[Full Speech URDU] رہبر معظم سید علی خامنہ ای :...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012...
\"اسلامی بیداری اور نوجوان نسل\" عالمی کانفرنس کے مندوبین سے خطاب
30-01-2012
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بہمن سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے \"نوجوان نسل اور اسلامی بیداری\" کے زیر عنوان تہران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صیہونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بہترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تہتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پہنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ہمت مسلم نوجوان نے خود کو ہر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ہوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا متناہی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر تکیہ کرنا ہے۔ انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گہوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظر آ رہی ہے، قرآن میں نظر آ رہی ہے، وحی الہی پر استوار مکتب فکر میں نظر آ رہی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پہنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نہایت اہم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔ آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صیہونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ہو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے«ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں مگر رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ہو جائے گی تو بہت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کرا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستا بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم رہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا اسلامی امہ کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صیہونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ہر طرف سے اسے تقویت پہنچائی اور مطمئن ہو رہے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ہمت و شجاعت، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اہداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ہوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہئے کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باہر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ہوئے ہے اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہوگا اور سرانجام پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے پرے تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ کہہ دیا کہ \"آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی میں پڑے رہے اور پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ہمارے اندر پھیلایا گيا وہ ہمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناہی اور ان کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر تھا۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جہاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاہدتوں اور بہنے والے لہو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہئے، آپ محتاط رہئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے کیا اور ہر دفعہ انہیں منہ کی کھانی پڑی، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست ہوگی۔ یہ ہم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و تردد نہیں ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں داخل ہو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رہنا چاہئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نہیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نہیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، ہدف کا تعین کر لینا چاہئے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہی ہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہئے، یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سب \"اپنے\" لوگ ہیں۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔ مقصد کیا ہے؟ یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رہنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بہت محتاط رہئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رہنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یہی کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ہو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اہمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ہمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ہستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1) حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
2) فتح: 20، اللہ نے تم سے بہت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ہوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ہی تم کو بہرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ہاتھ تم تک پہنچنے سے روک دیئے کہ اہل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
3) عنكبوت: 69، اور جنہوں نے ہمارے لئے جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کر دیں گے۔
4) آلعمران: 160، اگر اللہ تمہاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نہیں آ سکے گا۔
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رہا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جہنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
9) شعار «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
12) شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»
19m:22s
31722
[URDU] Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei - HAJJ Message 2011
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام...
حجاج بیت اللہ الحرام
کےنام
امام خامنہ ای(مدظلہ العالی)
کا
پیــــــغام
(1432ھ)
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہاں پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی یاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کے اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آیات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دیا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خداداد طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے، جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دھوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے حتی الامکان مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص و ھمدرد حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو، خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے یا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین، بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زیادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ، جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان 1390ھ ش
29 ذیقعدہ 1432 ھ
10m:25s
21708
[29 April 2013] سخنرانی امام خامنه ای - علماء و...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe...
بيانات در اجلاس جهانی علما و بيدارى اسلامى
عربی | اردو | English | Spanish | French | Türkçe
تهران، سالن اجلاس سران
بسماللهالرّحمنالرّحيم
و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا محمّد المصطفى و ءاله الأطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
به شما ميهمانان عزيز خوشامد ميگويم و از خداوند عزيز و رحيم ميخواهم كه به اين تلاش جمعى بركت دهد و آن را گام مؤثرى در جهت بهروزى مسلمانان سازد. «انّه سميع مجيب«.
موضوع «بيدارى اسلامى» كه شما در اين اجلاس به آن خواهيد پرداخت، امروزه در صدر فهرست مسائل جهان اسلام و امت اسلامى است؛ پديدهى شگرفى است كه اگر باذن الله سالم بماند و ادامه يابد، قادر خواهد بود سربرآوردنِ تمدناسلامى را در چشماندازى نه چندان دوردست، براى امت اسلامى و آنگاه براى جهان بشريت رقم زند.
آنچه امروز در برابر چشم ما است و هيچ انسان مطّلع و هوشمندى نميتواند آن را انكار كند، آن است كه اكنون اسلام از حاشيهى معادلات اجتماعى و سياسى جهان خارج شده و در مركز عناصر تعيينكنندهى حوادث عالم، جايگاهى برجسته و نمايان يافته است و نگاه تازهاى را در عرصهى زندگى و سياست و حكومت و تحولات اجتماعى عرضه ميكند؛ و اين در دنياى كنونى كه پس از شكست كمونيزم و ليبراليزم، دچار خلأ عميق فكرى و نظرى است، پديدهاى مهم و پرمعنى به شمار ميرود. اين نخستين اثرى است كه حوادث سياسى و انقلابى در شمال آفريقا و منطقهى عربى، در مقياس جهانى بر جاى گذاشته است، و خود مبشّر حقايق بزرگترى است كه در آينده اتفاق خواهد افتاد.
بيدارى اسلامى كه سخنگويان جبههى استكبار و ارتجاع حتّى از به زبان آوردن نام آن نيز پرهيز ميكنند و ميترسند، حقيقتى است كه اكنون تقريباً در سراسر دنياى اسلام ميتوان نشانههاى آن را ديد. بارزترين نشانهى آن، اشتياق افكار عمومى و بويژه در قشرهاى جوان، به احياء مجد و عظمت اسلام و آگاه شدن آنان از ماهيت نظام سلطهى بينالمللى و آشكار شدن چهرهى وقيح و ستمگر و مستكبر دولتها و كانونهائى است كه بيش از دويست سال شرق اسلامى و غيراسلامى را در زير پنجههاى خونين خود فشرده و با نقاب تمدن و فرهنگ، هستى ملتها را دستخوش قدرتطلبىِ بيرحمانه و تجاوزگرانهى خود كردهاند.
ابعاد اين بيدارى مبارك بسى گسترده و داراى امتدادى رمزگونه است؛ ولى آنچه از دستاوردهاى نقد آن در چند كشور شمال آفريقا ديده شد، ميتواند دلها را به نتائج بزرگ و شگرف آينده به اطمينان برساند. همواره تحقق معجزگون وعدههاى الهى، نشانهى اميدبخشى است كه تحقق وعدههاى بزرگتر را نويد ميدهد. حكايت قرآن از دو وعدهاى كه خداوند به مادر موسى داد، نمونهاى از اين تاكتيك ربوبى است.
در آن هنگامهى دشوار كه فرمان به آب افكندن صندوق حامل نوزاد داده شد، خطاب الهى وعده فرمود كه: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(1) تحقق وعدهى اول كه وعدهى كوچكتر و مايهى دلخوشى مادر بود، نشانهى تحقق وعدهى رسالت شد، كه بسى بزرگتر و البته مستلزم رنج و مجاهدت و صبر بلندمدت بود: «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد الله حقّ».(2) اين وعدهى حق، همان رسالت بزرگ است كه پس از چند سال تحقق يافت و مسير تاريخ را تغيير داد.
نمونهى ديگر، يادآورى قدرت فائقهى الهى در سركوب مهاجمان به بيت شريف است، كه خداوند به وسيلهى پيامبر اعظم، براى تشويق مخاطبان، به امتثال امرِ: «فليعبدوا ربّ هذا البيت»(3) به كار ميبَرد و ميفرمايد: «أ لم يجعل كيدهم فى تضليل».(4)
يا براى تقويت روحى پيامبر محبوبش و باور وعدهى : «ما ودّعك ربّك و ما قلى»،(5) از يادآورى نعمت معجزگون : «أ لم يجدك يتيما فأوى. و وجدك ضالّا فهدى» بهره ميگيرد. و چنين نمونههائى در قرآن بسيار است.
آن روز كه اسلام در ايران پيروز شد و توانست دژ آمريكا و صهيونيزم را در يكى از حساسترين كشورهاى اين منطقهى بسيار حساس فتح كند، اهل عبرت و حكمت دانستند كه اگر صبر و بصيرت را به كار گيرند، فتوحات ديگر پىدرپى فرا خواهد رسيد؛ و فرا رسيد.
واقعيتهاى درخشان در جمهورى اسلامى كه دشمنان ما بدان اعتراف ميكنند، همه در سايهى اعتماد به وعدهى الهى و صبر و مقاومت و استمداد از خداوند به دست آمده است. مردم ما همواره در برابر وسوسهى ضعفائى كه در مقاطع اضطرابانگيز، نداى: «انّا لمدركون»(6) سر ميدادند، نهيب زدهاند كه : «كلاّ انّ معى ربّى سيهدين».(7)
امروز اين تجربهاى گرانبهاء در دسترس ملتهائى است كه در برابر استكبار و استبداد قد علم كرده و توانستهاند حكومتهاى فاسد و گوشبهفرمان و وابسته به آمريكا را سرنگون ساخته يا متزلزل كنند.
ايستادگى و صبر و بصر و اعتماد به وعدهى: «و لينصرنّ الله من ينصره انّ الله لقوىّ عزيز»(8) خواهد توانست اين مسير افتخار را تا رسيدن به قلهى تمدن اسلامى، در برابر امت اسلامى هموار كند.
اكنون در اين جلسهى مهم كه جمعى از علماى امت از كشورها و مذاهب گوناگون اسلامى در آن حضور يافتهاند، شايسته ميدانم به بيان چند نكتهى لازم در مسائل بيدارى اسلامى بپردازم:
اولين مطلب آن است كه نخستين امواج بيدارى در كشورهاى اين منطقه كه همزمان با آغاز ورود پيشقراولهاى استعمار آغاز شد، غالباً به وسيلهى علماى دين و مصلحان دينى پديد آمد. نام رهبران و شخصيتهاى برجسته چون سيدجمالالدين و محمد عبده و ميرزاى شيرازى و آخوند خراسانى و محمود الحسن و محمدعلى و شيخ فضلالله و حاج آقا نورالله و ابوالاعلى مودودى و دهها روحانى معروف بزرگ و مجاهد و متنفذ از كشورهاى ايران و مصر و هند و عراق در صفحات تاريخ براى هميشه ثبت و ضبط است.
در دوران معاصر هم نام درخشان «امام خمينى» عظيم چون ستارهى پرفروغى بر تارك انقلاب اسلامى ايران ميدرخشد. در اين ميان، صدها عالم معروف و هزاران عالم غيرمعروف نيز، امروز و ديروز، نقشآفرين حوادث اصلاحىِ بزرگ و كوچك در كشورهاى گوناگون بودهاند. فهرست مصلحان دينى از قشرهاى غيرروحانى همچون حسنالبناء و اقبال لاهورى نيز بلند و اعجابانگيز است.
روحانيان و رجال دينشناس كمابيش در همه جا مرجع فكرى و سنگ صبور روحى مردم بودهاند و هرجا كه در هنگامهى تحولات بزرگ، در نقش هدايتگر و پيشرو ظاهر شده و در پيشاپيش صفوف مردم در مواجهه با خطرات حركت كردهاند، پيوند فكرى ميان آنان و مردم افزايش يافته و انگشت اشارهى آنان در نشان دادن راه به مردم، اثرگذارتر بوده است. اين به همان اندازه كه براى نهضت بيدارى اسلامى داراى سود و بركت است، براى دشمنان امت و كينهورزان با اسلام و مخالفان حاكميت ارزشهاىاسلامى ، دغدغهآفرين و نامطلوب است و سعى ميكنند اين مرجعيت فكرى را از پايگاههاى دينى سلب كرده و قطبهاى جديدى براى آن بتراشند؛ كه به تجربه دريافتهاند كه با آنان ميتوان بر سر اصول و ارزشهاى ملى براحتى معامله كرد! چيزى كه در مورد عالمان باتقوا و رجال دينىِ متعهد هرگز اتفاق نخواهد افتاد.
اين، وظيفهى عالمان دين را سنگينتر ميكند. آنها بايد با هوشيارى و دقت فراوان، و با شناخت شيوهها و ترفندهاى فريبندهى دشمن، راه نفوذ را بكلى ببندند و فريب دشمن را ناكام كنند. نشستن بر سفرهى رنگين متاع دنيا، از بزرگترين آفتها است. آلوده شدن به صله و احسانِ صاحبان زر و زور و نمكگير شدن در برابر طاغوتهاى شهوت و قدرت، خطرناكترين عامل جدائى از مردم و از دست دادن اعتماد و صميميت آنها است. منيّت و قدرتطلبى كه سستعنصران را به گرايش به سوى قطبهاى قدرت فرا ميخواند، بستر آلودگى به فساد و انحراف است. اين آيهى قرآن را همواره بايد در گوش داشته باشند كه: «تلك الدّار الأخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين».(9)
امروز در دوران حركتهاى اميدبخش بيدارى اسلامى، گاه صحنههائى ديده ميشود كه نمايشگر تلاش عملهى آمريكا و صهيونيسم براى تراشيدن مرجعيتهاى فكرىِ نامطمئن از يك سو، و تلاش قارونهاى شهوتران براى كشاندن اهل دين و تقوا بر سر بساط مسموم و آلودهى خود، از سوى ديگر است. علماى دين و رجال ديندار و دينمدار، بايد بشدت مراقب و دقيق باشند.
دومين نكته، لزوم ترسيم هدف بلندمدت براى بيدارى اسلامى در كشورهاى مسلمان است؛ نقطهى متعالى و والائى كه بيدارى ملتها را بايد سمت و سو دهد و آنان را به آن نقطه برساند. با شناسائى اين نقطه است كه ميتوان نقشهى راه را ترسيم كرد و هدفهاى ميانى و نزديك را در آن مشخص نمود.
اين هدف نهائى نميتواند چيزى كمتر از «ايجاد تمدن درخشان اسلامى» باشد. امت اسلامى با همهى ابعاض خود در قالب ملتها و كشورها، بايد به جايگاه تمدّنىِ مطلوب قرآن دست يابد. شاخصهى اصلى و عمومى اين تمدن، بهرهمندى انسانها از همهى ظرفيتهاى مادى و معنوىاى است كه خداوند براى تأمين سعادت و تعالى آنان، در عالم طبيعت و در وجود خود آنان تعبيه كرده است. آرايش ظاهرى اين تمدن را در حكومت مردمى، در قوانين برگرفته از قرآن، در اجتهاد و پاسخگوئى به نيازهاى نوبهنوى بشر، در پرهيز از تحجر و ارتجاع و نيز بدعت و التقاط، در ايجاد رفاه و ثروت عمومى، در استقرار عدالت، در خلاص شدن از اقتصاد مبتنى بر ويژهخوارى و ربا و تكاثر، در گسترش اخلاق انسانى، در دفاع از مظلومان عالم، و در تلاش و كار و ابتكار، ميتوان و بايد مشاهده كرد. نگاه اجتهادى و عالمانه به عرصههاى گوناگون، از علوم انسانى تا نظام تعليم و تربيت رسمى، و از اقتصاد و بانكدارى تا توليد فنى و فناورى، و از رسانههاى مدرن تا هنر و سينما، و تا روابط بينالملل و غيره و غيره، همه از لوازم اين تمدنسازى است.
تجربه نشان داده است كه اينها همه، كارهاى ممكن و در دسترس توانائيهاى جوامع ما است. نبايد با نگاه شتابزده يا بدبينانه به اين چشمانداز نگريست. بدبينى به توانائيهاىخود، كفران نعمت الهى است؛ و غفلت از امداد الهى و كمك سنتهاى آفرينش، فرو لغزيدن به ورطهى: «الظّانّين بالله ظنّ السّوء»(10) است. ما ميتوانيم حلقهى انحصارات علمى و اقتصادى و سياسىِ قدرتهاى سلطهگر را بشكنيم و امت اسلامى را پيشروِ احقاق حق اكثريت ملتهاى جهان كه اينك مقهور اقليت مستكبرند، باشيم.
تمدن اسلامى ميتواند با شاخصههاى ايمان و علم و اخلاق و مجاهدت مداوم، انديشهى پيشرفته و اخلاق والا را به امت اسلامى و به همهى بشريت هديه دهد و نقطهى رهائى از جهانبينى مادى و ظالمانه و اخلاقِ به لجن كشيدهاى كه اركان تمدن امروزىِ غربند، باشد.
مطلب سوم آن است كه در نهضتهاى بيدارى اسلامى بايد تجربهى تلخ و دهشتناك تبعيت از غرب در سياست و اخلاق و رفتار و سبك زندگى، مورد توجه دائم باشد. كشورهاى مسلمان در بيش از يك قرن تبعيت از فرهنگ و سياست دولتهاى مستكبر، به آفات مهلكى همچون وابستگى و ذلت سياسى، فلاكت و فقر اقتصادى، سقوط فضيلت و اخلاق، عقبماندگى خجلتآور علمى، دچار شدند؛ و اين در حالى بود كه امت اسلامى از سابقهاى افتخارانگيز در همهى اين عرصهها برخوردار بود.
اين سخن را نبايد به معنى دشمنى با غرب دانست. ما با هيچ گروهى از انسانها به خاطر تمايز جغرافيائى، دشمنى نداريم. ما از على (عليهالسّلام) آموختهايم كه در بارهى انسانها فرمود : «امّا اخ لك فى الدّين او نظير لك فى الخلق».(11) ادعانامهى ما، عليه ظلم و استكبار، و تحكّم و تجاوز، و فساد و انحطاط اخلاقى و عملى است كه از سوى قدرتهاىاستعمارى و استكبارى بر ملتهاى ما وارد شده است. هماكنون نيز تحكّمها و دخالتها و زورگوئيهاى آمريكا و برخى دنبالهروانش در منطقه را در كشورهائى كه نسيم بيدارى در آنها به طوفان قيام و انقلاب بدل شده است، مشاهده ميكنيم.
وعدهها و وعيدهاى آنان نبايد در تصميمها و اقدامهاى نخبگان سياسى و در حركت عظيم مردمى اثر بگذارد. در اينجا نيز بايد از تجربهها درس بياموزيم. آنها كه در طول ساليان به وعدههاى آمريكا دل خوش كرده و ركون به ظالم را مبناى مشى و سياست خود ساختند، نتوانستند گرهى از كار ملت خود بگشايند، يا ستمى را از خود يا ديگران برطرف كنند. آنها با تسليم در برابر آمريكا نتوانستند از ويرانىِ حتّى يك خانهى فلسطينى در سرزمينى كه متعلق به فلسطينيان است، جلوگيرى كنند. سياستمداران و نخبگانىكه فريفتهى تطميع يا مرعوب تهديد جبههى استكبار شوند و فرصت بزرگ بيدارى اسلامى را از دست دهند، بايد از اين تهديد الهى بيمناك باشند كه فرمود: «أ لم تر الى الّذين بدّلوا نعمت الله كفرا و احلّوا قومهم دار البوار. جهنّم يصلونها و بئس القرار».(12)
نكتهى چهارم آن است كه امروز يكى از خطرناكترين چيزهائى كه نهضت بيدارى اسلامى را تهديد ميكند، اختلافافكنى و تبديل اين نهضتها به معارضههاى خونين فرقهاى و مذهبى و قومى و ملّى است. اين توطئه هماكنون از سوى سرويسهاى جاسوسى غرب و صهيونيزم، با كمك دلارهاى نفتى و سياستمداران خودفروخته، از شرق آسيا تا شمال آفريقا و بويژه در منطقهىعربى ، با جد و اهتمام دنبال ميشود و پولى كه ميتوانست در خدمت بهروزى خلق خدا باشد، خرج تهديد و تكفير و ترور و بمبگذارى و ريختن خون مسلمانان و برافروختن آتش كينههاى درازمدت ميگردد. آنها كه قدرت يكپارچهى اسلامى را مانع هدفهاى خبيث خود ميدانند، دامنزدن به اختلافها در درون امت اسلامى را آسانترين راه براى مقصود شيطانى خود يافتهاند و تفاوتهاى نظرى در فقه و كلام و تاريخ و حديث را - كه طبيعى و اجتنابناپذير است - دستاويز تكفير و خونريزى و فتنه و فساد ساختهاند.
نگاه هوشمندانه به صحنهى درگيريهاى داخلى، دست دشمن را در پس اين فاجعهها بروشنى نشان ميدهد. اين دست غدّار، بىشك از جهلها و عصبيتها و سطحىنگرىها در ميان جوامع ما بهرهبردارى ميكند و بر روى آتش، بنزين ميريزد. وظيفهى مصلحان و نخبگان دينى و سياسى در اين ماجرا بسيار سنگين است.
اكنون ليبى به گونهاى، مصر و تونس به گونهاى، سوريه به گونهاى، پاكستان به گونهاى، و عراق و لبنان به گونهاى درگير يا در معرض اين شعلههاى خطرناكند. بايد بشدت مراقب و در پى علاج بود. سادهانديشى است كه اين همه را به عوامل و انگيزههاى عقيدتى و قومى نسبت دهيم. تبليغات غرب و رسانههاى منطقهاىِ وابسته و مزدور، جنگ ويرانگر در سوريه را نزاع شيعه و سنّى وانمود ميكنند و حاشيهى امنى براى صهيونيستها و دشمنان مقاومت در سوريه و لبنان پديد مىآورد. اين در حالى است كه دو طرف نزاع در سوريه، نه سنّى و شيعه، بلكه طرفداران مقاومت ضدصهيونيستى و مخالفان آنند. نه دولت سوريه يك دولت شيعى، و نه معارضهى سكولار و ضد اسلامِ آن يك گروه سنّىاند. تنها هنر گردانندگان اين سناريوى فاجعهآميز آن است كه توانستهاند از احساسات مذهبىِ سادهانديشان در اين آتشافروزى مهلك استفاده كنند. نگاه به صحنه و دستاندركاران سطوح مختلف آن، ميتواند مسئله را براى هر انسان منصفى روشن كند.
اين موج تبليغات در مورد بحرين نيز به گونهاى ديگر به دروغ و فريب سرگرم است. در بحرين، اكثريتى مظلوم كه سالهاى متمادى است از حق رأى و ديگر حقوق اساسىيك ملت، محرومند، به مطالبهى حق خود برخاستهاند. آيا چون اين اكثريتِ مظلوم شيعهاند و حكومت جبارِ سكولار، متظاهر به سنىگرى است، بايد اين را نزاع شيعه و سنّى دانست؟ استعمارگران اروپائى و آمريكائى و همپيالههاى آنان در منطقه البته ميخواهند چنين وانمود كنند، ولى آيا اين حقيقت است؟
اينها است كه علماى دين و مصلحان منصف را به تأمل و دقت و احساس مسئوليت فرا ميخواند و شناختن هدفهاى دشمنان در عمده كردن اختلافات مذهبى و قومى و حزبى را بر همه فرض ميسازد.
