي كنا صغار
ودروب المجد مشينا وكبار بقينا كبار
لما الهمة شدينا كيد الطامع ردينا
موطنا الغالي علينا بربوعوا رح منضل
هيهات يا محتل هيهات منا الذل
هيهات الارض لي ربتنا ننساها ونهدم قلعتنا
بالدم منكتب عزتنا منموت وما مننذل
2m:39s
5373
Allah Kisi Qaum Ko Fazilat Ata Karny Kay Baad Kyun Zaleel-o-Ruswa Karta...
الله کسی قوم کو فضیلت عطا کرنے کے بعد کیوں ذلیل و رسوا کرتا ہے؟ || قرآن پڑھنے والے...
الله کسی قوم کو فضیلت عطا کرنے کے بعد کیوں ذلیل و رسوا کرتا ہے؟ || قرآن پڑھنے والے عبرت لیں! || آیاتٌ بیّناتٌ || سورۃ بقرہ آیت ۶۱ || حافظ سید محمد حیدر نقوی
Allah Kisi Qaum Ko Fazilat Ata Karny Kay Baad Kyun Zaleel-o-Ruswa Karta Hay? || Quran Parhny Waly Ibrat Lain! || Ayaat-un-Bayyinaat || Surah-e-Bqra Ayat 61 || Hafiz Syed Muhammad Haider Naqvi
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٦١﴾
Spread the message!
Share this video!
#BaniIsrael #Ayaat_un_Bayyinaat #SyedMuhammadHaiderNaqvi
10m:7s
1888