نكتهى پنجم آن است كه درستى مسير نهضتهاى بيدارى اسلامى را از جمله بايد در موضعگيرى آنان در قبال مسئلهى فلسطين جستجو كرد. از 60 سال پيش تاكنون داغىبزرگتر از غصب كشور فلسطين بر دل امت اسلامى نهاده نشده است. فاجعهى فلسطين از روز اوّل تاكنون، تركيبى از كشتار و ترور و ويرانگرى و غصب و تعرض به مقدسات اسلامى بوده است. وجوب ايستادگى و مبارزه در برابر اين دشمن حربى و غاصب، مورد اتفاق همهى مذاهب اسلامى و محلّ اجماع همهى جريانات صادق و سالمِ ملّى بوده است. هر جريانى در كشورهاى اسلامى كه اين وظيفهى دينى و ملى را به ملاحظهى خواست تحكّمآميز آمريكا يا به بهانهى توجيههاى غيرمنطقى، به دست فراموشى بسپارد، نبايد انتظار داشته باشد كه به چشم وفادارى به اسلام يا صداقت در ادعاى ميهندوستى به او نگريسته شود. اين يك محك است. هر كس شعار آزادى قدس شريف و نجات ملت فلسطين و سرزمين فلسطين را نپذيرد يا به حاشيه ببرد و به جبههى مقاومت پشت كند، متهم است. امت اسلامى بايد در همه جا و همه وقت، اين معيار و شاخصِ نمايان و اساسى را در مدنظر داشته باشد.
ميهمانان عزيز! برادران و خواهران!
كيد دشمن را هرگز از نظر دور مداريد. غفلت ما براى دشمنان ما فرصتآفرين است. درس على(عليهالسّلام) به ما اين است كه: «من نام لم ينم عنه».(13) تجربهى ما در جمهورى اسلامى در اين زمينه نيز عبرتآموز است. با پيروزى انقلاب اسلامى در ايران، دولتهاى مستكبر غربى و آمريكا كه مدتهاى مديد پيش از آن، طاغوتهاى ايرانى را در مشت خود گرفته و سرنوشت سياسى و اقتصادى و فرهنگى كشورمان را رقم ميزدند و نيروى پرقدرت ايمان اسلامى در درون جامعه را دستكم گرفته و از توان بسيج و هدايت اسلام و قرآن بىخبر مانده بودند، ناگهان به غفلت خود پى بردند و دستگاههاىحاكميتى و سرويسهاى اطلاعاتى و اتاقهاى فرمان آنان به كار افتادند تا شكست فاحش خود را جبران كنند.
انواع توطئهها و ترفندها را در اين سىوچند سال از آنان ديدهايم. چيزى كه مكر آنان را نقش بر آب كرده است، در اصل دو عامل اساسى است: ايستادگى بر سر اصول اسلامى، و حضور مردم در صحنه. اين دو عامل در همه جا كليد فتح و فرج است. عامل اوّل به وسيلهى ايمان صادقانه به وعدهى الهى، و عامل دوم به بركت تلاش مخلصانه و تبيين صادقانه تضمين ميشود. ملتى كه صدق و صميميت پيشوايان را باور كند، صحنه را از حضور پر بركت خود رونق ميبخشد؛ و هر جا كه ملت با عزم راسخ در صحنه بماند، هيچ قدرتى توان شكست دادن آن را نخواهد داشت. اين تجربهى موفقى براى همهى ملتهائى است كه با حضور خود بيدارى اسلامى را رقم زدند.
از خداوند متعال هدايت و دستگيرى و كمك و رحمتش را براى شما و همهى ملتهاى مسلمان مسئلت ميكنم.
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته
1) قصص: 7
2) قصص: 13
3) قريش: 3
4) فيل: 2
5) ضحى: 3
6) شعراء: 61
7) شعراء: 62
8) حج: 40
9) قصص: 83
10) فتح: 6
11) نهج البلاغه، نامهى 53
12) ابراهيم: 28 و 29
13) نهج البلاغه، نامهى 62
Source: http://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=22405
44m:15s
20616
معجزه عصر Miracle of Quran - An Illeterate Person Became Hafiz e...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and...
kazim karbalai kazim karbalai Miracle of Quran - An Illiterate Person Became Hafiz e Quran in one night iran pule ahanchi ulmas ayatullah and mujtehdeen examined and witnessed
http://moejezeasr.blogfa.com/
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نزول مجدد غیبی قرآن
بعد بیش از حدود 1300 سال از پیامبری
حضرت محمد مصطفی (ص)
بر کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی)
۱- موید حقانیت وجود خداوند، عالم غیب و رسالت نبی اسلام حضرت محمد (ص)
۲- موید حقانیت و همچنین کم و زیاد نشدن قرآن مجید (حتی به قدر و اندازه یک کلمه)
۳- موید حقانیت، روی دادن و آمدن هر آنچه که در قرآن مجید آمده است از قبیل
آمدن روز قیامت و برانگیخته شدن مردگان و محاسبه ذره ذره اعمال افراد،
ابدیت،عذاب و سختی جهنم، عظمت و ابدیت بهشت و ...
ین حادثه و معجزه عظیم دارای ویژگی هایی
به قرار ذیل می باشد
1- این اتفاق و رخ داد در مورد قرآن و نزول مجدد آن از عالم غیب و از جانب خداوند حکیم می باشد. تایید این رخ داد در حقیقت تایید وجود خداوند، عالم غیب، حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی (ص)، حقانیت تحریف نشدن قرآن و .... بوده و می باشد که نیاز حیاتی و داروی درمان دردهای نسل امروز بشر می باشد.
2- در حقانیت رخ داده شدن این حادثه حتی ذره ای تردید وجود ندارد به صورتی که در طول 38 سال در ایران و چند کشور خارجی چه علماء و مراجع شیعه و سنی و ما بقی مردم اجتماع او را مورد امتحان قرار دادند و بر حقانیت و راستی رخ داده شدن این معجزه بزرگ تایید نمودند و شهادت دادند و حداقل این را برای حقانیت این اتفاق می توان گفت که علماء و مراجع تقلید افرادی نیستند که این تایید جمعی آنها را بتوان زیر سوال برد و منکر شد و اسناد ویدیویی و مکتوب آن در دست می باشد.
۳- تسلط و توانایی کربلایی محمد کاظم کریمی بر قرآن آموختنی نبود که فردی بتواند این ادعا را بنماید که او این تسلط را با تلاش و یا نبوغ خود آموخته و به دست آورده است.
۴- این اتفاق در زمانه ما و در عصر ما رخ داده است و مربوط به زمانهای گذشته و خیلی دور نمی باشد.
اسنادی در ارتباط با این معجزه را با عناوین ذیل،
ی توانید از این پایگاه اینترنتی، دریافت و دانلود نمایید:
1- فیلم ساخته شده بر اساس داستان حقیقی زندگی محمد کاظم کریمی ( ساروقی ) در چهار قسمت
2- بیانات مرجع عالیقدر، آیت الله مکارم شیرازی (از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
3- فیلم مصاحبه با آیت الله خزعلی، عضو مجلس خبرگان رهبری(از شاهدان و تصدیق کنندگان رخ دادن این معجزه)
4- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در شبکه تلویزیونی المنار لبنان در دو قسمت
5- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در دانشگاه آزاد شهر مجلسی در شش قسمت
6- فیلم مصاحبه با دوستان و آشنایان کربلایی محمد کاظم کریمی (ساروقی) در شش قسمت
7- مصاحبه با فرزند ارشد کربلایی کاظم کریمی (ساروقی) در مرکز اسناد آستان قدس رضوی در شش قسمت
نوشته شده توسط در تاریخ یکشنبه بیست و دوم اردیبهشت 1392 با موضوع
Karbalai Kazem
Re revelation of the Quran ( Miracle of the Quran )
Kazem Karbalai Saruqi village in the central province of functions, in the year 1275 Hijri was born in a poor family and religion. The family\\\\\\\'s main occupation was agriculture. But due to lack of personal property he had to work in the fields of others
In that year he worked day after day, in passing through the village shrine between sleep and waking, Alshhvdy is subject to discovery. During which a whole section on the Holy Quran. Leaders have sought to verify this. After testing, it\\\\\\\'s wonderful to be acknowledged. The documents are available to them. Kazim Quran could be read from the ends first. If someone deliberately sang a verse that was wrong. Became blind later in life. The rest of the land was in 1336 Hijri New Qom was buried in the cemetery
Here is sarogh an ancient city. The great and faithful men like Karbalaey kazem saroghy lived in this terriorty. Professor Jafar Sobhany says:
In 1333 (A.H) it is said that aman who was 50 years old and illitrate could read qoran by heart and show the place of any verse in it but he couldn’t read any book or papper .karbalaek kazem saroghy said that he was learned it in a dream in fact, Qoran was inspired to him.
karbalaek kazem saroghy ‘s old son say: my father said that I was in shrine then two seyyed came there and learned me some thing that I didn’t know what is it: but I know it was Arabic. We went to see Mr sabery araky chaplam of the place Mr sabery araky asked him some questions. He understood that karbalaek kazem saroghy was illiterate. So he declared that it was a miracle and God give him the blessing.
Aiatollah Makarem Shirazi says: I wanted to know the cause of giving him the blessing. After studing, I understood that he was a farmer who followed religious laws like lawful, unlawful activities and pay a thithe of his wealth.
He went to Qom in 6 th of Moharam and died in 9 th of it
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
توضیحاتی در مورد این معجزه عظیم ( حافظ قرآن شدن کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی در یک لحظه )
داستان زندگی کربلایی کاظم قبل از روی دادن معجزه به
صورت غیبی حافظ قرآن شدنش
محمد کاظم کریمی ساروقی فرزند عبد الواحد، معروف به کربلایی کاظم در یکی از روستاهای دور افتاده اراک به نام ساروق ، از توابع فراهان اراک، در خانوادهای فقیر چشم به جهان گشود و پس از گذراندن ایام کودکی به کار کشاورزی و دامداری پرداخت. وی تقریبا همچون سایر مردم روستا از خواندن و نوشتن محروم بود و بهرهای از دانش و علم نداشت و با وجود علاقه به یاد گرفتن خواندن، نوشتن و آموزش قرآن، به علت عدم توانایی مالی پدر به مکتب نرفت و درس نخواند. یک سال، در ماه مبارک رمضان، مبلّغی از سوی آیتاللهالعظمی حاج شیخ عبدالکریم حایری به روستای ایشان میرود و در منبر و سخنرانی خود از نماز، خمس و زکات میگوید و در ضمن تاکید میکند که هر مسلمانی حساب سال نداشته باشد و حقوق مالی خویش را ندهد، نماز و روزهاش صحیح نیست. کسانی که گندمشان به حد نصاب برسد و زکات و حق فقرا را ندهند، مالشان به حرام مخلوط میگردد و اگر با عین پول آن گندمهای زکات نداده خانه یا لباس تهیه کنند، نماز در آن خانه و با آن لباس باطل است، وی همچنین تاکید میکند که مسلمان واقعی باید به احکام الهی و حلال و حرام خداوند توجه کند و زکات مالش را بدهد. محمد کاظم که میدانست ارباب و مالک ده، خمس و زکات نمیدهد، ابتدا به او تذکر میدهد، ولی او اعتنا نمیکند، از این رو، تصمیم میگیرد روستای خود را ترک کند و برای ارباب ده کار نکند، هر چه خویشان، به خصوص پدرش، بر ماندن وی پا فشاری میکنند، او حاضر نمیشود در آن روستا بماند و شبانه از ده فرار میکند و تقریبا سه سال برای امرار معاش در دهات دیگر به عملگی و خارکنی میپردازد، تا با دسترنج حلال گذران عمر کند. دقت شود که تقوای او و رعایت حلال و حرام در او به حدی بود که همسر خود را در روستا می گذارد و چند سال به شهر غربت می رود تا مال حلال به دست بیاورد. یک روز مالک ده از محل او مطلع میشود و برای او پیغام میفرستد که من توبه کردهام و خمس و زکات مالم را میدهم و از تو میخواهم که به ده برگردی و نزد پدرت بمانی. او به روستای خود بر میگردد و در زمینی که ارباب در اختیار او مینهد، مشغول کشاورزی میشود و از همان آغاز نیمی از گندمی را که در اختیارش نهاده شده بود، به فقرا میبخشد و بقیه را در زمین میافشاند. خداوند به زراعت او برکت میدهد، به حدی که فزونتر از حد معمول برداشت میکند. وی به شکرانه برکت یافتن زراعتش تصمیم میگیرد هر ساله نیمی از محصولش را بین فقرا تقسیم کند.
داستان چگونگی وقوع معجزه به صورت غیبی حافظ قرآن
شدن کربلایی کاظم (ره)
یک روز در سن 27 سالگی در زمان برداشت محصول، هنگامی که خرمنش را کوبیده بود، منتظر وزیدن باد میماند تا گندمها را باد دهد و کاه را از گندم جدا کند، ولی هر چه منتظر میماند باد نمیوزد. نا امیدانه به ده بر میگردد، در راه یکی از فقرای روستا او را میبیند و میگوید: «امسال چیزی از محصولت را به ما ندادی و ما را فراموش کردی». او میگوید: «خدا نکند که من فقرا را فراموش کنم! راستش، هنوز نتوانستهام محصولم را جمع کنم». آن فقیر خوشحال به ده بر میگردد، اما محمدکاظم دلش آرام نمیگیرد و آشفته حال به مزرعه باز میگردد و با زحمت زیاد، مقداری گندم را برای او جمع میکند و نیز قدری علوفه برای گوسفندانش میچیند و آنها را بر میدارد و روانه دهکده میشود. در راه بازگشت، برای رفع خستگی گندمها و علوفه را در کناری مینهد و روی سکوی درِ باغ امامزاده 72 تن، که نزدیک روستا قرار دارد، مینشیند. ناگاه میبیند که دو سید جوان عرب نورانی و بسیار خوش سیما، نزد او میآیند. وقتی به او میرسند، میگویند: محمدکاظم نمیآیی برویم در این امامزاده فاتحهای بخوانیم؟ او تعجب میکند که چطور آنها که هرگز او را ندیدهاند او را به اسم صدا میزنند؟ محمدکاظم میگوید: «آقا، من قبلاً به زیارت رفتهام و اکنون میخواهم به خانه برگردم» ولی آنها میگویند:« بسیار خوب، این علوفهها را کنار دیوار بگذار و با ما بیا فاتحهای بخوان. بنابراین محمدکاظم به دنبال آنها روانه امامزاده میشود» آن دو جوان مشغول خواندن چیزهایی میشوند که محمدکاظم نمیفهمد و ساکت کناری میایستد، یکی از آن آقایان می گوید که محمد کاظم به نوشته بالا نگاه بکن در این لحظه کربلایی کاظم می بیند که خطی به صورت نور دمیده شد و ناگاه مشاهده میکند که در اطراف سقف امامزاده، کلماتی از نور نوشته شده که قبلاً اثری از آن کلمات بر سقف نبود. یکی از آن دو به او میگوید:« کربلایی کاظم چرا چیزی نمیخوانی؟» او میگوید: «من نزد ملا نرفتهام و سواد ندارم.» آن سید میگوید: «تو باید بخوانی» تاکید می کند که باید بخوانی. سپس نزد محمدکاظم میآید و دست بر سینه او میگذارد و محکم فشار میدهد و میگوید: «حالا بخوان. محمدکاظم میگوید: «چه بخوانم؟» آن سید میگوید: «این طور بخوان: بسم اللهِ الرَّحمَنِ الرَّحِیم. إِنَّ رَبَّکُمُ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَواتِ وَالارضَ فِی سِتَّةِ أیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی اللَّیلَ النَّهَارَ یَطلُبُهُ حَثیثاً وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتِ بِأمرِهِ، ألاَ لَهُ الخَلقُ وَ الاَمرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ العَالمَیِنَ اعراف/ 54 . محمدکاظم آن آیه و چند آیة بعدی را به همراه آن سید میخواند و آن سید همچنان دست به سینة او میکشد، تا میرسند به آیة 59 که با این کلمات پایان می پذیرد:إنِّی اَخَافُ عَلَیکُم عَذَابَ یَومٍ عَظِیم.اعراف/59 محمدکاظم پس از خواندن آیات، سرش را بر میگرداند تا با آن آقا حرفی بزند، اما ناگهان میبیند که خودش تنها در داخل حرم ایستاده است و از نوشتههای روی سقف نیز چیزی بر جای نمانده است. در این موقع ترس و حالت مخصوصی به او دست میدهد و بیهوش بر زمین میافتد. صبح روز بعد که به هوش میآید، احساس خستگی شدید میکند و چیزی از ماجرا را به یاد نمیآورد. وقتی متوجه میشود که داخل امامزاده است، خودش را سرزنش میکند که چرا دست از کار کشیدهای و در امامزاده خوابیدهای!؟ بالاخره از جای بر میخیزد و از امامزاده خارج میشود و با بار علوفه و گندم به سوی ده و منزل حرکت میکند. در بین راه متوجه میشود که کلمات زیادی بلد است و ناخود آگاه آنها را زمزمه میکند و داستان آن دو جوان را به یاد میآورد و به خانه که بر می گرددو به خانه که می رسد پدرش به او می گوید که تو دیشب کجا بودی؟ ما همه جا را دنبالت گشتیم. در ادامه کربلایی کاظم می گوید که من دیشب در امامزادا بودم. پدر می گوید که تو چطور در امامزاده شب را گذراندی؟ چطور در امامزاده ای که چراغ ندارد و پر از مار و عقرب و جانور می باشد شب را گذراندی و نترسیدی؟ کربلایی کاظم گفت: دیشب اتفاقی برای من افتاد و دو نفر من را بردند آنجا و چیزی یادم دادند. پدر و مادرش مشکوک می شوند و احتمال می دهند که او جن زده شده باشد. در ادامه او را پیش همان واعظ روحانی ده می برند که ببیند چه اتفاقی برای او افتاده است؟ داستان را برای آن مبلغ روحانی روستا تعریف می کنند. آن روحانی می پرسد که حالا چه چیزی به تو یاد داده اند. کربلایی کاظم شروع می کند به خواندن. در آن موقع آن روحانی می گوید او قرآن می خواند و جن زده نشده است. قرآنی می آورند و هر جای قرآن را که باز می کنند و آیه ای می خوانند، می بینند که کربلایی کاظم قبل و بعدش را می داند و از حفظ می خواند. آنجا روحانی روستا می گوید که به کربلایی کاظم عنایتی شده است. روحانی روستا می گوید که برویم در امامزاده آن خطوطی را که کربلایی کاظم می گوید در سقف امامزاده دیده است ببینیم. وقتی می روند می بینند که نه اثری از خطی است و نوشته ی نورانی . آن نوشته نورانی فقط در آن لحظه وقوع معجزه بر کربلایی کاظم ظاهر شده بود.
داستان زندگی کربلایی کاظم پس از رویدادن معجزه نزول
مجدد غیبی قرآن بر او تا پایان حیات مبارکش
ملای روستا (( شیخ صابر )) شگفت زده این معجزه را تایید می کند و روستائیان، اهمیت این معجزه را تشخیص نداده جز اینکه گفتند محمد کاظم نظر کرده امام زاده ها شده است. این قضیه مهم به مرور زمان در روستا به فراموشی سپرده شد و هرگاه نیز ملای روستا به محمد کاظم می گفته تا به نزد علمای قم رفته و ایشان را مطلع نمایند، جواب میداده :میترسم ریاکاری شود و خداوند این موهبت را از من پس بگیرد . کربلایی محمد کاظم کریمی به مدت 13 سال این اتفاق را مخفی نگاه می دارد تا حدود 40 سالگی خود.
تا اینکه روزی در سفر به عتبات عالیات در طول مسیر پس از گرفتن اشتباه قرآنی دو طلبه و پرس و جوی آن دو طلبه از چگونگی این تسلط او بر قرآن، آن ماجرا فاش می شود. در شهر نجف با علمای اعلام مواجه و پس از امتحانات عدیده از او ، بر آنان یققین حاصل گشت که ایشان بدون داشتن سواد ، به امر الهی نه تنها حافظ کل قرآن کریم شده ، بلکه قادر است به تمام سوالات علوم قرآنی پاسخ بدهد و متقابلا علماء خاص و عام پاسخگوی سوالات کربلایی کاظم در مورد قرآن نبودند .
بعد از بازگشت از کربلای معلا از سوی آیت الله بروجردی به شهر قم دعوت شد و مورد امتحان آیات عظام قرار گرفت . کربلایی کاظم با هر بار حاضر شدن در جمع علماء و طلاب و با پاسخگویی به سوالات قرآنی ، عام و خاص را متحیر می ساخت. با بلند شدن آوازه کربلایی کاظم ، شهید نواب صفوی به شهر قم آمد و از آنجا به رسم میزبانی ، کربلایی کاظم را با خود به تهران و در تهران از طریق برگزاری جلسات عمومی ، جلسات با علماء ، مصاحبات مطبوعاتی و به موازات از طریق مطبوعات کثیر الانتشار ، کربلایی کاظم معجزه پیش آمده قرآنی را به اطلاع عموم مردم کشور و نیز به اطلاع شخصیت های علمی و فرهنگی جهان اسلام رسانید و در ادامه با سفر به استان خراسان ، سمنان ، نیشابور ، سبزوار ، دامغان ، قوچان و شهر مشهد با استقبال بی نظیری از کربلایی کاظم، مردم و علماء از نزدیک با معجزه بزرگ قرآن آشنا شدند .
بعد از افشاء معجزه حافظ و عالم شدن کربلایی کاظم به قرآن کریم در سال 1308 شمسی ، علماء تشیع و تسنن در نجف ، در کویت ، در مصر ، در قم ، در تهران ، خراسان و بسیاری از شهرهای دیگر ایران از کربلایی دعوت به مباحثه می نمودند و روزنامه های کثیر الانتشار مثل روزنامه اطلاعات و روزنامه ندای حق خبر این ملاقات ها و جلسلت را پی در پی انتشار می دادند که عباس غله زاری در تهیه و نشر این گزارشات نقش جدی و عاشقانه ای را ایفا نمود .
شهید نواب صفوی او را با خود به تهران برد و روزنامهنگاران كیهان، اطلاعات، تهران مصور و خواندنیها را دعوت كرد و با آنها با وی مصاحبهای به عمل آورد و در جرائد آن روز منتشر نمودند. پس چون عازم مشهد مقدس شدند، وی را با خود به مشهد بردند و هنگامی كه در شهرهای سمنان، دامغان، شاهرود، سبزوار و نیشابور مورد استقبال مردم قرار گرفتند، آن شهید بزرگوار، وی را معرفی میكردند تا مردم با دیدن این معجزة، دین و ایمانشان تقویت شده، ارادة ایشان در عمل كردن به دستورات دین و مبارزه با طاغوت قویتر گردد. در مشهد به مهدیّة مرحوم حاج آقا عابدزاده وارد میشوند و همان روز علما، فرهنگیان و دیگر مردم میآیند و از حافظ قرآن دربارة آیات قرآن، سؤال میكنند. آیتالله سیّد هبةالدین شهرستانی كه مقیم بغداد بودند در سفر به مشهد مقدس، در راه بازگشت در شهر كنگاور با حافظ قرآن برخورد و پس از امتحانات بسیار او را با خود به عراق بردند. علما و حافظان قرآن ـ از شیعه و اهل سنت ـ را جمع و با او تذكره نمودند و همگی ضمن ابراز تعجّب آن را امری عجیب میدانستند. در كربلا در منزل آیتالله میراز مهدی شیرازی، حضرات آیات آیتالله حاج سیّد ابوالقاسم خویی و حاج سیّد هادی میلانی و دیگران اجتماع و هر سؤالی از قرآن از ویكردند، بدون تأمل و به صورت دقیق پاسخ میگفت.
حتی کار به جایی رسید که محمد رضا شاه بعد از اطلاع از این اتفاق از طریق یکی از استانداران و یکی از فرمانداران وقت خود پیامی برای کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی فرستاد مبنی بر اینکه من شنیده ام که فردی به صورت معجزه حافظ قرآن شده است به او بگویید که به دربار ما بییاید تا مسئولیت قرآنی دربار را به او بسپاریم و همیشه اینجا نزد ما باشند. در ادامه کربلایی کاظم به آن فرماندار اینگونه می گوید که پول او بدرد من نمی خورد. بهتر است آن پول را به خواهرش بدهد چون شنیده ام قمار باز خوب و قهاری است تا از آن استفاده بکند. من از مجتهدین و مراجع پول قبول نمی کنم، حال بییایم و از او پول بگیرم. آن هم پولی حرام.
چگونگی تسلط کربلایی کاظم بر قرآن
(سطح تسلط او بر قرآن قابل یادگیری و آموختنی نبود )
•
بازگویی شماره و مکان قرآن با خواندن آیه سریعا و بدون مکث
•
خواندن قرآن به صورت وارونه از انتها به ابتدا
•
تشخیص عبارات قرآن در میان کتابهای عربی و فارسی با دستخطهای یکنواخت سریعا
•
باز کردن قرآن و نشان دادن مکان آیه تقریباً بدون ورق زدن با هر چاپ قرآنی
•
تشخیص سریع اختلاط کلمات و آیات قرآنی با همدیگر و باز گویی مکان هر کدام
•
جستجوی عبارتها و کلمات در قرآن و تعداد و مکان تکرار هر کدام بدون هیچ گونه مکثی
•
بیان کردن تعداد حروف سورهها و اطلاعاتی در مورد تکرار حرفها و...
•
تشخیص قرآنی بودن یا نبودن نوشته های یکسان افراد با توجه به نیات درونی آنها
•
اطلاع داشتن در اسرار قرآن و خواص آیات
تسلط کربلایی کاظم بر قرآن آموختنی نبود که بتوان معجزه بودن آن را زیر سوال برد و منکر شد و آن سطح تسلط او بر قرآن را ناشی از نبوغ و یا سعی و تلاش بالایش در یادگیری دانست. کربلایی کاظم با وجود بی سواد بودن، به غیر از آنکه قرآن را از ابتدا به انتها حفظ بود و می خواند، می توانست قرآن را از انتها به ابتدا نیز بخواند. بر تمام کلمات و حروف قرآن تسلطی کامل و عجیب داشت و بر تعداد تکرار کلمات و حتی حروف در هر سوره و در کل قرآن آگاه بود.. برای مثال اگر از او پرسیده می شد که کلمه لم چند بار در قرآن تکرار شده است او سریع و بدون مکث تعداد تکرار آن کلمه و مکان های آن در قرآن را ذکر می کرد و همچنین اگر از تعداد تکرار یک حرف برای مثال تعداد تکرار حرف د در هر سوره ای برای مثال سوره بقره از او سوال می شد او سریعا تعداد تکرار آن حرف را در آن سوره مشخص جواب می داد و بعد از بررسی و شمارش مشخص می شد که جواب او کاملا درست بوده است. آیات قرآن برای او نور می داد و در کتب عربی در هر جا که آیه قرآنی آورده شده بود سریعا پس از ورق زدن کتاب آن آیات قرآنی را نشان می داد و چگونگی توانایی خود بر تشخیص آنها را نورانی بودن آیات قرآن بر خلاف متون غیر قرآنی می دانست که کلمات متون غیر قرآنی برای او تیره بودند. اگر آیه قرآنی برای او خوانده می شد و هر قرآنی به دست او داده می شد ( با تعداد برگهای متفاوت و اندازه متفاوت ) او آن قرآن را مانند استخاره کردن باز می کرد و همان صفحه ای را می آورد که آن آیه قرآن در آن صفحه قرار داشت.
همچنین اگر کلمه و لغتی عربی که در قرآن مجید آورده شده است برای مثال لغت عربی قل را فردی بر روی کاغذی 2 مرتبه می نوشت، یک بار به نیت قرآنی بودن آن و یک بار به نیت غیر قرآنی بودن( که عرب زبانان در گفتار و نوشتار روزمره خود از آن لغت استفاده می کنند )، اگر آن نوشته به کربلایی کاظم کریمی نشان داده می شد و پرسیده می شد که آیا این نوشته ها قرآن است و یا خیر، کربلایی کاظم قرآنی بودن یکی و قرآنی نبودن دیگری را تشخیص می داد و بیان می کرد، از نویسنده آن دو کلمه ( هر فردی می توانست باشد) سوال که می شد او بر صحت تشخیص کربلایی کاظم تصدیق می نمود که کدام را به نیت قرآنی و کدام را به نیت غیر قرآنی نوشته است. از کربلایی کاظم که چگونگی توانایی اش بر تشخیص قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را که سوال می نمودند با آنکه کاتب و نویسنده آن دو کلمه، از نیت خود چیزی را بر زبان نیاورده بود، کربلایی کاظم چنین می گفت که آن لغتی که به نیت قرآنی نوشته شده است (برای مثال لغت قل ) در نظر من نورانی است و روشن است و آن لغت قل که به نیت غیر قرآنی نوشته شده است تیره می باشد و نور نمی دهد. حال هر لغتی از قرآن و توسط هر فردی اگر یک بار به نیت قرآنی و یک بار نیز به نیت غیر قرآنی نوشته می شد و بدون آنکه نویسنده آن دو لغت یکسان، از نیت خود چیزی بگوید، قرآنی بودن یکی و غیر قرآنی بودن دیگری را کربلایی کاظم به درستی تشخیص می داد و نویسنده آن لغات صحت گفتار کربلایی کاظم را تصدیق می نمود.
محمد کاظم کریمی ( معروف به کربلایی کاظم ) بعد از افشاء معجزه قرآنی تا آخر عمر بنا به دعوت علماء و مردم به کشور عراق ، عربستان ، کویت ، مصر و شهرهای بزرگ ایران سفر میکند و با حضور در صدها جلسه عمومی و خصوصی در برابر جمعیت کثیر و علمای اعلام و نیز طلاب پرسشگر به همه سوالات پاسخ می دهد . مثلاً کسی پرسیده آقای کریمی در قرآن کلمه (( الله )) چند دفعه تکرار شده ؟ او بدون لحظه ای تامل تعدادش را می گفته . سوال کنندگان بعدی بدون فرصت دادن نمونه این سوال را می پرسیدنده اند و ایشان فوری پاسخ میداده است . چند فا ؟ چند الف ؟ چند حیم ؟ چند کاف ؟ چند ؟ چند ؟ تعداد همه را بدون تامل می گفته . حتی تعداد هر کلمه از کلمات قرآن را اگر می پرسیدند اعلام میکرده . آیات قرآن« را نیز از آخر به اول میخوانده . کدام حافظ قرآن قادر است چنین پاسخ هایی را بدهد ؟ کدام حافظ قرآن به خود جرات میداده در مدرسه فیضیه قم ، در مدارس علمیه شهر نجف و در محضر علمای اعلام و در میان خبرنگاران داخلی و خارجی ادعا کند هر سوالی از قرآن دارید بپرسید و پاسخ بگیرید ؟
تسلط او بر قرآن فقط محدود به ظواهر آیات نبود بلکه او بر مکی و مدنی بودن آیات، شان نزول آیات، خواص آیات و ... نیز اطلاع و آگاهی داشت و یکی از گلایه های آن مرحوم در اواخر حیاتشان هم همین مطلب بود که چرا فقط از ظواهر قرآن از او پرسیده شد.
تسلط کربلایی کاظم فقط بر قرآن بود و هیچ متن و یا کتاب دیگری را به علت بی سواد بودن نمی توانست بخواند.
اقداماتی که تاکنون در جمهوری اسلامی ایران در
راستای معرفی این معجزه انجام گرفته است
1- پخش ویژه برنامه ای در مورد این معجزه نزول مجدد غیبی قرآن در ماههای مبارک رمضان، هر سال از شبکه سراسری صدا و سیمای جمهوری اسلامی ایران
2- نوشتن چندین جلد کتاب در مورد این اتفاق برای گروههای سنی مختلف
3- بر پایی کنگره بین المللی کربلایی کاظم کریمی ساروقی با حضور علما و شخصیت های داخلی و خارجی 59 کشور جهان اسلام در مرداد ماه سال 1386 در اراک.
4- ساخت فیلمی بر اساس داستان حقیقی زندگی کربلایی کاظم کریمی ساروقی
5- نشر و معرفی این اتفاق توسط خبرگزاری های مختلف خبری اینترنتی ایرانی
6- انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد ذکور کربلایی کاظم کرمی ساروقی در دانشگاهها و ...
7- برپایی نکوداشت های کربلایی کاظم کریمی ساروقی در نقاط مختلف ایران
8- رونمایی از تندیس یادبود کربلایی کاظم ساروقی در شهرستان اراک
9- رو نمایی از تمبر یادبود کربلایی کاظم کریمی ساروقی
10- ثبت در فهرست آثار ملي كشور به عنوان ميراث معنوي استان مركزي و تلاش برای ثبت جهاني اين واقعه مهم .
هدف خداوند از بروز این معجزه و استفاده ای که نسل امروز
و نسل های بعدی بشریت می توانند از این اتفاق ببرند:
ببینید زمانی که چنین معجزه ای در روستای ساروق اتفاق می افتد ، حدود یک هزار و سیصد سال از نزول قرآن« بر پیامبر اکرم گذشته است و دنیای قدیم جای خود را به دنیای نو و دنیای دانش و پیشرفت داده است . قرآن کریم از یک سو اسیر دست کج فهمی و ساده انگاری مسلمانان قرار گرفته ( و قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قوم اتخذوا هذا القرآن مهجورا )) و اختلافات در امت پیامبر اسلام وارد شده است و از سوی دیگر مورد استهزاء در مکاتب ضد دین واقع بوده ... مانند مکتب مارکسیسم و... و میرفت تا قرآن« در انزوای کامل قرار گیرد . اینجا بود که خداوند برای محافظت از قرآن« به میانه آمد : (( انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون )) و قرآن را بگونه ای شگفت انگیز برای بار دوم با حذف مسئولیت رسالت ، بر قلب یک انسان شایسته به نام کربلایی کاظم نازل نمود و خداوند این مرد را تا آخر عمر به داخل کشورهای مطرح اسلامی و شهرهای مهم کشور به حرکت در می آورد تا برای مخالفان و ناآگاهان به قرآن روشن شود قرآن حق است و در طول این مدت تا پایان عمر کربلایی کاظم تسلط او بر قرآن حتی به اندازه ذره ای تضعیف نمی گردد و این موهبت از او گرفته نمی شود .
سنریهم ایتنا فی الافاق و فی انفسهم حتی یتبین لهم انه الحق ( سوره کهف آیه 52 )
یعنی : بزودی نشانه هایی را برای اثبات حقانیت قرآن نشان میدهیم
در عصر حاضر که انسانها در دنیا با انواع انحرافات فکری و اعتقادی روبرو هستند و ناحق خود را گاها جای حق می نشاند و حق، باطل جلوه داده می شود تا جایی که اخیرا قرآن کریم کتاب خداوند عالم در آمریکا سوزانده می شود و یا در کشوری مانند چین با جمعیتی در حدود یک و نیم میلیارد نفری که با افکار کمونیستی از اساس وجود خداوند را منکر می شوند حال چه برسد به حقانیت رسالت نبی مکرم اسلام و خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص)، راه درمان چیست؟
یکی از بهترین و موثرترین راههایی که در بیان حقانیت پیامبری پیامبر بزرگ اسلام حضرت محمد(ص) به عنوان پیامبر بر حق و خاتم الهی و کتاب او قرآن به عنوان کتابی الهی و همچنین دست نخورده و تحریف نشده می توان انجام د اد، معرفی درست معجزه حافظ شدن غیر آموختنی قرآن فرد بی سواد، کربلایی محمد کاظم کریمی ساروقی می باشد. حادثه ای که دهان هر انسان حتی لجوجی را می بندد.
نوساناتی را که معرفی و نشر این حادثه در ایران در طول
تاریخ بعد از وفات کربلایی کاظم به خود دیده است:
پس از فوت کربلایی کاظم در سال 1326 و خاکسپاری ایشان در قبرستان نو شهر قم (( روبروی حرم حضرت معصومه ( س) ))، با توجه به زمان طاغوت بودن آن هنگام و سلطنت محمد رضا شاه، سال به سال ماجرای معجزه پیش آمده برای کربلایی کاظم از اذهان عمومی رخت بر بست و تنها علماء و اغلب طلاب علوم دینی می دانستند چنین معجزه ای در ایران رخ داده است . با وقوع انقلاب اسلامی توجه علماء و عوام مردم به طور کامل به مسائل انقلابی و سیاسی معطوف شد و موضوع کربلایی کاظم حتی از بین خواص نیز رخت بربست تا اینکه در سال 1380 شمسی فیلم داستانی کربلایی کاظم با حمایت همه جانبه حجه الاسلام حاج آقا قرائتی به دست آقای عباس مبشری مدیریت تهیه و کارگردانی گردید و در ادامه با انجام مصاحبه های متعدد با فرزند ارشد کربلایی کاظم آقای حاج اسماعیل کریمی ساروقی روحی جدید در کالبد معرفی و توجه به این آیت و معجزه بزرگ تاریخ اسلام یعنی نزول مجدد غیبی قرآن آن هم در زمانه ما، وارد شد و تلاش بر آن است که انشاء الله هر چه زودتر این اتفاق جهانی شده و بندگان خداوند در اقصی نقاط عالم با این اتفاق عظیم آشنا گشته و موجبات هدایت روز افزون و سریعتر بندگان خداوند به آیین پاک و صراط مستقیم اسلام عزیز فراهم آید. انشاء الله
الحمد لله رب العالمین
نوشته شده توسط در تاریخ پنجشنبه دهم شهریور 1390 با موضوع
کربلایی کاظم در بیان علماء و اشخاص
علما و شخصیت های اهل تسنن و تشیع که رخ دادن این
معجزه را مورد تایید قرار دادند
این ماجرا را افراد زیادی پس از دیدن کربلایی کاظم و انجام امتحانات از او در طی 38 سال، تایید نمودند و اسناد آن موجود می باشد که تعداد قابل توجهی از آن اسناد که مربوط به تصدیق علماء گذشته می باشد به صورت مکتوب بوده و تعدادی از این اسناد نیز ویدیویی می باشند (این اتفاق در سن 27 سالگی برای کربلایی کاظم روی داد و پس از 13 سال مخفی نگاه داشتن آن توسط کربلایی کاظم، در سن 40 سالگی فاش شد و تا پایان عمر او در سن 78 سالگی با او همراه بود. کربلایی کاظم در سال 1300 ه.ق برابر با 1257 ه.ش به دنیا آمد و در سال 1379 ه.ق برابر با 1336 ه.ش از دنیا رفت).
از جمله علماء و مراجع تقلید عظام گذشته می توان 1- آیت الله العظمی بروجردی،2- امام خمینی، 3- آیت الله امینی صاحب الغدیر، 4- آیت الله مرعشی نجفی، 5- آیت الله میلانی،6- آیت الله حجت کوه کمری، 7- آیت الله خوانساری، 8- آیت الله سید احمد زنجانی، 9- آیت الله دستغیب،10- آیت الله صدر،11- آیت الله فاضل لنکرانی و ... را نام برد.
از جمله علماء و مراجع تقلید زنده فعلی که در زمان جوانی خود کربلایی کاظم را از نزدیک دیده اند و مورد امتحان و تصدیق قرار داده اند می توان افراد ذیل را نام برد:
1- رهبر معظم انقلاب آیت الله خامنه ای ۲- آیت الله مکارم شیرازی ۳- آیت الله خزعلی ۴- آیت الله شبیری زنجانی ۵- آیت الله نوری همدانی ۶- آیت الله سبحانی ۷- آیت الله وحید خراسانی ۸- آیت الله مصباح یزدی ۹- آیت الله استادی ۱۰- آیت الله صافی گلپایگانی ۱۱- آیت الله مقتدایی ۱۲- آیت الله محفوظی ۱۳- آیت الله شاه آبادی ۱۴- آیت الله مظاهری ۱۵- آیت الله گرامی ۱۶- آیت الله سیستانی
همچنین کربلایی محمد کاظم کریمی به همراه شهید نواب صفوی به کشور مصر رفت و همچنین به کشور عراق، کویت و عربستان سفر نمود و مورد امتحان و تایید مسلمانان اهل سنت نیز قرار گرفت.
صدای این معجزه بزرگ تا آنجا اوج گرفت که امیر کویت و دانشگاه الازهر مصر کربلایی کاظم را به کشور کویت و کشور مصر دعوت نمودند و ایشان دعوت آنان را اجابت نمود و به تمام سوالات علماء و دانشمندان این دو کشور پاسخهای حیرت انگیز داد و مورد تایید آنها نیز قرار گرفت.
امیر كویت از ایشان دعوت رسمی نمود و پس از رفتن او به كویت، امیر كویت تقاضای اقامت او را نمود تا كاخی را با همة امكانات در اختیار او گذارده تا طلابی كه قرآن را حفظ میكنند در نزد او مشغول باشند ولی علمای عراق این امر را صلاح ندانستند و ایشان به عراق و بعد به ایران و قم بازگشت.
خلاصه اینکه تمامی علمای تشیع و تسنن اعلام داشتند ، کربلایی کاظم یک فرد عادی نیست ، بلکه معجزه ی بزرگ قرآن کریم است که بعد از پیامبر اکرم ، اینگونه قرآن کریم ، یکجا بر قلب او نازل شده است .
بعضا میگویند معجزه بزرگ قرآن در قرن بیستم . اما باید گفت حافظ و عالم شدن محمد کاظم کریمی ساروقی به قرآن کریم در کمتر از چند دقیقه ، بعد از نزول قرآن کریم بر پیامبر اسلام ، بزرگترین معجزه بزرگ قرآن در طول تاریخ اسلام است .
آیت الله مرعشی نجفی (ره) در طول یک ماه قرآن موجود را با قرآنی که به کربلایی محمد کاظم کریمی داده شده و القاء شده بود مقایسه نمود و دیدند که در کل قرآن، حتی کلمه ای بین قرآن موجود و قرآنی که کربلایی کاظم می خواند تفاوت وجود ندارد و تنها چند حرکت فتحه، کسره و ضمه تفاوت وجود داشت.
در حال حاضر دستونشته هایی از علما در مورد تایید این اتفاق وجود دارد که در زیر به آنها اشاره می گردد.
آیت الله بروجردی و کربلایی کاظم
در جلسه ای مرحوم آیة الله العظمی بروجردی آیاتی را از حافظ قرآن پرسیدند و او بدون معطلی پاسخ گفت . سپس آیة الله آیه ای تلاوت می کند ، کربلایی کاظم میگوید : آقا ، آیه آنطور که خواندید نیست . آقا می فرماید : من هم اشتباه خواندم ؟ عرض کرد : بلی آقا ، شما مجتهد و مرجع تقلید هستید ، ولی آیه آن گونه که خواندید نیست بلکه این طور است . سپس قرآن آوردند و دیدند که حافظ قرآن درست گفته است . در موارد خلاف بین قراء سبعه ، مرحوم آیة الله بروجردی نظر کربلایی کاظم را جویا می شدند و قرائت او برایشان معتبر و قابل اعتماد بود و در موردی فرمودند : ما سوره حمد را نمی توانیم به قهقرا بخوانیم ، ولی او سوره بقره را می تواند از انتها به اول بخواند.
کربلایی کاظم در جلسه ای و در حضور علماء قم به حضرت آیت اله بروجردی میگوید : شما ساعت ها از من سوال کردید در مورد قرآن و من همه را جواب دادم . اکنون من یک سوال می پرسم و شما جواب بدهید . از آقای بروجردی می پرسد :کدام سوره از سوره های قرآن است که خداوند هفت حرف از حروف عربی را در آیاتش نازل نکرده است و آن هفت حرف مربوط به هفت طبقه جهنم می باشد که خداوند از سوره حمد آنها را برداشته است . آیت الله و دیگران که از پاسخ دادن عاجز می مانند از ایشان در خواست می کنند پاسخ سوال را خود بگوید .
کربلایی کاظم می گوید : و آن سوره حمد است که همیشه در نماز می خوانید و آن هفت حرف : ( ث ، ج ، خ ، ذ ، ش ، ظ ، ف ) می باشد و تفسیر و علت نازل نشدن این حروف در سوره حمد چنین می گوید که ث از ثبورا می آید که در سوره فرقان قرار دارد و مکان افرادی است که نماز نمی خوانند و در طبقه زیرین جهنم است، ج از جهنم است، خ که از خسران می آید، ذ از ذقوم می آید که خوراک اهل جهنم بوده و در سوره دخان قرار دارد، ش از شیطان می آید، ظ هم از لظا می آید که آتش سوزانی است که در جهنم قرار دارد و به یک لحظه انسان را ذوب می کند، ف از فضع اکبر می آید که در سوره انبیاء قرار دارد که در روز قیامت مردم در فضع اکبر هستند که خداوند با آنها چه می کند؟
- به نقل از روزنامه ندای حق شماره 44 – سال 1344
آیت الله خامنه ای و کربلایی کاظم
حضرت آیت الله خامنه ای در دیدار با فرزند کربلایی کاظم در تاریخ 01/03/85
مرحوم کربلایی کاظم را من در حرم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) در دیده بودم ، در کنار مناره مسجد گوهر شاد نشسته بود . قرآنش هم دستش بود ، هر کس هر آیه ای را می پرسید با این که اصلا سواد نداشت قرآنش را باز میکرد و با دستش آن آیه را نشان می داد . این را من خودم دیدم و امتحان کردم این سماعی نبود . مرحوم کربلایی کاظم همان کسی است که بیسواد و در جوانی بر اثر یک توسل به امامزادگانی که در ساروق است حافظ قرآن شد ، بنده هم رفتم آن امامزادگان را زیارت کردم ، آن شبستانی که ایشان شب در آنجا بیتوته کردند و در همان جا هم مشرف به حمل قرآن شدند را بنده رفته و دیده ام . آیت الله بروجردی ایشان را امتحان و تایید کرده بودند .
موقعی که شهید نواب صفوی، کربلایی محمد کاظم را به مشهد آوردند و در بالای منبر او را به علما معرفی کردند از کربلایی سؤالهایی درباره قرآن و آیات قرآن کردم و حافظ قرآن شدن ایشان را جزو کرامات دیدم
آیت الله سید محمد جواد علوی طباطبایی بروجردی و کربلایی کاظم
نوه آیت الله العظمی بروجردی
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی، پسر عموی پدر بنده و برادرزادة حضرت آیت الله بروجردی ـ رحمة الله علیه ـ بود. ایشان رئیس ادارۀ ثبت اراك بودند؛ ازاین رو با مرحوم كربلایی كاظم آشنایی پیدا كردند و بیدرنگ ایشان را به قم نزد مرحوم پدر ما آوردند و به وسیلۀ ایشان خدمت آیت الله بروجردی رسیدند.
مرحوم آیتالله بروجردی ذاتاً فرد زود باوری نبودند؛ هر ادعایی را به سادگی نمی پذیرفتند و در این زمینه بسیار دقت می كردند.از آنجا که بنده در آن زمان، مدرسه می رفتم، در نخستین جلسه ای كه کربلایی کاظم را خدمت ایشان آورده بودند، حاضر نبودم. پدر من در همان زمان، داستان آن جلسه را برای برخی از دوستانی كه برای دیدن مرحوم كربلایی كاظم به منزل ما می آمدند، از جمله حضرت امام ـ رحمةا لله علیهـ نقل می كردند. ایشان می فرمودند که مرحوم آیت الله بروجردی در آن جلسه سؤالات مختلفی از کربلایی کاظم پرسیده بودند. خود ایشان حافظ بسیاری از آیات قرآن بودند؛ چنان که پدرم می فرمودند: بیش از یک سوم قرآن را حفظ بودند. ایشان آیه ای را می خواندند و مرحوم كربلایی كاظم ادامۀ آن را تلاوت می کرد؛ همان گونه كه در آن زمان معمول بود.
پدرم نقل می كردند که حتی آیت الله بروجردی برخی از آیات را به هم می چسباندند؛ ابتدای یک آیه، بخشی از وسط آیۀ دیگر و انتهای آیۀ دیگری را به هم می چسباندند و به عنوان یک آیه می خواندند. كربلایی كاظم با همان زبان خودش می گفت: آیه این نیست.قسمت اول را به همراه دنباله اش می خواند و شمارۀ آیه و نام سوره اش را هم می گفت.سپس بخش وسطی را با قبل و بعد آن می خواند و بعد بخش انتهایی را به همین ترتیب بیان می کرد. در نتیجه ایشان از همان جلسۀ اول نزد آیت الله بروجردی جلوه كردند.
مرحوم کربلایی کاظم بسیار مورد توجه آیت الله بروجردی قرار گرفته بود؛ به گونهای که گاهی در حدود دو ساعت می نشستند و با هم صحبت می كردند. این امر برای من جای پرسش داشت؛ چون آن زمان آیت الله بروجردی، در اوج مرجعیت شیعه و زعامت عامه بود و كربلایی كاظم هم فرد بی سوادی بود که در ظاهر هیچ سنخیتی با ایشان نداشت. من بعد ها از مرحوم آقای سید اسماعیل علوی و پدر خودم پرسیدم كه آیتالله بروجردی به چه دلیل چنین توجهی به ایشان داشتند؟ پدر من در پاسخ، بر دو نكته بسیار تأکید می كردند:
نخست اینکه آیت الله بروجردی، وجود شخص کربلایی كاظم را حجتی در زمان ما می دانستند.شخصی كه كاملاً بی سواد بود، با عنایت ویژه ای حافظ قرآن شده بود؛ به گونه ای که حتی ویژگی های سوره ها و آیه ها را نیز می شناخت. این امر از آن رو اهمیت داشت که در آن زمان، تفكر ماتریالیستی و مادی گرایانۀ حزب توده، به ویژه در محافل علمی و دانشگاهی بسیار جا افتاده بود. هرچند این حزب سرکوب شده بود، اما مبانی فکری آن در بین جوانان و جامعۀ روشن فكری آن زمان، به تفكر غالب تبدیل شده بود. مرحوم آیت الله بروجردی نیز با دیدگاه گستردۀ خود، به همة جنبه ها توجه داشتند و معتقد بودند كه معرفی مرحوم کربلایی كاظم به جوانان به عنوان حجتی در روزگار ما، كار بسیار مهمی است؛
مطلب دوم كه برای آیت الله بروجردی بسیار مهم بود، بحث تحریف قرآن بود. در بین علمای شیعه اختلاف است كه آیا قرآن تحریف شده است یا خیر. آیت الله بروجردی، خود قایل به عدم تحریف قرآن بودند؛ اما بسیاری از بزرگان ما، مانند مرحوم صاحب كفایه ـ رضوان الله تعالیعلیه ـ در این مسئله شك و شبهه داشتند. آیتالله بروجردی به گونه های مختلف کربلایی کاظم را آزمایش کردند تا اینكه برای ایشان ثابت شد واقعاً قرآن به آن مرحوم عنایت شده است. در این صورت، قرآنی كه به ایشان عنایت شده است، باید همان قرآنی باشد كه به رسول اكرم ـ صلوات الله و سلامه علیهـ نازل شده است و در نتیجه نباید هیچ گونه تحریفی در آن وجود داشته باشد.
آیتالله بروجردی نیز بار ها همۀ مواردی را كه احتمال تحریف در آنها وجود داشت، از ایشان می پرسیدند و كربلایی كاظم هم که هیچ اطلاعی دربارۀ بحث تحریف قرآن نداشت، فقط آیاتی را كه از او پرسیده می شد، می خواند. آیت الله بروجردی در برخی موارد، بعضی از آیات و سوره ها را چندین بار به گونه های مختلف تغییر می دادند؛ مثلاً کلماتی را که برخی از بزرگان مانند مرحوم میرزا حسین نوری معتقد بودند که جزو قرآن بوده و حذف شده است، در آیه می آوردند و می خواندند. كربلایی كاظم آیه را تصحیح می كرد و می گفت: نه؛ این طور نیست؛ پس از این كلمه، آن كلمه است. بحث اثبات عدم تحریف قرآن، یكی از مسائلی بود كه بسیار مورد عنایت آیت الله بروجردی بود و من شنیدم كه ایشان پس از آشنایی با کربلایی کاظم، قایل شده بودند كه هیچ تحریفی در قرآن صورت نگرفته است و در این زمینه، اطمینان یافته بودند.
خود من این خاطره را دارم كه جلسهای در منزل ما برگزار شد و حدود ده تا پانزده نفر از علما همچون حضرت امام، حاج آقا مرتضی حائری و مرحوم حاج فقیهی رشتی، و نیز آقای اسماعیل علوی و کربلایی کاظم حضور داشتند. پس از صرف نهار، نوبت به آزمایش کربلایی کاظم رسید. حاضران كتاب شرح لمعه را برای آزمون انتخاب کردند. این كتاب به زبان عربی است و در جای جای آن، آیه و حدیث نیز هست. این کتاب را پیش روی کربلای کاظم گذاشتند. ایشان دست می گذاشت و متن عربی شهید را رد می كرد؛ چون نمی توانست بخواند؛ روایت ها را هم نمی توانست بخواند و رد می كرد؛ اما وقتی به یك كلمۀ قرآن می رسید، آن را می خواند.
آنچه موجب تعجب من بود، این بود كه کلماتی مثل «الله» را که در متن مرحوم شهید و حتی در روایت بود، نمی دید و نمی توانست بخواند؛ اما در آیه قرآن می توانست بخواند. این آزمایش را چندین بار انجام دادند؛ مثلاً مواردی را مشخص كرده بودند كه آیه و روایت به هم آمیخته بود؛ دو کلمۀ یکسان ـ مثلاً «الله»ـ را به او نشان دادند و گفتند كه این «الله» است؛ آن هم «الله» است. کربلایی کاظم گفت: من نمی دانم آنجا چه چیزی است؛ اما به آیه كه می رسم، نور سبزی هست؛ با این نور، من آن آیه را می بینم و می توانم بخوانم؛ اما غیر آن را نمی توانم بخوانم. بنابراین، ایشان این كلمات و نوشته ها را نمی دید؛ بلکه آنچه می دید، ورای نوشته ها بود. با اینكه «الله»همان است كه در قرآن هست، اما کلمۀ الله را در جملۀ «رحم الله» در كلام مرحوم شهید، نمی دید؛ ولی در آیۀ قرآن می دید. من خودم این را در آن جلسه دیدم.
به این ترتیب، مرحوم کربلایی کاظم به برکت عنایتی که دربارۀ او شده بود، در مجامع علمی قم در آن زمان، جا افتاد. در حوزه، هر مطلبی به زودی پذیرفته نمی شود؛ هركس ادعایی كند، علما آن را بسیار می سنجند تا جا بیافتد؛ اما داستان کربلایی كاظم و اینکه واقعاً قرآن به او عنایت شده است، در میان علما پذیرفته شد.
مرحوم كربلایی كاظم حجتی است برای کسانی که غیر از زندگی ظاهری را نفی می كنند.همچنین مؤمنین و علما که معتقدند لیس العلم بكثرة التفهم والتفهیم، به برکت عنایتی که به ایشان شد، این معنا را به صورت حق الیقین درك كردند. مرحوم كربلایی كاظم از كسانی بود كه باعث شد افراد، آنچه را به صورت علم الیقین باور داشتند، به صورت حق الیقین باور کنند. بنابراین ایشان هم بر حوزه حق دارد، هم بر عامۀ مردم.
مرحوم آقای سید اسماعیل علوی نقل می كردند كه وجود ایشان در اراک، تحولی در ایمان مردم و جوانان ایجاد كرد. در آن زمان، جنبه هایی كه موجب روی گردانی جوانان از دین شود، كم نبود و جوان هنگام ورود به دبیرستان و دانشگاه، بیدرنگ مورد هجمۀ
40m:1s
20343
[URDU] HAJJ Message 2014 - Vali Amr Muslimeen Ayatullah Ali Khamenei
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ...
02-10-2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمّد و آلہ الطاھرین
اشتیاق و احترام کے ساتھ درود و سلام ہو آپ خوش نصیبوں پر جو دعوت قرآنی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے ضیافت پروردگار کے لئے آگے بڑھے۔ پہلی بات یہ کہ اس عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور اس بے مثال واجب کے انفرادی، سماجی، روحانی اور عالمی پہلوؤں پر تدبر کے ساتھ، اس کے اہداف سے خود کو قریب کرنے کی کوشش کیجئے اور رحیم و قدیر میزبان سے اس سلسلے میں مدد مانگئے۔ میں بھی آپ کے جذبات سے اپنے جذبات اور آپ کی آواز سے اپنی آواز ملا کر پروردگار غفور و منان کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنی نعمتیں آپ پر مکمل کر دے اور جب سفر حج کی توفیق عطا فرمائی ہے تو کامل حج ادا کرنے کی توفیق بھی عنایت فرمائے اور پھر سخاوت مندانہ انداز میں شرف قبولیت عطا کرکے آپ کو بھرے دامن اور مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے اپنے دیار کو لوٹائے، ان شاء اللہ ۔
ان پر مغز اور بے نظیر مناسک کے موقعے پر روحانی و معنوی طہارت و خود سازی کے ساتھ ہی جو حج کا سب سے برتر اور سب سے اساسی ثمرہ ہے، عالم اسلام کے مسائل پر توجہ اور امت اسلامیہ سے مربوط اہم ترین اور ترجیحی مسائل کا وسیع النظری اور دراز مدتی نقطہ نگاہ سے جائزہ، حجاج کرام کے فرائض اور آداب میں سر فہرست ہے۔
آج ان اہم اور ترجیحی مسائل میں ایک، اتحاد بین المسلمین، اور امت اسلامیہ کے مختلف حصوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی گرہوں کو کھولنا ہے۔
حج، اتحاد و یگانگت کا مظہر اور اخوت و امداد باہمی کا محور ہے۔ حج میں سب کو اشتراکات پر توجہ مرکوز کرنے اور اختلافات کو دور کرنے کا سبق حاصل کرنا چاہئے۔ استعماری سیاست کے آلودہ ہاتھوں نے بہت پہلے سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تفرقہ انگیزی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے، لیکن آج جب اسلامی بیداری کی برکت سے، مسلمان قومیں استکباری محاذ اور صیہونزم کی دشمنی کو بخوبی بھانپ چکی ہیں اور اس کے مقابل اپنا موقف طے کر چکی ہیں، تو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی کی سیاست میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر، ان کے مجاہدانہ اور مزاحمتی جذبے کو انحرافی سمت میں موڑ دے اور صیہونی حکومت اور استکبار کے آلہ کاروں کے لئے، جو اصلی دشمن ہیں، محفوظ گوشہ فراہم کر دے۔ مغربی ایشیا کے ملکوں میں دہشت گرد تکفیری تنظیموں اور اسی طرح کے دوسرے گروہوں کو وجود میں لانا اسی مکارانہ پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
یہ ہم سب کے لئے انتباہ ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو آج اپنے قومی اور عالمی فرائض میں سر فہرست قرار دیں۔
دوسرا اہم معاملہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تشکیل کے آغاز کو 65 سال کا عرصہ بیت جانے، اس کلیدی مسئلے میں گوناگوں نشیب و فراز آنے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں خونیں سانحے رونما ہونے کے بعد دو حقیقتیں سب کے سامنے آشکارا ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ صیہونی حکومت اور اس کے جرائم پیشہ حامی، قسی القلبی، درندگی اور انسانی و اخلاقی ضوابط و قوانین کو پامال کرنے میں کسی حد پر رک جانے کے قائل نہیں ہیں۔ جرائم، نسل کشی، انہدامی اقدامات، بچوں، عورتوں اور بیکس لوگوں کے قتل عام اور ہر ظلم و جارحیت کو جو وہ انجام دے سکتے ہیں، وہ اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ کے اندوہناک مناظر، ان تاریخی مجرمانہ اقدامات کی تازہ ترین مثال ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ سفاکی اور یہ انسانی المئے بھی صیہونی حکومت کے عمائدین اور ان کے حامیوں کے مقاصد پورے نہ کر سکے۔ خبیث سیاست باز، صیہونی حکومت کے لئے اقتدار اور استحکام کی جو احمقانہ آرزو دل میں پروان چڑھا رہے ہیں، اس کے برخلاف یہ حکومت روز بروز اضمحلال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے میدان میں جھونک دی جانے والی ساری طاقت کے مقابلے میں محصور اور بے سہارا غزہ کی پچاس روزہ استقامت، اور آخر کار اس حکومت کی ناکامی و پسپائی اور مزاحمتی محاذ کی شرطوں کے سامنے اس کا جھکنا، اس اضمحلال، ناتوانی اور بنیادوں کے تزلزل کی واضح علامت ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ؛ ملت فلسطین کو ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہو جانا چاہئے، جہاد اسلامی اور حماس کے مجاہدین کو چاہئے کہ اپنے عزم و حوصلے اور سعی و کوشش میں اضافہ کریں، غرب اردن کا علاقہ اپنی دائمی افتخار آمیز روش کو مزید قوت و استحکام کے ساتھ جاری رکھے، مسلمان قومیں اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مدد کرنے کا مطالبہ کریں اور مسلمان حکومتیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس راستے میں قدم رکھیں۔
تیسرا اہم اور ترجیحی مسئلہ دانشمندانہ زاویہ نظر کا ہے جسے عالم اسلام کے دردمند کارکن حقیقی محمدی اسلام اور امریکی اسلام کے فرق کو سمجھنے کے لئے بروئے کار لائیں اور ان دونوں میں خلط ملط کرنے کے سلسلے میں خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔ سب سے پہلے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان دونوں کے فرق کو واضح کرنے پر توجہ دی اور اسے دنیائے اسلام کے سیاسی لغت میں شامل کیا۔ خالص اسلام، پاکیزگی و روحانیت کا اسلام، تقوی و عوام کی بالادستی کا اسلام، مسلمانوں کو کفار کے خلاف انتہائی سخت اور آپس میں حد درجہ مہربان رہنے کا درس دینے والا اسلام ہے۔ امریکی اسلام، اغیار کی غلامی کو اسلامی لبادہ پہنا دینے والا اور امت اسلامیہ سے دشمنی برتنے والا اسلام ہے۔ جو اسلام، مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی آگ بھڑکائے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمنوں کے وعدوں پر اعتماد کرے، صیہونزم اور استکبار کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمان بھائیوں سے بر سر پیکار ہو، اپنی ہی قوم یا دیگر اقوام کے خلاف امریکا کے استکباری محاذ سے ہاتھ ملا لے، وہ اسلام نہیں، ایسا خطرناک اور مہلک نفاق ہے جس کا ہر سچے مسلمان کو مقابلہ کرنا چاہئے۔
بصیرت آمیز اور گہرے تدبر کے ساتھ لیا جانے والا جائزہ، عالم اسلام میں ان حقائق اور مسائل کو حق کے ہر متلاشی کے لئے آشکارا کر دیتا ہے اور کسی بھی شک و تردد کی گنجائش نہ رکھتے ہوئے فریضے اور ذمہ داری کا تعین کر دیتا ہے۔
حج، اس کے مناسک اور اس کے شعائر، یہ بصیرت حاصل کرنے کا سنہری موقعہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ خوش نصیب حجاج کرام اس عطیہ خداوندی سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوں گے۔
آپ سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں اور بارگاہ خداوندی میں آپ کی مساعی کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
پنجم ذی الحجہ 1435 (ہجری قمری) مطابق، 8 مہر 1393 (ہجری شمسی)
7m:50s
18560
[ARABIC] Sayyed Hassan Nasrallah كلمة السيد حسن...
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان...
دعا الأمين العام لحزب الله سماحة السيد حسن نصر الله الاميركيين والصهاينة الى ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وسورية لن تبقيا في ايران وسورية وانما ستتدحرج على مستوى المنطقة باكملها. واشار السيد نصر الله في احتفال يوم الشهيد في مجمع سيد الشهداء (ع) في الضاحية الجنوبية لبيروت عصر الجمعة الى انه رغم كل التهديدات في المنطقة فالاوضاع المحلية والاقليمية والدولية اليوم لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقاييس والمعايير.
واعتبر السيد نصر الله ان الحديث عن اعتداء او حرب جديدة على لبنان يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، مشيرا الى انه اذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
ودعا سماحته من يراهنون على سقوط النظام السوري الى ترك هذا الرهان ، وقال لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهو سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واكد السيد نصر الله ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء لكنه دعا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو عندما اوقفت اميركا تمويل هذه المنظمة لأنها اعترفت بفلسطين متسائلا الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما لاميركا من التزاماتها الدولية فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز لبنان؟ واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية والغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان ليهدد لبنان بعقوبات.
الجنوب اليوم قوي آمن
في بداية خطابه اكد السيد نصر الله ان الشهداء صناع حياة بإرادة الله تعالى وان الجهاد والشهادة و إرادة الصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى. واشار الى ان الشهداء هم نتاج الايمان بالله وباليوم الاخر و نتاج المعرفة واهل المعرفة، معرفة الهدف ومعرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف ومعرفة العدو والصديق والاولويات والزمان والمكان، وهذا الذي نسميه البصيرة.
واذ اشار السيد نصر الله الى ان محبي الامام موسى الصدر يعيشون اجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود الى اعاد الامام ورفيقيه الى لبنان ان شاء الله، تطرق الى كلام قرأه كان قاله الامام الصدر في جلسة داخلية عام 1978 وهو انه يشعر بالاسى الكبير لما يعيشه الجنوب الذي تحول لمكسر عصى والذي تعتدي عليه اسرائيل، واضاف: قلت له في نفسي عندما تعود ستفخر بتلامذتك وابنائك وكل اصدقائهم وحلفائهم وبالمقاومة التي اسستَ وضحيت من اجل ان تقوم، وان هذا الجنوب اليوم قوي آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل اصبح حاضرا وبقوة في المعادلة الاقليمية ايضا.
احتمالات الحرب.. وقلب الطاولة على المعتدي
اضاف سماحته: فيما يعني اي اعتداء او حرب جديدة على لبنان فالحديث يدخل في دائرة التهويل وما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن احداث تطورات المنطقة والوضع الاقليمي، واذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة نستبعد ان يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبنان.
واكد ان ذلك ليس كرم اخلاق من اسرائيل و اميركا ومجلس الامن الدولي بل لأن لبنان بات بلد قويا وبات قادرا بجيشه وشعبه ومقاومته على الحاق الهزيمة واصبح في موقع يستطيع ان يقلب فيه الطاولة على المعتدي وان يحول التهديد الى فرصة حقيقية. واكد ان ذلك لا يعني ان ننام ابدا وان هذه المقاومة لم تنم في يوم من الايام .
وتابع السيد حسن نصر الله: اقول للذين يئسوا في انفسهم ولم ييأسوا على مستوى الخطاب عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا ان تتخلى عن سلاحها انما تطلبون ان نكون المغبون المَهين الذي لم يستفد من كل التجارب ويسلم كرامة اهله ووطنه لابشع عدو عرفه التاريخ وهو اسرائيل، لذلك في يوم الشهيد ندعو للتمسك بالمقاومة والجيش والارادة الشعبية لانها عنصر القوة الحقيقي.
الوضع الداخلي والحكومة
واكد السيد نصر الله ان الحكومة اثبتت حتى الآن انها حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية واساسية تمثل غالبية نيابية وغالبية شعبية جدية وحكومة بحث ونقاش وحوار ليست حكومة الراي الواحد وشمولية، يتناقش اطرافها ويتخذون القرارات لا ياتيهم "اس ام اس" من احد ولا تتلقى اشارات من احد.
واضاف سماحته ان الحكومة مدعوة الى مزيد من العمل والانجاز والجدية ومتابعة الملفات وان لا تصغي الى كل الضجيج مشددا على ان الاهم ان تعطي الاولوية المطلقة لحاجات الناس وهناك استحقاقات امام الحكومة كالحد الادنى للأجور ورواتب القطاع العام والمعلمين والنفط والغاز واستحقاق الكهرباء والماء الضمان الصحي والتعيينات وملفات ادارية حساسة لا تحتاج الى انفاق، ومواضيع انسانية يجب ان نقاربها من منظار انسانية. واشار الى ان الحكومة معنية ان تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها.
الوضع الأمني
ودعا السيد نصر الله الجميع الى الحفاظ على الوضع الامني لأن الامن شرط الاستقرار والصحة والعافية كما دعا وسائل الاعلام الى عدم تضخيم الاحداث الفردية والى التثبت من المعطيات قبل إطلاق التصريحات.
واضاف: ندعو الى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن واثبتت كل التجارب القاسية التي مر بها لبنان انه في نهاية المطاف كان يضيع ويتقسم كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص.
تمويل المحكمة.. وفضيحة اليونيسكو
السيد نصر الله اشار الى ان موضوع تمويل المحكمة يترك للنقاش في مجلس الوزراء داعيا الى اخذ العبرة مما حصل في موضوع منظمة اليونيسكو . وقال: من المفيد ان ينتبه اللبنانيون والراي العام الى ما حدث في موضوع اليونيسكو وهي منظمة دولية اعترفت بدولة فلسطين بل بقطعة من فلسطين على ارض 67 بل ليس معلوما انها اراضي الـعام 67 فغضبت اميركا لانها اعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وقامت بإجراء واوقفت تمويل هذه المنظمة. الم يكن تمويل الاونيسكو التزاما دوليا لاميركا؟ فلماذا يجوز ان تتحلل من التزاماتها ولا يجوز للبنان واذا لم يمول المحكمة الغير دستورية الغير قانونية التي كلنا بتنا نعرف سلوكها واهدافها ياتي فيلتمان وبكل وقاحة وبعد الذي حصل في اليونيسكو ويهدد لبنان بعقوبات.. هذا يفضح اميركا في العالم وحلفاء اميركا في لبنان.
إيران وسورية
ودعا السيد نصر الله الى ترك الرهان على الخارج والتطورات الاقليمية مضيفا: اقول لكل الذين يؤجلون الملفات والخيارات والمعالجات او يصنعون امالا واوهاما ويبنون على سقوط نظام الرئيس بشار الاسد في سورية ضعوا هذا الرهان جانبا فهذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة.
واضاف: شهدنا خلال الايام الماضية تصاعد التهديدات وطرح بقوة احتمال قيام العدو الاسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية وتصاعد التهديد والاحتمالات.. القيادة في الجمهورية الاسلامية ردت بشكل حازم وكان الاوضح ما قاله الامام الخامنئي وما قاله عين الحقيقة والواقع وان ايران بجيشها وشعبها وعزمها لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الاساطيل وهذا امر محسوم .
وتوقف السيد نصر الله عند خلفيات هذه التهديدات وقال: من الان الى اخر العام هناك انسحاب اميركي من العراق وما يجري انسحاب وهزيمة كبيرة للمشروع الاميركي ، واميركا المهزومة في العراق غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية فتنسحب تحت النار السياسية والاعلامية عبر التهويل على المنطقة وايران وسورية وشعوب المنطقة فيصبح الاهتمام مركزا على هذه التطورات ويصبح خبر انسحاب الاميركي خبرا عاديا وليس في صدارة الاحداث، لذا يجب التركيز بالمقابل على موضوع الانسحاب واثاره السياسية والعسكرية والامنية على منطقنتا ومستقبلها.
ثانيا: من الطبيعي ان تقوم اميركا في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في الحاق الهزيمة بها في المنطقة ولا يختلف اثنان ان الدولتين اللتين وقفتا بوجه الاحتلال الاميركي ولم تستلم للشروط الاميركية هما ايران وسورية.
الامر الثالث الذي يجب الانتباه اليه: التحولات التي حصلت في منطقتنا اذ لا شك ان سقوط نظام زين العابدين خسارة للمشروع الاميركي وسقوط نظام القذافي خسارة وسقوط نظام حسني مبارك الخسارة العظمى لاميركا واسرائيل.. في مسار التحولات محور الممانعة والمقاومة والرفض لاسرائيل ومشاريع الهيمنة يقوى ويكبر وللتعويض عن خسارة اميركا يجب ان تنتقل بسورية وايران الى موقع دفاعي والانشغال بذاتها وامنها واقتصادها.
الامر الرابع: اميركا تريد اخضاع ايران وسورية وجر ايران الى التفاوض المباشر واخضاع سورية لتقبل ما لم تكن تقبله..
واشار السيد نصر الله الى ان هذا التهويل والتهديد هو بناء على هذه الخلفيات ويضاف عليها وقائع الوضع الاقتصادي في اوروبا والوضع المالي والاقتصادي في اميركا كارثي.
اضاف: من جهة ثانية ايران صلبة مقتدرة لديها قائد لا مثيل له في هذا العالم وايران سترد الصاع صاعين، فمن يجرؤ ان يشن حربا على ايران؟ وعليهم ان يفهموا جيدا ان الحرب على ايران وعلى سورية لن تبقيا في ايران وسوريا وانما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة باكملها.
الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة
وختم سماحته: في يوم الشهيد نؤكد اننا منذ فاتح عهد الاستشهاديين الى اليوم والى المستقبل دخلنا في عصر الانتصارات وولى زمن الهزائم وكل ما علينا ان نحفظ وصايا وامال الشهداء ونواصل طريقهم وسنفعل ذلك حتما، وللشهداء بيعة في اعناقنا لا تنقضي حتى نلتقي بهم.. وقال: رغم كل التهديدات في المنطقة ، اليوم الاوضاع المحلية والاقليمية والدولية لمصلحة شعوب المنطقة ومحور الممانعة والمقاومة افضل من اي زمن مضى بكل المقايسس والمعايير، وما دمنا اهل الايمان واهل المعرفة والعشق سننتصر ان شاء الله.
وفي ما يلي النص الكامل لكلمة الأمين العام لحزب الله السيد حسن نصر الله
بسم الله الرحمن الرحيم والحمد الله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا ونبينا خاتم النبيين أبي القاسم محمد وعلى اله الطيبين الطاهرين وصحبه الأخيار المنتجبين وعلى جميع الأنبياء والمرسلين، السلام عليكم جميعا ورحمة الله وبركاته.
في البداية نتوجه بالتحية إلى أرواح الشهداء العطرة والزكية ونهدي إليهم ثواب الفاتحة...
في مثل هذا اليوم من كل سنة نلتقي تحت راية وخيمة وعنوان الشهداء. في اليوم الذي اختاره حزب الله منذ البداية يوما لشهيده، يوم شهيد حزب الله. بطبيعة الحال كل فصيل من فصائل المقاومة، كل حركة من حركات المقاومة، كل شعب من شعوب المقاومة في المنطقة له شهداؤه الذين ينتمون إلى إطاره الخاص، ومن حقه الطبيعي أن يحيي لهم يوما وذكرى. وفي الحقيقة أن إحياء يوم الشهيد هو بمثابة تعويض عن الذكرى السنوية لكل شهيد على حدة، كما كانت تجري العادة أحيانا. ونحن نأمل إن شاء الله أن يأتي يوم يُقر فيه في لبنان يوما لشهيد الوطن، لكل الشهداء من كل حركات المقاومة وفصائل المقاومة، من الجيش إلى القوى الأمنية، إلى القوى السياسية إلى الشهداء من أبناء الشعب اللبناني ليكون عيدا وطنيا جامعا.
في البداية وقبل أن أتحدث أيضا عن شهيد حزب الله، يجب أن انحني إجلالا واحتراما وتقديرا لكل إخواننا الشهداء في بقية حركات المقاومة وفصائل المقاومة الذين نقدر جهودهم وتضحياتهم وعطاءاتهم، وشراكتهم الحقيقية في تحرير لبنان وفي الدفاع عن لبنان وفي تحقيق كل الأهداف التي تحققت حتى الآن.
كما هي العادة أود في البداية أن أشير إلى إنني سأتكلم أولا في كلمة عن الشهداء في يوم الشهيد وعن المقاومة، هذا عنوان، وكلمة عن الوضع اللبناني المحلي الداخلي، وكلمة في الوضع الإقليمي.
اليوم وفي يوم الشهيد، بطبيعة الحال، نحن نحتفي هنا بكل شهداء حزب الله، الذين فيهم القادة من السيد عباس الأمين العام إلى الشيخ راغب إلى الشهيد القائد الحاج عماد إلى صف من كوادر وقيادي هذه المقاومة الإسلامية إلى الاستشهاديين العظام الذين كان فاتح عهدهم ومسارهم الاستشهادي احمد قصير إلى كل الشهداء المجاهدين من المقاومين ومن الرجال والنساء والأطفال والصغار والكبار. نحن نحتفي بهذا الجمع الكبير الذي تجاوز الآلاف من شهداء جماعة آمنت بهذا الطريق كانت جزءا من وطنها وشعبها، كانت جزءا من أمتها، حملت همومها وهموم أمتها واختارت الطريق الصحيح وقدمت في الطريق الذي أمنت به، ومن اجل القضية التي آمنت بها كل هذا الجمع العظيم والكريم والشريف من الشهداء.
طبعاً انتخاب هذا اليوم، يعني 11 - 11 من كل سنة مناسبته المعروفة هي العملية الاستشهادية التي نفذها الاستشهادي أحمد قصير في مدينة صور والتي استهدفت مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي. هذه العملية التي مازالت حتى اليوم متميزة عن كل عمليات المقاومة ومازالت حتى اليوم أيضا هي العملية الأضخم والأكبر والأهم في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي نظرا لحجم الخسائر التي لحقت بالعدو على يد شهيد واحد وفي لحظة واحدة، لقد اعترف العدو نفسه بسقوط ما يزيد عن 120 130 140 خليني احتاط وأقول بالحد الأدنى العدو اعترف بما يزيد عن مقتل مئة ضابط وجندي بينهم أيضا جنرالات كبار، حجم الخسائر التي ألحقت بالعدو الخسائر المعنوية والنفسية، النتائج المعنوية والنفسية والسياسية على جبهة العدو وعلى جبهة الوطن كانت عظيمة جدا وكانت هذه العملية إيذان مبكر بالهزيمة التي تنتظر العدو. أنا من الأشخاص الذين لا يغيب عن ناظري وجه شارون البائس والمكتئب وهو يقف على حطام مقر الحاكم العسكري الإسرائيلي في مدينة صور، أيضا هذه العملية هي عملية تأسيسية في تاريخ المقاومة هي العملية الاستشهادية الأولى في تاريخ الصراع العربي الإسرائيلي هذا النوع من العمليات الاستشهادية - أن يقتحم استشهادي بسيارته المليئة بالمتفجرات مقر عسكري ويفجر نفسه في هذا المقر، هذه لأول مرة، ولذلك نطلق على الشهيد أحمد فاتح عصر الاستشهاديين، ولذلك أيضا كان بحق صاحب لقب أمير الاستشهادييين لأن الأمير ليس من يجلس في الخلف وإنما الذي يتقدم جميع المجاهدين والشهداء في الأمام لأنه كان في الطليعة لأنه كان الأول كان الأمير، زمان العملية المبكر أيضا بعد أشهر قليلة جدا من الإجتياح الإسرائيلي للبنان وتوهم البعض في لبنان وفي المنطقة أن لبنان دخل في العصر الإسرائيلي بشكل نهائي وأن علينا ان نرتب أمورنا للانسجام مع هذا العصر الإسرائيلي جاءت عملية الاستشهادي أحمد قصير لتقول: لا هذا زمنا آخر وعصرا آخر هذا زمن المقاومة زمن الاستشهاديين زمن الانتصارات الآتية.
أيها الإخوة والأخوات في هذا العام اختار اخواننا عنوانا ليوم الشهيد سمي يوم "الحياة" وهذه تسمية صحيحة مئة بالمئة بل هي من اصح التسميات :
أولا: لأن الشهداء أحياء، الشهداء أحياء، لست أنا من يقول ذلك وإنما الله سبحانه وتعالى خالق الموت والحياة هو الذي يقول ذلك "ولا تحسبنا الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون" أحياء عند ربهم يرزقون الآن هم أحياء يرزقون من كل ما يتمنون فرحين بما أتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم"، الذين مازالوا هنا مازالوا ينتظرون مازالوا على العهد هم في عقل وخاطر وبال كل شهيد لحق بالمقام الأعلى ويستبشرون بكم بالذين مازالوا يواصلون الدرب ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أمواتاً بل أحياء ولكن لا تشعرون".
ثانيا: لأنهم أعطونا الحياة، أي حياة؟ الحياة الكريمة العزيزة لأنهم منحوا لبلدنا ولشعبنا ولوطننا كرامة وعزة وسيادة وأمنا وتحريرا واحساسا بالثقة وإطمئنانا للحاضر والمستقبل وهذه هي الحياة الحقيقية التي يتطلع أليها كل انسان هذه هي المدرسة مدرسة الإسلام العظيم الذي يقول لنا مفهوما آخر عن الحياة الذي يقول لنا الحياة في موتكم قاهرين والموت في حياتكم مقهورين يعني بعد عام 1982 عندما احتل الصهاينة نصف لبنان وأرادوا أن يهيمنوا على كل لبنان وكانت دباباتهم وملالاتهم وجنودهم يسرحون ويمرحون بل كانوا يسبحون على شواطئ لبنان بكل أمان لو رضي اللبنانيون ان يعيشوا ويأكلوا ويشربوا ولكن تبقى أرضهم محتلة وكراماتهم منتهكة وشبابهم ونساءهم يقادون بذل إلى السجون وسيادتهم مصادرة ومصيرهم مرمي في المجهول يعني لو رضوا حياة الذل والهوان والخضوع هل تسمى هذه حياة؟ أبدا هذا موت على شاكلة الحياة، إذا هؤلاء الشهداء هم صناع حياة بإرادة الله سبحانه وتعالى . الله سبحانه وتعالى جعل للحياة المادية أسباب طبيعية وللحياة المعنوية الانسانية الحقيقية خلق أسباب مؤدية إلى هذا النوع من الحياة وكان الجهاد وكانت الشهادة وكانت إرادة الثابتين والصامدين والمقاومين هي السبب الموصل لهذا المعنى.
هؤلاء الشهداء هم نتاج الإيمان بالله وباليوم الآخر، هم نتاج المعرفة، هم أهل المعرفة - معرفة الهدف معرفة الطريق الصحيح الموصل للهدف معرفة العدو والصديق معرفة الأولويات معرفة الزمان والمكان هذا الذي نسميه البصيرة. عندما يمضي الانسان على بصيرة من أمره عندما يكون الانسان صاحب بصيرة هذه هي البصيرة هؤلاء أيضا هم اهل العزم والإرادة والثبات والشجاعة كلنا يتذكر في بدايات مواجهة الإحتلال كيف كان العالم كله يقف إلى جانب إسرائيل وكيف كانت المعنويات محطمة والبؤس يعم الوجوه واليأس يسيطر على العقول والقلوب وقف المقاومون، من هنا نستعيد الجذور والينابيع التي نستمد منها هذا المعنى، في كلمة لأمير المؤمنين علي عليه السلام يقول"اني والله وأنا اقول لكم كل فرد في هذه المقاومة كان ومازال يحمل هذه الروح"، يقول علي عليه السلام "اني والله لو لقيتهم فردا لو كنت وحدي أني والله لو لقيتهم فردا وهم ملئ الأرض ما باليت وما استوحشت".
هذا هو جوهر المقاومة والمقاومين في لبنان لم يستوحشوا لقلة الناصر والمعين، لم يستوحشوا لكثرة العدو ولكثرة مؤيدي العدو ولكثرة مساندي العدو ولكثرة المراهنين على العدو بل كان كل واحد منهم يقف ويقول للصهاينة وللأمريكي وللقوات المتعددة الجنسيات اني والله لو لقيتكم فردا وانتم ملئ الأرض ما باليت ولا استوحشت.
هؤلاء هم أهل العزم وهؤلاء هم اهل المحبة اهل العشق اهل الشوق في تتمة الكلمة يقول علي عليه السلام"وأني إلى ربي لمشتاق ولحسن ثواب ربي لمنتظر" هؤلاء هم العشاق المشتاقون إلى لقاء الله سبحانه وتعالى، ولذلك هم ينظرون كانوا ومازالوا ينظرون إلى أقصى القوم وليس إلى مواقع أقدامهم إلى نهاية النهايات، هذا المعنى ايضا هو الذي يستطيع ان يفسر لنا بدقة السر الحقيقي في انتصار حرب تموز فلم يكن هذا السلاح ولا هذا التكتيك ولا هذا التخطيط ولا هذه الإدارة ولا كل الوسائل المتاحة لتمكن لبنان والمقاومة من الانتصار لولا هؤلاء الرجال الذين رسخت أقدامهم في الأرض فما بالوا ولا استوحشوا ولا وهنوا ولا ضعفوا ولا استكانوا ولا خافوا ولا هربوا ولا فروا وهكذا هم يبقون من مدرسة الشهداء ومدرسة المقاومة هذه نحن اليوم نعيش الإطمئنان في لبنان الإطمئنان للمرة الأولى في تاريخ لبنان منذ قيام الكيان الصهيوني الغاصب لفلسطين عام 1948 ليس من السهل أيها الإخواة والاخوات ان يعيش الانسان في بلد وفي جواره وحش كاسر مفترس طماع خداع كيف ليمكن لانسان ان يطمئن على أهله على دماءهم على أعراضهم على كراماتهم على مستقبلهم في جوار كيان عنصري عدواني من هذا النوع، اليوم وللمرة الأولى يشعر لبنان ويشعر جنوب لبنان بالتحديد بالطمأنينة بالهدوء بالأمن بالاستقرار بالثقة، قبل أسابيع كنت أقرأ نصا لسماحة الإمام القائد السيد موسى الصدر "أعاده الله بخير ورفيقيه والذي نعيش هذه الأيام كلنا، كل محبيه، أجواء عاطفية خاصة بانتظار ان تفضي الجهود إلى إعادة الامام ورفيقيه إلى لبنان ان شاء الله"، منشور مؤخرا وهو كلام في جلسة داخلية في عام 1978 قبيل الغزو الإسرائيلي عام 1978 في لقاء داخلي مع الإخوة كوادر حركة أمل كان يقول لهم ما مضمونه انه يشعر بالأسى الشديد بالحزن الكبير لما يعيشه الجنوب وأهل الجنوب - الجنوب الذي تحول إلى مكسر عصى الجنوب الذي تعتدي عليه اسرائيل فتدمر البيوت والبلدات من كفرشوبا إلى غيرها والتي تهجر أهله عندما شاءت، الجنوب الذي لا يشعر بالأمان، الجنوب الذي ينزف، ثم يتحدث بقلب محروق يقول للأسف لبنان ضعيف الجنوب ضعيف لأن لبنان ولأن الجنوب لأننا في لبنان جميعا ضعفاء العدو يفعل ما يشاء ويعتدي متى يشاء ويتحدث بقلب محروق ويقول ان الاكثرين لا يعنيهم ما يجري في الجنوب ولا يسمعون إلى كل النداءات إلى كل الصراخ الذي نطلقه. وأنا أقرا هذه الكلمات للإمام الصدر مباشرة قلت له في نفسي يا سماحة الإمام عندما تعود ان شاء الله ستفخر بأبنائك ستفخر بأحبائك ستفخر بتلامذتك ستفخر بأتباع خطك ستفخر بكل أصدقائهم وحلفائهم، ستفخر بالمقاومة التي أسست وناديت وضحيت من اجل ان تقوم على أرض لبنان وعلى ارض جنوب لبنان هذا الجنوب يا سيدي اليوم قويا آمن مطمئن ثابت راسخ لم يعد مكسر عصا لأحد بل أصبح حاضر وبقوة في المعادلة الإقليمية أيضا.
اليوم، فيما يعني أي احتمال يتعلق باعتداء أو عدوان أو حرب إسرائيلية جديدة على لبنان وبالرغم من كل ما يقال في بعض التحليلات وبعض المقالات أعتقد أنه يدخل في دائرة التهويل ، نحن ما زلنا نعتقد باستبعاد قيام العدو الإسرائيلي بعدوان من هذا النوع على لبنان بمعزل عن أحداث وتطورات المنطقة والوضع الإقليمي، إذا لم يكن هناك مخطط لحرب على مستوى المنطقة فنحن نستبعد أن يكون هناك مخطط لحرب وشيكة على لبان، وليس السبب في هذا الإستبعاد ليس كرم إسرائيل ولا الفضل لأمريكا ولا الفضل للمتمع الدولي ولا الفضل لمجلس الامن الدولي ولا كرم أخلاق من أحد ولا كرم أخلاق من أحد ولا لأنّ احد أصبح "آدمي" بل لسبب بسيط جدا هو أنّ لبنان لم يعد ضعيفا وأن لبننا بات بلدا قويا وأن لبنان بجيشه وشعبه ومقاومته بات قادرا على الدفاع وعلى إلحاق الهزيمة بالمعتدي أيضا ، بل أكثر من ذلك أنّ لأبننا أصبح في الموقع الذي يستطيع أن يقلب فيه الطاولة على من يعتدي عليه وأن يحوّل التهديد إلى فرصة حقيقية.
عندما تتراجع هذه القوة وتضعف لا سمح الله وعندما تتفكك هذه القوة يمكن لإسرائيل ان تعاود التفكير بالإعتداء والحرب على لبنان والسيطرة على لبنان، لكن ما دام هذا الإيمان وهذه البصيرة وهذه الإرادة قائمة وهذا الثلاثي الذهبي متماسكاً فإن اسرائيل ستبقى واقفة بعجز وغير قادرة على أن تشنّ حرباً، وإذا جاء يوم لتشنّ فيه حرباً ستكون حرب اللاخيار أي المغامرة الأخيرة في حياة هذا الكيان.
إننا في الوقت الذي على مستوى القراءة والتحليل نستبعد فيه حرباً اسرائيلية على لبنان من هذا النوع بمعزل عن أحداث المنطقة، فهذا لا يعني أن ننام، وأنا أود أن أؤكد لكم أنّ هذه المقاومة التي ننتمي إليها لم تنم في يوم من الأيام، منذ عام 82 ومنذ احمد قصير لم تنم إلى عام 2000 عندما كان الإنتصار الكبير في لبنان في 25 أيار، وفي 26 أيار عام 2000 لم تنم هذه المقاومة وإنما بقيت يقظة وتعمل وتحضّر وتجهّز، لأنها تعرف أن بلدها وشعبها في جوار أي عدو، إلى عام 2006 وبعده ومنذ 15 آب 2006 إلى اليوم هذه المقاومة لم تنم.
أعود إلى كلمة لأمير المؤمنين (علي) عليه السلام يقول : "إنّ أخ الحرب اليَقْظَان الأَرِقْ" من كان في جواره عدو محارب، من كان ما زال في حالة حرب، حتى الذين يقولون أنّ لبنان في هدنة لا تعترف فيها إسرائيل يعني هناك حرب، مع العلم أنّ القرار 1701 الذي يُنَادى به حتى اليوم لم تصل فيه إسرائيل إلى وقف إطلاق النار وهناك وقف عمليات (...). المقاومة في لبنان هكذا "يقظان أرق" ، ثمّ يقول عليه السلام "ومن نامَ لم يُنَمْ عنه" حتى لو بعض الناس في لبنان راحوا ناموا، "ليش" الجيش الإسرائيلي نائم !؟ الإسرائيلي منذ العام 2006 لليوم (يعمل على) التدريب والتجهيز والتسليح والتصنيع والمناورات، في قبالنا عدو لم ينم فكيف ننام، "ومن َضعُفَ أُوذي ومن ترك الجهاد كان كالمغبون المهين".
أقول للذين يأسوا ولم ييأسوا يعني هم في داخلهم يأسوا لكن في خطابهم السياسي لم ييأسوا : عندما تطلبون من شعبنا ومقاومتنا أن تتخلى عن سلاحها إنما تطالبوننا بأن نكون "المغبون المهين والمغبون الذليل" الذي لم يَسْتَفِد من كل التجارب والذي يسلّم كرامة أهله وشعبه ووطنه لأبشع عدو عرفه التاريخ وهو إسرائيل. لذلك نحن في يوم الشهيد ويوم الشهداء ندعو إلى التمسك بالمقاومة والتمسك بالجيش والتمسك بالإرادة الشعبية لأنها عنصر القوة الحقيقي.
بالوضع الداخلي، أثبتت الحكومة حتى الآن أنّها حكومة تنوّع، حكومة متنوعة تتمثل فيها قوى سياسية حقيقية وأساسية، حكومة تمثّل غالبية نيابية وغالبية شعبية جديّة، حكومة نقاش وبحث وحوار، ليست حكومة الرأي الواحد ولا حكومة شمولية، حكومة يتناقش أطرافها ويتخذون القرارات "ما بيجييهم "SMS" من أحد لا من (جيفري) فيلتمان ولا من السفارة الفرنسية ولا من دنيس روس الذي "فل" ولا من ذلك الذي لا نحبه ناظر القرار 1559 (تيري رود) لارسن. لا تتلقى إشارات ولا إيحاءات من أحد (بل) حكومة وطنية حقيقية. هذه الحكومة مدعوة اليوم إلى مزيد من العمل والإنجاز وإلى المزيد من الجدية ومتابعة الملفات وأن لا تصغي إلى كل الضجيج الذي يثار من هنا وهناك ويراد إشغالها بقضايا وهمية لا اساس لها.
الأهم ان تعطي الحكومة الأهمية المطلقة لهموم الناس وحاجات الناس المعيشية والإجتماعية والإقتصادية، هناك استحقاقات أمام الحكومة من حسم موضع الحد الأدنى للأجور وموضوع رواتب العمال والقطاع العام والمعلمين، ومسائل تتعلق بالنفط والغاز وهذا استحقاق حقيقي، ونحن نقترب من نهاية العام، موضوع الكهرباء موضوع الماء والضمان الصحي والتعيينات الإدارية، هناك ملفات حساسة ومهمة جدا ولا تحتاج إلى انفاق، يعني مثلا التعيينات الإدارية وأن تصبح الإدارة مكتملة قادرة على الفعل والإنجاز فهذا لا يحتاج إلى أموال وموازنات وضرائب جديدة فهذا خلل حقيقي موجود في البلد اليوم، استكمال الإدارة يوفر الكثير من الأعباء والمصاعب على المواطنين، على سبيل المثال المسارعة إلى تشكيل محافظة بعلبك الهرمل، وتشكيل محافظة عكار، كذلك الإدارات التي لا تقوم بوظائفها وواجباتها تجاه المواطنين بسبب الفراغ الإداري الهائل، هناك عشرات آلاف المطلوبين بمذكرات منذ عشرات السنين وأحيانًا بقضايا بسيطة وتافهة، هذا الأمر يمكن أن يناقش لمعالجته لأنّه حينئذ يخفف عبء على القوى الأمنية، فعندما يطلع مسؤولو قوى الأمن ويقولون لدينا 30 إلى 40 ألف مذكرة توقيف فقط بمحافظة واحدة، يطلع أغلب أسباب مذكرات التوقيف تافهة ويمكن التسامح فيها، معالجة هذا الأمر سواء على عهدة الحكومة أو على عهدة المجلس النيابي من المؤكد يساعد (على حلها).
هناك نوع من القضايا الإنسانية التي يجب مقاربتها في شكل انساني، هناك خطوة أنجزت قبل أيام في مجلس النواب تتعلق بملف "الهاربين" إلى اسرائيل، وكان هناك تفسيرات عديدة وكثيرة ونحن كنّا مِنَ الذين أيّدوا الإقتراح الذي قُدّم في مجلس النواب وكنّا منسجمين مع أنفسنا لأن هذا المعنى والمضمون ورد في التفاهم الموقع بيننا وبين التيار الوطني الحر عام 2006 ونحن نفي بتفاهماتنا واتفاقاتنا، وطبعا الحكومة معنية بالمسارعة إلى إصدار المراسيم ومعالجة هذا الموضوع بالحدود التي تم التصويت عليها في مجلس النواب وخلفية هذه المعالجة هي خلفية انسانية، لكن اسمحوا لي أن أذكّر والبعض يقول لماذا دائما تذكروننا، لأن هناك أناس تحدثوا وعَزُوا سبب هروب الناس لأنّه حدثت مجازر أو خافت من المجازر عام 2000، طبعا يومها كان هناك أناس مضروب على رأسهم لم يعرفوا ماذا يجري لأنّ رهاناتهم خسرت بالإنسحاب يوم 25 أيار عام 2000 ، وهناك أناس لم يكونوا قد خلقوا أو خلقوا وكانوا صغارا. فيحتاجون للتذكير أنه في 25 أيار عام 2000 لم يقتل أحد، أُنجز التحرير ولم يقتل احد لا من جماعة انطوان لحد ولا من المدنيين بل سقط شهداء من المقاومة ولم يُقتل أحد ولم تُرتكب أي مجزرة ولم يهدم أي دار ولا أي مكان للعبادة ولم تنتهك كرامة احد، العملاء الذين تمّ توقيفهم تمّ تسليمهم مباشرة للقضاء اللبناني الذي نعرف كيف تصرف معهم. وأنا أظن أن هؤلاء الذين هربوا إلى إسرائيل وطبعا حقهم كان أن يهربوا لأن المناخ والصورة الذهنية التي كانت سائدة في ذلك الوقت تساعد على هذا الخيار، أَضِفْ إلى أنّ هناك بعضهم يعرفون أعمالهم فطبيعي أن يهربوا، لكن بعد أن شاهدوا المشهد الحضاري الأخلاقي الإنساني كيف تعاطت المقاومة بكل فصائلها وكيف تعاطى أهل الجنوب الذين قُتِلَ أطفالهم واعْتَدِيَ على أعراضهم في معتقل الخيام كيف تعاطوا مع العملاء ومع عائلات العملاء وبعدها كيف تعاطى القضاء اللبناني، أعتقد أنّ كُثُراً منهم ندموا على هروبهم ولكنهم هربوا وأخطأوا. فقط أريد أنّ أذكّر بعض هؤلاء "الأبطال" ـ بين هلالين يعني ـ أنه لم يحصل مجازر ولا قتل ولا اعتداءات وعليهم أن يراجعوا التاريخ، إذا نسوا في 11 عاما ويغيروا التاريخ ـ وطبعا هم كل يوم يغيرون التاريخ ويشوهون الوقائع ـ كان لا بدّ من التذكير به.
الحكومة معنية أن تواصل العمل ونحن ندعمها ونؤيدها ونساندها باعتبار هذه الحكومة حكومة متنوعة وطنية.
فيما يعني الوضع الأمني، ندعو الجميع إلى الحفاظ على الإستقرار الامني في البلد لأنه شرط أساسي لكل شيء فهو شرط الإقتصاد والإستقرار السياسي والطمأنينة والصحة والعافية، وفي هذا السياق أدعو أيضا بعض الجهات السياسية ووسائل الإعلام إلى عدم تضخيم الأحداث الفردية التي تحصل والتي تحصل في أي مكان من العالم، وأيضا إلى التأكد والتثبت من المعلومات والمعطيات قبل إطلاق تصريحات يتبيّن في ما بعد أن المعلومات مبنية على خطأ ولا أساس لها من الصحة.
في هذا السياق أيضا ندعو إلى تحييد مؤسسة الجيش اللبناني وطبعا التعاون مع كل القوى الأمنية وتحييدها ما أمكن، ولكن نؤكد على أولوية تحييد مؤسسة الجيش اللبناني كمؤسسة ضامنة للسيادة والوحدة الوطنية والأمن، وقد أثبتت كل التجارب القاسية والمؤلمة التي مر بها لبنان وشعب لبنان أنه في نهاية المطاف كان ينهار كل شيء ويتقسم كل شيء ويضيع كل شيء وتبقى هذه المؤسسة خشبة خلاص. من يريد أن "يناقر" في السياسة لا بأس "يكمّل مناقرة فينا" وبالحكومة وبالدولة وبمجلس النواب ولكن لندع مؤسسة الجيش جانبا ولنحافظ عليها وعلى موقعها الوطني وصورتها الوطنية لأن هذا هو التصرف بخلفية وطنية.
في موضوع تمويل المحكمة (الدولية)، قلنا أنّ هذا الموضوع يناقش إن شاء الله في مجلس الوزراء ولكن هناك مستجد يسترعي الوقوف عنده قليلا هو ما حصل مع منظمة اليونيسكو، من مفيد أن ينتبه اللبنانيون وأيضا الرأي العام العربي والعالمي إلى هذه النقطة جيدا، منظمة اليونيسكو منظمة دولية تُعْنَى بالشأن الثقافي، اعترفت هذه المنظمة ـ والمصادفة أنه لم يكن فيها حق الفيتو ـ بدولة فلسطين وطبعا بأي دولة فلسطين؟ ليس بدولة فلسطين من البحر إلى النهر بل بقطعة من فلسطين يعني (حدود) الـ 67 أنها دولة وحتى أنه غير معلوم إذا كانت (دولة حدود) الـ 67، دولة فلسطين على الأرض التي ستقام عليها على ضوء المفاوضات لاحقا أو ما يحصل، غضبت أمريكا لأنّ هذه المنظمة الدولية الثقافية أعطت الشعب الفلسطيني بعض حقه وليس كل حقه، فأدانت موقفها وبالتالي هي تدين كل الذين صوّتوا لمصلحة دولة فلسطين ثمّ عملت إجراء وأوقفت التمويل بدون سابق إنذار. اليوم أعلنت اليونيسكو أنها ستجمد جميع برامجها إلى نهاية العام 2011.
هنا ألفت إلى أنّ منظمة اليونيسكو منظمة معترف بها دولياً وهي منظمة دولية ولم تشكّل لا في ظروف "بوشية – شيراكية" ولا بتهريب قانوني او دستوري مثل المحكمة الدولية، ومن جهة أخرى أنّ هذه المنظمة يستمر عملها ويتوقف عملها على هذا التمويل، وهي قامت بأمر محق ومنصف وعادل ويجب أن تكمله، تقوم الإدارة الأميركية بأخذ هذا الموقف. ألم يكن تمويل اليونيسكو التزاماً من قبل الإدارة الأميركية، أليس هذا من التزاماتها الدولية؟ لماذا يَحِل للإدارة الأميركية ويجوز لها أن تتحلّل من التزاماتها الدولية ولا يجوز للبنان لو كان هناك التزام؟ هناك بعض الناس انتبهوا أنّ هذا يؤثر على موضوع المحكمة فقالوا كلاما حمّال أوجه لكن أغلب قوى 14 آذار لم تعلّق على هذا الأمر. من حق أميركا ليس فقط ان تقطع أموال اليونيسكو بل أنّ تخرب وتدمر اليونيسكو لأنها وقفت إلى جانب شعب فلسطين، أما لبنان فلا حق له، وإذا لم يموّل المحكمة غير الدستورية وغير القانونية التي كلنا بتنا نعرف سيرتها وسلوكها وأهدافها ولا داعي للتكرار فيأتي (جيفري) فيلتمان ـ وانظروا إلى الوقاحة ـ بعد القرار الأمريكي بوقف تمويل اليونيسكو يهدد لبنان بعقوبات، هذا يفضح الإدارة الأميركية ويفضح حلفاء أمريكا في العالم ويفضح حلفاء أمريكا في لبنان.
بكل الأحوال، أمام هذه الفضيحة قدّم دولة الرئيس فؤاد السنيورة مخرجا للأميركيين وللحفاظ على اليونيسكو، وعلى ذمة الإعلام أنا أقرأ المكتوب الذي يقول " قدّم الحل الذي يحمي منظمة اليونيسكو من العقاب الأمريكي وناشد الرئيس السنيورة جامعة الدول العربية والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية الصديقة المبادرة إلى جمع وتسديد المبالغ التي كانت ستدفعها الولايات المتحدة وإسرائيل، بهذه الخطوة يمكن ببساطة ـ بحسب السنيورة ـ إحباط الإبتزاز الإسرائيلي والتهويل والضغوط الأمريكية من أجل الهيمنة". الآن (بمعزل) عن إدانة أمريكا أو عدم إدانتها و(فرض) عليها عقوبات وتُقَاطع ويُرفع الإصبع بوجهها هذا له علاقة بالعالم وعقلهم وشجاعتهم ووحدة المعايير أو ازدواجية المعايير، أريد أن أذهب إلى هذا المخرج، الرئيس السنيورة قدّم مخرجاً جميلاً، فليعتمده مع حكومة الرئيس الميقاتي. "حلّوا عن الرئيس الميقاتي وعن حكومة الرئيس الميقاتي"، وناشدوا جامعة الدول العربية ( وهذه المسألة لا تحتاج لذلك) والملوك والرؤساء العرب والدول الإسلامية والدول الغربية المعنية بتمويل 50 و60 مليون دولار ليدفعوها إلى المحكمة. هناك أمير عربي يستطيع ان يستغني عن بعض الحفلات في لندن او باريس وأن يدفع هذين القرشين، ولنتفادى كل هذا المشكل في البلد ومعركة مفتوحة شهر وشهرين وثلاثة وباتهامات للرئيس ميقاتي، لأن الرجل مقتنع بما يقوله، واتهامات للحكومة وبالويل والثبور وعظائم الأمور وبأن لبنان سيخرّب اقتصاده ويدمر وسيعزَل دوليا. إذا أنتم تحبون لبنان حقاً وحريصون على لبنان وتريدون خلاصه وأمنه فيما نحن "راسنا يابس" وأنتم أناس منفتحون وحواريون هذا مخرج: ما ترضونه لمنظمة اليونيسكو ارتضوه للمحكمة الدولية، رغم ان اليونيسكوا أنصفت قوماً والمحكمة الدولية تعتدي على آخرين، ومع ذلك هذا مخرج يمكن ان تعتمدوا عليه وتتكلوا على الله وتدعوا الرئيس ميقاتي "يعرف ينام".
اليوم الغرفة الأولى أو الثانية في المحكمة مجتمعة وتناقش مسألة المحاكمة الغيابية، أنا لن أعلق على هذا الموضوع لأننا نحن بتنا نتصرف مع هذه المحكمة على أنها غير موجودة ولن نضيع وقتكم.
النقطة الأخيرة في الوضع المحلي أدخل منها باختصار على الوضع الإقليمي، هو توجيه نصيحة في الداخل اللبناني لكل القوى السياسية: تعالوا لنهتم ببلدنا ولنعالج أزماته وملفاته في الحكومة، في مجلس النواب، في طاولة الحوار، في أي مكان شئتم، تعالوا لنعطي أولوية واتركوا الرهان على الخارج وعلى التطورات الإقليمية، لأن البعض في لبنان راهن على التطورات الإقليمية. أنا في خطاب سابق تحدثت عن خمسة رهانات خلال خمس سنوات ولن أعيد. اليوم لا تعذبوا أنفسكم، أقول لكل الذين يؤجلون الملفات او الخيارات او المعالجات او يصنعون آمالاً وأوهاماً على شيء واحد هو سقوط نظام الرئيس بشّار الأسد في سوريا، وأنا أقول لهم: دعوا هذا الرهان جانباً، وأقول لهم أيضاً هذا الرهان سيفشل كما فشلت كل الرهانات السابقة فلا تضيعوا اوقاتكم. ارجعوا للتفكير لبنانيا ووطنيا، الغريب أن بعض الناس يرفعون شعار "لبنان أولاً"، إلا في الرهانات يأتي لبنان في الآخر. راهنوا على لبنان أولاً على اللبنانيين أولاً على قدرات لبنان أولاً وعلى عقول وإرادة وحوار اللبنانيين وتعاونهم، فقط هذه نصيحة في الشق المحلي .
في الشق الإقليمي، لا يوجد متسع من الوقت لأتحدث عن كل الوضع الإقليمي والوضع العربي، ولكن الأهم خلال الأيام القليلة الماضية، هو التطور المرتبط بايران وسوريا والتهديدات الإسرائيلية والأميركية والغربية واعادة فتح الملف النووي الإيراني.
شهدنا في الأيام القليلة الماضية تصاعداً في التهديدات والدفع فجأة بدون سابق انذار، طرح بقوة احتمال ان يقوم العدو الإسرائيلي بضرب المنشآت النووية الايرانية، وصارت الكرة تتدحرج اعلاميا وسياسيا وتصريحات ومواقف وتصاعد التهديد والإحتمالات. طبعا القيادة في الجمهورية الإسلامية في ايران ردّت بشكل حازم وقاطع، وكان السقف الأعلى والأوضح ما قاله بالأمس سماحة الإمام السيد الخامنئي دام ظله الشريف، وما قاله هو عين الواقع والحقيقة، إيران القوية بجيشها بحرسها بتعبئتها بشعبها بوحدتها بإيمانها بعزمها، لا يمكن ان تخاف لا من التهويل ولا من الأساطيل، وعندما جاءت الأساطيل الأميركية والجيوش الأميركية واحتلت كل المنطقة في محيط ايران، حيث تتواجد اليوم القوات الأميركية في باكستان وافغانستان والعراق وتركيا والخليج ودول الخليج ومياه الخليج، ولكن مع ذلك لم تضعف إيران ولم تتراجع عزيمتها ولم تخضع للشروط ولم تنجر إلى مفاوضات مباشرة مع الأميركيين، فلا التهويل ولا الأساطيل يمكن ان تمسّ بإرداة وعزيمة وقرار القيادة والشعب في ايران، وهذا أمر محسوم.
تعالوا نتحدث عن الحدث قليلاً، هل يمكن أن تذهب الأمور في هذا الاتجاه وكيف نفهم ما يحصل؟ إذا عدنا قليلاً إلى الخلفيات، وهنا نريد أن أتحدث عن ايران وسوريا سوياً، يجب ان لا يغيب عن بالنا أولاً انه منذ اليوم إلى آخر السنة، هناك انسحاب أميركي من العراق، وهزيمة كبيرة للمشروع الأميركي.
في عام 2000 خرج أناس وقالوا إن المقاومة في لبنان لم تنتصر وإنما إسرائيل انسحبت وهذا اتفاق تحت الطاولة (كلام بلا طعمة)، سيخرج الآن أيضاَ من يقول إن أميركا أخذت قراراً بأن تخرج؟! أمريكا التي جاءت وتحملت هذا الحجم الهائل من الخسائر البشرية والمالية والاقتصادية، هذا الانهيار القوي في اقتصادها وماليتها هل من المعقول أنها وبهذه البساطة خارجة من العراق! الجواب أكيد لا. أمريكا الخارجة من العراق، المهزومة في العراق، يجب أن تفعل شيئاً ما. أولاً، أي دولة عادة تقوم بانسحاب، هناك أناس ينسحبون تحت النار الحقيقية، لكن أميركا غير قادرة ان تنسحب تحت النار العسكرية، لذا تريد ان تعمل دخاناً وغباراً وضباباً وأن تنسحب تحت النار السياسية والإعلامية، وهذا اسمه تهويل على المنطقة وحرب في المنطقة واعتداء على ايران وسوريا حتى يصبح اهتمام العالم كله والمنطقة كلها وشعوبها مركزاً على هذا النوع من التوقعات والأحداث، ويصبح خبر الإنسحاب الأميركي والهزيمة الأميركية في العراق خبراً عادياً بل مغفولاً عنه ولا يبقى في صدارة الأحداث. وهنا مسؤولية القيادات السياسية والجهات الإعلامية كلها أن تسلط الضوء على هذا الإنسحاب وعلى هذه الهزيمة لأن لها آثار ونتائج استراتيجية وتاريخية على كل صعيد معنوي ونفسي وسياسي وعسكري على منطقتنا ومستقبل منطقتنا.
ثانياً، من الطبيعي ان تقوم الإدارة الأميركية في هذا التوقيت بمعاقبة الدول المؤثرة في إلحاق الهزيمة بها وبمشروعها في العراق، ولا أحد يختلف على أن الدولتين اللتين وقفتا في وجه الإحتلال الأميركي للعراق وعارضتا ودعمتا الشعب العراقي والمقاومة في العراق وصمود الشعب العراقي ولم تستسلما لشروط لا كولن باول ولا من جاء بعده، هما إيران وسوريا. في لحظة الهزيمة والأسى والفشل الأميركي، أمريكا تريد أن تقول لإيران وسوريا لا تفرحوا أنكم حققتم انجازاً أنتم ستبقون تحت الضغط والتهويل والسيف، والعصا سوف تبقى مشرّعة في وجوهكم، هذا أمر طبيعي من أميركا. تصوروا أن الولايات المتحدة الأميركية ستخرج من العراق وتعترف بهزيمتها، رغم أن الجمهوريين في أمريكا قالوا إنها هزيمة كبرى، ثم يسمح لإيران ولسوريا ولشعوب المنطقة ولكل الذين أيّدوا الشعب العراقي والمقاومة العراقية بالاحتفال بهذا النصر التاريخي.
الأمر الثالث الذي يجب الانتباه إليه، أن التحولات التي حصلت في منطقتنا، طبعاً، هناك خلاف بين النخب ومحللي الأحداث وقارئيها حول فهم وقراءة الأمور التي تحصل في منطقتنا، لكن بمعزل عن كل القراءات، هناك قدر متيقن، فلا شك بأن سقوط نظام زين العابدين بن علي هو خسارة للمشروع الأميركي وللحضور الأميركي الغربي في منطقتنا، سقوط نظام القذافي خسارة، سقوط نظام حسني مبارك هو الخسارة العظمى لأمريكا وإسرائيل؟ إذاً، هناك تحولات في المنطقة ليست لمصلحة أمريكا وإسرائيل، لكن لاحقاً هل تستطيع أن تعيد هذه الأنظمة لمصلحتها فهذا بحث آخر. لكن في مسار التحولات الكبرى في المنطقة، من الواضح ان محور المقاومة والممانعة والرفض لإسرائيل ولمشاريع الهيمنة كان يقوى ويكبر، وهذا سيتيح لإيران ولسوريا ان تحصلا على حلفاء جدد وأنصار جدد وأعضاء جدد في هذا المحور، وهذا يمكن ان يعني المزيد من النفوذ والحضور والفعالية.
وللتعويض عن خسارة أميركا في مصر وتونس وليبيا وخصوصا في مصر، يجب ان ينتقل بسوريا وبايران إلى موقع دفاعي، والإنشغال بذاتها ووضعها وأمنها واقتصادها.
الأمر الرابع والأخير هو، إن اميركا تريد اخضاع ايران وسوريا وجر إيران إلى التفاوض المباشر مع الولايات المتحدة الأميركية، أما الحديث عن مفاوضات جماعية فإيران لم ترفض هذا في يوم من الأيام مع ألأمم المتحدة، ولكن المفاوضات الثنائية المباشرة، إيران كانت ترفضها وما زالت ترفضها، المطلوب الإخضاع وجر إيران إلى طاولة المفاوضات، المطلوب إخضاع سوريا لتقبل ما لم تكن تقبله في الماضي، هذا هو الهدف الحقيقي، بناءً على هذه الخلفيات وإذا أضفنا إليها وقائع، وقائع لها علاقة حالياً بالوضع المالي والاقتصادي في أوروبا، فإيطاليا تلحق باليونان، والبرتغال يلحق بإيطاليا، والدول تلحق بعضها البعض.
رئيسة صندوق النقد الدولي أمس تحدثت بوضوح أن الاقتصاد العالمي في خطر، الوضع المالي والاقتصادي في أمريكا كارثي وصعب جداً، تصوروا عندما يقف أحد مرشحي الحزب الجمهوري للانتخابات الرئاسية الأميركية، من المفترض أن يفتش عن شعارات شعبية أو أن يبحث عن اللوبي اليهودي الصهيوني ليدعمه، وقف وقال إن برنامجه وقف المساعدات الأميركية الخارجية كلها بما فيها المساعدات لإسرائيل، هذا يؤشر على صعوبة الوضع المالي الاقتصادي في الولايات المتحدة الأميركية، هذا من جهة، ومن جهة ثانية إيران قوية وصلبة ومقتدرة وموحدة ولديها قائد لا مثيل له في هذا العالم، إيران سترد الصاع صاعين، فمَن يجرؤ ان يشنّ حربا على ايران؟ اليوم وزير الدفاع الأميركي "دعس فرامات ورجع خليفاني" وبداً يتحدث بشكل عاقل وأن هذا الوضع يؤدي إلى توتر في المنطقة وأن جنودنا وقواعدنا موجودة في منطقة الخليج ولا أدري إلى أين تجر المنطقة ؟ اذا عليهم ان يفهموا وهم يفهمون جيدا. عليهم ان يفهموا جيداً ان الحرب على ايران وأن الحرب على سوريا لن تبقيا في ايران ولا في سوريا وإنما ستتدحرج هذه الحرب على مستوى المنطقة بأكملها. وهذه حسابات حقيقية وواقعية، لا نحن نهدد ولا احد يهدد. لنضع التهديدات جانباً ولا يتخذ أحد مواقف مسبقة، لكن هذا هو الواقع، هذا هو واقع الحال، واليوم أكثر من أي زمن مضى، الدول العربية والإسلامية وحكوماتها وشعوبها معنية بان تتخذ موقفا. انظروا إلى الصلف والوقاحة، إسرائيل التي تملك رؤوساً نووية عسكرية تطالب العالم بالضغط على ايران وتهدد إيران بضرب منشآت نووية سلمية. فما هو سبب هذه الوقاحة وهذا الاستكبار هو أحياناً الاحساس بضعف الآخر بوهن الآخر بانقسام الآخر ، نحن نقول لهم : هذا الرهان على الضعف وعلى الوهن هذا رهان خاسر. زمن الوهن والضعف والتراجع أمام العدو الإسرائيلي أمام العدوان الأميركي، هذا
62m:23s
15896
پہلا طمانچہ | امام خامنہ ای | سید حسن...
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ...
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر ۔۔۔
دنیا کی خونخوار، انسانیت دشمن عَالَمی طاقتیں یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ وہ مظلوم مقاومتی محاذ کے قائدین کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اپنے شیطانی پروپیگنڈوں کے ذریعے ان شہداء کی شخصیت اور چہرے کو بھیانک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کریں گی لیکن دنیا کی عوام بالخصوص اسلامی دنیا کی عوام نے اِن شہداء کے ساتھ اپنی محبت اور عشق کا بھرپور اظہار کر کے اِن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا اور یہ بتا دیا کہ ہم اِن شیطانی طاقتوں کے آلہ کاروں یعنی داعش، القاعدہ جیسوں کو جو دین کے لبادے میں دین کے دشمن ہیں اور حقیقی اسلامی مزاحمتی محاذ کے مجاہدوں میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ اسلامِ حقیقی کے عظیم سپہ سالار شہید قاسم سلیمانیؒ، ابو مہدی المہندسؒ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے دیگر شہداء کے جنازوں میں پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کی شرکت سے اندرونی اور بیرونی تمام دشمن حیرت اور انگشت بدندان ہوگئے!
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ، سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم الحیدری حفظہمااللہ کے بیانات سے اپنے ایمان کو منور کرنے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #پہلا_طمانچہ #تشییع_جنازہ #حیرت_انگیز #نا_قابل_فراموش #ایران #عراق #جنگ_نرم #استکبار #شہادت #امریکہ #عوامی_حرکت
3m:1s
12166
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
pehla
tamacha,
imam
khamenei,
sayyid
hasan
nasrallah,
sayyid
hashim
al
haidari,
khoon,
kucha.
bazaar,
shola,
patthar,
aalami
taqatein,
propaganda,
shohada,
shakhsiyat
kushi,
bhayanak,
islami
dunya,
mohabbat,
ishq,
mazmoom
azaem,
daesh,
isis,
al
qaeda,
dushman,
deen,
haqiqi
islam,
farq,
shaheed
qasim
suleimani,
shaheed
abu
mahdi
al
mohandes,
hairat,
amrika,
israel,
england,
saudi,
امام حسینؑ نُورِ خدا | امام خمینی رضوان...
یرِیدُونَ لِیطْفِؤُا نُورَ الله بِأَفْواهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ...
یرِیدُونَ لِیطْفِؤُا نُورَ الله بِأَفْواهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کرِهَ الْکافِرُونَ. \"یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو\" (الصف: ۸)
یزید لعنت اللہ علیہ اور اس کے پیروکار کربلا کے میدان میں نواسہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیاسہ اور مظلومیت کے ساتھ بے دردی سے شہید کرکے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ خداوندمتعال کے نور کو بجھا دیں گے لیکن تاریخ نے یہ ثابت کردیا کہ یہ الہی نور نہ فقط بجھا بلکہ آج پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے اور عالم بشریت کی ہدایت کے راستے کو روشن کر رہا ہے.
اس موضوع پر امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے.
#ویڈیو #نور_خدا #مظلومیت #شہید #خارجی #قیام #تعارف
1m:14s
11981
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
arbaeen,
ashura,
taqat,
imam,
imam
khamenei,
rasoul,
hazrat
zahra,
imam
husayn,
ahlul
bayt,
mazhab,
iraq,
karbala,
safar,
shia,
sunni,
muqavemat,
majlis,
majalis,
imam
khomeini,
imam
hussain
noor
khoda,
امریکہ کی مخالفت کیوں؟ | ولی امرِ مسلمین...
امریکہ کی مخالفت کیوں؟ | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
اقتباس...
امریکہ کی مخالفت کیوں؟ | ولی امرِ مسلمین جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ
اقتباس از: ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کا ا سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب
بتاریخ: ۲ نومبر ۲۰۱۶
یہ جو امام (خمینیؒ) نے فرمایا تھا کہ :جتنا بھی غصہ ہے امریکہ پر نکال دو ۔ (بعض روشن خیال کہتے ہیں) کہ \\\\\\\\\\\\\\\"یہ باتیں تعصّب اور غرور کی بنیاد پر ہیں۔ جس کی یہ (انقلابی لوگ) تشہیر کر رہے ہیں یہ تعصّب ہے۔ یعنی اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں۔\\\\\\\\\\\\\\\"
کیا واقعی میں امریکی پالیسی، اسلامی ممالک کو ترقی دلانا ہے؟ امریکہ ہمارا خیرخواہ ہے اور ہم خواہ مخواہ اُسے اپنا دشمن مان رہے ہیں؟
#ویڈیو #ولی_امرمسلمین #امریکہ #مخالفت #اسلامی_ممالک #انقلاب #امام_خمینی
3m:3s
11970
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
america,
syed,
ali,
khamenei,
school,
college,
university,
talib,
ilm,
khitaab,
ghussa,
imam,
khomeini,
inqilaabi,
policy,
islami,
mamalik,
tarqi,
dushman,
انقلابِ اسلامی کا رُشد و نمو | امام...
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی بعثت کے بعد دینِ مبینِ اسلام جو ایک...
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی بعثت کے بعد دینِ مبینِ اسلام جو ایک انقلاب کی شکل میں اپنی الہی تعلیمات کے سبب اور کفر و شرک یعنی طاغوتی طاقتوں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنے کے سبب عرب دنیا میں اور پھر آہستہ آہستہ دنیا کے گوشہ و کنار میں پھیل گیا تھا، یہ الہی انقلاب کئی مراحل اور اونچ نیچ سے گزرا اور بعض صف اول کی شخصیات حب دنیا اور نفسانی بیماریوں کے سبب تو بعض بے بصیرتی اور کج فکری کے سبب بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامِ محمدیؐ کے الہی اہداف کے مقابل آ کھڑی ہوئیں۔ اِسی طرح عصرِ حاضر کی تاریک اور عَالَمی طاقتوں کے چنگل میں جکڑی دنیا میں اُسی محمدی اسلام سے اور الہی تعلیمات سے الہام و توانائی لیتے ہوئے ایک الہی اسلامی انقلاب ایران کی سرزمین پر برپا ہوا، اس اسلامی انقلاب کے سرسبز درخت سے جہاں کئی پتے گرے وہاں پر کئی گنا زیادہ نئی کونپلیں پھوٹیں اور یہ ثمرہ بخش درخت شہداء کے پاکیزہ خون کے سبب سرسبز و شاداب رہا۔
اِس موضوع پر ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اِس ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انقلاب_اسلامی #رشد_و_نمو #انقلابی_افراد #گھٹنے_کا_عمل #اوائل_اسلام #دنیا_پرست #اعجاز #خرازی #ہمت #باعث_افتخار #پاکیزہ_خون #پاسبان_حرم_اہلبیت #جذبہ_ایمانی
5m:29s
11743
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
inqelabe
islami,
rushd,
wali
amre
muslemeen,
sayyid
ali
khamenei,
rasue
khuda,
besat,
islam,
inqelab,
taalimat,
shirk,
kufr,
taghoot,
jahad,
ilahi
inqelab,
hubbe
dunya,
nafsani
bimari,
kaj
fikri,
islame
mohammadi,
ilahi
ahdaf,
tareek,
ilham,
iran,
samar,
pakeeza
khoon,
shohada,
shakhsiyaat,
iman,
jazba,
جہاد نکاح کا شکار ایک معصوم لڑکی Arabic sub...
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو جاری کیا ہے جس میں 15...
شام کے معروف ٹی وی چینل الاخباریہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو جاری کیا ہے جس میں 15 سالہ نوجوان شامی لڑکی نے اپنی آب بیتی سناتے ہوئے اہم انکشافات کیے ہیں۔ انٹرویو میں دہشت گردوں کی جنسی درندگی بننے والی نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اس کا نام روان میلادالدہ ہے اور 1997 میں پیدا ہوئی تھی۔جس کے باپ کا نام میلاد موسی الدہ ہے۔ہمارا گھرانہ 5 افراد پر مشتمل ہے۔میں ایک کسان کی بیٹی ہوں جو جنگ سے پہلے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ نوجوان لڑکی بتاتی ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جاتی تو گھر والے یقینا مجھے سزا دیتے تھے۔ جب ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے تو میرا باپ شامی باغیوں کو گھر میں لاتا تھا۔جن کے ساتھ 3،4 ہتھیار ہوتے تھے۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ یہاں کیوں آتے تھے۔میں 15 دن سے خوف زدہ تھی کہ میرا باپ، ماں، بہن اور بھائی میرے کمرے میں نہیں آئے اور نہ ہی کسی قسم کی بات چیت کی۔میرے پاس کسی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی نہ ٹی وی، نہ ریڈیو اور نہ ٹیلی فون وغیرہ۔میں باتھ روم میں اور جیسے ہی کمرے میں واپس آئی۔میں حیران رہ گئی کہ میرا باپ مجھے خوراک یا جو کچھ میں چاہتی مجھے مہیا کرتا تھا۔لیکن اس نے مجھے گھر سے باہر کچھ بھی کرنے سے منع کر دیا۔ حتی کہ مجھے سکول جانے کی اجازت بھی نہیں دی۔15دن کے بعد میرا باپ میرے پاس آکر کہنے لگاکہ جا کر نہا لو۔میں اپنے کی یہ بات سن کر حیران ہو گئی۔میں نے اپنے کپڑے لیے اور نہانے کے لئے چلی گئی۔جب میں نہا رہی تھی تو ایک شخص اندر آ گیا جس کی عمر50 سال کے قریب تھی۔جس نے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ وہ میرے قریب ہونے لگ گیا۔اس نے کسی قسم کا خیال نہ کیا جب کہ چھوٹے سے باتھ میں میں چلا رہی تھی۔اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور کمرے میں لے گیا۔جب کہ چیخنے چلانے کی آوازیں میرا باپ سن رہا تھا۔ لیکن اس نے مجھے اس آدمی سے چھڑانے کی کسی قسم کی کوشش نہ کی۔جو کچھ وہ میرے ساتھ کر سکتا تھا اس نے کیا اور اسی دوران دوسرا آدمی بھی آگیا۔اس نے بھی وہی کیا جو پہلے والا کر چکا تھا۔ جس کے بعد میں ہوش و حواس کھو بیٹھی اور تقریبا 45 منٹ کے بعد مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں نے اپنے باپ کو بلایا جب وہ کمرے میں آیا تو اس سے پوچھا کہ جب میں چیخ اور چلا رہی تھی تو آپ مجھے اس مصیبت سے نجات دلانے کیوں نہیں آئے۔اس نے بتایا کہ یہ سب سہی تھا اور یہ جہاد تھا۔ لہذا آپ اس کو ہر وقت کر سکتی ہو اور مجاہدین آپ کے ساتھ سو سکتے ہیں۔اس سے آپ کے گناہ مٹ جائیں گے اور آپ مرنے کے بعدشہید کہلاو گی اور سیدھا جنت میں جاو گی۔میں نے پوچھا کہ یہ کیسا جہاد ہے؟ جس کے میں مسلسل 23 دن بیمار رہی۔ میں اپنے باپ سے کہا کہ مجھے دوائی لا دو یا ڈاکٹر کو معائنہ کراو لیکن اس نے انکار کردیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ سے وہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔یہ عرصہ ایک ہفتے تک جاری رہا۔جب بھی میرا باپ ان آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دیتا تو میں ان سے بچنے کی کوشش کرتی لیکن وہ مجھے زیادتی کا نشانہ بنا دیتے۔ایک بار ایک آدمی جس کو میں جانتی تھی کمرے میں آیا میں نے اسے کچھ نہ کرنے کا کہا تو اس نے کہا کہ آپ کا باپ مجھے آپ کے ساتھ سونے سے منع نہیں کرے گا۔ جس کے بعد میرا باپ مجھے نہانے کے لئے کہا لیکن میں وہاں سے فرار ہونا چاہتی تھی۔ گھر کا دروازہ ایک ہونے کی وجہ سے فرار ہونا مشکل تھا۔ اگر وہاں سے فرار ہوتی تو فوجیوں کی نظر میں آجاتی۔ باغی فوجی مجھے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد کمرے سے باہر نکلے تو میں نے سنا کہ میرا باپ انہیں اس گاوں کو چھوڑنے کا کہ رہا تھا۔ جس کے بعد وہ دوسرے گاوں تصل میں چلے گئے۔اس کے بعد میری والدہ، بھائی اور بہن گھر واپس آئے تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ مجھے اکیلا کیوں یہاں چھوڑ گئے تھے۔لیکن اس نے مجھے بتایا کہ جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ہے اچھا ہوا ہے۔ جس کے بعد اس نے مجھے دھمکی دی کہ کسی کو بتانا نہیں ورنہ آپ کو مار دوں گی۔جب میری ماں باہر جاتی یا واپس آتی تو نہاتی تھی۔وہ اسے ْجہاد النکاح۔کہتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد میرے باپ نے ماں سے کہا کہ وہ مجھے روان لے آئے۔جس سے مجھے فورا خیال آیا کہ وہ مجھے دوسرے گاوں لے جانا چاہتے ہیں جہاں وہ جہاد النکاح کرنےجاتی ہے۔ میں اس کے باوجود ماں کے ساتھ جانے کے لئے آمادہ ہوگئی۔ ہم تصل گاوں جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوئےاور جب وہ فوجی چیک پوائنٹ پر رکی۔ تو میں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا جس کے باعث ایک فوج میرے پاس آیا اور گاڑی سے باہر نکالا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں چیخ رہی ہو تو میں نے اسے سارا واقعہ بتا دیا۔جو میرے ساتھ ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے کار میں بیٹھا کر ایک پرامن گھر میں منتقل کر دیا
6m:55s
11251
فلسطینیوں کی سیاسی حمایت سے ہرگز غافل...
فلسطینیوں کی سیاسی حمایت سے ہرگز غافل نہ ہوں
ولی ا مر مسلمین...
فلسطینیوں کی سیاسی حمایت سے ہرگز غافل نہ ہوں
ولی ا مر مسلمین سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کےفلسطین کے تیسرے انتفاضہ کی حمایت میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب سے اقتباس
21 فروری 2017
دورانیہ: 02:33
2m:33s
11246
Video Tags:
Wisdom,
Gateway,
Wisdom
Gateway,
Productions,
Leader,
Leader
of
Islam,
Leader
of
Muslims,
Ummah,
Palestine,
State,
Occupied,
Israel,
Sayyid,
Ali,
Khamenei,
حتمی پالیسی | ولی امرِ مسلمین سید علی...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری مذاکرات اور شیطانِ اکبر امریکہ کی عالَمی جوہری معاہدوں کی خلاف ورزی اور مذاکرات سے باہر نکل جانا اور اب دوبارہ مذاکرات میں واپس آنے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ نیا امریکی صدر بائیڈن جوہری مذاکرات کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا ایران کا جوہری معاہدات کو منسوخ کرنے کا اقدام درست ہوگا؟ جوہری مذاکرت کو جاری رکھنے کے لیے شرط و شروط رکھنے کا حق موجودہ صورتحال میں کس کو حاصل ہے؟ یورپی ممالک کس کے دُم چھلے بنے ہوئے ہیں؟ امریکہ کا جوہری معاہدے میں واپس آ جانا کب معنی رکھتا ہے؟ اسلامی جمہوریہ کی حتمی سیاست کیا ہے؟
اِن تمام سوالات کے جوابات کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #امریکہ #مذاکرات #یورینیم_افزودگی #بے_تکی_باتیں #ایٹمی_مذاکرات #منطقی #دلیل #منسوح #شرط #غصب_شدہ_حق #دم_چھلے #پابندیاں
2m:25s
11088
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
policy,
sayyid
ali
khamenei,
atomic
muzakera,
jauhari
muzakera,
amrika,
biden,
trump,
shart,
wapsi,
europe,
haq,
siyasat,
iran,
islami
jamhooriya,
ایک عارف دانشور | Farsi sub Urdu
ایک عارف دانشور
ولی ا مر مسلمین...
ایک عارف دانشور
ولی ا مر مسلمین سید علی خامنہ ای(حفظہ اللہ ) کی نگاہ میں شہید مصطفی چمرانؒ کی منفرد خصوصیات
19جون،2016
دورانیہ: 02:17
2m:17s
10954
Video Tags:
Wisdom,
Gateway,
Wisdom
Gateway,
Productions,
Scholar,
Sayyid,
Ali,
Khamenei,
Rahbar,
Leader,
Leader
of
Islam,
Leader
of
Muslim,Ummah,
Mustafa,
Chamran,Martyr,
Shaheed,
انتظار، اُمید کی طاقت | ولی امرِ مسلمین...
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین...
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
انتظار کا فلسفہ درحقیقت انسان کی ایک فطری خواہش سے مربوط ہے۔ ہر انسان فطری طور پر ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے جہاں پر ظلم و ستم، فقر و فاقہ، بے انصافی اور طبقاتی تفریق جیسے عیوب نہ پائے جاتے ہوں۔ خداوندِ متعال نے ایک ایسی دنیا کا وعدہ فرمایا ہے کہ جس میں مستضعفین کی حکومت ہو گی۔ مستضعفین وہ ہیں کہ جنہیں خداوندِ متعال نے ایک مثالی اور الہی دنیا کی تشکیل کے لیے بشریت کی طرف بھیجا تھا، ان کا انتخاب فرمایا تھا لیکن بشریت نے ان کا استقبال نہیں کیا بلکہ کچھ نے نادانی کی وجہ سے تو کچھ نے خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کے لیے اُن خدا کے منتخب نمائندوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ انتظار یعنی شعور اور آگاہی کے ساتھ ایک مثالی معاشرے کے لیے جدوجہد انتظار یعنی ولی خدا کی عدل و انصاف پر مبنی حکومت کے لیے زمینہ فراہم کرنا۔ انتظار یعنی ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے دل میں امید کی شمع روشن رکھنا۔ انتظار یعنی تحرک اور دنیا کی شیطانی طاقتوں سے اظہار بیزاری اور ان کے ساتھ مبارزہ کے لیے خود کو آمادہ کرنا۔
اِس بارے میں ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے بیانات سے مستفید ہونے کے لیے اِس ویڈیو کا مشاہدہ کیجئے۔
#ویڈیو #انتظار #امید_کی_طاقت #مہدویت #حقیقت #سمندر #طوفان #خوف #گشائش #عالمی_طاقتوں #ظاہری_شان_و_شوکت #حقیقی_راستہ #حرکت_کا_آغاز
3m:33s
10295
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
intezar,
ummeed,
taqat,
sayyid
ali
khamenei,
sajde,
muntazir,
falsafa,
fitrat,
insan,
zulm,
faqr,
be
insafi,
khuda,
wada,
mustazafeen,
hukumat,
muntakhab,
narawa
sulook,
bashariyat,
waliye
khuda,
adl,
insaaf,
zameena,
muashra,
shaytani
taqat,
bezari,
شہید حُججی آج کے جوانوں کے لئے مشعل راہ...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کا صوبے یزد اور ہمدان کےثقافتی مسئولین ا ور متحرک...
ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کا صوبے یزد اور ہمدان کےثقافتی مسئولین ا ور متحرک افراد سے خطاب سے اقتباسات
21اگست2017
دورانیہ: 02:16
2m:17s
9999
Drama Serial - Zamin Ensanha Episode 2 زمین انسان ها Farsi...
Artists:Ali Nasirian, Asal Badie, Soroush Sehat, Maede Tahmasebi and ... Year: 1390 Director: AbolHassan Davoodi Zaman Pakhsh: Saturday and Monday...
Artists:Ali Nasirian, Asal Badie, Soroush Sehat, Maede Tahmasebi and ... Year: 1390 Director: AbolHassan Davoodi Zaman Pakhsh: Saturday and Monday - شنبه و دوشنبه ها خلاصه: داستان اين سريال در يك بيمارستان ميگذرد. در اين بيمارستان چند پزشك در حال گذراندن دوره هستند تا تخصص خود را در رشته مغز و اعصاب بگيرند. بيماران زيادي به اين بيمارستان مراجعه ميكنند و با خود قصههاي متفاوتي را ميآورند و داستان زندگي و گرفتاريهاي اين بيماران در كنار زندگي پزشكان جوان بازگو ميشود. هركدام از اين شخصيتها پيشينه و زندگي گذشتهاي دارد كه در طول مجموعه به آن پرداخته ميشود.
50m:24s
9902
Sahifa Kamilah - Dua for Friday - Urdu
In the Name of Allah, the All-beneficent, the All-merciful.
الْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلاوَّلِ قَبْلَ...
In the Name of Allah, the All-beneficent, the All-merciful.
الْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلاوَّلِ قَبْلَ ٱلإِنْشَاءِ وَٱلإِحْيَاءِ
al¦amdu lill¡hi al-awwali qabla al-insh¡\\\'i wal-i¦y¡\\\'i
All praise be to Allah, the First before the bringing forth and the giving of life,
وَٱلآخِرِ بَعْدَ فَنَاءِ ٱلاشْيَاءِ
wal-¡khiri ba`da fan¡\\\'i al-ashy¡\\\'i
and the Last after the annihilation of all things,
ٱلْعَلِيمِ ٱلَّذِي لاَ يَنْسَىٰ مَنْ ذَكَرَهُ
al`al¢mi alladh¢ l¡ yans¡ man dhakarah£
the All-knowing Who forgets not him who remembers Him,
وَلاَ يَنْقُصُ مَنْ شَكَرَهُ
wa l¡ yanqu¥u man shakarah£
decreases not him who thanks Him,
وَلاَ يُخَيِّبُ مَنْ دَعَاهُ
wa l¡ yukhayyibu man da`¡hu
disappoints not him who supplicates Him,
وَلاَ يَقْطَعُ رَجَاءَ مَنْ رَجَاهُ
wa l¡ yaq§a`u raj¡\\\'a man raj¡hu
and cuts not off the hope of him who hopes in Him!
اَللَّهُمَّ إِنِّي اشْهِدُكَ
all¡humma inn¢ ush-hiduka
O Allah, I call You to witness
وَكَفَىٰ بِكَ شَهيداً
wa kaf¡ bika shah¢dan
and You are sufficient Witness
وَاشْهِدُ جَمِيعَ مَلائِكَتِكَ
wa ush-hidu jam¢`a mal¡\\\'ikatika
and I call to witness all Your angels,
وَسُكَّانَ سَموَاتِكَ
wa sukk¡na sam¡w¡tika
the inhabitants of Your heavens,
وَحَمَلَةَ عَرْشِكَ
wa ¦amalata `arshika
the bearers of Your Throne,
وَمَنْ بَعَثْتَ مِنْ انْبيَائِكَ وَرُسُلِكَ
wa man ba`athta min anbiy¡\\\'ika wa rusulika
Your prophets and Your messengers whom You have sent out,
وَ انْشَاْتَ مِنْ اصْنَافِ خَلْقِكَ
wa ansha\\\'ta min a¥n¡fi khalqika
and the various kinds of creatures You have brought forth,
انِّي اشْهَدُ انَّكَ انْتَ ٱللَّهُ
ann¢ ash-hadu annaka anta all¡hu
that I bear witness that You are Allah;
لاَ إِلٰهَ إِلاَّ انْتَ وَحْدَكَ
l¡ il¡ha ill¡ anta wa¦daka
there is no god but You, You alone,
لاَ شَرِيكَ لَكَ وَلاَ عَدِيلَ
l¡ shar¢ka laka wa l¡ `ad¢la
Who have no associate nor any equal,
وَلاَ خُلْفَ لِقَوْلِكَ وَلاَ تَبْدِيلَ
wa l¡ khulfa liqawlika wa l¡ tabd¢la
and Your word has no failing, nor any change;
وَ انَّ مُحَمَّداً صَلَّىٰ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ
wa anna mu¦ammadan ¥all¡ all¡hu `alayhi wa ¡lih¢ `abduka wa ras£luka
and that Mu¦ammad, Allah bless him and his Household, is Your servant and Your messenger;
ادَّىٰ مَا حَمَّلْتَهُ إِلَىٰ ٱلْعِبَادِ
add¡ m¡ ¦ammaltah£ il¡ al`ib¡di
he delivered to the servants that with which You charged him,
وَجَاهَدَ فِي ٱللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَقَّ ٱلْجِهَادِ
wa j¡hada f¢ all¡hi `azza wa jalla ¦aqqa aljih¡di
struggled for Allah as is His due,
وَ انَّهُ بَشَّرَ بِما هُوَ حَقُّ مِنَ ٱلثَّوابِ
wa annah£ bashshara bim¡ huwa ¦aqqun min alththaw¡bi
gave the good news of the truth of reward,
وَ انْذَرَ بِما هُوَ صِدْقٌ مِنَ ٱلعِقَابِ
wa andhara bim¡ huwa ¥idqun min al`iq¡bi
and warned of the veracity of punishment.
اَللَّهُمَّ ثَبِّتْنِي عَلَىٰ دِينِكَ مَا احْيَيْتَنِي
all¡humma thabbitn¢ `al¡ d¢nika m¡ a¦yaytan¢
O Allah, make me firm in Your religion as long as You keep me alive,
وَلاَ تُزِغْ قَلْبِي بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِي
wa l¡ tuzigh qalb¢ ba`da idh hadaytan¢
make not my heart swerve after You have guided me,
وَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً
wa hab l¢ min ladunka ra¦matan
and give me mercy from You,
إِنَّكَ انْتَ ٱلْوَهَّابُ
innaka anta alwahh¡bu
surely, You are the All-bestower.
صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ
¥alli `al¡ mu¦ammadin wa ¡li mu¦ammadin
Bless Mu¦ammad and the Household of Mu¦ammad,
وَٱجْعَلْنِي مِنْ اتْبَاعِهِ وَشِيعَتِهِ
waj`aln¢ min atb¡`ih¢ wa sh¢`atih¢
make me one of his followers and his partisans,
وَٱحْشُرْنِي فِي زُمْرَتِهِ
wa¦shurn¢ f¢ zumratih¢
muster me in his band,
وَوَفِّقْنِي لادَاءِ فَرْضِ ٱلْجُمُعَاتِ
wa waffiqn¢ li-ad¡\\\'i far¤i aljumu`¡ti
and give me the success of accomplishing the obligatory observance of Fridays,
وَمَا اوْجَبْتَ عَلَيَّ فِيهَا مِنَ ٱلطَّاعَاتِ
wa m¡ awjabta `alayya f¢h¡ min a§§¡`¡ti
performing the acts of obedience which You have made incumbent upon me within it,
وَقَسَمْتَ لاهْلِهَا مِنَ ٱلعَطَاءِ
wa qasamta li-ahlih¡ min al`a§¡\\\'i
and receiving the bestowal which You have apportioned for its people
فِي يَوْمِ ٱلْجزَاءِ
f¢ yawmi aljaz¡\\\'i
on the Day of Recompense!
إِنَّكَ انْتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
innaka anta al`az¢zu al¦ak¢mu
Surely, You are the Almighty, the All-wise!
2m:27s
9583
اسلام ہر چیز سے بالاتر ہے | امام سید علی...
اس میں شک نہیں ہے کہ دین اسلام، ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر چیز کو...
اس میں شک نہیں ہے کہ دین اسلام، ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر چیز کو اسلام پر قربان کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بر عکس کسی اور چیز کے لیے اسلام کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ امیر المؤمنینؑ اور امام حسینؑ سمیت باقی اماموں اور ان کے پیروکاروں کی شہادت اور قربانی بھی اسی تناظر میں واقع ہوئی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین اسلام ہر چیز پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے۔ اگر ایسا وقت آ جائے جہاں اسلام کی حفاظت کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہو تو اسلام کو بچانے کے لیے قربانی پیش کرنا واجب ہو جاتا ہے، ہر چند اس راہ میں انسان کو مصائب و آلام سے گزرنا ہی کیوں نہ پڑے۔ چنانچہ اس سلسلے میں امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس ویڈیو میں شہید حاج قاسم سلیمانیؒ اور ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی زبانی اسی بات کو تفصیل سے دیکھ سکتے ہیں۔
#ویڈیو #قاسم_سلیمانی #ولی_امر_مسلمین #زینب_کبری #امام_حسین #اسلام #عظمت #شہادت #قرآن #امیر_المومنین #امام_کاظم
2m:19s
9326
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
Islam,
Imam,
Imam
Khamenei,
Shahid,
Shahid
Qasem
soleimani,
Qasem
soleimani,
Imam
Ali,
Imam
Husayn,
Shahadat,
Hazrat
Zaynab,
Quran,
Imam
Kazem,
[1/2] خواتین پر اسلامی بیداری کے اثرات -...
Panel Discussion
خواتین پر اسلامی بیداری کے اثرات
Topic : Impact of Islamic Awakening on Women
Date : 30 September...
Panel Discussion
خواتین پر اسلامی بیداری کے اثرات
Topic : Impact of Islamic Awakening on Women
Date : 30 September 2012
Venue : Imam Bargah Ali Raza - Karachi
Host : Rahe Amal Foundation
مہمانان :
پروفیسر شائستہ زیدی محترمہ طاہرہ فاضلی پروفیسرامتیاز جاوید ( منہاج ا لقرآن)
محترمہ ماہجبین فاطمہ محترمہ زہرا نجفی محترمہ ارم زیدی محترمہ شازیہ فاطمہ محترمہ سارہ نوازش
50m:23s
9138
دشمنی کی آخری سانسیں | امام سید علی...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ فلسطینیوں کی، قابض صیہونیوں کے خلاف کی...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ فلسطینیوں کی، قابض صیہونیوں کے خلاف کی جانے والی جدوجہد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ فلسطین اور بیت المقدس پر قبضے کے دسیوں سال گزرنے کے باوجود کیا فلسطینیوں کی جدوجہد کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے؟ آج مقاومت کس مقام پر کھڑی ہے؟ کیا صیہونی اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ آج صیہونی کس چیز کی فکر میں ہیں؟ فلسطین کی حدود کیا ہیں؟ فلسطین کا دارالخلافہ کون سا شہر ہے؟ موجاردو زبان کا معروف محاورہ ہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، اس محاورے کے مطابق اللہ تعالیٰ ظالم کو کچھ دیر کے لیے مہلت دیتا ہے مگر آخر کار اس کو اپنی گرفت میں لے کر اسے اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے، اور موجودہ دور میں اس کی عملی مثال غاصب صیہونی ریاست میں دکھائی دیتی ہے، غاصب صیہونی جعلی ریاست جو نیل سے فرات تک کی حکومت کا خواب دیکھ رہی تھی، آج وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور خود ان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اور ان کے ہی سیاسی اور عسکری رہنما، اسرائیل کی نابودی کی پیش گوئی کر رہے ہیں اور اپنی پیش گوئی کے ذریعے در حقیقت رہبر انقلاب اسلامی کی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں جس میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ اسرائیل کو آئندہ 25 سال دیکھنا نصیب نہیں ہوں گے۔ چنانچہ محور مقاومت کے ہاتھوں مسلسل شکست کے بعد ان کے تابوت پر آخری کیل ٹھونکنے کا وقت آن پہنچا ہے اور مقاومتی بلاک کی ہیبت سے خوف زدہ ہو کر آج اسرائیل اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ وقت دور نہیں جس وقت اسرائیل کا منحوس وجود دنیا کے نقشے سے مٹ چکا ہو گا اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نامی کوئی ریاست نہیں ہوگی۔ اسرائیل کی نابودی سے متعلق مزید تفصیلات جاننے کے لیے ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کے بصیرت افروز بیانات کو بہترین تجزیہ کے ساتھ آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔
#ویڈیو #ولی_امر_المسلمین #اسرائیل #سیاسی_عدم_استحکام #سرنگونی #مقاومت #مشکلات #مظاہرے #خبردار #مقبوضہ #اوسلو #فلسطین #طاقت #قریب #دفاع #دشمن
2m:27s
8967
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video,
Israel,
Muqawamat,
mushkilaat
,دشمنی,
آخری
,
سانسیں,
muzahirey,
khabardaar,
maqboza,
oslo,
Palestine,
taaqat,
qareeb,
difaa,
dushman,
dushmani,
aakhri,
sansen,
نجات دہندے کی ضرورت کا شدید احساس | ولی...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عصرِ حاضر میں نجات دہندے کی منتظر...
ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ عصرِ حاضر میں نجات دہندے کی منتظر انسانیت کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟ نجات دہندے کی ضرورت کا احساس ماضی کی نسبت آج شدت سے کیوں کیا جا رہا ہے؟ عصر حاضر میں حیرت انگیز ترقی کے باوجود انسان کیوں آرام و سکون کا احساس نہیں کر رہا ہے؟ کیا انسانوں کے بنائے ہوئے خودساختہ نظام مثلاً مغربی جمہوریت، کمیونزم، لبرل ڈیموکریسی وغیرہ انسان کی سعادت کی ضمانت فراہم کرتے ہیں؟ عصرِ حاضر میں ترقی کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود دنیا کن مسائل کا شکار ہے؟ کیا دنیا کی بڑی طاقتیں علم کا درست استعمال کر رہی ہیں؟ کیا دنیا میں سائنسی انکشافات سے حاصل ہونے والی توانائیوں کا درست استعمال کیا جارہا ہے؟ آج انسان کس چیز کا احساس اور کس چیز کی ضرورت کا احساس کر رہا ہے؟
#ویڈیو #نجات_دہندہ #ضرورت #احساس #تاریخ_بشریت #انسانی_معاشرہ #شعوری #لاشعوری #الہی_قدرت #معصوم #امامت #مکاتب #مسالک #آرام #سکون #سعادت #بیماری #گناہ #فحشاء #بے_عدالتی #طبقاتی_فاصلے #علم #غلط_استفادہ #تھکن
3m:23s
7874
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
NajatDahande,
zarurat,
ehsaas,
WaliAmreMuslemeen,
SayyidAliKhamenei,
muntazir,
insaniyat,
hayratangez,
taraqqi,
sukoon,
aaraam,
khudsaakhta,
MaghribiJamhooriyat,
communism,
LiberalDemocracy,
saadat,
zamanat,
shikar,
taaqatein,
inkeshafaat,
istemaal,
فلسطینی قوم کا اعزاز | آیت اللہ سید علی...
آج جب ہم غاصب صیہونی ریاست اور فسلطینی مجاہدین کی طاقت کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں...
آج جب ہم غاصب صیہونی ریاست اور فسلطینی مجاہدین کی طاقت کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں جہاں ایک طرف فلسطینی مجاہدین کی طاقت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، وہیں دوسری جانب غاصب صیہونی ریاست زبوں حالی کا شکار نظر آرہی ہے۔ ایک جانب جہاں فلسطینی مجاہدین کے حوصلے بلند نظر آ رہے ہیں، وہیں اسرائیلی فوجیوں کے حوصلے پست دکھائی دے رہے ہیں۔ آج جہاں مقاومتی بلاک کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، وہیں گریٹر اسرائیل کے نام پر فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی کوشش کرنے والوں کا دائرہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ تمام باتیں فلسطینیوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی نوید دے رہی ہیں جو فلسطینیوں کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اس کے علاوہ اس ویڈیو میں اور مزید کون کون سے پیغامات پوشیدہ ہیں؟ آئیں دیکھتے ہیں ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای کی اس ویڈیو میں۔
#ویڈیو #ولی_امر_مسلمین #اعزاز #قرآن #فلسطینی_قوم #اثر #دفاع #مسجد_اقصی #عسکری_طاقت #ہتھیار #مقاومتی_محاذ #سرزمین #روشن_مستقبل #نوید
1m:46s
7276
Video Tags:
Wilayat,
Media,
WilayatMedia,
video
,
aizaz
,
quran
,
assar
,
difaa
,
hathyaar,
sarzamen
,
Naveed
فلسطینی,
قوم
,
اعزاز
,
آیت
اللہ
سید
علی
خامنہ
ای
History of Islam - Prophet in heavenly Books - تاریخ اسلام -...
تاریخ اسلام - آسمانی کتابوں میں پیغمبر اسلام کی بشارت - Urdu
For more Videos and Programs:...
تاریخ اسلام - آسمانی کتابوں میں پیغمبر اسلام کی بشارت - Urdu
For more Videos and Programs:
http://urdutv.irib.ir/index.php?option=com_ui&Itemid=5
43m:43s
6935
[2/2] خواتین پر اسلامی بیداری کے اثرات -...
Panel Discussion
خواتین پر اسلامی بیداری کے اثرات
Topic : Impact of Islamic Awakening on Women
Date : 30 September...
Panel Discussion
خواتین پر اسلامی بیداری کے اثرات
Topic : Impact of Islamic Awakening on Women
Date : 30 September 2012
Venue : Imam Bargah Ali Raza - Karachi
Host : Rahe Amal Foundation
مہمانان :
پروفیسر شائستہ زیدی محترمہ طاہرہ فاضلی پروفیسرامتیاز جاوید ( منہاج ا لقرآن)
محترمہ ماہجبین فاطمہ محترمہ زہرا نجفی محترمہ ارم زیدی محترمہ شازیہ فاطمہ محترمہ سارہ نوازش
50m:49s
6802